QR CodeQR Code

تجلی حکومت حق بر روئے زمیں

18 Feb 2014 10:25

اسلام ٹائمز: پاکستانیوں کی ایرانیوں سے محبت یکطرفہ نہیں۔ پاکستان اور پاکستانیوں سے ایرانی کتنی محبت رکھتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ تہران میں امام خمینی کا حرم مطہر ہو، قم ہو یا مشہد و زاہدان، جہاں بھی گئے ایرانیوں کو پاکستانیوں کے لئے دیدہ و دل فرش راہ دیکھا، ہر ایک نے ہماری احوال پرسی کی۔ آج جب دنیا میں انقلاب کی پینتیسویں سالگرہ منائی جارہی ہے تو دنیا بھر میں یہ منظر بھی دیکھا جارہا تھا کہ تہران میں بانی پاکستان کے نام سے موسوم ایک طویل شاہراہ خیابان محمد علی جناح پر لاکھوں ایرانی برج آزادی کی جانب رواں دواں تھے۔ علامہ اقبال کی برسی و سالگرہ ایران میں اسی طرح منائی جاتی ہے جیسے پاکستان میں۔ وہاں یوم کشمیرپر بھی تقریبات ہوتی ہیں۔ پاکستان میں کشمیر کو جنت نظیر خطہ کہتے ہیں لیکن اہل نظر اسی کشمیر کو ایران صغیر قرار دیتے ہیں۔


تحریر: عرفان علی
 
اس مقالے میں ایرانی معاشرے کی ایک تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں تین مرتبہ ایران جاچکا ہوں اور ہر مرتبہ اپنی معلومات میں اضافہ کرکے ہی لوٹا۔ وہاں کا مشاہدہ کیا، تب پتہ چلا کہ علامہ اقبال نے تہران کو عالم مشرق کا جنیوا بنانے کی خواہش کیوں ظاہر کی۔ اس مقالے کے عنوان کے الفاظ میرے نہیں بلکہ ایران کے صوبہ گلستان کے آئمہ جمعہ اہلسنت کا کہنا ہے کہ 22بہمن یعنی 11 فروری روئے زمیں پر معنوی اسلحے سے لیس حکومت حق کی تجلی کا دن ہے۔ صوبہ خراسان شمالی کے گورنر کے مشیر برائے امور اہلسنت آخوند گلدی کمالی کہتے ہیں کہ ایران کا اسلامی انقلاب بیداری اسلامی کی سب سے بڑی تحریک اور امت اسلامی کی وحدت و بقا کا ضامن ہے۔

ایران کے سنی مسلمانوں میں علمائے دین کے لئے زیادہ تر تین اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ کرد علاقوں میں ماموستا، بلوچ علاقوں میں مولوی اور آخوند اور یہی دونوں اصطلاحات ترکمن علاقوں کے علماء کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ ایران کی طاقت ور مجلس خبرگان میں سیستان و بلوچستان سے منتخب نمائندے مولوی نذیر احمد اسلامی نے انقلاب اسلامی کی سالگرہ کی ریلیوں میں عوام کی شرکت کو قومی و اسلامی فریضہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان ریلیوں میں عظیم الشان عوامی شرکت نے دشمنوں کی سازشوں پر ناکامی کی مہر ثبت کر دی۔

کردستان سے مجلس خبرگان کے منتخب نمائندے ماموستا عبدالرحمان خدائی ہوں یا بوشہر کے مولوی خلیل عرفہ ہوں، ایرانی قومی اسمبلی مجلس شورائے اسلامی میں سنی بلاک کے فعال رکن حامد قدر مرضی ہوں یا جرگلان کے امام جمعہ اہلسنت آخوند صمدی، سبھی اس انقلاب کو اپنا قرار دیتے ہیں۔ اگر میں نام لکھنے بیٹھوں تو ایران کے طول و عرض میں ایسی متعدد سنی شخصیات ہیں جو ایران کو ایک جدید معتدل، روادار اسلامی معاشرہ و سیاسی نظام اور اتحاد اسلامی کا علمبردار قرار دیتی ہیں۔ ایران کی پارلیمنٹ میں 20 تا 25 ارکان سنی ہوتے ہیں اور ان میں زیادہ تر سیستان و بلوچستان، کردستان، گلستان اور خراسان صوبے سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ سب حقائق بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو یہ بتایا جائے کہ شیعوں کا یہ انقلاب سارے مسلمانوں کا ہے اور دنیا کے سارے مستضعفین کا بھی ہے۔ خواتین کا بھی اس طرح ہے جیسے مردوں کا۔ ایران میں خواتین اراکین اسمبلی بھی کوٹے کی خیرات کے بجائے براہ راست الیکشن میں منتخب ہوتی ہیں اور ان کی ایک معقول تعداد براہ راست الیکشن لڑ کر زیادہ ووٹ حاصل کرکے منتخب ہوتی ہیں۔ ریڈیو تہران کے صدر دفتر جاتے ہوئے راستے میں ایک کئی منزلہ عمارت دیکھی، جس پر ان شہداء کی تصاویر پینٹ کی گئیں ہیں ہے جو غیر مسلم اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ حال ہی میں ایک ویب سائٹ پر ایرانی صدر حسن روحانی کی تصویر دیکھی، جس میں وہ ایک سنی شہید کے گھر ان کے خانوادے کی دلجوئی کر رہے تھے۔

امور اہلسنت پر رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے بھی کئی علاقوں میں مشیر مقرر کر رکھے ہیں۔ میں نے خود زاہدان میں جس مسجد میں نماز ادا کی وہاں سنی نمازیوں کو دیکھا، حتٰی کہ قم جیسے شیعہ اکثریتی علاقے میں بی بی فاطمہ معصومہ (س) کے حرم مطہر پر ایک افغانی سنی سے ملاقات ہوئی۔ معروف پاکستانی سیاح الطاف شیخ صاحب نے ایرانی سفرنامے میں لکھا کہ وسطی ایشیائی عالم دین کو تہران میں دیکھا جو زاہدان کے دورے پر جا رہے تھے۔ الطاف شیخ ہوں یا میں، ہم نہ تو وہ پہلے شخص ہیں اور نہ ہی آخری کہ جنہوں نے ایران کے موضوع پر طبع آزمائی کی بلکہ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے ہی امام خمینی کی شخصیت کے بارے میں یہاں لوگ جانتے تھے۔ 

ایک برطانوی اخبار کے لئے الطاف گوہر صاحب نے امام خمینی کی حمایت میں لکھا، حالانکہ اس وقت شاہ ایران مطلق العنان حکمران تھا۔ پاکستانی سفارتکار و ادیب مختار مسعود صاحب اس انقلاب کی کامیابی کے چشم دید گواہ تھے۔ جلاوطنی کے خاتمے پر امام خمینی کی ایران کی واپسی کے مناظر کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ مہر آباد کے ہوائی اڈے سے بہشت زہرا کے قبرستان تک سارا راستہ دیدار کے لئے آنے والوں سے پٹا پڑا ہے۔ یہ فاصلہ تینتیس کلومیٹر ہے۔ لوگ پروانہ وار کھنچے کھنچے آئے ہیں۔ دیوانہ وار منتظر کھڑے ہیں۔ اس موقع پر ٹیلی ویژن پر پہلوی خاندان کا شاہی ترانہ بج رہا ہے۔ بے عقلی کوئی شہر نہیں کہ اس کی فصیل ہو، حماقت کوئی ملک نہیں کہ اس کی سرحد ہو۔ یہ ایک خلا ہوتا ہے جس میں ہر شے بے وزن اور معلق ہوتی ہے۔ تہران کا ٹی وی اس وقت ایسے ہی ایک خلا میں تیر رہا ہے۔

اپنی کتاب ’’لوح ایام‘‘ میں امام خمینی کی تقریر کے بارے میں لکھا کہ ’’جذبات، شعریت اور خیال بندی سے خالی تھی۔ جوش، ہیجان، آگ اور دھوئیں سے عاری تھی۔ نہ کوئی فخریہ بات جو ایسے موقع پر بے اختیار منہ سے نکل جاتی ہے۔ نہ فتح مندی کا نشہ جو کامیابی کے بعد بن بتائے چڑھ جاتا ہے۔ ساری تقریر استدلالی اور منطقی تھی۔ اس تقریر پر ایک جہاں دیدہ سفیر کا تبصرہ صرف اتنا تھا: ڈرو اس شخص سے جو اپنے نفس پر اتنا اختیار رکھتا ہو۔‘‘ مختار مسعود صاحب کے الفاظ میں اتنے سارے لوگ خود بخود استقبال کے لئے جمع ہوگئے کہ تبصرہ نگار تاریخ کی کتابیں کھنگال رہے ہیں۔’’ اچھا یہ ہے وہ مرد درویش جس نے ایک بادشاہ سے ٹکر لی اور اس کا تختہ الٹ دیا، اور بادشاہ بھی کیسے کروفر والا بادشاہ۔ شاہوں کا شاہ۔ تیل سے مالا مال ملک کا فرماں روا۔ فرمانبردار فوج کا سردار، سپر پاور کا منظور نظر، مطلق العنان اور جابر۔ دوسری طرف ایک شخص تن تنہا اور خالی ہاتھ۔ قلندر صفت، جز دو حرف لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا۔‘‘

1983ء میں ارشاد احمد حقانی صاحب نے ایران کا دورہ کیا۔ کالم لکھے اور اگلے سال ’’انقلاب ایران، ایک مطالعہ‘‘ کتاب تحریر کی۔ ملاحظہ فرمائیے کہ آج سے تیس سال قبل لکھے ہوئے یہ الفاظ آج کے نوجوانوں کو ایران کے بارے میں کتنی اہم خبر سے آگاہ کر رہے ہیں۔ لکھا کہ انقلاب ایران سے دونوں عالمی طاقتیں ناراض ہیں۔ (تب سوویت یونین کا سقوط نہیں ہوا تھا)۔ امریکہ اور مغربی بلاک کی انقلاب دشمنی تو ظاہر و باہر اور دن کے سورج کی طرح عیاں ہے۔ اس میں قطعاً کوئی مبالغہ نہیں کہ مغربی اقوام امریکہ کی قیادت میں انقلابی ایران کا چراغ بجھانے کی فکر میں ہیں اور اولیں موقع ملتے ہی وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے کوئی بڑے سے بڑا اقدام اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ روس (یعنی سوویت یونین) بھی انقلابی حکومت سے ناخوش ہے۔ ایران کی افغان پالیسی پاکستان سے بھی زیادہ غیر مصالحانہ اور بے لچک ہے۔ یہ حقانی صاحب جیسی شخصیت کے تاثرات تھے جو خود اس انقلاب پر تنقید سے باز نہیں آتے تھے۔

افضل حیدر، ڈاکٹر مرزا عسکری حسین، ثاقب اکبر سمیت کئی دیگر افراد نے ایران کا سفر کیا اور لکھا۔ ڈاکٹر مرزا عسکری اور ڈاکٹر زاہد علی زاہدی سمیت کئی ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے انقلاب یا ولایت فقیہ پر پی ایچ ڈی کی۔ اس وقت ہمارے ایک دوست آغا علی محمد پاکستان میں شہید مرتضٰی مطہری پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے کمیونسٹ دانشور سبط حسن صاحب نے بھی انقلاب پر لکھا، لیکن اسے کسی اور نظر سے دیکھا حالانکہ عالمی سامراج کی غیر مشروط، بے لاگ اور بے لچک مخالفت اس انقلاب کی ناقابل فراموش خصوصیت تھی۔ غالباً سوویت یونین کی سامراجیت کو جائز سمجھنا وہ واحد سبب تھا جس کی وجہ سے سبط صاحب کا زاویہ نظر مختلف رہا، ورنہ حقانی صاحب نے اپنے سفرنامے کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’عام تاثر یہ ہے کہ ایرانی حکومت کا جھکاؤ کمزور طبقات کی امداد و اعانت کی طرف ہے۔ ایک پاکستانی نے جو گذشتہ دس سال سے ایران میں مقیم ہے، نے راقم کو بتایا کہ دنیاوی لحاظ سے بڑے آدمیوں کو اب موجودہ حکومت میں کوئی اثر و رسوخ حاصل نہیں اور آپ تعلقات کے حوالے سے کوئی کام نہیں کرواسکتے۔‘‘

پاکستانیوں کی ایرانیوں سے محبت یکطرفہ نہیں۔ پاکستان اور پاکستانیوں سے ایرانی کتنی محبت رکھتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ تہران میں امام خمینی کا حرم مطہر ہو، قم ہو یا مشہد و زاہدان، جہاں بھی گئے ایرانیوں کو پاکستانیوں کے لئے دیدہ و دل فرش راہ دیکھا، ہر ایک نے ہماری احوال پرسی کی۔ آج جب دنیا میں انقلاب کی پینتیسویں سالگرہ منائی جارہی ہے تو دنیا بھر میں یہ منظر بھی دیکھا جارہا تھا کہ تہران میں بانی پاکستان کے نام سے موسوم ایک طویل شاہراہ خیابان محمد علی جناح پر لاکھوں ایرانی برج آزادی کی جانب رواں دواں تھے۔ علامہ اقبال کی برسی و سالگرہ ایران میں اسی طرح منائی جاتی ہے جیسے پاکستان میں۔ وہاں یوم کشمیرپر بھی تقریبات ہوتی ہیں۔ پاکستان میں کشمیر کو جنت نظیر خطہ کہتے ہیں لیکن اہل نظر اسی کشمیر کو ایران صغیر قرار دیتے ہیں۔ خدا اس روئے زمین پر ہماری جنت ایران اسلامی کو سدا سلامت، شاد و آباد رکھے۔


خبر کا کوڈ: 352825

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/352825/تجلی-حکومت-حق-روئے-زمیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org