QR CodeQR Code

علامہ اقبال کون، نہضتی یا تنظیمی؟

7 May 2014 22:20

اسلام ٹائمز: علامہ اقبال نے صرف سیاسی تنظیم ہی کی بات نہیں کی بلکہ انہوں نے تجویز دی کہ ’’علماء کی بھی ایک جمعیت قائم کی جائے، جس میں وکلاء بھی شامل ہونے چاہئیں، جنہوں نے جدید علم قانون کی تعلیم حاصل کی ہو۔ اس کا مقصد جدید حالات کی روشنی میں اسلام کے قانون کی حفاظت، وسعت اور بشرط ضرورت از سر نو تشریح ہو، اس طرح کہ اس کے بنیادی اصولوں کی روح قائم رہے۔ اس جمعیت کو دستوری سند حاصل ہو تاکہ کوئی مسودہ قانون جو مسلمانوں کے شخصی قانون پر اثر انداز ہوتا ہے، اس جمعیت کی منظوری کے بغیر قانون نہ بن سکے۔ جس قسم کی جمعیت کے قیام کی تجویز میں نے پیش کی ہے، اس کے بارے میں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کم از کم اس ملک میں اسلام کے عام اصولوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوگی‘‘ (حوالہ: خطبہ لاہور 21 مارچ 1932ء، آل انڈیا مسلم کانفرنس کا سالانہ اجلاس، کتاب خطبات اقبال)۔


تحریر: عرفان علی 

شکرخدا، اس موضوع کا پہلا مقالہ آپ دوستوں کو پسند آیا۔ اصرار پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ جو پچھلے مقالے میں شروع کی گئی تھی ابھی وہ بحث ختم نہیں ہوئی۔ ایران، شہید بہشتی و دیگر اکابرین کی سیرت عملی پر کم سے کم ایک اور تحریر کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ پاکستان، لبنان، بحرین، عراق اور یمن میں شیعہ بزرگان کی تنظیمی تاریخ بیان کرنا ابھی باقی ہے۔ لیکن ذائقے کی تبدیلی کے لئے جعو اسٹوڈیو کے پسندیدہ ’’تحریکی‘‘ اور’’نہضتی‘‘ و ’’فکری‘‘ قائد علامہ اقبال پر بات کرلیتے ہیں، کیونکہ بعض لوگ اقبال کے نام کی تسبیح بھی ایسے ہی پڑھ رہے ہیں جیسے وہ صبح شام ’’امام‘‘ اور’’امت‘‘ کی مالا جپنے لگے ہیں لیکن ’’تنظیم، پارٹی، جمہوریت، قوم، جمعیت وغیرہ کا نام لینے سے ایسے شرماتے ہیں جیسے مشرقی بیوی اپنے شوہروں کے نام لینے سے دور بھاگتی ہیں۔ پھر یہ جملے سننے کو ملتے ہیں۔ منے کے ابا، اے جی سنتے ہو!

جس اقبال کا شعر خاک مدینہ و نجف بہت فخر کے ساتھ بیان کیا گیا، اسی اقبال کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے اسی نظم کا پہلا شعر پڑھیں، شاید سمجھ جائیں کہ اقبال کن کو اپنی آنکھوں کے سرمے کے بارے میں بتلا رہے ہیں:
میر سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف
 آہ، وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف

1907ء میں علامہ اقبال قانون اور فلسفہ کی تعلیم کے لئے لندن میں تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب اقبال نے مغربی تہذیب پر کڑی تنقید کی تھی۔ اس ٹائمنگ کو ذہن میں رکھیں کہ مغربی تہذیب کے بارے میں وہ فرما رہے تھے کہ 
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی 
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

یعنی ایک ایسے وقت جب وہ پوری طرح متوجہ ہوکر مغربی تہذیب پر تنقید کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور شعر میں لکھا ’’نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘ اس کے بعد مصرعہ لکھا 
صاحب ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے 
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش


میں نے زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ جس طرح ارشاد حقانی کے جواب میں علامہ اقبال کے اشعار کا سہارا لے کر ایک مقالہ لکھا تھا، آج ’’اپنوں‘‘ کو بھی جواب دینا پڑے گا۔ قصہ مختصر علامہ اقبال غافل نہیں بلکہ پوری طرح متوجہ تھے اور انہی ایام میں انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی برٹش برانچ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ 1907ء اور 1908ء کی بات ہے، جب انہیں آل انڈیا مسلم لیگ کی برطانوی شاخ کی ایگزیکیٹیو کاؤنسل کا رکن منتخب کیا گیا۔ بعد ازاں ہندوستان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے لندن میں گول میز کانفرنس میں انہوں نے مسلمانان ہند کی نمائندگی کی۔ نہضت (تحریک) کے نام سے اتنی محبت کرنے والوں نے یہ نکتہ فراموش کر دیا کہ علامہ اقبال نے تحریک خلافت میں شمولیت اختیار نہیں کی اور نہ ہی اس کے طریقہ کار کی حمایت کی۔ اگر لفظ تحریک ہی سارے مسائل کا حل ہوتی تو اس تحریک کی وہ حمایت کرتے اور ایک ایسی سیاسی تنظیم جس کا نام بھی انگریزی میں تھا، علامہ اقبال اس کی رکنیت اختیار نہ کرتے، لیکن علامہ اقبال مسلم لیگ کے عہدیدار بنے، اسی کے پلیٹ فارم سے مسلمانان ہند کی سیاسی آزادی کی جدوجہد چلائی۔ علامہ اقبال کو تو سیاسی تنظیم، جماعت یا پارٹی میں کہیں مغربیت اور سامری کا بچھڑا نظر نہیں آیا۔ لیگ خود انگریزی نام ہے، کیا اس سے اقبال کو مغربی تہذیب کی بو نہیں آئی۔ حالانکہ خود اقبال نے لکھا:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں 
ہوئے کس درجہ بے توفیق فقیہان حرم


صرف یہی نہیں کہ انہوں نے سیاسی تنظیم کے ذریعے جدوجہد کی بلکہ جس جمہوریت نام کے سامری کے بچھڑے پر تنقید کی جا رہی ہے، اس جمہوریت کے بارے میں بانی پاکستان کو خط میں لکھا کہ ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر شریعت اسلام کا نفاذ ممکن نہیں۔ اب دل تھام کر سنئے کہ علامہ اقبال کا نظریہ یہ تھا کہ سوشل ڈیموکریسی کو ایک ایسی مناسب شکل میں قبول کرلینا کہ جو اسلام کے قانونی اصولوں سے مطابقت رکھتی ہو، یہ کوئی انقلاب نہیں ہوگا بلکہ یہ تو اصل اسلام کی طرف بازگشت ہوگی۔ آزاد مسلم ریاست اور اسلامی اصولوں سے مطابقت رکھنے والی جمہوریت، اس سے علامہ اقبال کو تو کوئی پرابلم نہیں تھی اور اس کے حصول کے لئے وہ حزب، تنظیم یا پارٹی کے ذریعے ہی جدوجہد کے قائل تھے۔ (لیٹرز ٹو جناح، 20 مئی1937ءکو لکھا گیا خط)۔

جی الانہ صاحب نے تحریک پاکستان، تاریخی دستاویزات میں بھی اقبال کے بانی پاکستان محمد علی جناح کو لکھے گئے خطوط کو شامل کیا ہے، وہ پڑھیں اور دیکھ لیں، علامہ اقبال لاہور سے بیٹھ کر بھی خطوط کے ذریعے مسلم لیگ کے قائد کو تجاویز دیتے تھے کہ فلاں شخصیت ہماری حمایت کرسکتی ہے، آپ اس سے ملاقات کرلیں، ان کی بات سن لیں۔ فلسطین پر ناجائز صہیونی ریاست قائم نہیں ہوئی تھی، تب مسلم لیگ نے فلسطین کے مسئلے پر برطانوی سامراج کو خبردار کر دیا تھا۔ یہ مسلمانان ہند کی وہ تحریک آزادی کا تذکرہ ہے جو آل انڈیا مسلم لیگ نامی ایک تنظیم کے پلیٹ فارم سے چلائی گئی اور اس کا ایک منظم تنظیمی ڈھانچہ موجود تھا۔ تحریک تنظیم، جماعت، حزب کے بغیر چلتی ہی نہیں۔ جیسا کہ ایران کی تاریخ گذشتہ مقالے میں بیان کی گئی۔ امام خامنہ ای حفظہ اللہ تعالٰی نے ترجمہ و تالیف کی ایک کتاب اور اس کا فارسی نام رکھا مسلمانان درنہضت آزادی ہند، اس میں مسلم لیگی قائدین خاص طور پر بانی پاکستان اور علامہ اقبال کا تذکرہ ہے۔

علامہ اقبال نے صرف سیاسی تنظیم ہی کی بات نہیں کی بلکہ انہوں نے تجویز دی کہ ’’علماء کی بھی ایک جمعیت قائم کی جائے، جس میں وکلاء بھی شامل ہونے چاہئیں، جنہوں نے جدید علم قانون کی تعلیم حاصل کی ہو۔ اس کا مقصد جدید حالات کی روشنی میں اسلام کے قانون کی حفاظت، وسعت اور بشرط ضرورت از سر نو تشریح ہو، اس طرح کہ اس کے بنیادی اصولوں کی روح قائم رہے۔ اس جمعیت کو دستوری سند حاصل ہو تاکہ کوئی مسودہ قانون جو مسلمانوں کے شخصی قانون پر اثر انداز ہوتا ہے، اس جمعیت کی منظوری کے بغیر قانون نہ بن سکے۔ جس قسم کی جمعیت کے قیام کی تجویز میں نے پیش کی ہے، اس کے بارے میں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کم از کم اس ملک میں اسلام کے عام اصولوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوگی‘‘ (حوالہ: خطبہ لاہور 21 مارچ 1932ء، آل انڈیا مسلم کانفرنس کا سالانہ اجلاس، کتاب خطبات اقبال)۔

علامہ اقبال قوم، قومیت، ملت، سیاست سب الفاظ و اصطلاحات کے بارے میں غیر مبہم نظریہ رکھتے تھے۔ جس علامہ اقبال نے قومیت کے خلاف یہ لکھا تھا:
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے 
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے 
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
 اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اسی سے
 قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اسی سے

اسی اقبال نے یہ بھی کہا کہ ’’حقیقتاً ہندوستان کے صرف مسلمان باشندوں ہی کو جدید اصطلاح میں صحیح طور پر ایک قوم کہا جاسکتا ہے۔‘‘ (خطبہ الہٰ آباد ستمبر 1930ء)۔ بھائی جان، یہ’’امت‘‘ بھی ایک لفظ ہے، جسے اقبال نے اس اہم ترین خطبے میں بھی بیان نہیں کیا۔ یہ بھی اقبال کے الفاظ ہیں ’’حقیقت میں یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ دنیا بھر میں شاید ہندستان ہی ایک ایسا ملک ہے، جہاں اسلام ایک بہترین مردم ساز قوت کی حیثیت سے جلوہ گر ہوا ہے۔‘‘ یہ بھی علامہ اقبال ہیں: ’’مجھے اس جماعت سے محبت ہے جو میری حیات اور میرے اوضاع و اطوار کا سرچشمہ ہے اور جس نے مجھے اپنا مذہب، اپنا ادب، اپنی فکر اور اپنی ثقافت دے کر میری تشکیل اس صورت میں کی ہے کہ میں ہوں اور اس طور پر میرے ماضی کو ازسر نو زندہ کرکے وہ میرے شعور کا ایک زندہ و فعال عنصر بن چکی ہے۔‘‘ (خطبہ الہ آباد، 29 ستمبر 1930ء آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے صدارتی خطاب)۔

علامہ اقبال پنجاب کے تھے۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو ضرب کلیم میں انہوں نے پنجابی مسلمان کے بارے میں لکھا ہے:
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبعیت 
کرلے کہیں منزل تو گذرتا ہے بہت جلد
 تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
 ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
 تاویل کا پھندہ کوئی صیاد لگا دے 
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

بہرحال یہ علامہ اقبال کی ایک رائے ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ صرف پنجابی مسلمانوں کی نہیں بلکہ اس طبقے کی صفات ہیں جو اسلامی سیاست سے ناواقف ہیں۔ انہی میں سے ایک حسین علی منتظری صاحب تھے۔ ان سے امام خمینی (رہ) نے کہا تھا کہ سادہ لوح ہو، حکومت اسلامی کے معاملات میں مداخلت مت کرو۔ اس کے باوجود وہ منتظری کی ’’حوزوی‘‘ خدمات کے معترف تھے۔ اس لئے یہ تو ثابت ہوا کہ علمی طور پر ولایت فقیہ پر ضخیم کتاب لکھنے والا منتظری بھی عملی طور پر اس راہ کا راہی نہیں تھا، اور یہی حال آج ہم پاکستان کے ایک ’’حوزوی‘‘ طبقے کا دیکھ رہے ہیں۔ موضوع علامہ اقبال ہے، اسی پر بات ہو تو بہتر۔ قوت اور دین پر وہ کہتے ہیں 
لادیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر 
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاق


تو سیاست کے بارے میں بھی یہی نظریہ کیوں نہیں رکھا جاسکتا۔ بانیان پاکستان نے حزب، پارٹی، تنظیم کے ذریعے جو سیاست کی، اسی کے نتیجے میں یہ مملکت معرض وجود میں آئی۔ ورنہ جس نوعیت کی سطحی بحث کی گئی اور نماز، جمعہ کے امام کی بات کی گئی، اس کے بارے میں بھی اقبال کے بہت سارے اشعار موجود ہیں، ایک تو وہی کہ
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام

پھر ان باجماعت نمازیوں کے بارے میں جہاں مسائل نظر میں الجھ جانے والے خطیب کی امامت ہو، اس کے بارے میں اقبال کہتے ہیں
میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہوگا 
مسائل نظر میں الجھ گیا ہے خطیب

باتیں بہت ہیں لیکن میں اختصار کا قائل ہوں۔ جعو اسٹوڈیو ٹائپ کے ڈرامے کے اسکرپٹ سے علامہ اقبال کی بیزاری کا اظہار مذکورہ بالا اشعار سے بھی ہوتا ہے۔ نہیں سمجھے تو واضح الفاظ میں:
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
 نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت نہ نگاہ
(بال جبریل، کلام اقبال)


خبر کا کوڈ: 380235

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/380235/علامہ-اقبال-کون-نہضتی-یا-تنظیمی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org