QR CodeQR Code

شیعہ تنظیموں کا پیام تا بقیۃ اللہ قیام

9 May 2014 10:00

اسلام ٹائمز: پاکستان میں شیعہ علماء کونسل تحریک جعفریہ کا تسلسل ہے۔ اس کی نسبت مجلس وحدت مسلمین ایک نئی شیعہ تنظیم ہے۔ طلباء کی تنظیمیں آئی ایس او اور اصغریہ ہیں۔ ان کے دستور میں نے پڑھے ہیں۔ یہ سب نظام امامت و ولایت کے قائل اور متعہد افراد ہیں۔ کوئی ثابت کر دے کہ یہ تنظیمیں غرب زدہ ہیں۔ دنیا بھر کی جن شیعہ تنظیموں کی میں نے بات کی یہ التقاط کی قائل نہیں۔ امت اسلام ناب ایک ہی نصب العین پر یقین رکھتی ہے۔ مداح اہلیت حاج محمود کریمی کے الفاظ میں عشق یعنی یہ کلام، تا بقیہ اللہ قیام، عشق یعنی یہ پیام، پا بہ پای فرزند امام۔ ہمارا نعرہ مرگ بر ضد ولایت فقیہ۔


تحریر: عرفان علی

یہ ایک ’’ٹو دی پوائنٹ‘‘ بحث اور نتیجہ خیز مقالہ ہے۔ ہم نے گذشتہ دو مقالوں میں کچھ معروضات پیش کیں۔ درخواست ہے ان برادران سے جو اتفاق نہیں کرتے کہ وہ ان دلائل کے مقابلے میں دلائل پیش کریں۔ امام خامنہ ای کا نظریہ برادر روحانی میثم ہمدانی بیان کرچکے، اس لئے اب اس کی روشنی میں اپنی اصلاح کرلیں۔ بہتر ہوگا کہ اب علامہ اقبال کی تنظیمی حیثیت واضح ہونے کے بعد انکے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں۔ انقلاب اسلامی کے تنظیمی بزرگان کے بارے میں بھی آپ اپنی اصلاح کرلیں اور امام خمینی کو ایسا سپر مین نہ بنائیں کہ جو صرف فلموں میں ہی پایا جاتا ہے۔ ان الفاظ پر معذرت کیونکہ امام کو تنظیمی بزرگان پر اعتماد تھا، لیکن مدعی سست گواہ چست والا موقف ہمیں ان الفاظ پر مجبور کرتا ہے۔ مودبانہ عرض کہ امام امت کے ان فرزندان حقیقی کی سیرت کا مطالعہ فرمائیں، جو دنیا بھر میں تنظیمی ڈھانچوں کے ذریعے اسلامی تحریکیں چلایا کرتے تھے اور اب بھی ایسا کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک سید بزرگوار اور امام خمینی کے الفاظ میں سید اعلام علامہ عارف حسین الحسینی تھے۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نامی ایک پارٹی کے سربراہ تھے، اسی عہدے پر شہید ہوئے۔ تنظیم کی اہمیت پر ان کی گفتگو کی آڈیو، وڈیو اور تحریری متن موجود ہے۔ انکی شہادت پر امام امت کا پیغام بھی پڑھیں، امام نے ان کو امام حسین علیہ السلام کا فرزند حقیقی لکھا۔

لبنان میں امام امت کے فرزندان حقیقی امام موسٰی صدر، راغب حرب، عباس موسوی جیسی قابل فخر ہستیوں کی تنظیمی وابستگی کے بارے میں آگاہی حاصل کریں۔ لبنانی حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کی کتاب حزب اللہ، دی ان سائیڈ اسٹوری میں بھی ان بزرگان کا تنظیمی پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ پڑھیں، میرے بھائی پڑھیں۔ امور زندگی میں نظم پیدا کریں۔ جماعت سے وابستہ رہیں، ان دو اقوال زریں کے بارے میں معلوم کریں کہ کیا امیر المومومنین امام المتقین نے یہ جملے نہیں کہے؟ آیت اللہ حسین فضل اللہ نے تنظیم الاخوان قائم کی۔ آیت اللہ شیخ مہدی شمس الدین بھی امام موسٰی الصدر کی پارٹی کے تنظیمی عالم دین تھے۔ بحرین کے شیعہ علمائے دین کو دیکھیں، معلوم کریں کہ جمعیت الوفاق الوطنی الاسلامیہ بحرین کے الیکشن میں سنگل لارجیسٹ پارٹی کی حیثیت سے جیت چکی۔ عراق میں دیکھیں، سید عمار الحکیم، ابراہیم جعفری، نوری المالکی کی اپنی جماعتیں ہیں، الیکشن میں حصہ لیتی ہیں۔ سید مقتدیٰ صدر کے حامیوں کی جماعت بھی عراقی پارلیمنٹ میں موجود ہے۔

تحریکیں یا نہضت تنظیمی قائدین کے ذریعے ہی چلائی جاتی ہیں۔ کفاح المسلمین فی تحریر الہند پڑھیں۔ اس کتاب کو فارسی میں امام خامنہ ای نے تالیف و ترجمہ کیا ہے۔ اس کا نام ہے "مسلمانان در نہضت آزادی ہند۔" اس میں بھی مسلمانان ہند کے تنظیمی قائدین کی سیاسی جدوجہد کا تذکرہ ہے۔ حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کی کتاب کے پہلے باب کا عنوان جادہ و منزل ہے، اسکا مطالعہ ضرور کریں، اس میں پاکستان سمیت ہر اس ملک کے شیعہ کے لئے حکمت عملی موجود ہے کہ جہاں شیعہ اصولوں کے مطابق نظام حکومت نہیں ہے۔ اس میں اسلامی ریاست کا قیام کے عنوان کے تحت ایک حکمت عملی بیان کی گئی ہے، اسے ضرور پڑھیں اور سمجھیں۔ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں: ’’ایک تخیل کی صورت میں ہم اسلامی ریاست کے قیام کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں اور دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنی ساری تمناؤں کو اسی میں مضمر سمجھیں، جبکہ عملی اظہار کے طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ اس کام کے لئے ایک موزوں بنیاد کی ضرورت ہے، جس پر ریاست کی مضبوط عمارت تعمیر ہوسکے۔ ایسی بنیاد کا مظہر وہ عوام الناس ہیں جنہیں ایسے حکمران ادارے کے انتخاب کی آزادی دی گئی ہے۔ قرآن کے الفاظ میں دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘

اپنے اس پیغام کے بارے میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ ایسی اسلامی ریاست کی تشکیل کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو عوام کی آزاد مرضی و منشا پر استوار ہو۔ اس لئے ہم اپنے ایمان و عقیدے کو اپنے گردوپیش کے حالات سے مکمل طور پر ہم آہنگ پاتے ہیں۔ جب تک یہ حالات ہمارے منصوبے کی تائید نہیں کرتے (خواہ اختلاف کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں یا کسی اور وجہ سے) ہم اپنے آپ کو قابل معافی سمجھتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہے کہ ہم نے اپنا پیغام دے دیا ہے اور اپنے موقف کا اعلان کر دیا ہے، پھر یہ بات لوگوں پر چھوڑ دی ہے کہ وہ جس نظام کو چاہیں، اختیار کریں اور اپنے اس انتخاب کی ذمہ داری بھی قبول کریں۔‘‘ 
سورہ یونس کی آیت نمبر 10: اگر تیرے رب کی یہ مشیت ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے، پھر تو کیا لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ لبنان میں ہمارے سیاسی تجربے نے ایک ایسے لائحہ عمل کے درست ہونے کا ثبوت دے دیا ہے، جو ایک مخلوط معاشرے کے اندر اسلامی بصیرت سے ہم آہنگ ہے۔‘‘

’’لیکن عملی کامیابیوں کے لئے کچھ بنیادیں اور کچھ معروضی طریق کار کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ بات ہمارے فرائض میں شامل ہے کہ ہم خدا کے دین کے لئے کوئی دانشمندانہ طریق کار اختیار کریں۔‘‘ ’’اسلام کو اختیار کرنے کا تقاضا ہے کہ اس بارے میں بصیرت حاصل کی جائے اور اس کے سیاق و سباق کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت جتنے اسلامی مکاتب فکر ہیں، وہ شریعت سے متعلق اپنے اپنے بانیوں کی تشریحات کی روشنی میں ایک رائے قائم کرتے ہیں۔ اس طرح ہماری پارٹی نے پیغمبر (ص) کی اولاد کی تشریح کی پیروی کا فیصلہ کیا ہے۔ اہل تشیع کا عمومی راستہ یہی ہے۔ وہ تعلیمات جنہیں ہماری پارٹی نے حرز جان بنایا ہوا ہے، انہی بنیادی اصولوں کا مجموعہ ہے اور یہ حزب اللہ کے لئے اسلام کی تفہیم کا ایک پس منظر ہے۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ نے دیگر اسلامی عقائد میں سے کسی ایک کا انتخاب کیوں نہیں کیا اور ان سب میں سے کوئی مشترکہ راہ کیوں نہیں تلاش کی، جو کہ تمام مسلمانوں کو متحد کرنے کے چیلنج کا جواب ہوتی۔ اس سلسلے میں ہمارا جواب یہ ہوگا کہ مختلف مکاتب فکر کو متحد کرسکنا ہماری عزیز ترین خواہش ہے۔ کاش ہم اسے پورا کرسکیں، لیکن یہ ایک بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے، جسے سلجھانے کے لئے فقہائے کرام نے صدیوں کام کیا مگر کامیاب نہیں ہوسکے۔‘‘

اس کتاب کے دوسرے باب میں حزب اللہ یا امت اللہ کے عنوان سے لکھا گیا کہ ’’امام خمینی نے اپنے منشور میں جن مقاصد کی توثیق کی تھی، ان پر عملدرآمد کے مسئلے پر غور و فکر شروع کر دیا گیا۔ پارٹی کی لیڈرشپ کی سطح پر متعدد امور پر صلاح و مشورہ ہوا، خاص طور پر مثالی تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل، ڈائریکٹوریل فریم ورک اور قوم کے اجزاء کو یکجا کرکے اسے ایک وحدت بنانے کے لئے قابل عمل تجاویز زیر بحث آئیں۔ ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بھی ضرورت تھی کہ کیا پارٹی کا نام حزب اللہ رکھا جائے یا امت اللہ۔‘‘ ’’دوسری طرف قوم کے تصور کا انحصار ایک ایسے پلیٹ فارم پر ہوتا ہے، جو سب کو تسلیم کرتا ہو، خواہ ان کی وفاداریاں کچھ بھی ہوں اور وہ کوئی بھی کام کرتے ہوں، لیکن پروگرام پر عمل درآمد میں رکاوٹ نہ بنتے ہوں، اس کی بنیاد ایسی قیادت کی موجودگی پر استوار ہوتی ہے جو مساجد، علماء اور دیگر تنظیموں کو ہدایت جاری کرتی ہو۔ یہ ہدایات عمومی نوعیت کی ہوں، اور خاص خاص مواقع پر جاری ہوتی ہوں، جن پر قوم کان دھرتی ہو اور عمل کرتی ہو۔ تاہم لبنان جیسے متنوع معاشرے کے لئے ایسی ہدایات کوئی معنی نہیں رکھتیں، کیونکہ یہ ایک مختلف النوع عناصر پر مشتمل معاشرہ ہے۔ کافی سوچ بچار کے بعد بالآخر پارٹی کے لئے ایک تنظیمی فارمولا وضع کرلیا گیا۔‘‘ اسی کتاب سے مزید: ’’جس طرح ہر پارٹی یا تنظیم چند نظریات رکھتی ہے اور لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتی ہیں، حزب اللہ بھی یہی کر رہی ہے۔‘‘ ’’پارٹی کے دیگر بہت سے ارکان فرقے (شیعت) سے تعلق نہیں رکھتے، لہٰذا پارٹی کا مشترکہ میدان نظریاتی ہے نہ کہ مذہبی عقیدے سے وابستگی۔‘‘

’’بیسویں صدی کی اسلامی تحریکیں‘‘، اس عنوان کے تحت شہید بزرگوار استاد مرتضٰی مطہری نے ایک بہت ہی کارآمد بات کی ہے، اگر ہم اس کو سمجھ پائیں۔ لکھتے ہیں کہ ’’ارسطو نے فلسفہ کے بارے میں یہ جملے کہے ہیں کہ اگر تم فلسفی بننا چاہتے ہو تو اپنے آپ کو فلسفیانہ رنگ میں رنگو، اور اگر تم فلسفی نہیں بننا چاہتے تو بھی اپنے آپ کو فلسفی رنگ میں رنگو۔ اس کی وضاحت میں اس طرح کروں گا کہ ارسطو نے کہا کہ اگر فلسفہ صحیح ہے تو اس کی تائید کرو اور اگر غلط ہے تو اس کا انکار کرو۔‘‘ شہید عالی قدر مطہری مزید فرماتے ہیں کہ ’’وہ لوگ جو کچھ علوم کو اس طرح حاصل کرلیتے ہیں کہ انکے علوم کا فلسفیانہ غور و فکر سے کوئی باہمی رشتہ نہیں ہوتا اور فلسفہ کی نفی کرنے لگتے ہیں، تو وہ بڑی سخت غلطی میں مبتلا ہیں۔ قطعاً صحیح نہیں ہے کہ ایک آدمی جو فلسفہ اور فقہ کی ایک کتاب کے متعلق کچھ نہیں جانتا، وہ صرف کتاب کو دیکھ کر ہی اس کی تردید کر دے۔‘‘ ماضی کے بزرگ علماء کا حوالہ دے کر لکھا کہ یہ علماء عصر حاضر کے مزاج کے مطابق ہونے چاہئیں اور انہیں اس دور کے تمام احساسات سے بخوبی واقف ہونا چاہیے۔‘‘ اس کے علاوہ لکھا کہ کچھ نوجوانوں نے جو ولولہ انگیز جذبہ ایمانی رکھتے تھے، نے رائے طلب کی کہ وہ یونیورسٹی تعلیم کو فوراً ختم کرکے اسلاف کی تعلیمات سیکھنا چاہتے ہیں، لیکن شہید مطہری نے ان سے اتفاق نہیں کیا۔

پاکستان میں شیعہ علماء کونسل تحریک جعفریہ کا تسلسل ہے۔ اس کی نسبت مجلس وحدت مسلمین ایک نئی شیعہ تنظیم ہے۔ طلباء کی تنظیمیں آئی ایس او اور اصغریہ ہیں۔ ان کے دستور میں نے پڑھے ہیں۔ یہ سب نظام امامت و ولایت کے قائل اور متعہد افراد ہیں۔ کوئی ثابت کر دے کہ یہ تنظیمیں غرب زدہ ہیں۔ دنیا بھر کی جن شیعہ تنظیموں کی میں نے بات کی یہ التقاط کی قائل نہیں۔ امت اسلام ناب ایک ہی نصب العین پر یقین رکھتی ہے۔ مداح اہلبیت حاج محمود کریمی کے الفاظ میں عشق یعنی یہ کلام، تا بقیہ اللہ قیام، عشق یعنی یہ پیام، پا بہ پای فرزند امام۔ ہمارا نعرہ مرگ بر ضد ولایت فقیہ۔
(دوستوں سے معذرت کہ اب اس موضوع پر اسلام ٹائمز کے ان پیجز پر بات نہیں ہوگی۔ دوست چاہتے ہیں کہ پاکستان کی شیعہ تنظیمی سیاست پر لکھوں تو اسلام ٹائمز کی انتظامیہ کو راضی کرلیں۔ اگر اب بھی ہمارے بعض برادران کو شیعہ تنظیمی سیاست پر اعتراض ہے تو وہ مجھے براہ راست ایمیل کر دیں، انشاءاللہ اس فورم پر بات ہوگی)


خبر کا کوڈ: 380689

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/380689/شیعہ-تنظیموں-کا-پیام-بقیۃ-اللہ-قیام

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org