QR CodeQR Code

انقلاب مارچ اور پاکستان کے شیعہ مسلمان

16 Aug 2014 20:30

مصنف : علی عرفان

اسلام ٹائمز: میں ذاتی طور پر آئین کی حدود و قیود میں مسائل کے حل کا حامی ہوں، چونکہ طاہر القادری نے اب مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل سے بھی اتحاد کرلیا ہے اور ماضی کی نسبت اس مرتبہ وہ مشاورت سے فیصلے کر رہے ہیں، لہٰذا ہم بھی اور وہ خود بھی اس کے مثبت اثرات دیکھ رہے ہیں۔ اس حد تک میں اس انقلاب مارچ کو مثبت قدم قرار دوں گا کہ اس نے تکفیری و ناصبی مکتب کو پاکستان کے منظر نامے سے باہر نکال دیا ہے۔ اسے تکفیریوں کی تنہائی قرار دیا جاسکتا ہے۔ میں اس مارچ کو انقلاب مارچ نہیں سمجھتا کیونکہ اس کے نتیجے میں انقلاب آنے کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آرہا۔ حکومت کی تبدیلی پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ اسی لئے حکومت مخالف تحریک کو فی الوقت ایک نئی سیاسی طاقت کا ظہور قرار دیا جاسکتا ہے۔


تحریر: عرفان علی 

یہ پہلا جشن آزادی تھا جب حکومت کے مخالفین انقلاب و آزادی مارچ کے عنوانات کے تحت ملکی دارالحکومت اسلام آباد میں حکومت کے خاتمے کا عزم لے کر لاہور سے نکلے تھے۔ غیر یقینی کی کیفیت میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک و تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری اور قادری صاحب کے اتحادی بالخصوص مجلس وحدت مسلمین اور سنی اتحاد کونسل نے اپنے اپنے حامیوں کو مذکورہ مارچ میں شرکت کی ہدایت کی۔ نواز لیگی حکومت کی جانب سے صوبہ پنجاب میں پاکستان عوامی تحریک، تحریک انصاف اور مجلس وحدت مسلمین پر کریک ڈاؤن اور ماڈل ٹاؤن اور اسلام آباد کی ناکہ بندی نے ثابت کیا تھا کہ حکمران پاکستان تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک و تحریک منہاج القرآن، ان کے اتحادی بالخصوص مجلس وحدت مسلمین اور سنی اتحاد کونسل کو آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی اجازت نہیں دینا چاہتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ عمران خان کے مارچ کو اجازت دی گئی لیکن طاہر القادری کو آخری وقت تک اجازت دینے میں ٹال مٹول کا سلسلہ جاری رہا۔ بہرحال، حکومت نے اچھا کیا جو انقلاب مارچ کے خلاف مزید کوئی بڑی کارروائی سے گریز کیا۔ گوجرانوالہ کے ناخوشگوار واقعے سے نمٹ کر انقلاب و آزادی مارچ اسلام آباد پہنچ کر دھرنوں میں تبدیل ہوچکا ہے۔

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف استعفٰی دیتے ہیں یا نہیں، اگلے چند روز میں قوم خود دیکھ لے گی، لیکن حزب اختلاف کی ان جماعتوں نے حکومت مخالف تحریک کے پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ یعنی خان صاحب و قادری صاحب کے مابین اختلافات ختم ہوگئے ہیں اور وہ دونوں ایک ہی دن مارچ کرنے پر متفق ہوئے۔ نواز لیگی حکومت پہلے مرحلے میں ناکام رہی کیونکہ حکومت انتظامیہ کو استعمال کرکے افہام و تفہیم سے مسئلہ حل نہیں کرنا چاہتی تھی، لیکن انتظامی حل کی ناکامی کے بعد سیاسی طور پر فیصلہ کرکے مارچ کو برداشت کرنے پر آمادہ ہوئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی زرداری حکومت نے قادری صاحب کو مذاکرات کے ذریعے اسلام آباد کا دھرنا ختم کرنے پر قائل کیا تھا اور انتظامی طور پر مسئلہ حل کرنے سے گریز کیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور قادر صاحب کی وطن واپسی کے وقت انہیں اسلام آباد میں اترنے نہ دینا اور لاہور ایئرپورٹ پر گورنر پنجاب کے ذریعے مذاکرات کرنا پنجاب حکومت کے خوف اور کمزوری کی علامت تھی۔ جنرل ضیاء بھی بے نظیر بھٹو سے خوفزدہ تھے اور زیادہ تر انہیں جیل میں قید یا نظر بند رکھنے کے قائل تھے۔

میاں نواز شریف حکومت کی غلط حکمت عملی نے ڈاکٹر طاہر القادری کو مضبوط اتحادی فراہم کر دیئے ہیں۔ قاف لیگ کے بارے میں تو وہ بیان بازی کرسکتے ہیں لیکن مجلس وحدت مسلمین اور سنی اتحاد کونسل کی حمایت نے قادری کی عوامی حمایت کو اس قدر وسعت بخشی ہے کہ یوم شہداء کے اجتماعات لاہور تک محدود نہیں تھے بلکہ کراچی میں مزار قائد اعظم کے سامنے بھی قرآن خوانی ہوئی، اس سے ایک روز قبل دھرنا بھی دیا گیا۔ علامہ ناصر عباس جعفری کی مجلس وحدت نے شیعہ نسل کشی کے خلاف ملک گیر احتجاجی دھرنے کے ذریعے بلوچستان کے وزیراعلٰی نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کا دھڑن تختہ کرکے دکھایا۔ سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت کے اتحاد کی وجہ سے کالعدم دہشت گرد گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت میں ملک بھر میں اجتماعات کئے گئے۔ ماضی میں حکومت مخالف تحریکوں کے لئے پی پی پی، ایم کیو ایم، صوبائی سطح کی لسانی قوم پرست جماعتیں یا نیم مذہبی نیم سیاسی جماعتیں سڑکوں پر نکلتی تھیں۔ اب یہ پہلا موقع ہے کہ قومی ایشوز کی سیاست کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری، علامہ ناصر عباس جعفری و صاحبزادہ حامد رضا جیسے سنی و شیعہ قائدین پاکستان کی سیاست میں اسٹریٹ پاور کو کامیابی سے استعمال کر رہے ہیں۔ یعنی اب اسٹریٹ پاور پاکستانی سیاست کے نئے کھلاڑیوں کے ہاتھ میں آچکی ہے۔ یہ بجائے خود ایک تبدیلی کی علامت ہے کہ سیاست کے روایتی کھلاڑیوں کے میدان سے باہر ہوتے ہوئے بھی ایک حکومت مخالف تحریک کامیابی سے چل رہی ہے۔

انقلاب مارچ کے مطالبات نظام بدلنے پر مبنی ہیں اور عمران خان انتخابی دھاندلی اور کرپشن پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ آج طاہر القادری صاحب کے خطاب اور عمران خان کی صحافیوں سے گفتگو نے قوم کو یہ پیغام دیا کہ دونوں ہی نواز لیگی حکومت کے خاتمے اور نئی نگران (قومی) حکومت کے قیام پر متفق ہیں۔ دھرنا آج بروز ہفتہ شروع ہوا ہے لیکن کیا شرکاء مطالبات کی منظوری تک بیٹھے رہیں گے؟ انقلاب و آزادی مارچ سے پہلے اسلام آباد ہی نہیں پورا صوبہ پنجاب عملی طور پر مفلوج ہوچکا تھا، کنٹینرز کھڑے کرکے راستے بند کئے جا رہے تھے، چھاپے اور گرفتاریاں جاری تھیں۔ اب اسلام آباد اور راولپنڈی متاثر رہے گا۔

دھرنا مخالف لیگیوں اور ان کے ہم خیال افراد کی یہ دلیل درست نہیں کہ قادری صاحب کی ایک سیٹ بھی نہیں کیونکہ سندھ کے ناراض لسانی قوم پرستوں کے ساتھ بھی نواز لیگ اتحاد کرتی رہی ہے۔ پھر پی پی پی حکومت میں وہ خود سڑکوں پر فیصلہ کرنے کے بیانات دے چکے ہیں۔ انہوں نے بھی لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ شروع کیا تھا۔ ماضی میں وہ تو ٹرین مارچ بھی کرچکے ہیں۔ بعض جگہوں پر تو نواز لیگ کے بعض رہنماؤں کا کالعدم دہشت گرد گروہوں بشمول کالعدم سپاہ صحابہ و کالعدم لشکر جھنگوی سے بھی اتحاد رہا ہے۔ لہٰذا قادری صاحب کے انقلاب مارچ کے بارے میں غیر منطقی موقف اپنانا اور محاذ آرائی کی طرف جانا ان کی حکومت کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ مضحکہ خیز موقف تھا کہ عمران خان کو تو کھانا فراہم کرنے پر آمادہ دکھائی دیئے لیکن طاہر القادری کے دھرنے کے شرکاء کو مہمان تصور کرنے سے انکار کر دیا۔

لاہور اور اسلام آباد کے صحافیوں میں گردش کرنے والی اس خبر کو خبر نہ بھی سمجھا جائے، مفروضہ یا دعویٰ یا خواہش ہی سمجھ لیا جائے تب بھی اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت جانے والی ہے۔ یہ مفروضہ اگست، ستمبر کی تاریخوں سے لے کر دسمبر 2014ء تک حکومت کے خاتمے کی اطلاع دے رہے ہیں۔ آج عدالت کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف، ان کے بھائی اور صوبہ پنجاب کے وزیراعلٰی شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر عدالتی کمیشن کی سر بمہر رپورٹ بھی ایک نیوز چینل نے لیک کر دی ہے۔ اس میں بھی ماڈل ٹاؤن میں طاہر القادری کے 14 حامیوں کے پولیس کے ہاتھوں قتل کو اندوہناک سانحہ قرار دیا ہے۔ یہ دونوں خبریں 16 اگست کو قوم کے سامنے آئی ہیں۔ اس کی ٹائمنگ انقلاب مارچ کی ایک اور کامیابی ہے۔

میں ذاتی طور پر آئین کی حدود و قیود میں مسائل کے حل کا حامی ہوں، چونکہ طاہر القادری نے اب مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل سے بھی اتحاد کرلیا ہے اور ماضی کی نسبت اس مرتبہ وہ مشاورت سے فیصلے کر رہے ہیں، لہٰذا ہم بھی اور وہ خود بھی اس کے مثبت اثرات دیکھ رہے ہیں۔ اس حد تک میں اس انقلاب مارچ کو مثبت قدم قرار دوں گا کہ اس نے تکفیری و ناصبی مکتب کو پاکستان کے منظر نامے سے باہر نکال دیا ہے۔ اسے تکفیریوں کی تنہائی قرار دیا جاسکتا ہے۔ میں اس مارچ کو انقلاب مارچ نہیں سمجھتا کیونکہ اس کے نتیجے میں انقلاب آنے کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آرہا۔ حکومت کی تبدیلی پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ اسی لئے حکومت مخالف تحریک کو فی الوقت ایک نئی سیاسی طاقت کا ظہور قرار دیا جاسکتا ہے۔

اس مارچ کا سب سے اہم پیغام جو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے، وہ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کے شیعہ مسلمان پاکستان کے قومی دھارے کی سیاست میں ایک مرتبہ پھر فعال و متحرک ہوئے ہیں۔ اس کا کریڈٹ مجلس وحدت مسلمین کو جاتا ہے۔ شیعہ نسل کشی کے خلاف کامیاب ملک گیر دھرنوں کے نتیجے میں بلوچستان کی حکومت کی قبل از وقت رخصتی کا کریڈٹ بھی اسی جماعت کو جاتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب علامہ ساجد نقوی کی تحریک جعفریہ 1990ء کے عشرے میں پہلی نواز لیگی وفاقی حکومت کے خلاف بے نظیر بھٹو کے پیپلز ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی اے) کی رکن جماعت تھی۔ تب وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف نومبر 1992ء میں لانگ مارچ ہوا تھا۔ نواز لیگی حکومت نے ملک گیر کریک ڈاؤن کرکے لانگ مارچ کو ناکام بنا دیا تھا، لیکن تحریک جعفریہ کے شیعہ متوالے تب بھی اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ان ایام میں حیدرآباد کے قریب کوٹری میں میری ملاقات ہمارے دوست مولانا الطاف حسینی (شہید) سے ہوئی تھی جو خود گرفتاری سے بچنے کے لئے دوسری جگہ منتقل ہوگئے تھے۔

قومی دھارے میں شیعہ مسلمانوں کی شرکت ہمیشہ باعث خیر و برکت ثابت ہوئی ہے۔ جب پی ڈی اے میں تحریک جعفریہ فعال تھی انہی دنوں سانحہ بابری مسجد کے خلاف اسی سیاسی اتحاد کے پلیٹ فارم سے ملک گیر احتجاجی مہم میں تحریک پی پی پی سے زیادہ فعال تھی۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ طے پایا کہ تحریکی کارکن پی پی پی دفتر پر جمع ہوں، وہاں سے ریلی کا آغاز کیا جائے، مارشل لاء دور میں کوڑے کھانے والے پی پی پی کے سینیئر کارکن چاچا اسحاق کو شیعیت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا، انہوں نے جب تحریکی رہنماؤں اور کارکنوں کو دیکھا تو دور سے ہی نعرہ لگایا آگئے علی ؑ والے آگئے، نعرہ علی ؑ ، جئے علی ؑ ۔یہ شیعوں کے سیاسی کردار کی برکت تھی۔

متحدہ مجلس عمل میں علامہ ساجد نقوی کی شرکت بھی ایک اچھا قدم تھا۔ وہ ایک نیم مذہبی نیم سیاسی اتحاد تھا ، لیکن اس نے شیعہ مسلمانوں کو اقتدار میں کوئی خاص حصہ نہیں دیا تھا۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو صرف علامہ رمضان توقیر کو مشیر کا عہدہ دیا گیا تھا۔ آج سنی بریلوی شیعوں کے اتحادی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شیعہ قائدین اور ان کے حامی مثبت نکات پر بھی توجہ دیں اور منفی نکات کی نشاندہی بھی کریں، لیکن باہمی تنازعات کا نیا محاذ قائم کرنے سے اجتناب کریں۔ عمران خان اور طاہرالقادری کے ماضی کے بارے میں علامہ حامد علی شاہ موسوی کی رائے بھی نظر انداز نہ کی جائے البتہ موسوی صاحب کے حامی بھی گفتار میں قرآن و اہلبیت علیہم السلام کے اصولوں پر عمل کریں۔ غیر اخلاقی جملے بازی اور الزام تراشی کی گنجائش نہیں۔ قومی دھارے کی سیاست میں شیعہ مسلمانوں کو اپنا متحرک کردار ادا کرنا چاہئے، بنیادی نکتہ یہ ہے کہ تجربات سے سیکھا جائے اور غلطیوں کو نہ دہرایا جائے۔


خبر کا کوڈ: 405114

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/405114/انقلاب-مارچ-اور-پاکستان-کے-شیعہ-مسلمان

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org