QR CodeQR Code

آئینی فالج

26 Aug 2014 22:33

اسلام ٹائمز: آئین کسی بھی ریاست کے اداروں کی حدود و قیود کا تعین کرتا ہے۔ اگر اس دستاویز پر اسکی حقیقی روح کیمطابق عمل کیا جائے تو کسی بھی ادارے کو ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کرکے دوسرے ادارے کے معاملات میں مداخلت کرے، لیکن جب کوئی بھی ادارہ بالخصوص ملک کے وہ ادارے جو عوامی رائے سے وجود میں آتے ہیں، آئین کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر وجود میں لائے جاتے ہیں تو انکی قانونی حیثیت بہت کمزور ہوجاتی ہے۔ نااہل ہونے کے سبب ان اداروں کے اراکین دیگر دستوری اداروں کے اراکین کی نظر میں کسی تکریم کے حامل نہیں ہوتے۔ یہی سبب ہے کہ ہم اکثر ملک کے دستوری اداروں کے مابین ٹکراؤ کی کیفیت دیکھتے ہیں۔ کبھی عدلیہ اور سیاست دان آپس میں گتھم گتھا ہیں تو کبھی دیگر دستوری قوتیں۔ اسٹبلشمنٹ نام کی قوت کا وجود بھی انہی آئینی خلاف ورزیوں کا مرہون منت ہے۔


تحریر: سید اسد عباس تقوی

کسی بھی معاشرے میں آئین و قانون نظام سلطنت کو چلانے کے لیے بنیادی اہمیت اور حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اپنے طے کردہ آئین و قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل کیے بغیر نہیں چل سکتا۔ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر ہی کیا بس ہے اگر خدا کے بنائے ہوئے قانون پر بھی عمل نہ کیا جائے تو یہ قوانین بھی فی ذاتہ معاشرے میں اصلاح کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ اسی طرح آئین کی شقیں فقط کتابوں میں تحریر کرنے کے لیے نہیں بنائی جاتیں بلکہ یہ تبھی کارآمد ہوتی ہیں جب ان پر عمل کیا جائے۔ اگر آئین کو فقط کتابوں کی زینت بنا دیا جائے اور نظام کو چلانے کے لیے نظریہ ضرورت کے تحت اپنی مرضی سے کام شروع کر دیا جائے یا آئین کی شقوں پر ان کی روح کے مطابق عمل نہ کیا جائے تو معاشرہ اسی قسم کے خلفشار کا شکار ہوتا ہے جیسا کہ آج کل ہم پاکستانی معاشرے میں ملاحظہ کر رہے ہیں۔

آئین و قانون کی پاسداری کا دعویٰ کرنے اور حقیقت میں اس پر عمل کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کی مختلف جماعتیں ملکی آئین کی پاسداری کے بلند و بانگ دعوے کر رہی ہیں، حالانکہ وہ جانتی ہیں کہ اس ملک کے آئین پر کبھی بھی اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا۔ ملک کا ہر سیاسی گروہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ آئین کی شقیں فقط اوراق کی زینت ہیں، عملی طور پر ان میں سے بہت سی شقیں معطل ہیں۔ آج تک ملک میں یہ نظام جیسے تیسے تھا چلتا رہا۔ عوام کو بھی اپنے حقوق سے زیادہ دلچسپی نہ تھی، تاہم اب ملک میں کچھ ایسی قوتوں نے ظہور کیا ہے، جو آئین پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل درآمد کا دعویٰ لے کر میدان عمل میں اتری ہیں۔

ہمارے معاشرے کی ایک خوبی یہ ہے کہ ہم ہمیشہ مسائل کو ظاہری نگاہ سے نہیں دیکھتے بلکہ ہر چیز کے پیچھے موجود اصل قوت کی تلاش ضرور کرتے ہیں۔ یہ وطیرہ تقریباً ایک عادت کی صورت اختیار کر چکا ہے، کسی سے کہو کہ قادری اور عمران کے مطالبات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو وہ یہی کہتا ہے کہ ان کی رائے کی کیا اہمیت ہے۔ رائے تو اصل میں ان پس پردہ قوتوں کی ہے جو عمران اور قادری کی ڈوریاں ہلا رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے ملک میں اسٹبلشمنٹ نام کی بلا بہت مضبوط ہے اور بہت سے امور میں دخیل بھی ہے، تاہم یہ کہنا کہ سبھی کچھ اسی اسٹبلشمنٹ کا ہی کیا دھرا ہوتا ہے مجھے ہضم نہیں ہوتا۔ میری نظر میں کسی بھی قوت کو کسی معاملے میں مداخلت کا راستہ اس وقت تک نہیں ملتا جب تک آپ خود غلطی کا ارتکاب نہ کریں۔

قادری اور عمران کے معاملے کو ہی لے لیجئے، کہا جا رہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ نواز حکومت سے راضی نہیں، جس کی بنیادی وجہ میاں صاحب کا افغان جہاد، ہندوستان اور عسکری قیادت کے بارے میں موقف ہے۔ پس اب اسٹبلشمنٹ عمران اور قادری کے ذریعے حکومت کو گھٹنوں پر لانا چاہ رہی ہے۔ اس رائے میں کچھ نقائص ہیں، اسٹبلشمنٹ کے لیے میاں صاحب نئے نہیں ہیں۔ پہلے بھی متعدد بار میاں صاحب اس اسٹبلشمنٹ سے ٹکرا کر پیا دیس سدھار چکے ہیں، لہذا سوال یہ ہے کہ اگر اسٹبلشمنٹ کو میاں صاحب اتنے ہی چبھتے ہیں تو اس نے اس وقت اقدام کیوں نہ کیا جب میاں صاحب ملک میں دو تہائی اکثریت لینے جا رہے تھے۔ اگر واقعی اسٹبلشمنت میاں صاحب سے اس قدر نالاں تھی تو ان کی آمد کو روکنا اب ان سے ٹکرانے سے زیادہ بہتر تھا۔

ثانیاً یہ کہ اسٹبلشمنٹ یا کوئی بھی دوسری قوت اس وقت تک کسی بھی معاملے میں دخیل نہیں ہوسکتی جب تک اسے خلا مہیا نہ کیا جائے۔ عمران خان جو الیکشن کے بعد سے دھاندلی کی رٹ لگائے ہوئے ہیں، کے مطالبات کو کیسے اسٹبلشمنٹ کی سازش قرار دیا جاسکتا ہے۔ حکومت اگر واقعی اپنا بھلا چاہتی تھی تو اسے فی الفور ان چار حلقوں کو کھولنا چاہیے تھا، جن کے بارے میں عمران تحقیقات کا تقاضا کر رہے تھے۔ اسی طرح لاہور ماڈل ٹاؤن کا واقعہ اور اس واقعے کے بعد حکومت کا رویہ جس نے قادری صاحب کو احتجاج کی جانب مائل کیا، کیسے اسٹبلشمنٹ کا شاخصانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر حکومت چاہتی تھی کہ قادری صاحب سکون سے القادریہ میں بیٹھے رہیں تو اسے یہ غلطی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اگر بفرض محال غلطی ہو ہی گئی تھی تو حکومت کو اس انداز سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہیے تھے کہ کسی کو بھی اعتراض کا موقع نہ ملتا ۔ حکومت اپنی ہی دھن میں مگن رہی غلطیوں پر غلطیاں دہرائی جاتی رہیں۔ ان تمام تر غلطیوں کے بعد تمام تر ملبہ اسٹبلشمنٹ کے سر تھوپنا کم از کم میری سمجھ سے تو بالا تر ہے۔

بات آئین اور قانون کی چل رہی تھی۔ آئین کسی بھی ریاست کے اداروں کی حدود و قیود کا تعین کرتا ہے۔ اگر اس دستاویز پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو کسی بھی ادارے کو ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کرکے دوسرے ادارے کے معاملات میں مداخلت کرے، لیکن جب کوئی بھی ادارہ بالخصوص ملک کے وہ ادارے جو عوامی رائے سے وجود میں آتے ہیں، آئین کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر وجود میں لائے جاتے ہیں تو ان کی قانونی حیثیت بہت کمزور ہوجاتی ہے۔ نااہل ہونے کے سبب ان اداروں کے اراکین دیگر دستوری اداروں کے اراکین کی نظر میں کسی تکریم کے حامل نہیں ہوتے۔ یہی سبب ہے کہ ہم اکثر ملک کے دستوری اداروں کے مابین ٹکراؤ کی کیفیت دیکھتے ہیں۔ کبھی عدلیہ اور سیاست دان آپس میں گتھم گتھا ہیں تو کبھی دیگر دستوری قوتیں۔ اسٹبلشمنٹ نام کی قوت کا وجود بھی انہی آئینی خلاف ورزیوں کا مرہون منت ہے۔

ملک کے اکثر ریاستی ادارے آئین و قانون کی پامالی میں یا تو خود ملوث ہیں یا فقط تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن، عدلیہ، پارلیمنٹ، مالیاتی ادارے، انتظامیہ کس کا نام لیا جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے۔ عوام کا مینڈیٹ چوری ہو تو وہ ادارے جنہیں اس معاملے پر فوری طور پر حرکت میں آنا چاہیے چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں۔ کیا ہم لوگ اپنے معاشرتی نظام سے تنگ آچکے ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے خود ہی سرگرم عمل ہو گئے ہیں؟ اگر مذکورہ بالا ادارے ہی قوانین اور آئین کی پاسداری نہیں کریں گے تو ملک کا اشرافیہ کب اس قانون کو قابل اعتنا سمجھے گا۔ آخر کب تک ملک کا سفید پوش طبقہ آئین و قانون کی پاسداری کا فریضہ انجام دیتا رہے گا۔ یہ ملک بہت سی لسانی، مذہبی اور نسلی اکائیوں کا مجموعہ ہے۔ اگر آئین کی پامالی کا سلسلہ اسی طرح سے جاری رہا تو ہم کس بنیاد پر لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھیں گے۔


خبر کا کوڈ: 406814

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/406814/آئینی-فالج

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org