0
Friday 15 May 2015 13:14

يوم النكبہ (يوم مرده باد امريكہ)

يوم النكبہ (يوم مرده باد امريكہ)
تحریر: ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی

النكبہ ايک فلسطينی اصطلاح ہے، اس كا لغوی معنی ايک درد ناک مصيبت ہے۔ يہ اصطلاح اس زمانے كی طرف اشاره كرتی ہے، جس دن دنيا كی استعماری طاقتوں نے كہ جنكی سربراہی امريكہ كر رہا تها، انهوں نے ملكر عالم اسلام كے دل، سرزمين انبياء عليهم السلام فلسطين كو دنيا كے نقشہ سے مٹانے كی سازش كو عملی جامہ پہنایا، اربوں مسلمانوں كے قبلہ اول پر یہودی تسلط، ظلم و بربريت اور طاقت كی بل بوتے پر نجس اسرائيلی حكومت قائم كرنيكا اعلان كيا اور وہاں كے حقيقی باسيوں كو ہجرت پر مجبور كيا۔ 15 مئی 1948ء كو 750000 فلسطينی مسلمان اسرائيليوں كی بربريت اور قتل و غارت كی وجہ سے بے گھر ہوئے اور مہاجر بنے اور انكے 500 گاؤں تباه كئے گئے، انہیں زبردستی اپنے وطن سے نكالا گیا، اسی لئے اس يوم كو فلسطينی يوم نكبہ كے نام سے ہر سال مناتے ہیں اور اس عزم كا اظہار كرتے ہیں كہ ہم يقيناً ايک نہ ايک دن واپس اپنے وطن لوٹیں گے، اسرائيلی غاصب حكومت كا خاتمہ كريں گے اور ہمارا ملک نجس صہيونيوں سے آزاد ہوگا۔

15 مئی يوم مرده باد امريكہ كيوں؟
شهيد قائد علامہ السيد عارف حسين الحسينی جهان اسلام كے ایک بابصيرت قائد تهے، انكی نگاه فقط پاكستانی مسائل پر نہیں بلكہ وه پورے جهان اسلام اور دنيا كے مستضعفين كا درد محسوس كرتے تھے۔ اس لئے انهوں نے اسی يوم نكبہ 15 مئی كو پاكستان ميں "يوم مرده باد امريكہ" كا نام ديا تها۔ وه پاكستانيوں كو بتانا چاہتے تھے كہ يہ غاصب اسرائيلی وجود امريكہ كی مدد سے وجود ميں آيا اور امريكہ كی مدد سے ہی قائم ہے، تاكہ پاكستان کی غيور مسلم عوام اور جہان اسلام كے امريكہ نواز حكمرانوں اور عوام كو بتايا جائے كہ امريكہ كتنا مسلمانوں كا مخلص اور دوست ہے، جس كی دوستی اور غلامی پر ہمارے حكمران فخر كرتے ہیں۔ شہید قائد یہ چاہتے تھے كہ پوری امت مسلمہ متحد ہو كر امريكی ہاتھوں كو اس خطہ سے كاٹے اور اس ناپاک اسرائيلی حكومت كا خاتمہ ہو۔

حق العوده سے كيا مراد ہے؟
فلسطينی مجبوراً جہاں بھی جا كر آباد ہوئے، انهوں نے اپنے وطن كو نہيں بهلايا اور برملا پوری دنيا كے سامنے اظهار كرتے ہیں كہ اپنے آباء و اجداد كی سرزمين پر واپس آنا ہمارا حق ہے اور اس "حق العوده" يعنی وطن واپس آنے کے حق سے ہم كسی قيمت پر بهی دست بردار نہیں ہونگے، ان کے اس عزم و ارادے سے صهيونی اسرائيلی غاصب ہميشہ پريشان رہتے ہیں اور چاہتے ہیں كہ انہیں كسی اور ملک ميں بسا كر انكا يہ حق ان سے چھین ليا جائے۔

فلسطينيوں كی ہجرتيں:

• 1948ء كی فلسطين سے ہجرت اسرائيلی مظالم كی وجہ سے ہوئی، ان کے گھروں اور املاک پر يهودی قابض ہوئے، اپنی آبادياں تعمير كیں، فلسطينيوں كی ايک بہت بڑی تعداد اپنے ملک كے اندر كيمپوں میں رہنے پر مجبور ہوئی اور كچھ فلسطينی ہمسایہ ممالک ميں جاكر كيمپوں میں آباد ہوئے، كيونكہ فلسطين ميں مسلسل 67 سال سے جنگ جاری ہے تو فلسطينيوں كی ہجرت كا سلسلہ بهی جاری ہے۔
• 1950ء كے عشرے ميں عراق، سعودی عرب اور ليبيا سے ہڑتال کرنے کے جرم فلسطينی مزدوروں كو بڑی تعداد ميں نكالا گیا۔
• 1980ء کے عشرے كی ابتداء ميں جب فلسطينيوں كے تعاقب كی آڑ ميں اسرائيل نے لبنان پر قبضہ كيا تو لاكهوں فلسطينی لبنان سے ہجرت كركے ليبيا، تيونس اور ديگر عرب ممالک ميں جا كر آباد ہوئے۔
• 1991ء ميں جب عراقی صدر صدام حسين نے كويت پر حملہ كيا تو فلسطيی رہنما ياسر عرفات نے صدام كی حمايت كی، جس كی بدولت كويت حكومت نے 2 لاكهـ فلسطينی جو وہاں كام كرتے تھے، انہیں واپس آنے كی اجازت نہیں دی۔
• 1993ء جب فلسطينيوں اور اسرائيل كے مابين اوسلو معاہده ہوا تو ردعمل كے طور پر ليبا كے صدر كرنل معمر قدافی نے دسیوں ہزار فلسطينيوں كو لیبیا سے نکال دیا۔
• 2003ء ميں جب امريکہ نے عراق پر حملہ كيا تو 21 ہزار فلسطينی جو وہاں مقيم تھے، ہجرت پر مجبور ہوئے۔
• 2007ء ميں جب تكفيری دہشت گردوں نے شمال لبنان کی نہر البارد فلسطينی كيمپ كو اپنی آماجگاہ بنایا اور پهر لبنانی عوام اور لبنانی فوج پر حملے كئے، تو اس جنگ كے نتيجہ ميں 32 ہزار لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے۔ ياد رہے كہ ان تكفيری مسلح دہشت گردوں كو آل سعود كے اشاروں پر سعد الحريری پارٹی شام ميں داخل كرنے كے لئے وہاں پر اكٹھا كر رہی تهی۔

• شام فلسطينی عوام اور قضيہ فلسطين كا سب سے بڑا حمايت كرنے والا ملک تها، يہاں پر نكبہ 1948ء سے آخری ايام تک فلسطينی عوام اور ليڈرشپ كی آمد جاری رہی، يہاں پر 6 لاكهـ سے زيادہ فلسطينی آباد تھے، انہیں عام شامی عوام كی طرح كے حقوق حاصل تھے اور جب پوری دنيا جہان كے دروازے فلسطينی جہادی و سياسی ليڈر شپ كے لئے بند ہوچکے تهے، امريكہ اور اسرائيل كی رضا اور انكے ڈر سے سب عرب حكمران انہیں اپنے ممالک ميں پناه دينے پر راضی نہیں تهے، شامی حكومت نے انكے لئے اپنے دروازے كهول رکھے تھے، انہیں پناہ بھی دی اور سپورٹ بهی كیا اور يہاں سے اميد تهی كہ آزادی فلسطين كی فوج تيار ہوگی اور بيت المقدس كو آزاد كرايا جائيگا۔ اسی لئے كئی دہائیوں سے مقاومت كی پناہ گاہ اس ملک كا اقتصادی اور سياسی محاصرہ كيا گیا۔ پھر امريكہ اور اسرئيل نے عرب ممالک كو تيار كيا كہ وه اپنے بنائے ہوئے تكفيری دہشت گردوں كے ذريعے اس ملک كی اينٹ سے اينٹ بجا ديں اور وه فوج جو اسرائيل سے لڑنے كی تياری كر رہی ہے، اسے تكفيری مسلح گروہوں سے لڑائی ميں مصروف كر دیا جائے۔

افسوس تو اس بات كا ہے کہ ملک بھی مسلمانوں كا تباه ہو رہا ہے، دونوں طرف سے قتل ہونے والے بهی مسلمان ہیں اور جنگ پر سرمايہ بهی عرب مسلمانوں كا خرچ ہو رہا ہے۔ كاش يہ خليجی ممالک بالخصوص قطر اور سعودی عرب وه سرمايہ جو انہوں نے شام و عراق كی تباہی پر صرف كيا ہے، اگر وه ان ممالک كی ترقی اور آبادی پر صرف كرتے تو ہميشہ ہميشہ كے لئے ان پر حكومت كرتے اور تاريخ بهی انہیں اچھے الفاظ سے ياد كرتی۔ اے کاش شام، حزب اللہ اور فلسطینی مجاہدین کو بیت المقدس کی آزادی کی جنگ میں مدد کی ہوتی، نہ انکو انہی کی داخلی جنگ میں الجھایا ہوتا تو آج اسرائیل کا وجود اس صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔ یہ وہ خیانت ہے جو عرب ممالک نے تحریک فلسطین کے ساتھ کی اور خانہ خدا یعنی بیت المقدس کو اسرائیلی کے پنجے میں ہمیشہ کے لئے دے دیا۔ لیکن تاریخ کبھی بھی خیانت کرنے والوں کو معاف نہیں کرتی اور آج پوری دنیا کے سامنے وہ ممالک جنہوں نے مظلوم اور بے گھر فلسطینیوں کے ساتھ غداری کی، آج ان کا اصل چہرہ دنیائے اسلام کے سامنے بے نقاب ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، وہ دن دور نہیں جب ہمارے فلسطینی بھائی واپس اپنے گھروں کو جائیں گے اور غاصب اسرائیل کے ساتھ ساتھ اس کے سہولت کار بھی نیست و نابود ہونگے۔ انشاءاللہ
خبر کا کوڈ : 461022
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش