0
Friday 15 May 2015 10:43

مرگ بر امریکہ ورثہ سفیر انقلاب

مرگ بر امریکہ ورثہ سفیر انقلاب
تحریر: شاہد رضا

ملک پاکستان میں بہت سی چیزیں اس قوم کو شہداء کے ورثہ کے طور پر ملی ہیں اور وہ ورثے ایسے ہیں کہ جن کی بدولت اس ملت نے سرفرازی حاصل کی ہے۔ چند شہداء ایسے ہیں جن کے ورثہ سے پوری قوم نے فائدے حاصل کئے ہیں، جن میں سے سرفہرست شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی ہیں کہ جن کی وراثت میں اتحاد بین المسلیمن نمایاں اہمیت کا حامل ہے اور خط امام کی معرفت و تمسک بھی انہی کا دیا ہوا تحفہ ہے۔ سفیر نور کا تذکرہ ہو اور سیفر انقلاب کا تذکرہ نہ ہو، یہ زیادتی ہوگی قائد شہید کے اس باوفا ساتھی کہ جو ہر لمحہ ندائے قائد پر لبیک کہتا ہوا نظر آتا تھا، میری مراد بانی آئی ایس او سفیر انقلاب ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی ہیں کہ جہاں پر شہید قائد کا ورثہ ایک نمایاں اہمیت کا حامل ہے تو وہیں پر شہید ڈاکٹر کا ورثہ بھی اس قوم و ملت کے لئے کسی خدائی نعمت سے کم نہیں ہے۔ وہ ڈاکٹر کہ جو بظاہراً ایک عام ڈاکٹر نظر آتے تھے لیکن ان کی معرفت و دور اندیشی کی مثال شاید ہی پاکستانی معاشرے میں ملے۔ سفیر انقلاب کہ جو پاکستان کی تقدیر بدلنے کا خواب رکھتے تھے، جو استعمار سے آزاد پاکستان چاہتے تھے، اب ان کی وراثت کا تھوڑا تذکرہ کرتے ہیں۔

مرگ بر امریکہ کو کس نے متعارف کروایا؟؟؟
اگر ہم تین دہایاں پہلے کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پاکستان میں جہاد افغانستان کے نام پر امریکہ ایک بہت بڑی گیم کھیل رہا تھا، جہاں پر پورا پاکستانی معاشرہ چاہے وہ عام عوام تھی یا خواص تھے، سب کے سب امریکن پروپیگنڈہ مشینری کا نشانہ بن گئے اور دوستی کے نعرے لگاتے نظر آتے تھے۔ لیکن اسی معاشرے کے اندر عاشق وطن شہید ڈاکٹر محمد علی پہ جب نگاہ پڑتی ہے تو وہ نحیف اور کمزور جسم کے ساتھ پاکستان کے کونے کونے میں مردہ باد امریکہ کا نعرہ لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب امریکہ پاکستان کے اندر کسی بھی قسم کا کوئی منفی کردار ادا نہیں کر رہا تھا، کیونکہ اس کا ہدف روس کو توڑنا تھا، جس کے لئے اسے پاکستانی عوام و نام نہاد مجاہدین کی ضرورت تھی۔ لیکن اس سب کے باوجود سفیر انقلاب کا مردہ باد امریکہ کا نعرہ لگانا ان کی معرفت و دور اندیشی کا عملی نمونہ تھا۔ وہ دراصل پاکستانی معاشرے کو مستقبل کے اندر امریکہ کے ہاتھوں پیش ہونے مسائل کی طرف متوجہ کرنا چاہتے تھے۔ سب سے پہلے اس سرزمین پر جس شخصیت نے بفرمان شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی مردہ باد امریکہ ریلی نکالی، وہ سفیر انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ہی تھے کہ جن کے پاکیزہ کردار کی بدولت آج ان کی شہادت کے بعد ملت پاکستان اس حقیقت کو مان چکی ہے۔ پس سرزمین پاکستان پر مرگ بر امریکہ کو متعارف کروانا اور اس لہر کو عوامی بنانے میں بنیادی کردار سفیر انقلاب کا ہے۔

سفیر انقلاب بحیثیت رہنمائے قوم
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی جنہوں نے بہت پہلے آنے والی امریکن مصیبت کو بھانپتے ہوئے اس ملت کو خطرات سے آگاہ کر دیا تھا اور اس معاشرے میں سوئے ہوئے طبقات کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہہ رہے تھے کہ خواب غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور بقول علامہ اقبال شاید ڈاکٹر شہید کی یہ ندا تھی۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

سفیر انقلاب کا یہ ورثہ کہ جس میں جہان عالم کی سپر پاور کو ایکسپوز کیا اور پاکستان کے ہر خاص و عام کو منوایا کہ ہماری مشکلات کی وجہ امریکہ کی دوستی ہے۔ وہ قوم کے رہنما تھے، وہ اس وطن کے ساتھ محبت کرنے والے تھے، ان کے دل میں اس دھرتی کا درد تھا، جس کی وجہ سے وہ استعمار کو اس پاک سرزمین پر برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ کبھی سینیئر بش کی پاکستان آمد پر ان کے استقبال کی تیاریاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی یوم القدس کے موقع پر سپیکر تھامے سب سے آگے صیہونیت کو للکارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایران عراق جنگ کے موقع پر جب سفیر انقلاب اپنی پیش ورانہ خدمات دینے محاذ جنگ پر پہنچے تو سب سے زیادہ زخمیوں کی دیکھ بھال کرتے نظر آتے ہیں، جس کی وجہ سے ایرانی شہید ڈاکٹر کو ڈاکٹر پریشان کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ پوری انسانیت کا درد رکھنے والے ڈاکٹر تھے۔

پاکستانی معاشرہ سفیر انقلاب کا مقروض
ملتوں میں بہت کم لوگ ایسے آتے ہیں کہ جن کی بدولت ملت کے اندر شعور و آگاہی پیدا ہوتی ہے اور یہ لوگ صدیوں بعد آتے ہیں، سفیر انقلاب کا یہ کارنامہ کہ انہوں نے پاکستان کے اندر استعمار اور استعماری سازشوں کو اس طرح سے آشکار کیا کہ شاید ہی اس کی مثال ملے۔ آج تو ہر خاص و عام مردہ باد امریکہ کہتا نظر آتا ہے، لیکن مارشل لاء اور ایک آمر کے دور میں مردہ باد امریکہ کہنا اتنا آسان نہیں تھا۔ وہ دور کہ جب حکمران مکمل طور پر امریکہ کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے اشاروں پر افغانستان میں نام نہاد جہاد کروا رہے تھے۔ یہ سیفر انقلاب ہی تھے کہ جو چند ساتھیوں کے ساتھ لاہور کی سڑکوں پر امریکن پرچم نذر آتش کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔

برات از مشرکین پاکستان سے لے کر حرمین تک
امریکہ و اتحادیوں کے خلاف آواز حق بلند کرنے میں سفیر انقلاب پاکستان تک محدود نہیں رہے بلکہ جب امام خمینی کا حکم آیا کہ حرم خدا کے اندر مرگ بر امریکہ کا نعرہ لگنا چاہیے تو پاکستان میں سب سے پہلے اس علم کو تھامے ہوئے شہید ڈاکٹر نظر آئے کہ جو اپنے ولی کے ساتھ اتنا تمسک رکھتے تھے کہ ان کی آرزو کو پورا کرنے کے لئے حج پر تشریف لے گئے۔ سفیر انقلاب کا یہ کارنامہ دراصل آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ جب کبھی بھی پاکستان و عالم اسلام پر کوئی مشکل آئے گی تو اس کے پیچھے امریکہ و استعمار کا ہاتھ ہوگا۔ پھر آج ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں فرزندان شہید امامیہ طلبہ اسی طرح سے مرگ بر امریکہ و اسرائیل کا نعرہ بلند کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان نوجوانوں کے اندر یہ حرارت و جوش سفیر انقلاب کا دیا ہوا ورثہ ہے۔ کامیاب قومیں وہ ہوتی ہیں جو اپنے شہداء کے ورثہ کو نہ فقط یاد رکھتی ہیں بلکہ اسے آنے والی نسلوں تک منقتل بھی کرتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 461057
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش