0
Tuesday 26 May 2015 17:33

یمن میں اسرائیل اور سعودی عرب کے مشترکہ مفادات

یمن میں اسرائیل اور سعودی عرب کے مشترکہ مفادات
تحریر: علی حیدر

بیروت سے شائع ہونے والے اخبار "الاخبار" نے حال ہی میں ایک مقالہ شائع کیا ہے، جس میں بعض اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی جانب سے شائع کردہ مطالب کی روشنی میں یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ یمن پر اسرائیلی حملہ دور از امکان نہیں۔ الاخبار لکھتا ہے: "جو چیز یمن میں اسرائیل اور سعودی عرب کے مشترکہ مفادات کے وجود کو یقینی بناتی ہے، درج ذیل دو نکتے ہیں: ایک یہ کہ خطے کے جیوپولیٹیکل نقشے کا جائزہ لینے سے ان دونوں ممالک کی ترجیحات کا ایک نکتے پر جمع ہو جانے کا بآسانی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، اور دوسرا یہ کہ اسرائیلی وزیراعظم نے بہت واضح طور پر اپنے بیان میں یمن کے خلاف سعودی جارحیت کی حمایت کی ہے۔"

البتہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسرائیل اور سعودی عرب کی ترجیحات کا ایک نکتے پر جمع ہو جانا صرف یمن کے مسئلے تک ہی محدود نہیں، بلکہ مقبوضہ فلسطین، لبنان، شام اور عراق میں جاری اسلامی مزاحمتی جدوجہد کے بارے میں بھی یہ اشتراک پایا جاتا ہے، لیکن اسرائیلی نیوز ویب سائٹ "واللا" نے اپنی ایک رپورٹ میں آبنائے باب المندب سمیت یمن میں اسرائیل اور سعودی عرب کے مشترکہ مفادات پر اس حد تک تاکید کی ہے کہ ان مفادات کو خطرہ درپیش ہونے کی صورت میں یمن کے خلاف اسرائیل کی جانب سے براہ راست فوجی کارروائی کے امکان کو بھی ظاہر کیا ہے۔ آبنائے باب المندب سے ہٹ کر اس رپورٹ میں نہر سویز اور سعودی عرب کے جنوبی ساحل پر واقع تیران اور صنافیر جزائر کی اہمیت خاص طور پر اسرائیل کیلئے ان کی اسٹریٹجک اہمیت کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ اسرائیل صرف اسی آبنائے اور جزائر کے ذریعے باہر کی دنیا سے رابطہ رکھ سکتا ہے۔

اسرائیلی نیوز ویب سائٹ "واللا" کے مطابق سعودی عرب اس وقت یمن کے خلاف اپنی فوجی جارحیت کو جاری رکھنے کیلئے ڈھکے چھپے ہی سہی ایک اتحادی کی محتاج ہے۔ سعودی عرب یمن کے خلاف اپنی فوجی جارحیت کا ایک اہم مقصد ایران کی جانب سے انصاراللہ یمن کو اسلحہ کی سپلائی روکنا اعلان کرتا ہے جبکہ انصاراللہ یمن ایسا گروہ ہے جسے اسرائیل بھی اپنا دشمن سمجھتا ہے اور واضح طور پر یہ اعلان کرچکا ہے کہ اگر ایران نے یمن کے ذریعے حزب اللہ لبنان اور حماس کو اسلحہ فراہم کرنے کی کوشش کی تو وہ یمن کے خلاف جنگ میں براہ راست حصہ بھی لے سکتا ہے۔ لہذا یہ اسرائیلی نیوز ویب سائٹ اسرائیل کو یمن کے خلاف ہوائی حملوں کا مشورہ دیتے ہوئے اس آپشن کو تل ابیب کیلئے پرامن اور محفوظ آپشن قرار دیتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب اسرائیلی بحری بیڑوں کو آبنائے باب المندب سے عبور کرتے وقت میزائل حملوں کا نشانہ بننے کا خطرہ درپیش ہو۔ نیوز ویب سائٹ واللا لکھتی ہے کہ یمن کے پاس طاقتور فضائی دفاعی نظام نہیں اور صرف سعودی عرب اور مصر کے پاس طاقتور ریڈار سسٹم موجود ہیں، جن کی جانب سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں۔ اسرائیلی نیوز ویب سائٹ لکھتی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں تل ابیب اور ریاض کے درمیان اختلافات پائے جائیں، لیکن یمن سے متعلق مشترکہ مفادات جیسے آبنائے باب المندب کو بند ہونے سے روکنا، دونوں ممالک کے درمیان اعلانیہ یا ڈھکے چھپے تعاون کیلئے کافی ہیں۔

دوسری طرف اسرائیلی اخبار "معاریو" اپنی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی برآمد کرنے اور سکیورٹی سے متعلق مشورے دینے والی اسرائیلی کمپنیوں اور تاجروں نے گذشتہ کچھ عرصے سے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور وہ بعض خلیجی ریاستوں سے معاہدے انجام دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جس کی واضح مثال حال ہی میں معروف اسرائیلی تاجر میٹ کوخابی کی جانب سے ابوظہبی کے حکام کے ساتھ متحدہ عرب امارات کی گیس اور تیل کی تنصیبات کی دیکھ بھال کا معاہدہ انجام دینا ہے۔ اسرائیلی اخبار معاریو مزید لکھتا ہے کہ اس معاہدے میں موساد، شاباک اور امان کے سابق عہدیدار بھی شریک تھے اور کوخابی کمپنی کا ایک بڑا عہدیدار امان کا سابق سربراہ جنرل آموس مالکا تھا۔ اسی طرح اس اسرائیلی اخبار کے مطابق متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے معاہدوں میں موساد کا سابق عہدیدار ڈیوڈ میڈان اور اسرائیلی ڈرون کمپنی کی سربراہ آوی لئومی کا نام بھی قابل مشاہدہ ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 463245
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش