0
Monday 28 Sep 2015 00:51

تاریک یورپی راہوں کے بدقسمت مسافر

تاریک یورپی راہوں کے بدقسمت مسافر
تحریر: عمران خان

غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جس کے باعث ایسے حادثات بھی خطرناک حد تک تجاوز کرچکے ہیں، جن میں تارکین وطن کا استقبال صرف موت کر رہی ہے۔ یورپ میں داخلے کی خواہش کتنے افراد کو نگل چکی ہے۔ اس کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ صرف بحیرہ روم کے پانیوں میں ایک سال کے دوران پانچ ہزار سے زائد افراد ڈوب چکے ہیں، اور یہ تعداد صرف ان افراد کی ہے کہ جن کی کسی نہ کسی حوالے سے تصدیق ہوئی ہے، یا ان کے بچ جانے والے ساتھیوں نے مرنے والوں کے بارے میں بتایا ہے، جبکہ ایسے حادثات جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، ان میں مرنے والے افراد کی حتمی تعداد کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ مرنے والوں سے زیادہ تعداد لاپتہ ہونے والے تارکین وطن کی ہے۔ حالیہ دنوں میں پیش آنے والے حادثات سے قبل ایک پاکستانی کی کہانی، جو یورپ جانے کا خواہشمند تھا، بشارت علی کے مطابق وہ جولائی کی 25 تاریخ کو کوئٹہ پہنچے اور وہاں سے مال بردار گاڑی میں دیگر 20 سے 25 افراد کے ساتھ ایران کی سرحد عبور کی۔ بشارت کے مطابق ایران کی سرحد پار کرنے کے لئے پیدل بھی سفر کرنا پڑا اور وہاں سے ہمیں 14 سے 15 افراد کی ٹولیوں میں گاڑیوں میں بٹھایا گیا۔ جس میں سے کئی کو گاڑیوں کی ڈگی میں بھی بند کیا اور نو سے دس گھنٹے تک سفر کیا۔ وہاں سے وہ بندر عباس پہنچے، جس کے بعد ہمیں بسوں میں سامان رکھنے والی جگہوں پر بند کرکے شیراز پہنچایا گیا اور اس دوران ہمارے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ اس دوران ہمیں راستہ دکھانے والے افغانیوں نے ہم سے سب کچھ چھین لیا، جس میں کپڑے، پیسے اور یہاں تک جوتے بھی چھین لئے، اس کے بعد ہمیں تہران پہنچایا گیا۔ تہران سے آگے کے سفر کے دوران ترکی کی سرحد کے قریب ماکو کے پہاڑوں پر نو کئی دن تک رکنا پڑا اور وہاں پر کھانہ نہ ملنے پر افغانیوں سے جھگڑا بھی ہوا۔ یہاں ہمیں دیگر افراد کے آنے تک رکنے کا کہا گیا، لیکن نو دس دن گزرنے کے بعد جب لڑائی ہوئی، تو ہمیں سرحد پار کرائی گئی۔

ایران سے ترکی میں داخل ہونے کے بارے میں انھوں نے بتاتے ہوئے کہا کہ 16 گھنٹے پیدل چلنے کے بعد ترکی میں داخل ہوئے اور وہاں ہمیں ایک کمرے میں رکھا گیا۔ جس میں ٹوائلٹ اور کچن بھی تھا، وہاں سے ہمیں استنبول پہنچایا گیا۔ جہاں پہلے سے بہت سارے لڑکے آگے جانے کے انتظار میں تھے، ان میں کوئی ایک ماہ سے انتظار کر رہا تھا اور کوئی دس سے بیس دن سے موجود تھا۔ بشارت علی نے استنبول سے آگے کے سفر میں بتایا کہ وہاں سے ہمیں 15 سے 25 افراد کی ٹولیوں میں کشتیوں میں بٹھایا اور ایک جگہ پہنچایا، جس کے بعد 75 کلومیٹر پیدل متلینہ کا سفر کیا اور ایک کیمپ میں پہنچے، جہاں پہلے سے شامی اور افغان شہریوں کا بہت زیادہ رش تھا، جس کی وجہ سے پرچی بنوانے میں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ بشارت علی نے راستے میں آنے والی مشکلات اور پریشانیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ یہ میری پہلی اور آخری کوشش تھی۔ میرا دشمن بھی ہو، تو اسے اس راستے پر نہ بھیجوں۔ پاکستان میں رہ کر کوڑے سے اٹھا کر کھا لیں، لیکن اس راستے پر نہ آئیں۔ بہت خطرناک ہے۔ ایجنٹ ہمیں بتاتے تھے کہ آگے کا سفر آسان ہوگا، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے، ہم نے راستے میں جوانوں کی لاشوں کو دیکھا، جیوانی کے سمندر میں کشتی الٹنے سے تین لڑکے مر گئے اور ان کی لاشیں کوووں اور کتوں نے کھائیں۔ نہ ان کے والدین کو علم ہے، نہ ان کے بہن بھائیوں کو پتہ ہے کہ ان کے پیاروں پر کیا بیتی۔ بشارت علی کے مطابق اگر یونان نے انھیں پناہ دے دی تو وہاں ہی رہیں گے اور آگے نہیں جائیں گے، اگر آگے جانا بھی پڑا تو اسی صورتحال میں جائیں گے، جس میں پیچھے پیش آنے والی پریشانیاں نہ ہوں اور کوئی مناسب طریقہ کار ہو۔ بشارت علی کے مطابق یہاں تک پہنچنے میں ان کے ساڑھے تین لاکھ سے چار لاکھ روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ یہ تو صرف ایک داستان ہے، نہ جانے کتنے ہی والدین اپنے پیاروں کے انتظار میں نظریں فرش راہ کئے ہوئے ہیں اور ان کے بچے خطرناک اور تاریک راستوں پر ہر لمحہ مصائب و موت سے نبرد آزما ہیں۔ افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش یا ہندوستان سے یورپ جانے والوں کی اکثریت روزگار کی متلاشی ہے۔ تاہم لیبیا، شام، عراق، مصر سے ہجرت کرکے یورپ جانے والے اپنی اور اپنے خاندان کی جانیں محفوظ کرنے کی غرض سے یورپی دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔

گذشتہ دنوں 17سالہ پاکستانی حمزہ نے اپنے خونی سفر کا احوال اپنے انٹرویو میں بتایا، جس میں اس کی پوری فیملی سمندری پانی میں ڈوب گئی تھی، جبکہ اس کی جان کوسٹ گارڈز کے عملے نے بچائی۔ لیبیا کے مغربی ساحل زوارہ میں ان کی کشتی ڈوب گئی تھی۔ 17 سالہ حمزہ نے بتایا: "ہم نے رات ڈیڑھ بجے کے قریب سفر کا آغاز کیا، وہ ایک لکڑی کی کشتی تھی، جس میں 350 افراد سوار تھے، میرے ساتھ میرے والد، والدہ، میری 11 سالہ بہن، 27 سالہ بہن اور 16 سالہ بھائی بھی کشتی میں موجود تھے۔" حمزہ نے بتایا کہ تقریباً آدھے گھنٹے بعد کشتی نے ہچکولے کھانے شروع کر دیئے اور پانی کشتی میں داخل ہوگیا اور پھر ہم نے خود کو کھلے سمندر میں پایا۔ کشتی لکڑی کے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی، میری والدہ اور میں نے ایک ٹکڑا پکڑ لیا اور پھر میں نے اپنے بھائی اور چھوٹی بہن کو بھی برابر میں دیکھا۔ حمزہ کے مطابق یوں وہ 9 گھنٹے تک زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا رہا اور جب کوسٹ گارڈز ان کی مدد کو پہنچے، تو اس وقت تک اس کی ماں اور بہن زندگی کی بازی ہار چکی تھیں۔ حکام اور مقامی افراد کے مطابق ان کشتیوں میں 500 کے قریب افراد سوار تھے، پہلی کشتی میں 50 کے قریب افراد سوار تھے۔ اس کے بعد ڈوبنے والی دوسری کشتی میں تقریباً 400 افراد سوار تھے۔ ریڈ کراس کے مطابق امدادی کارکنوں نے سمندر سے 200 لاشیں نکالیں اور 182 افراد کو بچایا۔ ریڈ کراس کیمطابق ایک سو سے زائد افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ دوسری جانب آسٹریا کے حکام نے تصدیق کی کہ انہیں ہنگری سے متصل مشرقی سرحد کے قریب ایک لاوارث ٹرک ملا ہے، جس میں 71 سے زائد لاشیں انتہائی خراب حالت میں موجود ہیں۔ ماضی میں اس طرح کا ایک حادثہ کوئٹہ میں بھی پیش آیا تھا، جس میں ایک کنٹینر کے اندر آکسیجن بند ہونے سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی تھیں، جبکہ ڈرائیور نے فرار سے قبل دروازہ تک کھولنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ آسٹریا کے حکام کے مطابق یہ تارکین وطن کی لاشیں ہیں، جن کے ایجنٹ انہیں چھوڑ کر فرار ہوگئے ہیں۔

یورپ کی جانب تارکین وطن کی بڑی تعداد روانہ ہے۔ برطانوی حکومت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پانچ لاکھ افراد لیبیا سے یورپ میں داخلے کے لئے اکٹھے ہوچکے ہیں۔ جب کہ خطرناک سمندری راستے میں ان افراد کو پیش آنے والے حادثات کا تدارک کرنے کیلئے ریسکیو آپریشن بھی ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اٹلی کے کوسٹ گارڈز نے تارکین وطن کی اتنی بڑی تعداد کی تصدیق نہیں کی ہے، لیکن کہا کہ وہ دوسری درجنوں کشتیوں کو امداد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ برطانیہ کے وزیر دفاع جو کہ بحیر روم میں موجود برطانوی شاہی بحریہ پر موجود ہیں، انھوں نے یورپ کو متنبہ کیا ہے کہ اگر لیبیا کی صورت حال کا فائدہ اٹھانے والے سمگلروں کا متحدہ طور پر مقابلہ نہ کیا گیا، تو یورپ کو تارکین وطن کی بڑی لہر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اطالوی بحریہ کے جہاز دیرائدے نے اس سے محض دو روز قبل کم از کم 560 تارکین وطن کو بچایا ہے، جن میں خواتین اور بچے شامل تھے، جبکہ آئرش بحری جہاز لا ایتھنے نے کم از کم 310 افراد کو بچایا۔ بحیرہ روم کو عبور کرکے یورپ پہنچنے والے تارکینِ وطن کی تعداد میں رواں سال کے پہلے پانچ مہینوں میں 10 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ اطالوی حکومت کا اندازہ ہے کہ اس سال ان کے ساحل پر مجموعی طور پر دو لاکھ تارکین وطن اتریں گے، جو کہ گذشتہ سال کے ایک لاکھ 70 ہزار کے مقابلے 30 ہزار زیادہ ہیں، جبکہ تارکین وطن کے اعداد و شمار پر کام کرنے والے آزاد اداروں کے مطابق تارکین وطن کی تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں دوگنی بھی ہوسکتی ہے۔ یورپی حکام کے لئے شدید تشویش کی بات یہ ہے کہ اس سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران انسانی ہلاکتوں کی یہ تعداد گذشتہ برس اسی عرصے کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کے مقابلے میں 30 گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ترک وطن کی کوششوں کے دوران گذشتہ صرف 12 مہینوں میں بحیرہ روم کے پانیوں میں ڈوب کر ہلاک ہو جانے والوں کی مجموعی تعداد بھی اب پانچ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

عراق، شام، اریٹریا و دیگر ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کے سیلاب سے نمٹنے کیلئے یورپ نے سخت پالیسی اپنائی، تاہم رواں ماہ ستمبر کے اوائل میں تین سالہ شامی بچے ایلان کرد کی لاش نے عالمی ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ سمندر کنارے ایلان کی یہ تصویر پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں نے دیکھی، جس پر تحریر تھا کہ انسانیت ساحل پر بہہ کر آگئی۔ یہ بچہ اس ربڑ کی کشتی پر سوار تھا، جو ترکی سے یونان جانے کی غیر قانونی کوشش میں راستے میں ڈوب گئی تھی اور ایلان اپنی والدہ اور 5 سالہ بھائی سمیت سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہوگیا۔ کچھ افراد جن میں ایلان کے والد عبداللہ کردی بھی شامل تھے، اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے۔ عبداللہ کے بقول انہوں نے اپنی بیوی بچوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن سمندری لہروں کے سامنے وہ بے بس ہوکر رہ گئے۔ بدقسمت خاندان نے موت کے سفر سے قبل کینیڈا میں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کروائی تھی، جبکہ کینیڈا میں مقیم عبداللہ کی بہن نے بھی خاندان کو اسپانسر کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن کینیڈین حکومت نے ان کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ ایلان کی تصویر منظر عام پر آنے کے بعد کینیڈا نے عبداللہ کو شہریت کی پیش کش کی، تاہم عبداللہ نے یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ میرے پاس اب بچا ہی کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے ایلان کی موت کے بعد یورپی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یورپی ممالک نے بحیرہ روم کو پناہ گزینوں کا قبرستان بنا دیا ہے، تاہم ایلان کی دردناک موت کے بعد غیر ملکی میڈیا اور عالمی دباؤ کے نتیجے میں یورپی یونین نے پناہ گزینوں کیلئے اپنی پابندیوں میں نرمی اختیار کی، جس کے بعد جرمنی، فرانس، آسٹریا اور برطانیہ نے پناہ گزینوں کو پناہ دینے پر رضا مندی ظاہر کردی۔

اس طرح ہنگری کی سرحد پر موجود ہزاروں پناہ گزین جن میں اکثریت کا تعلق شام، عراق، لیبیا اور خانہ جنگی کے شکار دیگر ممالک سے تھا، بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے جرمنی پہنچے۔ جنہیں بعد میں ویانا، میونخ اور جرمنی کے دوسرے شہروں میں منتقل کیا گیا۔ جرمنی یورپ میں اب تک پناہ گزینوں کا بوجھ سہنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جہاں اب تک پناہ گزینوں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ جرمن چانسلر اینجلا مرکل کی مخلوط حکومت نے پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کیلئے 6 ارب یورو مالیت کے منصوبے کی منظوری دی ہے، تاہم ساتھ ہی جرمن چانسلر کا کہنا ہے کہ وہ آج اپنے بچوں پر یہ واضح کرنا چاہتی ہیں کہ مشکل حالات کے باوجود جرمنی نے مسلمان پناہ گزینوں کو پناہ دی، حالانکہ ان پناہ گزینوں کیلئے یورپ سے زیادہ قریب کئی اسلامی ممالک بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ مسلمان پناہ گزینوں کی مدد کرنا صرف یورپ کی ذمہ داری نہیں بلکہ تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک کو بھی پناہ گزینوں کے معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ دوسری جانب برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ اگلے پانچ برسوں میں 20 ہزار سے زائد پناہ گزینوں کو پناہ دے گا، جبکہ فرانسیسی حکومت نے بھی اگلے دو برسوں میں 24 ہزار پناہ گزینوں کو پناہ دینے کا اعلان کیا ہے، مگر قابل حیرت بات یہ ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے پناہ گزینوں کی حالت زار پر کوئی ترس نہیں کھایا اور نہ ہی کسی پناہ گزین کو پناہ دینے کی پیشکش کی۔ عیسائیوں کے روحانی پیشوا پاپائے روم پوپ فرانسس نے پناہ گزینوں کی حالت زار دیکھتے ہوئے رومن کیتھولک فرقے کے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پناہ گزینوں کے بحران کے حل میں اپنا حصہ ڈالیں اور جنگ و بھوک کا شکار ان لوگوں کی مدد کریں، جو موت سے بھاگ کر زندگی کی تلاش میں نکلے ہیں۔ انہوں نے یہ اپیل بھی کی کہ یورپ کا ہر گرجا گھر اور عیسائی برادری مسلمان پناہ گزینوں کے ایک خاندان کو اپنے ساتھ رکھے۔ پوپ کی اپیل پر یورپی ممالک میں کئی گرجا گھروں اور عیسائی خاندانوں نے مسلمان پناہ گزینوں کو پناہ دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

پناہ گزینوں کے سیلاب سے نمٹنے کے حوالے سے یورپی ممالک آپس میں بھی تنازعہ کا شکار رہے۔ یورپی ممالک کسی ایسے فارمولے پر متفق نہیں ہو پا رہے تھے کہ جس کے تحت یہ طے کیا جاسکے کہ کونسا ملک کتنے پناہ گزینوں کی آباد کاری کرے گا۔ دوسری جانب پناہ گزینوں میں مختلف ممالک اور مختلف قومیتوں کے لوگ شامل تھے۔ رواں ماہ ستمبر کے آخر میں یورپی یونین کے وزرائے داخلہ یورپ میں داخل ہونے والے ایک لاکھ 20 ہزار پناہ گزینوں کی آبادکاری کے معاہدے پر کثرتِ رائے سے رضامند ہوگئے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت تارکین وطن کو اٹلی، یونان اور ہنگری سے دیگر یورپی ممالک میں بسایا جائے گا۔ اس معاہدے کے تحت تارکین وطن کے لازمی کوٹے کی رومانیہ، چیک ریپبلک، سلوواکیا اور ہنگری نے مخالفت کی، تاہم 28 رکنی یورپی یونین کے دیگر ممالک کی اکثریت نے اس کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ فن لینڈ واحد ملک جو اس معاہدے پر ہونے والی ووٹنگ میں شامل نہیں تھا۔ معاہدے کے بعد جرمنی نے اس سال دس لاکھ افراد کو پناہ دینے کا اعلان کیا، جبکہ یورپی یونین کے اعداد و شمار کے مطابق جن پناہ گزینوں کو ترجیحی بنیادوں پر آباد کیا جائے گا، ان میں شام، اریٹریا اور عراق کے باشندے شامل ہیں۔ یورپی ممالک کے درمیان معاہدہ طے پانے کے بعد اور پناہ گزینوں کو جگہ دینے کے اعلان کے باوجود بھی بحیرہ روم میں پناہ گزینوں کی ہلاکتوں پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ ستمبر کے آخری ہفتے میں اسی ساحل سمندر پر جہاں سے ایلان کردی کی لاش ملی تھی، مزید لاشیں ملی ہیں۔ جن میں لگ بھگ 80 بچے بھی شامل ہیں۔

اس ساری صورت حال میں یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مہاجرین کی صورت میں انسانی آبادی کا ایک بڑا حصہ اپنی سرزمین، اپنی تہذیب، ثقافت، رہن سہن، تاریخ، مذہبی، قومی اقدار کو نظرانداز کرکے یورپ میں داخلے کا، وہاں قیام کا خواہشمند ہے۔ کیا مشرق وسطٰی، عراق و شام کے داخلی حالات نے شہریوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو اس خطے کے موجودہ حالات میں ترقی یافتہ دنیا کے ممالک کا اس میں کتنا حصہ ہے۔ کیا یورپی ممالک نے اس امریکی پالیسی کی مخالفت کی تھی، جس میں عراق و شام کی دہشت گرد تنظیموں کو مسلح کیا گیا، تیل، معدنی وسائل پر غاصبانہ اجارہ داری قائم کرنے کیلئے حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کی گئی۔ محض اسرائیل کو محفوظ بنانے کیلئے اس کے ہر نزدیکی ملک کو اندرونی خلفشار میں مبتلا کیا گیا۔ دہشت گرد تنظیمیں تشکیل دیکر انہیں ہر طرح کے وسائل سے مالا مال کیا گیا۔ یورپ نے جو تباہی دوسروں کے گھروں تک پہنچانے میں امریکہ کی مدد کی، اس کا ایک قلیل بوجھ اسے خود برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ حقوق انسانی کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پناہ گزینوں کی کل تعداد کا چھیاسی فیصد ترقی پذیر ممالک میں ہیں، جبکہ صرف دو اعشاریہ دو فیصد کو باقی ملکوں نے جگہ دی ہے۔ اس وقت پاکستان، ترکی اور لبنان میں پناہ گزینوں کی تعداد دس دس لاکھ ہے، جبکہ امیر ممالک نے اس میں کم حصہ لیا۔ یورپ کے دروازوں پر دستک دینے والے شامی پناہ گزین ہوں یا پاکستان میں موجود افغان مہاجرین، دیار غیر میں ٹھوکریں کھاتے، سمندری لہروں سے موت و زندگی کی جنگ لڑتے، خشک پہاڑوں میں کئی کئی دن کا پیدل سفر کرنے والے، بھوک و پیاس سے لڑتے رینگ رینگ کر چلنے والے یہ سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پالیسیوں کے ستائے ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان لٹے پٹے بے آسرا انسانوں کو انصاف دلانے کیلئے اقوام عالم مشترکہ طور پر امریکہ سے مطالبہ کرتے کہ تمہاری جنگی پالیسیوں کا شکار یہ بے وطن لوگ تمہاری ذمہ داری ہیں، لہذا اسی طرز پر امریکہ کے بیچوں بیچ پناہ گزینوں کی ایک ریاست کی بنیاد ڈالی جائے، جیسے عشروں قبل عربوں کے سینے پر اسرائیل نامی خنجر گھونپا گیا تھا، تاہم اس کی امید کم ہی کی جاسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 487714
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش