8
0
Tuesday 22 Dec 2015 12:49

نائجیریا۔۔۔ کل کا موسم خراب ہوگا

نائجیریا۔۔۔ کل کا موسم خراب ہوگا
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

نائجیریا کا دارالحکومت ابوجا ہے، اس کے پڑوسی ممالک میں چاڈ، کیلیفورنیا، کیمرون، وینزیلا اور تنزانیہ شامل ہیں، یہ براعظم افریقہ کا ایک انتہائی اہم اسلامی ملک ہے، اس کا رقبہ 923768 مربع کلومیٹر اور آبادی تقریباً 18 کروڑ نفوس سے تجاوز کرچکی ہے۔ آٹھویں صدی میں شمالی افریقہ کے مراکش، الجزائر، لیبیا، تیونس، مصر اور مشرق سے سوڈان، صومالیہ، یمن اور سعودی عرب جیسے مسلمان ممالک کے ذریعے اس ملک میں اسلام داخل ہوا اور بعد ازاں یہاں مسلمانوں کی حکومت تشکیل پائی۔ بیسویں صدی کا سورج اس ملک پر برطانوی تسلط کا پیغام لے کر طلوع ہوا، 1960ء تک نائیجریا برطانیہ کی غلامی میں ایک نوآبادی بن کر رہا، اس دور میں عیسائیت کو  نائیجیریا میں خوب پھیلایا گیا، تعلیمی اداروں میں بائبل اور عیسائیت کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا اور مشرقی علاقوں کے قبائل نے اسی عہد میں عیسائیت اختیار کی۔

نائجیریا میں اسلام عیسائیت کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے، شروع سے ہی تبلیغِ دین میں عیسائیت کو براہِ راست مسلمانوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، مسلمان آبادی کے لحاظ سے آج بھی وہاں ایک بڑی اکثریت  ہیں، 1960ء عیسوی میں نائجیریا کی آزادی ایک عیسائی جنرل برونسی کے خونی انقلاب کی بھینٹ چڑھ گئی، اسلامی لیڈر شپ کا قتلِ عام کیا گیا، اس قتلِ عام سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مزید نفرتیں پیدا ہوئیں۔ بعد ازاں عیسائیوں اور مسلمانوں کی نسبتاً مخلوط حکومت وجود میں آگئی، 1967ء میں ایک عیسائی فوجی کرنل اجوکو نے مرکزی حکومت سے بغاوت کرکے مشرقی نائجیریا میں بیافرا کے نام سے نئی حکومت بنا لی، پٹرول سے مالا مال یہ منطقہ  چونکہ عیسائی آبادی پر مشتمل تھا، چنانچہ مغربی حکومتوں نے اس کا خیر مقدم کیا، کرنل اجوکو کی بغاوت کو مرکزی حکومت نے جلد ہی کچل دیا، البتہ اس کچلنے میں 10 لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اس عیسائی کرنل کی بغاوت کے صرف  چند سالوں کے بعد یعنی 1970ء کے عشرے میں عالمی عیسائیت کے ادارے نے برّاعظم افریقہ کو ایک عیسائی برِّ اعظم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا، ڈالروں کی بارش کی گئی اور عیسائی مبلغین کی ایک بڑی کھیپ مختلف شکلوں میں مغرب اور امریکہ سے برِّ اعظم افریقہ میں داخل ہوئی۔

ٹھیک اسی عشرے میں یعنی 1978ء کو نائجیریا میں انجمن اسلامی سورہ نائجیریا کا سیکرٹری جنرل شیخ ابراہیم زکزاکی کو منتخب کیا گیا۔ شیخ ابراہیم زکزاکی مالکی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، وہ 1980ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر ایران آئے، ایران میں ان کی ملاقات دوسری مرتبہ امام خمینیؒ سے ہوئی، اس سے پہلے وہ پیرس میں بھی امام ؒ سے ملاقات کرچکے تھے، اس دوسری ملاقات سے ان کی زندگی اور افکار و نظریات میں بھی ایک انقلاب برپا ہوا، واپسی پر 80 کی دہائی میں ہی انہوں نے ایک اور تنظیم انجمن اسلامی کی بنیاد رکھی، انجمنِ اسلامی کی بنیاد کا مقصد مسلمانوں کو آپس میں متحد کرنا اور دشمنوں کی سازشوں سے آگاہ کرنا تھا۔ مسلمانوں کی وحدت اور دشمن شناسی کے پرچار کے باعث، عیسائیت، وہابیت اور صہیونیت کی مثلث ان کی  تاک میں لگ گئی۔ مسلمانوں میں بیداری اور وحدت کی تبلیغ، خصوصاً مسئلہ فلسطین پر آواز اٹھانے کے باعث نگلش، ہسپانوی، عربی، فارسی اور ہداسائی جیسی زبانوں پر مسلط اس مسلمان لیڈر کو اب تک  9 مرتبہ جیل میں ڈالا گیا ہے، آخری مرتبہ شیخ کو 1996ء میں گرفتار کرکے 1998ء میں رہا کیا گیا۔

لوگوں کو اسلام سے متنفر کرکے عیسائی بنانے کے لئے 2002ء میں بوکوحرام کی بنیاد ڈالی گئی۔ شیخ نے تمام تر مشکلات کے باوجود شعور و بیداری کا سفر جاری رکھا، وقت کے ساتھ ساتھ بوکو حرام جیسے ٹولے عوام النّاس میں متنفر ہوتے گئے اور شیخ کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ ”شیطانی مثلث” کے ایجنڈے کے مطابق بوکو حرام نے بچوں کو قتل کرکے، عورتوں کو اغوا کرکے اور بے گناہ انسانوں کا خون بہا کر اسلام کو بدنام کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا، وہ شیخ کی شخصیت کے باعث ناکام ہوگیا۔ لوگ بوکو حرام کے بجائے شیخ کو اسلام کا ماڈل سمجھنا شروع ہوگئے، لوگوں کی اکثریت نے بلاتفریق مذہب و مسلک شیخ کی آواز پر لبّیک کہنا شروع کر دیا، شیخ کی عوامی مقبولیت کے باعث اسلامی اتحاد کو بھی فروغ ملا اور یوم القدس کو بھی مسلمان مل کر منانے لگے۔ ہر سال یوم القدس کی شان و شوکت میں اضافہ ہونے لگا اور یوم القدس کے پروگراموں میں تمام اسلامی مسالک کے نمائندے بھرپور شرکت کرنے لگے۔

دوسری طرف “شیطانی مثلث” کے پالتو درندے ”بوکو حرام“ کے نام سے فقط درندگی تک محدود ہونے لگے اور شیخ زکزاکی حقیقی اسلام کی نمائندگی کرنے لگے۔ چنانچہ گذشتہ سال یوم القدس کے موقع پر شیخ کے تین بیٹوں سمیت تقریباً تیس سے زائد افراد کو شہید کیا گیا۔ 2014ء میں یوم القدس کے موقع پر ہونے والی شہادتوں کے ذریعے “شیطانی مثلث” نے عالمِ اسلام کی بے حسی اور بے خبری کا اندازہ لگایا اور اس سال شیخ کی بیداری اور شعور کی لہر کو کچلنے کے لئے بھرپور حملہ کیا۔ یہ دوسرا حملہ پہلے سے بھی زیادہ شدید تھا، شیخ کے باقی رہ جانے والے بیٹے اور بیوی سمیت ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو شہید کیا گیا، جبکہ شیخ کو زخمی حالت میں کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ بالکل وہی درندگی جو  نائجیریا میں بوکو حرام کے کارندے کرتے ہیں، ان کے آقاوں نے بھی کی۔ اب ان ظالم درندوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ  ظلم کی رات چاہے کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو سویرا ضرور ہوتا ہے۔

جب تک دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے کے لئے طالبان، داعش اور بوکو حرام جیسے گروہ بنائے جاتے رہیں گے، زکزاکی بھی جنم لیتے رہیں گے۔ دنیا کب تک دھوکہ کھائے گی، میڈیا کب تک خاموش رہے گا، انسانی حقوق کے ادارے کب تک بے حسی کا مظاہرہ کریں گے۔۔۔ بالاخر شہیدوں کا لہو رنگ لائے گا۔۔۔ ضرور رنگ لائے گا۔
کتاب سادہ رہے گی کب تک؟؟
کبھی تو آغاز باب ہوگا۔۔۔
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی،
کبھی تو انکا حساب ہوگا۔۔۔۔
سکون صحرا میں بسنے والو۔۔
ذرا رتوں کا مزاج سمجھو۔۔
جو آج کا دن سکوں سے گزرا۔۔
تو کل کا موسم خراب ہوگا۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ۔۔۔ کل کا موسم ظالموں کے لئے خراب ہوگا۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 507023
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

قمر
Pakistan
ماشاءاللہ۔ بہت معلوماتی تحریر ہے۔
ali balti
Pakistan
bhot khob.
Ahsan
United Kingdom
Very informative article
فدا حسین
India
ہر بار کی طرح یہ کالم بھی لا جواب ہے۔
Iran, Islamic Republic of
aafreen...shabaash bahoot aali
Iran, Islamic Republic of
جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، نہایت ہی عمدہ لکھا ہے۔
Iran, Islamic Republic of
ابھی شیخ نمر کے بارے آپ کی تحریر کا انتظار ہے، حافی بھائی
Iran, Islamic Republic of
یار کیا کہنے، بہت ہی کمال لکھا ہے۔ احسنتم
ہماری پیشکش