25
2
Wednesday 30 Nov 2016 14:22

انقلابی یمن میں وسیع البنیاد عبوری حکومت کا قیام

انقلابی یمن میں وسیع البنیاد عبوری حکومت کا قیام
تحریر: عرفان علی

یمن کے دارالحکومت صنعاء میں اعلٰی ترین سیاسی کاؤنسل کے صدر صالح الصماد نے پیر 28 نومبر 2016ء کی شب ایک بیالیس رکنی وسیع البنیاد حکومت کے قیام کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔ حرکت انصار اللہ اور اس کی اتحادی جنرل پیپلز کانگریس کی مشاورت سے تشکیل پانے والی اس نئی حکومت میں ایک وزیراعظم، تین نائب وزرائے اعظم، اکتیس وزراء اور سات وزرائے مملکت کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے۔ پچھلی عبوری حکومت کے ڈاکٹر عبدالعزیز صالح ال حبتور کو وزیراعظم کے عہدے پر برقرار رکھا گیا ہے۔ منگل 29 نومبر کو اس نئی حکومت کے اراکین نے حلف اٹھا لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس حکومت کے قیام کے بعد اعلٰی ترین سیاسی کاؤنسل کی ضرورت نہیں رہی۔ اس حکومت میں پورے یمن سے ان طبقات کو نمائندگی دی گئی ہے، جنہوں نے یمن پر سعودی اتحادی فوجی جارحیت و یلغار کی مذمت و مخالفت کی ہے۔ یہ عبوری حکومت نمائندہ عبوری حکومت کی تعریف پر پورا اترتی ہے۔ اس میں ٹیکنوکریٹس، پروفیشنل افراد بھی ہیں، خواتین کی بھی نمائندگی ہے جبکہ مختلف سیاسی و قبائلی گروہوں کی بھی نمائندگی ہے۔

اس عبوری حکومت میں حسین عبداللہ مقبولی، اکرم عبداللہ عطیہ، جلال علی ال رویشان کو نائب وزرائے اعظم بنا کر علی الترتیب اقتصادی امور، داخلہ امور اور امور برائے قیام امن یعنی سکیورٹی انہیں تفویض کئے گئے ہیں، لیکن ان محکموں کے لئے علیحدہ سے وزراء بھی مقرر کئے گئے ہیں۔ محمد ناصر العاطفی کو وزیر دفاع ، احمد عبداللہ عقبات کو وزیر انصاف بنایا گیا ہے، وہ جج کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ انجینیئر ھشام شرف عبداللہ وزیر خارجہ، میجر جنرل محمد عبداللہ القوسی وزیر داخلہ، صالح احمد شعبان وزیر خزانہ، عبدہ محمد بشر وزیر تجارت، داخلی انتظام یعنی لوکل گورنمنٹ کے لئے علی بن علی ال قیسی، طلال عبدالکریم عقلان وزیر برائے سول سروس و انشورنس، علیا فیصل عبد اللطیف الشعبی وزیر برائے حقوق انسانی، یاسر احمد العواضی وزیر برائے منصوبہ بندی و بین الاقوامی تعاون، زکریا یحیٰی الشامی وزیر ٹرانسپورٹ، فائقہ السید باعلوی وزیر سماجی امور و روزگار، احمد محمد حامد وزیر اطلاعات، یحیٰی بدرالدین ال حوثی وزیر تعلیم، حسین علی حازب وزیر برائے اعلٰی تعلیم و سائنسی ریسرچ، محسن علی ال نقیب وزیر ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ووکیشنل ٹریننگ مقرر کئے گئے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالرحمان احمد المختار وزیر قانون، حسن محمد زید وزیر برائے جوان و کھیل، محمد محمد ال زبیری، انجینیئر نبیل عبداللہ ال وزیر کو وزیر برائے پانی و ماحولیات، زیاب محسن بن معیلی وزیر تیل (پٹرولیم ) و معدنی ذخائر، انجینیئر لطف علی الجر موزی وزیر بجلی و توانائی، (جج ) اشرف علی ال قلیصی وزیر اوقاف و ارشاد (رہنمائی)، جلیدان محمود جلیدان وزیر مواصلات و انفارمیشن ٹیکنالوجی، غازی احمد محسن وزیر زراعت و آبپاشی، ناصر محفوظ باقز قوز وزیر سیاحت، ڈاکٹر محمد سالم بن حفیظ وزیر صحت عامہ اور آبادی، عبداللہ احمد الکبسی وزیر ثفاقت، ٖغالب عبداللہ مطلق وزیر برائے پبلک ورکس اور سڑکیں، محمد سعید المشجری کو وزیر برائے اوورسیز یمنی امور کی وزارت گئی ہے۔ وزرائے مملکت میں احمد صالح القنع کو وزیر مملکت برائے قومی مفاہمت و قومی مکالمے کے نتائج سے متعلق امور سونپے گئے ہیں۔ علی عبداللہ ابو حلیقہ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور و شوریٰ کاؤنسل، فارس محمد مناع نبیہ محسن ابو نشطان، رضیہ محمد عبداللہ، عبید سالم بن ضبیع، حمید عوض المزجاجی اور عبدالعزیز احمد البکیر کو بھی وزرائے مملکت مقرر کیا گیا ہے۔

ماضی میں بھی ہم انقلابیوں کی جانب سے عبوری حکومت کے قیام پر لکھ چکے ہیں کہ یمن کی دگرگوں صورتحال کی وجہ سے انتظامی امور چلانے کے لئے عبوری حکومت قائم کرنا ایک سیاسی مجبوری ہے۔ لہٰذا اقوام متحدہ سمیت پوری عالمی برادری کو یمن کے انقلابیوں کی نئی کوشش کو بھی اس کے درست تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حسب توقع یمن کی مستعفی و مفرور سابقہ حکومت کے کار پردازوں نے اس نئی وسیع البنیاد حکومت کی مخالفت کی ہے اور یہ فطری بھی ہے، کیونکہ مستعفی و مفرور سابقہ صدر عبد ربہ ہادی منصور سعودی عرب میں پناہ گزین ہیں اور سعودی بادشاہت کے اشاروں پر ہی عمل پیرا رہے ہیں۔ نئی حکومت کے حوالے سے انقلابیوں کا موقف منطقی ہے کہ یمن کے مسئلے کا قومی حل ڈھونڈنے میں مستعفی و مفرور سابقہ حکومت کے قائدین کی ہٹ دھرمی، اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے زرخرید نیابتی جنگ لڑنے والوں کی دہشت گردی مانع ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے یمن کے سیاسی حل کے بارے میں مذاکرات آج تک بے نتیجہ اس لئے ختم ہوتے رہے ہیں کہ عبد ربہ منصور ہادی کی قیادت میں یکجا فریق مخالف مائنس حوثی زیدی سیاسی سیٹ اپ کی شرط کی ضد پر قائم رہتے آئے ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ صنعا کا کنٹرول غیر مشروط طور پر ان کے حوالے کر دیا جائے۔

یہ بھی کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ اقوام متحدہ کا ردعمل بھی منفی ہے۔ یمن کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسماعیل اولد شیخ کا کہنا ہے کہ نئی عبوری حکومت کا قیام مذاکرات کی راہ میں نئی اور غیر ضروری رکاوٹ ہے، حالانکہ حوثی زیدی تحریک حرکت انصار اللہ کی جانب سے یقین دلایا جاچکا ہے کہ عبوری حکومت امن مذاکرات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ اقوام متحدہ پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کا غلبہ ہے۔ جب تک روس اور چین اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں کسی ایشو پر کھل کر اور مستقل مزاجی سے کوئی پوزیشن نہ لے لیں اور اس کے لئے انتہائی قدم یعنی حق استرداد (ویٹو پاور) کے استعمال تک کا آپشن استعمال کرنے کا اشارہ نہ دے دیں، تب تک امریکا اور اس کے اتحادی اقوام متحدہ کے فیصلہ ساز طاقتور ادارے پر اپنی مرضی مسلط کرتا رہتا ہے، ورنہ چین اور روس سے سفارتی مشاورت پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یمن کا معاملہ بھی تاحال ایسے ہی ہے کہ اس مسئلے پر روس اور چین کا موقف اتنا سخت نہیں ہے کہ جتنا ہونا چاہیے تھا۔ ایسا ہوتا تو کم از کم اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اس مسئلے کا اتفاق رائے سے کوئی ایسا حل ضرور نکل آتا، جو منطقی اور قابل قبول ہوتا۔

اقوام متحدہ کے نمائندے کی سب سے بڑی غلطی اور نالائقی یہ ہے کہ وہ اس مسئلے کی بنیاد کو فراموش کرکے تبصرہ کرتے ہیں، کیونکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد نے یمن پر جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ چین اور روس اقوام متحدہ کے فورم پر سعودی اتحادی افواج کی جارحیت کے خلاف عالمی برادری کو یکجا کرتے، لیکن اس کے برعکس یہ دونوں ممالک بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کئی معاملات پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے آئے ہیں، زبانی جمع خرچ سے یمن کی جنگ ختم ہونا ہوتی تو اب تک ہوچکی ہوتی۔ یمن میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ سعودی بادشاہت، اس کے بعض اتحادی ممالک اور ان کے زر خرید نیابتی جنگ لڑنے والے دہشت گردوں نے یمن کو لاشوں کے قبرستان اور زندگی کی علامت آبادیوں کو ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ سات ہزار سے دس ہزار یمنی شہید ہوچکے ہیں۔ غذائی قلت، تعلیم، صحت، روزگار سبھی کچھ تو یمن کے غیرت مندوں سے چھین لیا گیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ و دیگر سفارتکار سعودی عرب میں پناہ گزین مفرور مستعفی صدر اور دیگر افراد سے صلاح مشوروں کی آڑ میں مزید نئی سازشیں بنا رہے ہیں۔ امن مذاکرات فی الحال بے نتیجہ ہی ہیں۔ دنیا کا ضمیر جاگے یا نہ جاگے، امت اسلامی کو کھل کر خائن عرب حکمرانوں کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرنا چاہئے۔ اس کائنات میں آزادی و عدالت کے خدا کی بارگاہ میں مستضعفین کی فریادیں پہنچ رہی ہیں۔ سنت الٰہی یہی ہے کہ جو قوم اپنی حالت سدھارنے کے لئے کوشاں رہتی ہے، اس کے حالات بدل دیئے جاتے ہیں اور جہاں مستضعفین انصار اللہ کے جھنڈے تلے جمع ہوں، تو وہاں بھی حزب اللہ کی مانند معجزوں کی امید رکھنی چاہئے۔ یمن کی مظلومیت پر نوحہ کناں ضرور ہیں، لیکن یمن کی شام غریباں میں بھی مقاومت اسلامی کی استقامت کے چرچے یقیناً آسمانوں میں بھی ہوں گے۔ یمن کی آدھی سے زیادہ آبادی اور خاص طور پر دارالحکومت صنعا میں قائد مقاومت اسلامی یمن سید عبدالملک ال حوثی کی حرکت انصار اللہ کا کنٹرول یہ بتاتا ہے کہ
تیر تفنگ بمباران ھیچ اثر ندارند
از قدرت انصاراللہ سعودی ھا خبر ندارند
خبر کا کوڈ : 587677
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
جنہیں آپ یمن کے مستعفی اور مفرور حکمران کہہ رہے ہیں، وہ یمنی ہیں اور یمن کی سیاست میں حصہ لینا ان کا آئینی و پیدائشی حق ہے۔ انہیں دیوار کے ساتھ لگا کر کوئی منطقی حل نہیں نکالا جاسکتا۔
سعودی عرب اس سارے مسئلے میں ایک موثر فریق ہے، لہذا سارے حقائق کو سامنے رکھ کر غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنا چاہیے۔ لیکن میرے خیال میں یہ کہیں سے ترجمہ کر دیا گیا ہے اور نوک پلک سنوار کر لگا دیا گیا ہے۔
Pakistan
اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ مستعفی اور مفرور نہیں ہے. اور یہ کہاں لکھا ہے کہ انکے پیدائشی حق سے محروم رکھا جائے. ترجمےکی تھمت کا کوئی ثبوت؟؟ اس میں جانبداری کا ثبوت؟؟؟
Pakistan
سارے حقائق کی روشنی میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی آپ کو باجماعت آل سعود کے ساتھ محشور فرمائے اور اس موثر فریق کے ساتھ ساتھ مفرور و مستعفی صدر کی طرح کی اہمیت دنیا میں بھی دے۔ کہیں آمین
رضا
Japan
بالکل درست فرمایا کہ ان سابقہ حکمرانوں کے حقوق تو ہیں, لیکن کیا انہوں نے اپنی رعایا کو جائز حقوق دے رکھے تھے؟ اور دیوار سے تو انہوں نے لگایا ہوا تھا، کیا ایسا نہیں ہے؟
Pakistan
رضا بھائی۔آپ ان لوگوں سے نہیں جیت سکتے۔ یہ واقع بین نہیں بلکہ باتوں کے ٹورنامنٹ کے بلامقابلہ فاتح ہیں۔ کسی مدلل منطقی ٹھوس بات نہیں ملے گی۔ خوامخواہ کی کج بحثی سے کیا فائدہ۔
عنداللہ
Iran, Islamic Republic of
سلام جنرل راحیل کے بارے میں سنا ہے کہ وہ اتحادی فوج کے سربراہ کے لیے آمادہ ہیں اور سنا ہے ایران بھی ان کی ثالثی پر راضی ہے. آپ کیا کہتے ہیں۔
Pakistan
نذر بھائی خدا آپکو سلامت رکھے، یہ موضوع الگ سے پوچھا جاسکتا ہے، اس مقالے سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ آپ کا سوال مبہم ہے۔ آپ نے کس سے سنا ہے؟ اور فوجی اتحاد کا تعلق ایران سے نہیں سعودی عرب سے ہے۔ ثالثی کا فوجی اتحاد سے کیا تعلق ہےَ کس تنازعے پر ثالثی؟
Pakistan
Nazar Bhai jb bhi chahaen mujh se direct contact karsaktay haen. aapkay pass yaqeenan meri mail ID bhi hogi. aur koshish karengay tau number bhi aas pass mi,l jaega. umeeed hay kay meri baatoun ka kam az kam aap nay bura nahi manaya hoga
Iran, Islamic Republic of
یہ خود بہت بڑی تہمت ہے کہ امریکی وزیر خارجہ و دیگر سفارتکار سعودی عرب میں پناہ گزین مفرور مستعفی صدر اور دیگر افراد سے صلاح مشوروں کی آڑ میں مزید نئی سازشیں بنا رہے ہیں۔
تجزیہ کار کو اس طرح کی زنانہ سوچ سے بالاتر ہونا چاہیے۔
یہ عورتوں کی لڑائیاں ہیں کہ دوسروں پر کیچڑ اچھال کر انہی پر سارا الزام دھرتی ہیں۔ اس طرح کی غلط تحریروں اور زنانہ لکھنے والوں کی وجہ سے ہی ہمارے ہاں رائے عامہ ایک دوسرے کے خلاف ہی بنتی رہتی ہے۔
اگر تجزیے متناسب ہوں تو رائے عامہ بھی متوازن ہوگی، لیکن جب لکھنے والوں کا ہی ذہنی توازن متوازن نہ ہو تو عوام کو کیا کہا جائے۔
Pakistan
جی میرے بھائی کیا یہ لکھنا مناسب رہے گا مردوں کی طرح کہ امریکی سفارتکاروں نے عبد ربہ منصور ہادی کی امامت میں نماز باجماعت ادا کی، امت مسلمہ اور عرب دنیا کی مظلومیت پر پریشان سعودی عرب کی بادشاہی حکومت کی یمن پر بمباری کو ضروری قرار نہیں دیا۔ اور جو کچھ آپ کو خوش کرنے کے لئے کافی ہو، چونکہ مسلکی بنیادوں پر وہاں سفر میں بھی روزہ رکھنا جائز ہے تو عبد ربہ کے کہنے پر سفارتکاروں نے شکرانے کے طور پر نافلہ روزے بھی رکھے۔
Iran, Islamic Republic of
آپ نے ایسے لکھا ہے جیسے مستعفی ہونے کے بعد وہ یمن کے شہری ہی نہیں رہے اور اب انہیں لاتعلق ہو جانا چاہیے۔اس سے بڑی جانبداری اور کیا ہوگی۔
Pakistan
آپکی خوردبین نظر کی داد دینی پڑتی ہے کیونکہ میری نظر کمزور ہے، مجھے یہ الفاظ نظر نہیں آرہے جو آپ نے پڑھ لئے۔
Pakistan
La Talluq ka nahi likha balkeh aap tawajjoh se ye jumla doobara parhaen
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے یمن کے سیاسی حل کے بارے میں مذاکرات آج تک بے نتیجہ اس لئے ختم ہوتے رہے ہیں کہ عبد ربہ منصور ہادی کی قیادت میں یکجا فریق مخالف مائنس حوثی زیدی سیاسی سیٹ اپ کی شرط کی ضد پر قائم رہتے آئے ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ صنعا کا کنٹرول غیر مشروط طور پر ان کے حوالے کر دیا جائے۔
Pakistan
Kazmi sb aur bhi kuch kehna hay tau aik saans mae keh dalen take aik martaba he jawab day diya jaay. come to the topic please.
لفظ تجویز اور مشورے میں فرق ہوتا ہے، درستگی اس بات کی ہے۔ جی ایچ کیو کا چپڑاسی جاکر فہرست دے یا آفس سپرنٹنڈنٹ ڈاک بھیجے تو یہ تقرر نہیں ہوتا۔ برا نہ منائیں, قارئین کی رائے کا جواب مقالہ نگار دے تو بہتر ہے, مدعی سست گواہ چست نہ بنیں۔
Yahan kazmi sb ki raay se pata chal raha hay keh garh barh andar se he thhee. hahaha
Roozi
عمدہ تجزیہ ہے۔ مفرور عبد رب ہادی منصور اپنی قوم سے احمقانہ خیانت اور اس پر بیرونی جنگ مسلط کرانے کی وجہ سے یمنی عوام کے درمیان اخلاقی اور سیاسی حمایت کھو چکا ہے، اس کی اس خیانت کی وجہ سے اب اس کی حکومت کے دوبارہ قیام کو معاملہ ختم ہے۔ یمن کا عوامی مزاحمتی محاذ مسئلے کے حل کے لیے عبد ہادی منصور سمیت تمام گروہوں سے مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہے اور عملا ایسا کئی بار کرکے دکھایا بھی ہے۔
Romania
تجزیہ کار کو خواتین کی طرح کسی کو کوسنے دینے اور منفی القاب سے نوازنے کے بجائے دوطرفہ موقف بیان کرنا چاہیے، پھر اپنی تحلیل الگ سے کرکے قارئین کے سامنے رکھنی چاہیے۔
یہ تو ان پڑھوں والا طریقہ ہے کہ تجزیہ کار خود ایک ٹیم کا فریق بن کر اس کی وکالت بھی کرے اور دوسروں کو خائن اور غدار کے القاب سے بھی نوازے۔
Pakistan
??????
کس کو کس نے غدار و خائن لکھا. مالیخولیا کے مرض میں مبتلا افراد اپنا علاج کروائیں
Pakistan
یہ بات آغا رھبر اور شیعہ مراجعین و قائدین و علمائے کرام کو بھی بتائیں کہ آل سعود کو شجرہ خبیثہ انہوں نے کہا ہے، پہلے ان کو سکھائیں تحلیل ہوتی کیا ہے۔
آصف زیدی
Pakistan
اے نامعلم آدمی نام سعید کہہ دینے سے آدمی سعید نہیں ہوجاتا۔ پہلے اپنی اس رائے کا تو ثبوت دیتے جو جرنیلوں والی تحریر پر تم نے دیئے تھے تھے۔ تم نے لکھا تھا(((تحقیقی اداروں نے اس موضوع پر بہت سارے تحقیقی مقالے بھی لکھے ہیں۔ اہل قلم نے عام قاری کے لیے بھی کافی پڑھنے کا مواد مہیا کیا ہے۔ ))) ثبوت کہاں ہیں۔ وہاں سے منہ کی کھا کر یمن کے صدر کی طرح وہاں سے مفرور ہوئے اور یہاں کسی اور کے کالم پر آکر یہ حرکتیں کر رہے ہو۔ آصف زیدی
Iran, Islamic Republic of
ہمارے ہاں جس کی کوئی رائے نہیں ہوتی، وہی صاحب رائے بنا پھرتا ہے۔ آسان طریقہ یہی ہے کہ جیسی سائٹ دیکھو، ویسا صفحہ لکھو اور تحلیل گر کہلواو۔ آج نہیں تو کل تحلیل گر کا ٹھپہ لگ ہی جائے گا بلکہ چپک جائے گا۔
البتہ ٹھپے سے بہتر ہے کہ بندہ تھوڑا بہت اپنی سوچ سے بھی کام لے۔
سرفراز کاظمی
Pakistan
خدا آپ کو بھی آل سعود کی تحلیل سے متفق ہونے کا اجر عظیم عطا فرما کر آپ کو بھی انہی کے ساتھ محشور فرمائے۔
محمد عارف
Pakistan
سرفراز کاظمی صاحب ایران کا چینل اور اخبارات مولوی نہیں چلاتے۔ صداوسیما کا انچارج بھی مولوی نہیں ہوتا۔ دنیا میں یہ کام صحافی ہی کرتے ہیں۔ آپ ذرا بڑے ہوجائیں اور بچوں کی طرح کی لڑائی نہ کریں۔ مولوی بننے گئے ہیں وہی بنیں، باقی آپ کو سند جاری کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا کہ کون تحلیل گر ہے کون نہیں، کونسے ادارے کے سربراہ ہیں آپ۔ مال امام کو مال مفت کی طرح کھانے والے کھائیں اور بے فکری سے سوئیں، جیسا کہ روزانہ کرتے ہیں، یہ تحریریں ہڑھے لکھے باشعور لوگوں کے لئے ہوا کرتی ہیں، ضروری نہیں کہ آپ ایک چیز کے عالم ہوں تو سیاست کے بھی عالم ہوں۔ منتظری صاحب کی طرح کی حرکتیں نہ کریں۔
Arif
Pakistan
آپ کو اگر آل سعود سے محبت ہے تو ضروری نہیں کہ ہر کوئی آپ کی طرح بے ضمیر ہوجائے۔ لگتا ہے چندہ نہیں ملا اس مہینے کیونکہ جسکو شہریہ، خمس اور بیت المال سے حصہ کم ملتا ہے، وہی حکومت اسلامی کی مستضعفین دوست پالیسی کا مخالف بن جاتا ہے۔ مولا علی علیہ السلام کی یہ نصیحت کہ ظالم کی ہر صورت میں مخالفت کرو، مظلوم کی ہر صورت مدد کرو۔ یہ تحریر ہماری نظر میں اس کے عین مطابق ہے۔ لیکن تمہیں امام اور ان کے نائبین کے اقوال سے کیا سروکار۔ عمامہ سر پر رکھ لینے سے ہر کوئی عالم نہیں بن جاتا۔
K. Ali
Pakistan
Excellent analysis Irfan Sahab. keep up the good work
نوشاد
Pakistan
وسیع البنیاد حکومت کا قیام سعودی جارحیت کو بتدریج روکنے میں معاون ثابت ہوگا۔ ان شاء اللہ
ہماری پیشکش