0
Saturday 25 Nov 2017 16:54

مسلم دنیا اور صیہونی یلغار

مسلم دنیا اور صیہونی یلغار
تحریر: صابر ابو مریم

رواں سال جو تاریخ کے ایک اہم واقعہ یعنی اعلان بالفور کے سو سال مکمل ہونے کی یاد دلا رہا ہے، یہ اعلان بالفور 2 نومبر 1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور کی جانب سے صیہونزم کی خطرناک تحریک کی حمایت میں کیا گیا تھا، جس کے نتیجہ میں فلسطین پر ایک غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے ناسور کو وجود دیا گیا اور اس وجود کو دینے کی خاطر اس وقت بھی مظلوم انسانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا اور بعد میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا، جو آج ایک سو سال مکمل ہونے کے باوجود بھی جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مظلوم ترین فلسطینی قوم نے بالفور اعلان کے ایک سو سال مکمل ہونے پر فلسطین بھر میں شدید غم و سوگ کا اظہار کیا ہے، جبکہ فلسطینیوں کی حمایت میں دنیا بھر میں برطانوی حکومت کے سیاہ نامہ بالفور کی شدید مذمت میں کانفرنسز اور پروگرام منعقد ہو رہے ہیں۔ فلسطین پر صیہونیوں نے اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے ایک سو سال قبل بھی انسانیت کی دھجیاں بکھیرنے، دہشت گردی کی نت نئی مثالیں قائم کرنے میں کسی قسم کی کوئی کسر باقی نہ رکھی تھی اور نہ ہی آج تک رکھی ہے، بات صرف فلسطین تک محدود نہ رہنی تھی، جیسا کہ خود صیہونی دہشت گرد تحریک کے مقاصد میں واضح تھا اور آج بھی ہے کہ اس صیہونی تحریک کا مقصد فقط فلسطین پر قابض ہونا نہیں تھا بلکہ نیل سے فرات تک ایک عظیم تر اسرائیل نامی ریاست قائم ہونا تھی، جس کی سرحدوں کی وسعت خود صیہونیوں کے شائع کردہ نقشوں میں شام، لبنان، مصر، عراق و کویت سمیت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تک آپہنچتی ہیں۔

غاصب صیہونیوں نے 1948ء میں اپنا ایک مقصد یعنی فلسطینی زمین پر صیہونی تسلط تو حاصل کر لیا، لیکن باقی ماندہ مقصد میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکے، البتہ صیہونیوں نے اپنے منصوبوں کی شکل اور ھئیت کو وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ بدل لیا ہے، کیونکہ 1967ء میں صیہونیوں نے فلسطین سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے فلسطین کے پڑوس میں قائم مصر، شام، لبنان اور اردن کے چند علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا، پھر اسی طرح 1982ء میں لبنان پر مکمل طور پر قابض ہوگئے، اب بعید نہ تھا کہ دوسرا قدم شام کی طرف بڑھاتے اور پھر عراق کی طرف بڑھتے اور اسی طرح کویت وغیرہ سے گزرتے ہوئے براہ راست مدینہ منورہ پر قابض ہو جاتے، لیکن اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ آڑے آئی اور یہ رکاوٹ لبنان و فلسطین میں بسنے والے غیور جوان یعنی اسلامی مزاحمتی تحریکیں تھیں، جن میں جہاد اسلامی فلسطین، حماس، حزب اللہ، امل ملیشیا و دیگر سرفہرست ہیں، جنہوں نے 2000ء میں لبنان سے اسرائیلی غاصبانہ تسلط کا خاتمہ یقینی بنانے میں کردار ادا کیا تھا۔ صیہونیوں نے اپنی ناکام کوشش کو پورا کرنے کی خاطر ایک مرتبہ پھر 2006ء میں لبنان پر اور 2008ء میں غزہ پر جنگیں مسلط کر دیں، لیکن ماضی کی طرح یہاں بھی صیہونیوں کو شکست فاش ہوئی اور عظیم تر اسرائیل کی راہ میں اسلامی مزاحمت کی تحریکیں آڑے آگئیں۔ اب امریکی اور اسرائیلی قبضہ مافیا نے عظیم تر اسرائیل کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک نئی چال چلی اور کوشش کی کہ شام و عراق کو تین تین حصوں میں قومی و لسانی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرکے ماضی کے اپنی دیرینہ ناپاک خواب کو یقینی بنایا جائے، اس کام کے لئے اس مرتبہ براہ راست نہیں بلکہ بالواسطہ حملہ کیا گیا۔

پہلے 2011ء میں شام اور پھر 2014ء عراق اور 2016ء اور 2017ء میں لبنان کے علاقوں میں داعش اور النصرۃ (القاعدہ کا نیا نام) کو مسلح اور مالی مدد فراہم کرتے ہوئے کوشش کی گئی کہ پورے خطے کو صیہونیوں کی دسترس میں لے لیا جائے، لیکن آج تا دم تحریر آنے والی خبریں یہ بتا رہی ہیں کہ ان تمام محاذوں پر صیہونیوں اور ان کے سرپرست امریکہ کو مکمل شکست کا سامنا رہا۔ اگرچہ امریکہ داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے معاملے میں کہتا رہا کہ امریکہ ان کیخلاف کارروائی کرے گا اور ان کے خاتمہ کے لئے امریکہ نے حسب عادت افغانستان اور عراق کی طرح یہاں بھی ایک طویل مدتی منصوبہ پیش کیا، تاکہ امریکہ کو اس خطے میں فوجی رسائی یقینی ہو جائے اور صیہونیوں کی ہر ممکن مدد کی جائے، لیکن امریکہ کے تمام خواب آج چکنا چور ہوچکے ہیں کہ داعش او ر دیگر دہشت گرد گروہوں کے مکمل طور پر عراق اور شام سے خاتمہ کا اعلان 21 نومبر کو کر دیا گیا ہے اور دونوں ممالک میں بڑے پیمانے پر جشن کی تیاریاں عروج پر ہیں، جبکہ امریکی ایوانوں اور صیہونیوں کی صفوں میں ماتم اور سوگ ہے۔ جہاں ایک طرف شامی و عراقی افواج سمیت رضا کار فورسز اور لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ 2011ء سے 2017ء کے اس طویل عرصہ میں شام و عراق میں داعش اور النصرہ جیسی خونخوار اسلام دشمن دہشت گرد گروہوں کے ساتھ نبرد آزما رہی، وہاں ساتھ ساتھ عالمی سطح پر روسی اور ایرانی اتحاد کی شام و عراق کو سفارتی سطح پر ہر قسم کی مدد بھی حاصل رہی، جبکہ دوسری جانب اسرائیل کے ہمنوان بلاک میں کئی ایک عرب ممالک شامل رہے، جنہوں نے مالی اور اسلحہ کے اعتبار سے امریکی و صیہونی احکامات کی پیروی کی اور اس خطے میں جنگ کے شعلے بھڑکانے کے لئے خزانوں اور اسلحہ کے منہ دہشت گرد گروہوں کے لئے کھول دیئے، جس کی ایک واضح دلیل اور ثبوت حالیہ دنوں میں قطری شہزادے حمد بن جاسم کے ایک تازہ ترین انٹرویو میں ملتا ہے کہ جس میں انہوں نے سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں بشمول قطر کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کو عراق و شام میں دی جانے والی امداد کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

بہرحال خلاصہ اب یہ ہے کہ داعش ماضی کا ایک سیاہ باب بن کر رہ گئی ہے، اسرائیل اور صیہونیوں کے تمام ناپاک عزائم ایک مرتبہ پھر خاک میں ملا دیئے گئے ہیں، صیہونیوں کی ناک زمین پر رگڑ دی گئی ہے، امریکہ بہادر اس پورے معاملے میں شکست تسلیم کرچکا ہے، ایسے حالات میں ایک نئی صیہونی یلغار کا آغاز لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری کے استعفٰی کے معاملے سے شروع ہوا ہے، یہ لبنانی وزیراعظم کا استعفٰی ہے، جسے سعودی عرب میں پیش کیا گیا ہے، جس کے بعد صیہونیوں اور ان کے عرب ہمنواؤں کی بھرپور کوشش ہے کہ اب کسی طرح خطے میں بالخصوص شام و لبنان میں اس استعفٰی کے معاملے پر مسلمانوں سمیت دیگر اکائیوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا جائے اور ان ممالک کو استحکام کی طرف بڑھنے سے روکا جائے، کیونکہ صیہونی اب جان چکے ہیں کہ ان کے ناپاک منصوبوں کی تکمیل ہونا ناممکن ہوچکی ہے اور اس راہ میں فلسطین و لبنان صیہونیوں کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ فلسطینی حماس، لبنانی حزب اللہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عرب حکومتوں نے سعد حریری کے استعفٰی کے ڈرامے کے بعد حزب اللہ کو براہ راست نشانہ بنانا شروع کیا ہے، جبکہ حقیقت تو یہی ہے کہ ماضی کی تمام شکستوں کا بدلہ لینے کے لئے اسرائیل اور امریکہ سمیت عرب ممالک کی جانب سے بچھایا جانے والا داعش نامی جال دراصل اسلامی مزاحمت کی اصل تحریکوں بالخصوص حزب اللہ کو ختم کرنے یا اس کے اثر کو ختم کرنے کے لئے تھا، جس کے لئے صیہونیوں نے 2006ء میں 33 روزہ جنگ میں شکست کھائی تھی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلم دنیا کو ہوشیار رہتے ہوئے ایسے مسلم حکمرانوں سے کھلم کھلا بیزاری کا اعلان کرنا چاہئیے، جو دراصل اسلام کا لبادہ اوڑھ کر امریکہ اور اسرائیل کے صہیونی شیطانی منصوبوں کی پایہ تکمیل کا ایندھن بن رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 685761
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش