0
Sunday 11 Feb 2018 12:30

انقلاب اسلامی ایران، انتالیس برس(2)

انقلاب اسلامی ایران، انتالیس برس(2)
تحریر: ثاقب اکبر

کہاں فرعون صفت شاہ ایران اور کہاں ایک مرد درویش شب زندہ دار، عالم و فقیہ اور غریب پرور۔ شاہ ایران نے بعض ایسے کام کئے جن کی مثال شاید دنیا کے دیگر فرعونوں کے ہاں بھی نہ مل سکے۔ اس نے اپنے شہنشاہی نظام کے اڑھائی ہزار سالہ جشن منانے کا فیصلہ کیا۔ اسے بتایا گیا کہ اس وقت ایران کے شمسی کیلنڈر میں اڑھائی ہزار سال پورا ہونے میں ایک ہزار ایک سو اسی سال باقی ہیں۔ اس نے حکم دیا کہ کیلنڈر کو 1180برس پیچھے کر دیا جائے، تاکہ شاہ، ایران کے شاہی نظام کا اڑھائی ہزار سالہ جشن برپا کرسکے اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔ ایرانی کیلنڈر میں 1180 برس کا اضافہ کر دیا گیا۔ یہ وہی موقع تھا جس میں پاکستان کے رسوا ترین حکمران یحیٰی خان نے پاکستان کی ”نمائندگی“ کی۔ اس جشن کے بعد شاہ ایران دس برس مزید پورے نہ کرسکا اور ایرانی عوام نے ایک ایسا انقلاب برپا کیا کہ جس کے بعد کیلنڈر میں ایک اور تبدیلی آئی۔ ایران کی انقلابی حکومت نے کیلنڈر کو ہجری شمسی میں تبدیل کر دیا۔ گویا اب اس کیلنڈر کا مبداء ہجرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، البتہ اسے شمسی اعتبار سے شمار کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی طرح ہجری قمری کیلنڈر بھی جاری ہے۔ مذہبی تقریبات اور ایام کے لئے یہی کیلنڈر استعمال ہوتا ہے۔

امام خمینی ایران تشریف لائے تو تہران میں ان کی رہائش کے لئے مختلف تجاویز دی جانے لگیں، بعض نے کہا کہ شاہ ایران کے محلات میں سے کوئی ایک انتخاب کر لیا جائے۔ امام خمینی اسے ہرگز قبول نہ کر سکتے تھے۔ پھر اس کے بعد بڑے بڑے بنگلے تجویز کئے گئے۔ امام خمینی نے فرمایا کہ اگر تم نے میرے لئے کوئی سادہ سا گھر تلاش نہ کیا تو میں قم چلا جاﺅں گا اور وہاں درس و تدریس کا سلسلہ پھر سے شروع کر دوں گا، تم جانو اور تمھاری حکومت۔ اس ٹھوس اور واضح موقف کے بعد ایک امام بارگاہ کے ساتھ چھوٹا سا گھر تجویز کیا گیا، جس میں امام خمینی کے لئے مختصر سے دو کمرے تھے، ایک ملاقاتوں کے لئے اور دوسرا ان کی ذاتی ضروریات، عبادت اور آرام کے لئے۔ امام بارگاہ کو حسینیہ جماران کہتے ہیں۔ یہ گھر اب زیارت گاہِ عام و خاص ہوگیا ہے۔ چھوٹا سا کمرہ جس میں مختصر سے پرانے صوفے پڑے ہیں اور ایک سادہ سا قالین بچھا ہے، جو امام خمینی کی سادگی کی یاد دلاتا ہے۔ یہی وہ کمرہ ہے، جس میں دنیا کے بڑے بڑے حکمران آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق اسی کمرے میں امام خمینی سے ملاقات کے لئے پہنچے۔ اسی کمرے میں انہوں نے امام خمینی کی امامت میں نماز بھی ادا کی۔

دنیا بھر سے علماء، فضلاء، دانشور، سیاستدان اور دیگر شعبوں کے نمائندے اسی چھوٹے سے کمرے میں امام خمینی سے ملاقات کرتے تھے۔ امام بارگاہ اور کمرے میں رفت و آمد کے لئے ایک تو گھر کے دروازے سے نکل کر بڑا دروازہ ہے اور ایک دروازہ اس گھر سے متصل کرنے کے لئے بنایا گیا ہے، جو امام بارگاہ کی چھوٹی سی بالکونی میں جا نکلتا ہے، جس میں ایک کرسی ہمیشہ بچھی ہوتی تھی، جس پر بیٹھ کر امام خمینی خطاب کرتے تھے۔ جب ملاقات کے لئے زیادہ لوگ آتے تھے تو پھر یہی طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ جس کرسی پر امام خمینی بیٹھے ہوتے اس کے اوپر دیوار پر ایک قطعہ لگا تھا، جو عین امام خمینی کے سر کے اوپر دکھائی دیتا تھا۔ اس پر قرآن حکیم کی ایک آیت کا یہ حصہ بڑی خوبصورتی سے لکھا گیا تھا:"کَلِمَةُ اللّٰہِ ھِیَ العُلیَا"(التوبہ:۰۴)(اللہ ہی کا کلمہ سر بلند ہے) راقم نے کتنی ہی مرتبہ اسی مقام پر بیٹھ کر امام خمینی کا خطاب سنا ہے۔ امام خمینی جہاں بیٹھے ہوتے، اس کے بالکل دوسری جانب ایک بڑی بالکونی تھی۔ کچھ لوگ وہاں جا بیٹھتے اور زیادہ تر امام بارگاہ کے ہال میں بیٹھے ہوتے۔ امام خمینی داخل ہوتے تو عشق و وارفتگی کی عجیب کیفیت پیدا ہو جاتی۔
ما ہمہ سر باز تویم خمینی
کے نعرے گونج اٹھتے، تکبیر اور صلوٰة کے زمزمے گونجنے لگتے۔ امام خمینی معمولاً آنکھیں جھکائے ہوئے اور عوام کی طرف ہاتھ لہراتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنی کرسی کی طرف بڑھتے اور دیر تک لوگوں کی محبتوں کا نظارہ کرتے۔ مجھے نہیں بھولتا ایک مرتبہ اساتذہ کا ایک وفد ملاقات کے لئے آیا ہوا تھا۔ امام کے خطاب سے پہلے اس کے نمائندے نے خطاب کیا۔ اس کا ایک جملہ کچھ یوں تھا: ”اے بت شکن زمان! تو نے بہت بڑے بت کو توڑا ہے اور ابھی کلہاڑا تیرے کندھے پر ہے۔"

امام خمینی نے واقعاً بہت بڑے بت کو توڑا تھا، شہنشاہیت کا بت، جسے جبر و استبداد کی اڑھائی ہزار سالہ تاریخ کا وارث ہونے کا زعم تھا، وہ رسوا ہو کر ایران کی سرزمین چھوڑ گیا۔ اگلے روز ایران کے اخبارات کی شہ سرخی یہ تھی:”شاہ رفت“ اور جب امام خمینی 11 فروری کو تہران کی سرزمین پر اترے اور لوگوں نے عاشقانہ و والہانہ استقبال کیا تو اگلے روز ایرانی اخبارات کی شہ سرخی یوں تھی:”امام آمد“ ایئرپورٹ پر لوگوں کا عظیم اجتماع یہ ترانہ مل کر پڑھ رہا تھا:
خمینی ای امام، خمینی ای امام
خمینی ای امام، خمینی ای امام
ای مجاہد ای مظہر شرف
ای گذشتہ ز جان در ہِ ہدف
چون نجات انسان شعار تو
مرگ در راہِ حق افتخار تو
این توئی، این توئی پاسدار حق
خصم اہریمنان، دوستدار حق
بود شعار تو بہ راہِ حق قیام
ز ما تو را درود، ز ما تو را سلام
خمینی اے ہمارے امام، خمینی اے ہمارے امام

اے مجاہد اور اے شرف و عزت کے مظہر، اے وہ کہ جو اپنے مقصد کے راستے میں جان قربان کرنے والا ہے۔
آپ کا شعار اور نعرہ چونکہ انسان کی نجات ہے، اس لئے آپ کے نزدیک راہ حق میں جان دینا افتخار ہے۔
یہ آپ ہی ہیں جو حق کے پاسدار و پاسبان ہیں اور یہ آپ ہی ہیں، جو شیطانی قوتوں کے دشمن اور حق کے دوست دار و حامی ہیں۔
آپ کا شعار حق کے راستے میں قیام کرنا ہے، ہماری طرف سے آپ پر درود ہو اور ہماری سے آپ پر سلام ہو۔
عجیب ایمان افروز منظر تھا، جو آنکھوں کے راستے دل میں اتر گیا اور ابھی تک وہیں پر بسا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 703934
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش