0
Tuesday 13 Feb 2018 11:52

انقلاب اسلامی ایران، انتالیس برس(3)

انقلاب اسلامی ایران، انتالیس برس(3)
تحریر: ثاقب اکبر

فروری 1979ء میں جب ایران میں انقلاب اسلامی کامیاب ہوا تو اس سے پہلے اسرائیل ایک بڑی قوت کے طور پر سامنے آچکا تھا۔ وہ اپنے ارد گرد کی عرب حکومتوں کو کئی ایک جنگوں میں شکست فاش سے دوچار کرچکا تھا اور ان کی وسیع و عریض زمینوں پر اس کا قبضہ تھا۔ اردن کا ایک علاقہ ہی نہیں بلکہ بیت المقدس کا وہ حصہ بھی اس کے قبضے میں آچکا تھا، جو اردن کے پاس تھا۔ صحرائے سینا اور مصر کا وسیع و عریض علاقہ اس کے قبضے میں تھا۔ جنوبی لبنان کا بہت سا علاقہ اس کے فوجی قبضے میں جا چکا تھا۔ شام کی جولان ہائٹس پر اس کا قبضہ تھا۔ اس طرح اسرائیل ایک بڑی طاقت کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل کو ناقابل شکست قرار دے رہے تھے۔ شاہ ایران نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی ہی نہیں بلکہ ہمہ پہلو تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ اسرائیل کا ایک بڑا سفارتخانہ تہران میں موجود تھا۔ ایسے میں تہران میں نئی حکومت قائم ہوئی تو اس نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لئے۔ مشرق وسطٰی میں یہ ایک بہت بڑا واقعہ تھا، جو بعض لوگوں کی نظر میں ایک انہونی کی حیثیت رکھتا تھا۔ اسرائیل کے حوالے سے خطے میں یہ الٹی طرف ایک پہلا قدم تھا۔ اتنا ہی نہ ہوا بلکہ تہران میں اسرائیل کے سفارتخانے کی عمارت انقلابی حکومت نے فلسطین کی تنظیم الفتح کے حوالے کر دی اور یاسر عرفات نے آکر تہران میں فلسطینی سفارتخانے کا افتتاح کیا۔ اس واقعے نے یہ واضح کر دیا کہ تہران میں قائم ہونے والی نئی حکومت کا رخ کیا ہے اور وہ آنے والے دور میں کس طرح کے ارادے رکھتی ہے۔

امریکہ اور برطانیہ کے قائم کردہ ورلڈ آرڈر میں اسرائیل کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اسرائیل کی شکست یعنی امریکی برطانوی ورلڈ آرڈر کی شکست۔ اسرائیل کی قوت یعنی سرمایہ داری نظام کی قوت، اسرائیل کا خوف اور دبدبہ قائم کرکے خطے کے ممالک کے وسائل پر قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے مسلمانوں اور خاص طور پر مشرق وسطٰی کے ممالک کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لئے اسرائیل کے وجود کو ناگزیر سمجھ رکھا ہے۔ امام خمینی نے رمضان المبارک کے جمعة الوداع کو یوم القدس قرار دے کر پوری دنیا میں اسرائیل کی نابودی کے لئے عوامی قوت کو مجتمع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، جسے استعمار کی سرپرستی کے ذریعے سے دھونس اور دھاندلی کی قوت سے قائم کیا اور قائم رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تمام مسلمان ایک ایک بالٹی پانی کی اسرائیل پر پھینک دیں تو وہ ڈوب جائے۔ انہوں نے مسلمانوں کو اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کے تصور سے نکالا اور ایک نئے عزم سے سرشار کیا اور پھر وقت نے دیکھا کہ اقبال نے کہا تھا ”لڑا دو ممولے کو شہباز سے“ امام خمینی کے انقلاب نے یہ کر دکھایا۔

2006ء میں حزب اللہ کے چند ہزار رضا کاروں کے ہاتھوں اسرائیل کو ایسی شکست ہوئی کہ اس کے وزیراعظم اور آرمی چیف کو بھی اپنی شکست کا اعتراف کرنا پڑا۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ حزب اللہ جیسی چھوٹی سی مجاہدوں کی تنظیم لڑ کر اپنی سرزمین کو اسرائیل سے خالی کروا لے گی، لیکن ایسا ہی ہوا۔ جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجیوں کو پیچھے دھکیلا جا چکا ہے۔ الفتح کے سربراہ جو عمر بھر اسرائیل کے خلاف جنگ آزما رہے، انہیں بھی امریکہ نے یقین دلا دیا تھا کہ اب دو ریاستی حل کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اسرائیل کے وجود کو جائز تسلیم کرکے، اس کے ساتھ مل جل کر رہنے کا فیصلہ کریں اور وہ اس دھوکے میں آگئے۔ بعد میں جب انہیں اس کا احساس ہوا تو اسرائیل نے ان کی زندگی کا چراغ ہی گل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ آج فلسطینی ایک مرتبہ پھر اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہیں تو اس کے پیچھے انقلاب اسلامی کی قوت کارفرما ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے واشگاف اور ببانگ دہل اعلان کیا کہ حماس نے جو راکٹ اسرائیل پر فائر کئے ہیں، وہ اسے ایران نے فراہم کئے ہیں۔ عرب سرزمینوں پر موجود، پھیلتے ہوئے، طاقتور اسرائیل کو پَر سمیٹنے پر اسی انقلاب نے مجبور کیا اور آج وہ اپنے داخل میں دفاع پر مجبور ہے اور خود اپنے عوام کے گرد دفاع کے نام پر اونچی اونچی دیواریں کھڑی کرکے انہیں محصور کئے چلا جا رہا ہے۔ چند برس پہلے کی بات ہے کہ ایران کے سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے کہا تھا کہ امریکیوں نے ہمیں پیغام بھیجا کہ اگر آپ اسرائیل کے خلاف کچھ کرنا ترک کر دیں تو امریکہ کی آپ کے خلاف کوئی جنگ نہیں، ہم آپ سے صلح کر لیں گے، آپ کے ضبط شدہ اثاثے واپس کر دیں گے اور آپ پر عائد تمام تر پابندیاں اٹھا لیں گے۔ علی اکبر ولایتی نے کہا: کہ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ فلسطین کی حمایت کی ہم کتنی بڑی قیمت ادا کر رہے ہیں۔

انتالیس برس بعد ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ انقلاب کی قوت پسپائی کی حالت میں ہے یا پیشرفت کی حالت میں۔ ایک دن تھا جب عراق میں صدام حسین کی حکومت نے ایران پر یلغار کی تھی اور ایران کے بہت سے علاقوں میں عراقی افواج داخل ہوگئی تھیں۔ آج یہ عالم ہے کہ بغداد میں ایران کی حامی حکومت موجود ہے، جسے داخلی طور پر اپنے دشمنوں سے جنگ کے لئے ایران کی مدد درکار ہے اور ایران یہ مدد کھلے بندوں فراہم کر رہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ عراق میں داعش کو شکست سے دوچار کرنے میں ایران کا کتنا بڑا کردار ہے۔ وہ کون ہے جس نے عراق کی رضا کار فوج کو تربیت دے کر داعش کے خلاف کھڑا کر دیا اور پھر اسی رضا کار فورس جسے عراق کی سپاہ پاسداران کہنا چاہیے، نے داعش کے خلاف وہ معرکہ آرائی کی کہ دنیا مبہوت ہو کر رہ گئی۔ آج اسرائیل، امریکہ اور علاقے میں اس کے حواری عراق سے سب سے بڑا مطالبہ یہی کر رہے ہیں کہ وہ الحشد الشعبی یعنی عراق کی رضا کار فورس کو ختم کر دیں، لیکن عراقی حکومت جانتی ہے کہ یہی وہ فورس ہے، جو عراق کی سلامتی اور اقتدار اعلٰی کی ضمانت بن گئی ہے۔ ایران کا انقلاب اپنی سرحدوں سے نکل کر اسرائیل کی سرحدوں تک جا پہنچا ہے۔ لبنان جیسے چھوٹے سے ملک میں اس کا حال تو سب کو معلوم ہی ہے، لیکن اب اسرائیل واویلا کر رہا ہے کہ شام میں موجود ایرانی ڈرون نے اسرائیل کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہم اس کی حقیقت پر فی الحال تبصرہ نہیں کرتے، لیکن یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ گویا اسرائیل کہہ رہا ہے کہ اب شام اور اسرائیل کے مابین سرحدوں پر اسے ایران سے معرکہ درپیش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 704586
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش