3
0
Tuesday 3 Apr 2018 13:54

ایم ایم اے کا اتحاد، حقیقی یا سیاسی؟

ایم ایم اے کا اتحاد، حقیقی یا سیاسی؟
تحریر: محمد حسن جمالی

قرآن مجید نے متعدد مقامات پر امت مسلمہ کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے پر زور دیا ہے۔ دلیل عقلی اور نقلی کی روشنی میں اتحاد مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہ ایک قرآنی مفہوم ہے جس کی حدود و قيود مشخص ہیں، اسلامی اتحاد کے اپنے خاص معیارات اور شرائط ہیں، جس طرح دوسری عبادات اور معاملات کی قبولیت اور صحت ان کی شرائط کی تکمیل پر موقوف ہے ویسے ہی اتحاد مسلمین مثمر ثمر تب ہوگا جب مسلمان  مفہوم اتحاد کو پہلے سمجھیں، اس پر دل سے ایمان لے آئیں، اتحاد نظری اور عملی میں تقسیم ہوتا ہے، جب تک اتحاد نظری کا مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے عملی طور پر اتحاد کرنا ممکن نہیں، لہذٰا ضروری ہے کہ مسلمان پہلے مرحلے میں اتحاد نظری کے حوالے سے آپنے آپ کو مستحکم کرلیں، اس پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ کریں، پھر میدان عمل میں اس کا عملی مظاہرہ کریں۔
 
ہم اپنی اس مختصر تحریر میں پہلے مفہوم اتحاد  کے بارے میں موجود نمایاں احتمالات سمیت اس کے حقیقی معنی کی جانب اشارہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ آج اتحاد مسلمين کی راہ میں موجود اہم موانع میں سے چند ایک یہی احتمالات ہیں
پہلا احتمال: اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ مختلف مذاہب اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان اپنے اپنے مکتب اور مذہب کو خیر باد کرکے ایک خاص مکتب کی پیروی کرنے پر سب اتفاق کرلیں۔ 
دوسرا احتمال: اتحاد بین المسلمین یعنی سارے مسلمان اپنے اپنے مذہب کے فروعی مسائل سے دست بردار ہو جائیں اور مشترکہ اصولوں کی بنیاد پر ایک جدید مذہب ایجاد کرکے سب اس کی پیروی کرنا شروع کریں۔
تیسرا احتمال: اتحاد بین المسلمین سے مقصود یہ ہے کہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان اپنے اپنے مذہبی اصولوں کو چھوڑ کر ایک دوسرے سے شیر و شکر ہوکر الفت و محبت سے زندگی بسر کریں۔
چوتھا احتمال: اتحاد مسلمين کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کسی شخصیت، گروہ، حزب یا پارٹی کی چھتری کے نیچے سب جمع ہو جائیں۔
پانچواں احتمال: اتحاد مسلمين کے معنی یہ ہیں کہ  مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اپنے اپنے اعتقادات دوسروں پر ٹھونسیں اور دوسروں کو زبردستی اپنے مذہب کا پیرو بنائیں۔
چھٹا احتمال: مسلمان اپنے فرقے کے اصول اور فروع کے مطابق عمل کریں اور اتحاد مسلمين سے مقصود یہ ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے علماء اور قائدین اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے سر جوڑ کر بیٹھیں اور اتحاد کا شعار بلند کریں۔
 
مذکورہ احتمالات میں سے کوئی ایک بھی اسلامی اتحاد کا حقیقی مفہوم نہیں، بلکہ اتحاد اسلامی سے مراد یہ ہے کہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان اپنے اپنے مذہب اور فرقے کی تعلیمات پر ہی عمل کریں، فقط تمام مسلمانوں کی عمومی  مصلحت اور مفاد عامہ کی خاطر مشترک اصولوں کو وحدت کی بنیاد قرار دیں اور فروعی اختلافی مسائل کو ہوا دینے کی بجائے انہیں اپنی حد تک محدود رکھیں، فروعی اختلافات کے سبب اصول مشترکہ کے پہلو کو نظر انداز نہ کریں، اختلافی مسائل کے باعث ایک دوسرے کا دشمن بننے کی بجائے مشترکات کی چھتری تلے جمع ہوکر ایک دوسرے سے پیار و محبت سے رہیں، مسلمان ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہو جائیں، ایک دوسرے کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھیں اور مشترکہ دشمن کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے ہمیشہ یک جان مختلف قالب بن کر رہیں، ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین نہ کریں، ایک دوسرے لئے باعث اذیت و آزار نہ بنیں اور متفقہ طور پر اسلام اور مسلمانوں کی اہانت اور بے احترامی کرنے والوں کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہیں۔

یہ ہے اس اتحاد کا حقیقی مفہوم جس پر قرآن مجید نے جابجا تاکید کی گئی ہے۔ عقل سلیم کا بھی یہ حکم ہے کہ مسلمانوں کا آپس کے کثیر مشترکات سے منہ موڑ کر محدود اختلافات کو پہاڑ بناکر ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنا ہرگز مناسب نہیں، تفرقے کا نتیجہ مسلمانوں کی نابودی، محرومی اور زوال کے سوا کچھ نہیں، جسکی مثال آج واضح طور پر ہم اسلامی ممالک جیسے فلسطین، کشمیر، پاکستان  افغانستان، عراق وغیرہ میں دیکھ رہے ہیں۔ اسلامی اتحاد کا حقیقی مفہوم واضح ہونے کے بعد متحدہ مجلس عمل کی پلیٹ فارم پر جمع ہوکر مختلف مکاتب فکر کے جید علماء کرام نے جس اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اس کے حقیقی یا سیاسی ہونے کے حوالے سے فیصلہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔ غور کرنے والوں کے لئے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اس اتحاد میں حقیقی اتحاد کی بجائے سیاسی اتحاد کا رنگ گہرا اور غالب نظر آتا ہے، چونکہ پہلے اشارہ ہوا کہ نقطہ اتحاد یہ ہے کہ مسلمان مشترکات پر زور دے کر اختلافات کو اپنے اپنے حلقہ کی حد تک محدود رکھیں اور مفاد عامہ مسلمین کی ہر صورت میں حفاظت کریں۔ متحدہ مجلس عمل میں اس چیز کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔

اس پلیٹ فارم پر اتحاد کرنے والے نہ مشترکات پر زور دینے کے لئے کسی لائحہ عمل پر عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور نہ ہی وہ اختلافی مسائل کو کم رنگ دکھانے کی راہ پر گامزن دکھائی دیتے ہیں، بلکہ اس میں ایسے ایسے چہرے بھی شامل ہیں جو مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں، پاکستانی معاشرے میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے میں جن کا سب سے زیادہ کردار ہے، جنہوں نے مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگا کر مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، وہ ایسے مدارس کی سرپرستی کررہے ہیں کہ جن میں طالبان اور داعش کی تربیت کی جاتی ہے، جن کے مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والوں نے پورے پاکستان میں شدت پسندی کو پروان چڑھانے کے لئے کردار ادا کیا اور کررہے ہیں۔ دوسرا مؤيد یہ ہے کہ علماء کرام نے الیکشن کے بالکل نزدیک ہی اس اتحاد کی ضرورت محسوس کی ہے، اس سے پہلے اس ضرورت کا احساس کیوں نہیں کیا؟ منطقی اصول کے مطابق جب مسلمانوں پر کڑا وقت آتا ہے، مسلمانوں کی ناموس جان اور مال خطرے میں پڑ جاتے ہیں تو مسلمانوں کو سب سے زیادہ اتحاد کا عملی مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کی سرزمین پر دہشتگردی کے واقعات میں جب لاتعداد مسلمان شہید ہوئے تو علماء نے اس اتحاد کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی، معلوم یہ ہوتا ہے کہ علماء کرام کا اتحاد موسمی اور سیاسی ہے، سیاسی مفادات کے حصول کے لئے وہ سرجوڑ کر بیٹھے ہیں جس کا ملت پاکستان کو کوئی ثمرہ ملنے والا نہیں۔
خبر کا کوڈ : 715214
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
جمالی صاحب کاش کچه سوچ سمجه کر بهی تحریر کر دیتے، ایسی بیهوده بات کرنے کا کیا فائده!!!
Iran, Islamic Republic of
جمالی صاحب کی تحریر عمده اور حقائق پر مبنی هے. صحیح سوچ هے، جو ایسی غیر جانبدار اور مفید تحریر کو بیهوده کهے اسکی بی عقلی اور مفاد پرستی پر افسوس هی کیا جا سکتا هے۔
شفقت عباس
اگر جاہل خاموش رہیں اور عالم بات کرنے لگیں تو اختلاف وجود میں ہی نہیں آئے گا مگر یہاں تو سب کے سب خود کو عالم سمجھتے ہیں۔
کہیں پہ کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کیلئے بیٹھا نہیں اور ادھر سے میڈیا والوں نے اور اعلی دماغ رکھنے والوں نے تبصرہ کرنا شروع شروع کر دیا اور عوام کے ذہنوں میں شبہات اور مغالطات توہمات ڈالنا شروع کر دیے, خدارا کچھ سوچو خدا کے ہاں جواب دینا ہے, اس فضول گوئی سے پرہیز کریں اور ایسے تبصرے کرنے کہ بجائے خود عملی میدان میں آئیں تو اچھا رہے گا۔
ہماری پیشکش