8
0
Sunday 8 Apr 2018 02:58

میدان سیاست، دنگل اور ہمارا کردار

میدان سیاست، دنگل اور ہمارا کردار
تحریر: ارشاد حسین ناصر

اس وقت جب ملک میں ایک ایسی حکومت چل رہی ہے، جس کی قیادت نے کرپشن و لوٹ مار کے ان گنت الزامات اور جھوٹ و کذب بیانی کے سہارے دولت و ثروت کے ایسے مینار کھڑے کئے ہیں، جن کے بارے سمجھ لیا گیا تھا کہ انہیں کبھی کوئی گرا نہیں سکے گا اور وہ اس دولت کے سہارے ہمیشہ لوگوں کو اپنے در پہ جھکائے رکھیں گے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو۔ وہ کیوں ایسا نہ سوچتے، اتنی دولت کے بعد ان کا ایسا سوچنا یقیناً ان کے اعتماد کا شاخصانہ کہا جا سکتا ہے اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ ماضی میں ان کے سامنے کبھی کوئی ٹھہر نہیں سکا، وہ گذشتہ پینتیس برس سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے لوگوں کے سیاہ و سفید کے مالک چلے آرہے تھے اور عدلیہ تو ان کے گھر کی لونڈی ہی رہی ہے، عدلیہ نے ہی انہیں ہمیشہ آسمان پہ بٹھایا اور ان کے مخالفین کو کبھی سانس نا لینے دی۔ اب عدلیہ ہی ان کا کریا کرم کرنے میں مشغول دکھائی دیتی ہے اور وہ چیختے چنگھاڑتے ہیں کہ یہ کالا قانون ہے، یہ ظلم ہے، ہم اس قانون اور فیصلے کو نہیں مانتے، ہم عوم کی عدالت میں جائیں گے، یہ (عدلیہ) کون ہوتے ہیں بیس کروڑ عوام کے منتخب کو نااہل کرنے والے۔ بہرحال یہ بہت ہی دلچسپ اور عجیب صورتحال ہے کہ جو جو کام بلکہ جو جو گڑھا ان لوگوں نے دوسروں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے کھودا، آج ان میں باری باری گرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ آج جو کچھ میاں صاحب کیساتھ ہو رہا ہے، سب ان کا اپنا کیا دھرا ہے، اپنے پائوں پہ خود کلہاڑی ماری ہے، جو بویا تھا اسی کو کاٹ رہے ہیں، مگر اب ان کی چیخیں میر حاصل بزنجو، مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کے علاوہ کوئی نہیں سن رہا، ابھی تو حکومت چل رہی ہے، جب نگران سیٹ اپ آجائے گا تو اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ مولانا فضل الرحمن کہاں ہیں، محمود خان کدھر ہیں اور بزنجو صاحب کا منہ کس طرف ہے۔۔۔؟

ملکی سیاسی صورتحال پہ گہری نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ اگلے انتخابات کتنے اہم ہیں اور مستقبل کا پاکستان کس طرح کا ہوگا، کون اس میں فٹ اور کون ان فٹ ہوگا۔ مسلم لیگ نون اگرچہ ملک کے بڑے شہروں میں جلسوں کے ذریعے پوری کوشش کر رہی ہے کہ اپنی ساکھ عوام میں قائم رکھے اور ان کے جلسوں کا حجم بھی کافی بہتر دکھائی دیتا ہے، مگر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جن قوتوں نے انہیں اقتدار سے پٹخ کر دے مارا ہے، وہ کیونکر انہیں مسند پیش کریں گی،؟ انتخابات کے بارے اکثر میرا یہ موقف رہا ہے کہ اس کا اپنا ہی ماحول ہوتا ہے، اس میں سیاسی جماعتیں، گروہ اور پارٹیاں ایک ہی وقت میں ایک دوسرے کے بخئے بھی اکھاڑ رہے ہوتے ہیں اور ایک دووسرے سے تعاون اور جوڑ توڑ میں بھی مشغول ہوتے ہیں۔ اس وقت اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں انتخابی دنگل کیلئے تیاریاں عروج و زور پکڑ رہی ہیں، سیاسی جماعتیں اور پارٹیاں، شخصیات اور امیدواران ٹکٹس کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں، سب سے اہم پنجاب میں ٹکٹ کا حصول، وہ بھی نون لیگ کے مقابل پی ٹی آئی کے ٹکٹس کیلئے ایک ایک سیٹ سے تین تین چار چار امیدوار دیکھے جا رہے ہیں اور ہر امیدوار اپنا زور لگا رہا ہے، اپنی سفارش اور جماعت میں رابطے کو بروئے کار لا رہا ہے، سیاست کے عجیب رنگوں اور انتخابی سیاست کے منفرد ماحول میں یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ گذشتہ انتخابات میں پنجاب کے بہت سے حلقوں سے امیدوار نہیں ملے تھے، آج یہ صورتحال پاکستان پیپلز پارٹی کو در پیش ہے، جناب آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ وہ میاں صاحب کو پنجاب نہیں لینے دینگے، کیسے۔۔۔۔ جیسے سینیٹ میں اکثریت اور چیئرمین شپ نہیں لینے دی۔ ظاہر ہے یہ ایک کامیاب تجربہ ہے، جس کی مثال دی جاسکتی ہے۔ جیسا ہم نے کہا کہ جو جو طریقہ ماضی میں نواز شریف نے اپنے مخالفین کو زیر کرنے کیلئے اختیار کیا، آج انہی کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔

زرداری صاحب جنہیں مفاہمت کی سیاست اور لوگوں کو جوڑنے کا ہنر خوب آتا ہے، اگر پنجاب میں ایسے وقت میں جب بہت سے حلقوں میں انہیں امیدوار نہیں مل رہے، نواز شریف کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر زندہ ہو جائے گی۔ پنجاب میں ایک عرصہ سے اندرون خانہ پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک حلقہ یہ کوشش کرر ہا ہے کہ پنجاب میں پارٹی کی کمزور پوزیشن کے پیش نظر ایک صوبائی سطح کا اتحاد بنایا جائے، جو نواز مخالف جماعتوں پر مشتمل ہو اور اس کا تعلق دیگر صوبوں کی انتخابی سیاست سے الگ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ بعض احباب کیلئے یہ بات حیران کن ہو کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک صوبے میں اگر آپ ایک پارٹی کے مدمقابل ہیں تو دوسرے صوبے میں اس کے ساتھ کاندھا ملا کے کھڑے ہوں۔ تو عرض ہے کہ یہ کوئی عجوبہ نہیں، بلوچستان میں تو ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ تمام پارٹیاں مل کر حکومت بناتی ہیں، ایک دوسرے کیساتھ کاندھے ملا کر چلتے ہیں۔ یہ سیاست چونکہ مفادات کا کھیل ہے، لہذا پاکستان کے سیاسی جنگل میں کچھ بھی ممکن ہے۔ دیکھیں اب ایسا ممکن ہو پاتا ہے یا نہیں کہ پنجاب جو ملک کا ساٹھ فیصد سے بھی زائد ہے، میں ایک ایسا اتحاد سامنے آجائے جو ایک الگ نشان پر دنگل میں کودے اور اپنے پارٹی پرچم کو ایک طرف رکھ دیں،؟ اگر ایسا ہوگیا تو یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی، انتخابی ماحول کو یکسر بدلنے کی۔ باخبر حلقے ایسی خواہشات کی تصدیق کرتے ہیں، مگر ایسا ہونے جا رہا ہے، فی الحال ایسا کچھ نہیں۔ ایک ایسی جماعت جو امیدواران کی چار چار درخواستیں رکھتی ہے، اس کیلئے ایک انتخابی اتحاد قائم کرکے اپنے لوگوں کو ناراض کرکے دوسری جماعتوں کے امیدواران کے حق میں بٹھانا واقعی کڑا فیصلہ ہے، جس کی توقع بہت کم ہے۔ شہرت و مقبولیت کی بلندیوں پر کھڑی پاکستان تحریک انصاف ان انتخابات میں اپنے بام عروج پر ہے، اس کیساتھ ساتھ اس کا انتخابی مزاج و روش دیکھی جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ شائد پی ٹی آئی اس انتخاب میں کسی سے اتحاد نہ کرے بلکہ اپنے گھوڑے ہی میدان میں اتارے اور بعداز انتخاب سیاسی گٹھ جوڑ کے ذریعے ہی اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر حکومت سازی کے مراحل میں کود جائے۔

بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا راستہ روکنے کیلئے متحدہ مجلس عمل نامی ایک دینی جماعتوں کا اتحاد بھی وجود میں آچکا ہے، میں تو اس سے اختلاف رکھتا ہوں، اس لئے کہ متحدہ مجلس عمل کا پلیٹ فارم اس سے پہلے بھی موجود تھا، جس نے صوبہ سرحد میں حکومت بھی کی اور پانچ سال تک برسر اقتدار بھی رہا، یہ ایک چلا ہوا کارتوس ہے، جس پر اب لوگوں کو اعتماد نہیں رہا، نہ تو اس میں شامل شخصیات اس طرح عوامی پذیرائی رکھتی ہیں کہ ان سے کوئی خطرہ محسوس کیا جائے اور نہ ہی اس اتحاد میں شامل دو پارٹیوں کے سوا کسی کو انتخابی سیاست کا وسیع تجربہ اور ووٹرز کی ایسی حمایت حاصل ہے کہ انہیں گھروں سے باہر نکال سکے۔ مولانا فضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی کے پی کے اور بلوچستان کے کچھ حلقوں میں میدان سجانے کی قوت و طاقت رکھتی ہیں، مگر پنجاب میں ایسا کچھ نہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور جماعت اسلامی سمیت اسلامی تحریک، جمعیت اہلحدیث اور جمعیت علمائے پاکستان نورانی کوئی موثر کردار ادا کرسکیں گی، اس وقت اگر ہم منظر نامہ پہ موجود دیگر دینی سیاسی قوتوں کو بھی دیکھیں، جو اس اتحاد کا حصہ نہیں تو ان کی قوت بہت سے حلقوں میں مجلس عمل والوں سے زیادہ دیکھی جا رہی ہے۔ گذشتہ چند مہینوں میں لاہور، پشاور، چکوال، لودھراں میں ہونے والے ضمنی الیکشنز کا جائزہ لیں تو ہمیں کچھ دکھائی دے گا، ہمیں وہ ٹرینڈ نظر آئے گا، جو ماضی کے انتخابات میں نہیں تھا، اس وقت واقعی ختم نبوت کا ایشو ایک الائو ہے، جو لاوے کی طرح پھٹ کر بہت سوں کو بہا کر لے جا سکتا ہے، لہذا اس ایشو کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

معلوم نہیں علامہ ساجد نقوی نے شیعہ قوم کے کروڑوں ووٹرز کو اپنے کھاتے میں کیسے ڈال لیا اور ان کا وزن مولانا فضل الرحمان نے (متحدہ مجلس عمل کی صدارت سنبھالنے کیساتھ) اپنی پہلی پریس کانفرنس میں ہی نااہل نواز شریف کے پلڑے میں کیوں ڈال دیا۔ اسی طرح اہلسنت بریلویوں کی کسی دور کی واحد قومی جماعت جس کے اس وقت بھی کم از کم چار گروپ میدان میں موجود ہیں، کے قائدین نے اہل سنت بریلویوں کے ووٹ بنک کو اپنے کھاتے میں ڈال لیا ہے، جبکہ اہل سنت بریلویوں کی اس وقت قیادت تحریک لبیک نامی جماعت بھی رکھنے کی دعویدار کے طور پہ میدان سیاست میں موجود ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو اہلحدیث کی مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سینیٹر ساجد میر جو اپنی جماعت رکھنے کے باوجود ہمیشہ نون لیگ کے ٹکٹ ہولڈر بن کر ایوان اقتدار کے مزے لوٹنے کیلئے موجود ہوتے ہیں، ان کو کیسے تمام اہلحدیثوں کا نمائندہ سمجھا جا سکتا ہے، جبکہ ملی مسلم لیگ، احسان الہی ظہیر کے فرزندان اور دیگر چند ایک گروپ بھی اس مکتب فکر کی نمائندگی کے دعوے کیساتھ میدان میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ خود دیوبندیوں کی نمائندگی کیلئے مولانا فضل الرحمان کے علاوہ مولانا سمیع الحق جنہیں طالبان کا باپ کہا جاتا ہے اور اب بھی وہ ایک موثر قوت کے طور پہ موجود ہیں، جبکہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ ایسا اتحاد بنا کر اپنا وزن ان کے پلڑے میں ڈال چکے ہیں، جس نے انہیں سینیٹ انتخابات میں سپورٹ کیا اور ان کے مدرسے کو پہلی بار بجٹ میں فنڈز رکھ کر کروڑوں کی امداد دی، جس پر بہت تنقید بھی ہوئی، مگر نہ یہ امداد لینے والوں کو شرم آئی اور نہ ہی دینے والوں نے اس پہ شرمندگی محسوس کی کہ یہ کسی بھی طور جواز نہ رکھتے تھے۔ اس سب کا مقصد کسی کی توہین یا تنقیص نہیں، بس ایک صورتحال کا سرسری تذکرہ کیا ہے، اس ایشو پر بہت کچھ کہا جا رہا ہے، لکھا جا رہا ہے اور لکھا جائے گا، ہم بھی اس کو مزید کسی وقت کیلئے رکھ چھوڑتے ہیں۔ حرف آخر کے طور پہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آنے والے الیکشن میں ملک کے مستقبل پہ گہرے اثرات مرتب کریں گے، جن میں ہمیں اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کرنا ہوگا، ہمیں سیاسی و سماجی حلقوں اور دینی و سیاسی جماعتوں کو یہ ضرور باور کرانا ہوگا کہ ہم ایک قوت ہیں اور ہماری قوت و طاقت کسی سے کم نہیں، ہم اپنے مسائل و مشکلات کو، اپنے مطالبات اور ڈیمانڈز کو ان کے سامنے رکھ سکتے ہیں، ہم اپنے مقدسات کے تحفظ کی گارنٹی لے سکتے ہیں، ہم اپنے اسیران کے مسائل، اپنے شہداء کے خانوادوں کی تکلیفوں اور مکتب کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا قلعہ قمع کرسکتے ہیں، اگر ہم میدان میں ہونگے اور موثر انداز میں ہونگے تو کوئی ہمارے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈال سکے گا۔
خبر کا کوڈ : 716393
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

تم لوگ اپنی فکر کرو اور دیکهتے ہیں کہ کس بی داغ اور مضبوط جماعت سے اتحاد کرتے هو یا تنها الیکشن میں حصه لیکر حکومت بناتے ہو؟!!! تنقید برای تنقید سے بهتر تها کوئی راه حل دیا جاتا ورنه اس قسم کی سیاه نمائی کرنے اور اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنے کا کیا فائده؟!! ارشاد صاحب خدا را دوسروں کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت تباه مت کرو اور گذشته سے سبق حاصل کرو!!!
ع خاتون
United States
سلام۔ معذرت کے ساتھ بہت ہی عجیب سے رائے دی ہے محترم نے۔ اس رائے میں انہوں نے لکھاری کو کسی جماعت سے منسوب کر دیا ہے، جبکہ لکھاری شاید ایک آزاد شخص ہے، جس نے آزاد حیثیت سے یہ کالم لکھا ہے۔۔۔۔
رائے دینے والے محترم شخص کو پورے کالم کی ایک سے بھی کم لائن یعنی
۔۔۔معلوم نہیں علامہ ساجد نقوی نے شیعہ قوم کے کروڑوں ووٹرز کو اپنے کھاتے میں کیسے ڈال لیا ۔۔۔
ہی سمجھ آئی کہ اس پر رائے دی،، پورے کالم پر رائے دینی چاہیے،،، یقیناً رائے دینے والے محترم شاید ساجد نقوی صاحب سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہیں، جیسا کہ انہیں حق بھی ہے، جب ہی انہیں یہ آدھی لائن بھی ناگوار گزری۔
والسلام
ٹهیک سمجها محترمه ع خاتون صاحبه، علامه سید ساجد علی نقوی نه صرف ملت جعفریه پاکستان کے قائد ہیں بلکه نمائنده ولی فقیه بهی ہیں اور هر وه شخص جو نظریه ولایت سے متمسک ہے، قیادت سے محبت هی کرے گا اور آدهی لائن تو کیا ایک لفظ بهی قیادت کی پالیسی کے خلاف بے جا تنقید کا برداشت نہیں کرے گا۔
ارشاد صاحب قومی طلبه تنظیم آئی اس او کا جو تم لوگوں نے ستیاناس کیا تو یه کیا کافی نہیں تها که اب تم دوسروں کی خاطر پهر شیعه قیادت کے خلاف میدان میں کود پڑے ہو؟ اگر قیادت کی پالیسی پر تنقید نه کرو تو کیا تمهارا کهانا ہضم ہی نہیں ہوتا؟!!!!
قیادت کی پالیسیاں اگر هوں هی قابل تنقید تو کالم نگار کیا کرے جناب... تعمیری تنقید کا استقبال اور اسے برداشت کرنا چاهیے
تعمیری تنقید میں راه حل دیا جاتا ہے اور ایسی تنقید قابل احترام بهی ہوتی ہے جبکه تنقید برای تنقید اور تخریب میں نه صرف نام نهاد لکهاری کی شخصیت کا نقصان بلکه ملت میں انتشار اور بی احترام کا باعث بنتی ہے، جو پالیسی قیادت نے اپنائی بلا سوچے سمجهے آپ لوگوں نے تنقید ہی کی اور بعد میں خود تم لوگوں نے وہی کام غلط انداز میں انجام دیا، جیسے ملی یکجهتی کونسل کو شیعه قاتل اتحاد قرار دیا اور اب تمهارے ایک گروه کے شامل هونے کے بعد کونسل اتحاد امت کی علامت بن گئی!!!!
Pakistan
سلام برادران و خواہران؛
میرے شائع کردہ مضمون پہ تنقید کرنے والے احباب سے گذارش ہے کہ اپنے تعارف کیساتھ بات کریں، جس کی شخصیت سے میں آگاہ نہیں ہونگا اس کا جواب دینے کا پابند نہیں سمجھتا، جن مخلصین نے میری آرائ سے اتفاق کیا ہے، ان کا شکر گذار ہوں۔ میں ذاتی طور پر کسی تنظیمی عہدے پہ نا ہونے کی وجہ سے پابند نہیں، نہ ہی کسی پہ جان قربان کرنے کی فکر پر کاربند ہوں، ولی امر المسلمین کی عظمت و سیادت، رہبری و بصیرت کا دل سے معترف ہوں اور انہی کی تقلید پہ کاربند ہوں، علامہ ساجد نقوی صاحب سے بھی مجھے ذاتی عناد نہیں ہے، تھوڑا عرصہ پہلے ہی ان سے ۱۹۹۶ کے بعد ایک ملاقات کی تھی، الحمدللہ۔۔۔ ارشاد حسین ناصر
Pakistan
معذرت کہ اتنے دن میں غائب رہا، دراصل لاہور میں موجود نہیں تھا، ورنہ پہلے دن ہی جواب ضرور دیتا۔
ہماری پیشکش