0
Sunday 22 Apr 2018 21:22

زین العابدین (ع) عبادت گزاروں کی زینت

زین العابدین (ع) عبادت گزاروں کی زینت
تحریر: سیدہ ایمن نقوی

زھد و تقوٰی اور عبادت سمیت اگر کسی نے انسان کی تمام خوبیوں اور اعلٰی صفات و کمالات کو دیکھنا ہو تو جائے تو وہ امام سجاد علیہ السلام کی حیات پاکیزہ کا جائزہ لے، ہم جب خاندان عصمت و طہارت پر نظر ڈالتے ہیں تو سید الساجدین علیہ السلام کی شخصیت کو ہر لحاط سے کامل پاتے ہیں۔ اہلبیت کے گھرانے کا ھر فرد اپنے اپنے عہد کا بےمثال انسان ہے، ایسا انسان کہ انسانیت ان پر فخر کرتی ہے۔ جب ہم ان کے کردار و عملی زندگی کو دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ اسلام کی تمام تر تعلیمات ان میں اس طرح سے جلوہ افروز ہیں، کہ انسان فخر و مباہات کئے بنا نہیں رہ سکتا کہ خدارا شکر کہ تونے ہمیں ایسے امام عطا فرمائے۔ جب ہم امیرالمومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی ذات گرامی کو دیکھتے ہیں تو آپ کے کمالات و صفات کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، کہ آپ کا مقام اتنا بلند ہے کہ اس تک پہنچنا تو درکنار انسان اس کے بارے سوچ بھی نہیں سکتا، اس کی ایک وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ جو پیغمبر اسلام (ص) کی حفاظت کیلئے پاک و مطہر پیدا ہوا، جس نے تین دن آنکھیں نہیں کھولیں، تین دن میں تب کھولیں جب آپ کو رسول خدا کی آگوش مبارے میں دیا گیا، اسپر ایک اور شرف جو حاصل ہوا وہ یہ کہ  تربیت بھی خود رسالتمآب (ص) نے کی اور پھر ساری زندگی سرور کائنات کے نام وقف کردی ہو۔ بھلا اس عظیم انسان کی عظمت و رفعت کا کیسے انداز لگایا جاسکتا ہے۔ سایہ بن کر ساتھ چلنے والے علی علیہ السلام پیغمبر السلام (ص) کی ضرورت بن چکے تھے، گویا یک جان دو قالب ہوں۔ جب انسان علی علیہ السلام کو دیکھتا ہے تو ان کی سیرت طیبہ کے آئینہ میں حضور (ص) پرنور کی سیرت نظر آتی ہے، (اسی طرح آپ کی تمام اولاد میں ایک جیسی صفات ہیں۔ زمانہ ھزار رنگ بدلے علی علیہ السلام اور اولاد علی (ع) کبھی کسی دور میں نہیں بدل سکتی، کیونکہ یہ اللہ تعالٰی کی تقدیر کا اٹل فیصلہ ہیں، اور خدا کا ہر فیصلہ ھمیشہ قائم و دائم رہتا ہے، پس یہ سب کے سب ایک ہی نورسے خلق ہوئے ہیں، یہ سب کے سب محمد ہیں، یہ سب کے سب علی ہیں۔

ولادت باسعادت امام زین العابدین:
حضرت زین العابدین 15جمادی الثانی 38 ھ کو بروز جمعہ اور ایک دوسرے قول کیمطابق 15 جمادی الاول 38 ھ بروز جمعرات مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔1۔ علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ جب جناب شہربانو ایران سے مدینہ کے لئے روانہ ہورہی تھیں تو جناب رسالت مآب نے عالم خواب میں ان کا عقد حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ پڑھ دیا تھا۔2۔ اور جب آپ وارد مدینہ ہوئیں تو حضرت علی علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے سپرد کرکے فرمایا کہ یہ وہ عصمت پرور بی بی ہیں کہ جس کے بطن سے تمہارے بعد افضل اوصیاء اور افضل کائنات ہونے والا بچہ پیدا ہوگا، چنانچہ حضرت امام زین العابدین متولد ہوئے، لیکن افسوس یہ ہے کہ آپ اپنی ماں کی آغوش میں پرورش پانے کا لطف اٹھا نہ سکے "ماتت فی نفاسہا بہ" آپ کے پیدا ہوتے ہی "مدت نفاس" میں جناب شہر بانو کی وفات ہوگئی۔3۔ کامل مبرد میں ہے کہ جناب شہربانو، بادشاہ ایران یزدجرد بن شہریار بن شیرویہ بن پرویز بن ہرمز بن نوشیرواں عادل "کسری" کی بیٹی تھیں۔ علامہ طریحی تحریرفرماتے ہیں کہ حضرت علی نے شہربانو سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے، تو انہوں نے کہا، "شاہ جہاں" حضرت نے فرمایا نہیں اب "شہربانو" ہے۔
 
نام، کنیت، القاب:
 آپ کا اسم گرامی "علی" کنیت ابومحمد، ابوالحسن اور ابوالقاسم تھی، آپ کے القاب بےشمار تھے، جن میں زین العابدین، سیدالساجدین، ذوالثفنات، اور سجاد و عابد زیادہ مشہور ہیں۔

وجہ تسمیہ لقب زین العابدین:

علامہ شبلنجی کا بیان ہے کہ امام مالک کا کہنا ہے کہ آپ کو زین العابدین کثرت عبادت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ 7۔ علماء فریقین کا ارشاد ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک شب نماز تہجد میں مشغول تھے کہ شیطان اژدھے کی شکل میں آپ کے قریب آگیا اور اس نے آپ کے پائے مبارک کے انگوٹھے کو منہ میں لے کے کاٹنا شروع کیا، امام جو ہمہ تن مشغول عبادت تھے اور آپ کا دھیان کاملا بارگاہ ایزدی کی طرف تھا، وہ ذرا بھی اس کے اس عمل سے متاثر نہ ہوئے اور بدستور نماز میں مصروف رہے، بالآخر وہ عاجز آ گیا اور امام نے اپنی نماز بھی تمام کرلی، اس کے بعد آپ نے اس شیطان ملعون کو طمانچہ مار کر دور ہٹا دیا، اس وقت ہاتف غیبی نے انہیں زین العابدین کی تین بار صدا دی اور کہا، بے شک تم عبادت گزاروں کی زینت ہو، اسی وقت آپ کا یہ لقب ہوگیا۔ 8۔ علامہ ابن شہر آشوب لکھتے ہیں کہ اژدھے کے دس سر تھے اور اس کے دانت بہت تیز اور اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور وہ مصلی کے قریب سے زمین پھاڑ کے نکلا تھا۔ 10۔ ایک روایت میں اس کی وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ قیامت میں آپ کو اسی نام سے پکاراجائے گا۔ 11۔

لقب سجاد کی وجہ تسمیہ:

ذہبی نے طبقات الحفاظ میں بحوالہ امام محمد باقر علیہ السلام لکھا ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کو سجاد اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ تقریبا ہر کارخیر پر سجدہ فرمایا کرتے تھے، جب آپ خدا کی کسی نعمت کا ذکر کرتے تو سجدہ کرتے، جب کلام خدا کی آیت "سجدہ" پڑھتے تو سجدہ کرتے، جب دو اشخاص میں صلح کراتے تو سجدہ کرتے، اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ کے مواضع سجود پر اونٹ کے گھٹوں کی طرح گھٹے پڑ جاتے تھے اور پھر انہیں کٹوانا پڑتا تھا۔

 بلند نسبی امام زین العابدین علیہ السلام:
نسب اور نسل والدین کی طرف سے دیکھے جاتے ہیں، امام علیہ السلام کے والد ماجد حضرت امام حسین اور دادا حضرت علی اور دادی حضرت فاطمہ زہرا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، اور آپ کی والدہ جناب شہربانو بنت یزدجرد بن شہریار بن کسرٰی ہیں، یعنی آپ حضرت پیغمبر اسلام (ص) کے پوتے اور نوشیرواں عادل کے نواسے ہیں، یہ وہ بادشاہ ہے جس کے عہد میں پیدا ہونے پرسرور کائنات نے اظہار مسرت فرمایا ہے، اس سلسلہ نسب کے متعلق ابوالاسود دوئلی نے اپنے اشعار میں اس کی وضاحت کی ہے کہ اس سے بہتر اور سلسلہ ناممکن ہے اس کا ایک شعر یہ ہے۔
و ان غلاما بین کسرٰی و ہاشم
لاکرم من ینطت علیہ التمائم

اس فرزند سے بلند نسب کوئی اورنہیں ہو سکتا، جو نوشیرواں عادل اور فخرکائنات حضرت محمد مصطفٰی کے دادا ہاشم کی نسل سے ہو۔ شیخ سلیمان قندوزی اور دیگر علماء اہل اسلام لکھتے ہیں کہ نوشیرواں کے عدل کی برکت تو دیکھو کہ اسی کی نسل کو آل محمد کے نور کی حامل قرار دیا اور آئمہ طاہرین کے ایک عظیم فرد کو اس لڑکی سے پیدا کیا جو نوشیرواں کی طرف منسوب ہے، پھر تحریرکرتے ہیں کہ امام حسین کی تمام بیویوں میں سے یہ شرف صرف جناب شہربانو کو نصیب ہوا جو حضرت امام زین العابدین کی والدہ ماجدہ ہیں۔ 13۔ علامہ عبیداللہ بحوالہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ جناب شہربانو شاہان فارس کے آخری بادشاہ یزدجرد کی بیٹی تھیں اور آپ ہی سے امام زین العابدین علیہ السلام متولد ہوئے ہیں۔ جن کو"ابن الخیرتین" کہا جاتا ہے کیونکہ حضرت محمد مصطفٰی فرمایا کرتے تھے کہ خداوند عالم نے اپنے بندوں میں سے دو گروہ عرب اور عجم کو بہترین قرار دیا ہے اور میں نے عرب سے قریش اور عجم سے فارس کو منتخب کرلیا ہے، چونکہ عرب اور عجم کا اجتماع امام زین العابدین میں ہے اسی لئے آپ کو"ابن الخیرتین" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 15۔ ابن شہر آشوب لکھتے ہیں کہ جناب شہربانو کو "سیدة النساء" بھی کہا جاتا ہے۔ 

طفولیت میں حج بیت اللہ:
علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ ابراہیم بن اوہم کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ حج کے لئے جاتا ہوا قضائے حاجت کی خاطر قافلہ سے پیچھے رہ گیا ابھی تھوڑی ہی دیرگزری تھی کہ میں نے ایک نوعمر لڑکے کو اس جنگل میں سفرپیما دیکھا، اسے دیکھ کر پھر ایسی حالت میں کہ وہ پیدل چل رہا تھا اوراس کے ساتھ کوئی سامان نہ تھا اورنہ اس کا کوئی ساتھی تھا، میں بہت حیران ہوا، فورا اس کی خدمت میں حاضر ہو کرعرض کی، یہ لق و دق صحرا اور تم بالکل تنہا، یہ معاملہ کیا ہے، ذرا مجھے بتاؤ تو سہی کہ تمہارا زاد راہ اور تمہارا راحلہ کہاں ہے اور تم کہاں جارہے ہو؟ اس نوجوان نے جواب دیا "زادی تقوی وراحلتی رجلاء وقصدی مولای" میرا زاد راہ تقوٰی اور پرہیزگاری ہے، اور میری سواری میرے دونوں پیر ہیں، اور میرا مقصد میرا پالنے والا ہے، اور میں حج کے لے جا رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ تو بالکل کمسن ہیں، حج تو ابھی آپ پر واجب نہیں ہے، اس نوجوان نے جواب دیا، بے شک تمہارا کہنا درست ہے لیکن اے شیخ، میں دیکھا کرتا ہوں کہ مجھ سے چھوٹے بچے بھی مرجاتے ہیں، اس لئے حج کو ضروری سمجھتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ اس فریضہ کی ادائیگی سے پہلے مرجاؤں۔ میں نے پوچھا اے صاحبزادے، تم نے کھانے کا کیا انتظام کیا ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے ساتھ کھانے کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں ہے، اس نے جواب دیا اے شیخ، کیا جب تم کسی کے یہاں مہمان جاتے ہو تو کھانا اپنے ہمراہ لے جاتے ہو؟ میں نے کہا نہیں پھر اس نے فرمایا سنو میں تو خدا کا مہمان ہو کرجارہا ہوں، کھانے کا انتظام اس کے ذمہ ہے۔ میں نے کہا اتنے لمبے سفرکوپیدل کیوں کرطے کروگے، اس نے جواب دیا کہ میراکام کوشش کرنا ہے اور خدا کا کام منزل مقصود تک پہنچانا ہے۔

ہم ابھی باہمی گفتگو ہی میں مصروف تھے کہ ناگاہ ایک خوبصورت جوان سفید لباس پہنے ہوئے آ پہنچا اور اس نے اس نوجوان کو گلے سے لگا لیا، یہ دیکھ کر میں نے اس جوان رعنا سے دریافت کیا کہ یہ نوعمر فرزند کون ہے؟ اس نوجوان نے کہاکہ یہ حضرت امام زین العابدین بن امام حسین بن علی بن ابیطالب ہیں، یہ سن کر میں اس جوان رعنا کے پاس سے امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور معذرت خواہی کے بعد ان سے پوچھا کہ یہ خوبصورت جوان جنہوں نے آپ کو گلے سے لگایا یہ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ حضرت خضرنبی ہیں، ان کا فرض ہے کہ روزانہ ہماری زیارت کے لئے آیا کریں اس کے بعد میں نے پھرسوال کیا اورکہا کہ آخرآپ اس طویل اورعظیم سفرکو بلازاد اور راحلہ کیونکر طے کریں گے، تو آپ نے فرمایا کہ میں زاد راہ و راحلہ سب کچھ رکھتا ہوں اوروہ یہ چارچیزیں ہیں:
1۔ دنیا اپنی تمام موجودات سمیت خدا کی مملکت ہے۔
2۔  ساری مخلوق اللہ کے بندے اورغلام ہیں۔ 
3۔ اسباب اور رزق خدا کے ہاتھ میں ہے۔
4۔ قضائے خدا ہرزمین میں نافذ ہے۔ یہ سن کرمیں نے کہا خدا کی قسم آپ ہی کا زاد و راحلہ صحیح طور پر مقدس ہستیوں کا سامان سفر ہے۔ 16۔ علماء کا بیان ہے کہ آپ نے ساری عمر میں 25 حج پاپیادہ کئے ہیں آپ نے سواری پر جب بھی سفرکیا ہے اپنے جانور کو ایک کوڑا بھی نہیں مارا۔ امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ آپ کا رنگ گندم گوں (سانولا) اور قد میانہ تھا، آپ نحیف اور لاغر قسم کے انسان تھے۔ 18۔ ملا مبین تحریر فرماتے ہیں کہ آپ حسن و جمال، صورت و کمال میں نہایت ہی ممتاز تھے، آپ کے چہرہ مبارک پر جب کسی کی نظر پڑتی تھی تو وہ آپ کا احترام کرنے اور آپ کی تعظیم کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ 18۔ محمد بن طلحہ شافعی رقمطرازہیں کہ آپ صاف کپڑے پہنتے تھے اور جب راستہ چلتے تھے تو نہایت خشوع کے ساتھ راہ روی میں آپ کے ہاتھ زانو سے باہرنہیں جاتے تھے۔ 19۔

شان عبادت:
جس طرح آپ کی عبادت گزاری میں پیروی ناممکن ہے، اسی طرح آپ کی شان عبادت کی رقم طرازی بھی دشوار ہے۔ ایک وہ ہستی جس کا مطمع نظر معبود کی عبادت اور خالق کی معرفت میں استغراق کامل ہو اور جو اپنی حیات کا مقصد اطاعت خداوندی ہی کو سمجھتا ہو اور علم و معرفت میں حد درجہ کمال رکھتا ہو، اس کی شان عبادت کی سطح کو صفحہ قرطاس پر کیونکر لایا جا سکتا ہے، اور قلم کس طرح کامیابی حاصل کرسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء کی بے انتہا کاوش کے باوجود آپ کی شان عبادت جس طرح بیان ہونی چاہیئے تھی نہیں ہوسکی "قد بلغ من العبادة مالم یبلغہ احد" آپ عبادت کی اس منزل پر فائز تھے جس پر کوئی بھی فائز نہیں ہوا۔ 20۔ اس سلسلہ میں ارباب علم اور صاحبان قلم جو کچھ کہہ اور لکھ سکے ہیں ان میں سے بعض واقعات وحالات یہ ہیں:

حالت وضو میں:
وضو نماز کے لئے مقدمہ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اسی پر نماز کا دارومدار ہوتا ہے، امام زین العابدین علیہ السلام جس وقت مقدمہ نماز یعنی وضو کا ارادہ فرماتے تھے آپ کے رگ و پے میں خوف خدا کے اثرات نمایاں ہو جاتے تھے، علامہ محمد بن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جب آپ وضو کا قصد فرماتے تھے اور وضو کے لئے بیٹھتے تھے تو آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ زرد ہو جایا کرتا تھا، یہ حالت باربار دیکھنے کے بعد ان کے گھروالوں نے پوچھا کہ بوقت وضو آپ کے چہرہ کا رنگ زرد کیوں پڑجایا کرتا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ اس وقت میرا تصور کامل اپنے خالق و معبود کی طرف ہوتا ہے اس لئے اس کی جلالت کے رعب سے میرا یہ حال ہو جایا کرتا ہے۔ 21۔

عالم نماز میں:
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کو عبادت گزاری میں امتیاز کامل حاصل تھا رات بھر جاگنے کی وجہ سے آپ کا سارا بدن زرد رہا کرتا تھا اور خوف خدا میں روتے روتے آپ کی آنکھیں سوج جایا کرتی تھیں اور نماز میں کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں مبارک ورم کر جایا کرتے تھے۔ 22۔ اور پیشانی پر گھٹے رہا کرتے تھے اور آپ کی ناک کا سرا زخمی رہا کرتا تھا۔ 23۔ علامہ محمد بن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جب آپ نمازکے لئے مصلی پرکھڑے ہوا کرتے تھے، تو لرزہ بر اندام ہو جایا کرتے تھے لوگوں نے بدن میں کپکپی اور جسم میں تھرتھری کا سبب پوچھا تو ارشاد فرمایا کہ میں اس وقت خدا کی بارگاہ میں ہوتا ہوں اور اس کی جلالت مجھے ازخود رفتہ کردیتی ہے اور مجھ پرایسی حالت طاری کردیتی ہے۔ 24۔ ایک مرتبہ آپ کے گھر میں آگ لگ گئی اور آپ نماز میں مشغول تھے، اہل محلہ اور گھروالوں نے بیحد شور مچایا اور حضرت کو پکارا، حضور آگ لگی ہوئی ہے مگر آپ نے سرنیاز سجدہ سے نہ اٹھایا، آگ بجھا دی گئی، اختتام نماز پرلوگوں نے آپ سے پوچھا کہ حضور آگ کا معاملہ تھا، ہم نے اتنا شور مچایا لیکن آپ نے کوئی توجہ نہ فرمائی۔ آپ نے ارشاد فرمایا "ہاں" مگرجہنم کی آگ کے ڈرسے نماز توڑ کراس آگ کی طرف متوجہ نہ ہوسکا۔ 25۔ علامہ شیخ صبان مالکی لکھتے ہیں کہ جب آپ وضو کے لئے بیٹھتے تھے تب ہی سے کانپنے لگتے تھے اور جب تیز ہوا چلتی تھی تو آپ خوف خدا سے لاغر ہو جانے کی وجہ سے گرکر بے ہوش ہو جایا کرتے تھے۔ 26۔ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ حضرت زین العابدین علیہ السلام نمازشب سفر و حضر دونوں میں پڑھا کرتے تھے اور کبھی اسے قضا نہیں ہونے دیتے تھے۔ 27۔

 علامہ محمد باقر بحوالہ بحارالانوار تحریرفرماتے ہیں کہ امام علیہ السلام ایک دن نماز میں مصروف و مشغول تھے کہ امام محمد باقر علیہ السلام کنوئیں میں گر پڑے بچہ کے گہرے کنویں میں گرنے سے ان کی ماں بےچین ہوکر رونے لگیں اور کنویں کے گرد پیٹ پیٹ کر چکر لگانے لگیں اور کہنے لگیں،یابن رسول اللہ محمد باقر غرق ہوگئے، امام زین العابدین نے بچے کے کنویں میں گرنے کی کوئی پرواہ نہ کی اور اطمینان سے نماز تمام فرمائی، اس کے بعد آپ کنویں کے قریب آئے اور پانی کی طرف دیکھا پھر ہاتھ بڑھا کر بلارسی کے گہرے کنوئیں سے بچے کو نکال لیا، بچہ ہنستا ہوا برآمد ہوا، قدرت خداوندی دیکھئے اس وقت بہ بچے کے کپڑے بھیگے تھے اورنہ بدن تر تھا۔ امام شبلنجی تحریر فرماتے ہیں کہ طاؤس راوی کابیان ہے کہ میں نے ایک شب حجر اسود کے قریب جا کر دیکھا کہ امام زین العابدین بارگاہ خالق میں سجدہ ریز ہیں، میں اسی جگہ کھڑا ہوگیا میں نے دیکھا کہ آپ نے ایک سجدہ کو بیحد طول دیدیا ہے یہ دیکھ کر میں نے کان لگایا تو سنا کہ آپ سجدہ میں فرماتے ہیں، "عبدک بفنائک مسکینک بفنائک سائلک بفنائک فقیرک بفنائک" یہ سن کر میں نے بھی انہیں کلمات کے ذریعہ سے دعا مانگی فورا قبول ہوئی۔ 28۔ علماء کا بیان ہے کہ آپ شب و روز میں ایک ہزار رکعتیں ادا فرمایا کرتے تھے۔ 29۔ چونکہ آپ کے سجدوں کا کوئی شمار نہ تھا اسی لئے آپ کے اعضائے سجود "ثغنہ بعیر" کے گھٹے کی طرح ہو جایا کرتے تھے اور سال میں کئی مرتبہ کاٹے جاتے تھے۔ 30۔ علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ آپ کے مقامات سجود کے گھٹے سال میں دو بارکاٹے جاتے تھے اور ہر مرتبہ پانچ تہ نکلتی تھیں۔ 31۔ علامہ دمیری مورخ ابن عساکر کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ دمشق میں حضرت امام زین العابدین کے نام سے موسوم ایک مسجد ہے جسے"جامع دمشق" کہتے ہیں۔ 32۔

گریہ و دعاء امام (ع):
جس طرح آپ کے پدر بزرگوار حضرت حسین علیہ السلام کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا،اسی طرح آپ بھی مصیبتوں اور پریشانیوں کی وجہ سے وہ نہ کرسکے جو کرنا چاہتے تھے لیکن کچھ وقت امام جعفر صادق علیہ السلام کو میسر ہوا اور آپ نے بہت کم مدت میں علم و عمل کی ایک دنیا آباد کردی۔ آپ نے علوم آل محمد (ص) کو دنیا بھر میں پھیلایا۔ بہر کیف جو شخص اسلام کا سچا خدمت گزار ہو وہ تمام کلمات میں رضائے الہٰی کو مدنطر رکھتے ہوئے مشکلات اور سہولیات کو نہیں دیکھتا، بس کام کرتا جاتا ہے، یہاں تک کہ رب العزت کی طرف سے بلاوا آجاتا ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی عبادت کو دیکھ کر اور دعاؤں کو پڑھ کر ہمارا کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے، آپ کی دعا میں التجا بھی ہے اور دشمنوں کے خلاف احتجاج بھی۔ آپ کی دعا میں تبلیغ بھی ہے اور خوشخبری بھی۔ گویا برکتوں، رحمتوں کی ایک موسلا دھار بارش برس رہی ہے۔  بعض لوگوں کا زعم باطل ہے کہ چونکہ امام سجاد علیہ السلام نے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد تلوار کے ذریعہ جھاد نہ کیا اس لئے آپ نے دعاؤں پر اکتفاء کیا اور غموں کو دور کرنے کیلئے ہر وقت دعا مانگا کرتے تھے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے، آپ نے اپنے والد گرامی کو زندہ کرنے کیلئے اس کی یاد کو ہر وقت تازہ کئے رکھا۔ دنیا والوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کربلا کو کربلا بنایا ہی سید سجاد (ع) اور سیدہ زینب (س) نے ہے۔ آپ کا اپنے پیاروں کی یاد میں گریہ کرنا بھی جہاد تھا۔ آپ دنیا والوں کو بتانا چاہتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد کیا تھا۔ آپ نے اتنی تکلیفیں پریشانیاں برداشت کیوں کى؟ آپ پر ظلم کیوں ہوا اور کس نے کیا؟ یہ سب کچھ سید سجاد (ع) ہی نے بتایا ہے۔ امام سجاد علیہ السلام کی مصیبت کا باب سب آئمہ (ع) کے مصائب سے الگ اور انوکھا ہے۔ خدا جانے کتنا مشکل وقت ہوگا جب یزید ملعون مسند پر بیٹھ کر نشے سے مدہوش ہو کر امام مظلوم کے سر اقدس کی توہین کر کے اپنے مظالم کو فتح و کامیابی سے تعبیر کر رہا تھا۔ پھر کتنا کٹھن مرحلہ تھا وہ جب محذرات عصمت کی طرف اشارہ کرکے پوچھتا تھا کہ یہ بی بی کون ہے اور وہ بی بی کون؟ یہ جناب سید سجاد علیہ السلام ہی کا دل تھا جو نہ سہنے والے غم بھی بڑی بہادری سے سہتا رہا، یہ وہ غم تھے کہ پہاڑ بھی برداشت نہ کرسکتے تھے۔ پھر والد گرامی اور شہدائے کربلا کی شہادت کے بعد آپ نے جس انداز میں یزیدیت کا جنازہ نکالا اور اپنے عظیم بابا کا مقصد شہادت بیان کیا۔ آپ واقعہ کربلا کے بعد ہر وقت گریہ کرتے رہتے۔ اشکوں کا سیلاب تھا جو رکتا نہیں تھا۔ آپ فرماتے، اے راہ حق میں قربان ہو جانے والو! سجاد تمہاری بے نظیر قربانیوں اور بے مثال وفاؤں کو سلام پیش کرتا ھے۔ جب تک یہ دنیا باقی ہے غم شبیر سلامت رھے گا۔ ایک روز آپ کے ایک غلام نے پوچھ ہی لیا کہ آقا آخر کب تک روتے رھہں گے۔ اب تو صبر کیجیئے۔ اس نے خیال کیا کہ امام (ع) شاید اپنے عزیزوں کو یاد کر کے روتے رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا تو کیا کہتا ہے؟ حضرت یعقوب (ع) کا ایک بیٹا یوسف (ع) ان کی نظروں سے اوجھل ہوا تھا کہ قرآن مجید کے بقول: "وابیضت عیناہ من الحزن"  کہ روتے روتے ان کی آنکھیں سفید ھو گئی تھیں۔" میں نے اپنی آنکھوں سے اٹھارہ یوسف تڑپتے ہوئے دیکھے ہیں، میں کس طرح ان کو بھلا دوں۔

منابع و ماخذ:
1۔ (اعلام الوری ص ۱۵۱ ومناقب جلد ۴ ص ۱۳۱)۔
2۔ (جلاء العیون ص ۲۵۶)۔
3۔ (قمقام جلاء العیون)۔عیون اخباررضا دمعة ساکبة جلد ۱ ص ۴۲۶)۔
4۔ (ارشاد مفید ص ۳۹۱، فصل الخطاب)
5۔ (مجمع البحرین ص ۵۷۰)۔
6۔ (مطالب السؤل ص ۲۶۱ ،شواہدالنبوت ص ۱۷۶ ،نورالابصار ص ۱۲۶ ،الفرع النامی نواب صدیق حسن ص ۱۵۸)۔ 
7۔ (نورالابصار ص ۱۲۶)۔ 
8۔ (مطالب السؤل ص ۲۶۲، شواہدالنبوت ص ۱۷۷)۔
9۔ (مناقب، جلد ۴ ص ۱۰۸)۔
10۔ (دمعة ساکبة ص ۴۲۶)۔
11۔ (ارشاد مفید ص ۳۹۱، فصل الخطاب)۔
12۔ (اصول کافی ص ۲۵۵)۔
13۔(ینابیع المودة ص ۳۱۵، وفصل الخطاب ص ۲۶۱)۔ 
14۔ (مناقب، جلد ،۴ ص ۱۳۱)۔
15۔(ارجح المطالب ص ۴۳۴)۔
16۔ (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۴۳۷)
17۔(نورالابصار ص ۱۲۶، اخبارالاول ص ۱۰۹))۔
18۔ (وسیلة النجات ص ۲۱۹) ۔
19۔(مطالب السؤل ص ۲۲۶،۲۶۴)۔
20۔ (دمعہ ساکبہ ص ۴۳۹)۔
21۔(مطالب السؤل ص ۲۶۲)۔
22۔(اعلام الوری ص ۱۵۳)۔
23۔ (دمعہ ساکبہ ص ۴۳۹)۔ 
24۔ (مطالب السؤل ص ۲۲۶)۔
25۔ (شواہد النبوت ص،۱۷۷)۔
26۔ (اسعاف الراغبین برحاشیہ نورالابصار ۲۰۰)۔  
27۔ ۔(مطالب السؤل ص ۲۶۳)۔ 
28۔ (نورالابصار ص ۱۲۶ طبع مصر،ارشادمفیدص ۲۹۶)۔ 
29۔ (صواعق محرقہ ص ۱۱۹ ،مطالب السؤل ۲۶۷) ۔ 
30۔ (الفرع النامی ص ۱۵۸ ،دمعہ ساکبہ کشف الغمہ ص ۹۰)۔
31۔ (بحارالانوارجلد ۲ ص ۳)۔
32۔ (حیواة الحیوان جلد ۱ ص ۱۲۱)۔
خبر کا کوڈ : 719775
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش