0
Monday 23 Apr 2018 15:34

صحیفہ سجادیہ کے ذریعے طاغوتی نظام کا مقابلہ

صحیفہ سجادیہ کے ذریعے طاغوتی نظام کا مقابلہ
تحریر: سیدہ ایمن نقوی

اموی دور حکومت میں امام سجاد علیہ السلام اپنی زندگی میں شدید دباو کا شکار رہے کیونکہ ان کے دور میں اموی حکام شہروں پرمسلط ہو چکے تھے اور انہوں نے لوگوں پرسخت دباو ڈال رکھا تھا۔ اسی بنا پر شیعہ اور اہلبیت علیہم السلام  کے چاہنے والے اپنی جان و مال کے خوف سے مختلف علاقوں میں مخفی ہوگئے تھے۔ اس صورتحال کے پیش نظر امام سجاد علیہ السلام مناسب اور حکیمانہ روش اختیارکرکے امت کی نظریاتی قیادت کررہے تھے اور آپ نے معاشرے کی تربیت اور انتہائی بہترین اور خوبصورت ترین طریقے سے قیام عاشورا کا تحفظ کیا تھا، جس کیلئے آپ نے مختلف طریقے اختیارکئےکہ جن میں سے ایک طریقہ دعا کے ذریعے خدا اور آئمہ معصومین کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانا اور دوسرا شاگردوں کی تربیت کرنا تھی۔ امام سجاد علیہ السلام نے واقعہ عاشورا کے بعد باصلاحیت شاگردوں سے استفادہ کرتے ہوئے اسلام کی تبلیغ کی۔ شیخ طوسی کے بقول امام سجاد علیہ السلام نے ۱۷۹شاگردوں کی تربیت کی تھی۔ دوسری جانب امام سجاد علیہ السلام نے دینی معارف کی تبلیغ اور تعلیم کے لئے دیندار شعراء سے بھی استفادہ کیا کہ جن میں سے ایک فرزدق شاعر کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے عرفانی دعاوں اور مناجات کے ذریعے لوگوں کو بیدارکیا کہ جو درحقیقت قیام عاشورا کے تحفظ کے لئے ایک بہترین روش تھی۔ صحیفہ سجادیہ کی دعائیں، عرفانی ہونے کے ساتھ  ساتھ بہت زیادہ معارف پر مشتمل ہیں۔

صحیفہ سجادیہ کی دعاوں کا آغاز صلوات سے کیوں:
امام علی بن الحسین علیہ السلام  نے سب سے پہلے اہلبیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کی تربیت کا کام کیا۔ صحیفہ سجادیہ کی ایک دعا  ہے کہ صلوات پڑھنا بہت سے معنی و مفاہیم اور عظیم اور خصوصی پیغامات کا حامل ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے صحیفہ سجادیہ میں دعاؤں کو صلوات سے شروع کیا ہے، جو اس بات کی علامت ہیں کہ جس طرح یہ کتاب نورانی کلام کی حامل ہے، اسی طرح امام سجاد علیہ السلام اپنے نورانی کلام کا صلوات آغاز کرتے ہیں۔ امامؑ کا دعاؤں میں صلوات کو پڑھنا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ انسان کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء الٰہی کے مقدس وجود سے بھی حتماً توسل کرنا چاہیئے۔ امام سجاد علیہ السلام اس کتاب کی بیالیسویں دعا میں خداوند کریم سے دعا کرتے ہیں کہ خدا انہیں قرآن مجید سے تمسک رکھنے والے افراد میں سے قرار دے اور اس بات پر اپنی دعا میں بہت زیادہ اصرار کرتے ہیں۔ آئمہ معصومین کے فرامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن فتنوں کی تاریکی مٹانے والا نور الٰہی اور صبحِ بصیرت ہے۔

خطبات کوفہ اور انقلابی قیامھا کی حمایت:

امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک اور روش ان قیاموں کی حمایت تھی کہ جو طاغوت کے ساتھ جنگ کررہے تھے جن میں سے قیام مختار، قیام توابین اور مدینہ میں دیگر قیاموں کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ امام سجاد علیہ السلام کے وہ جہادی خطبے تھے کہ جو قیام عاشورا کے بعد کوفہ میں دیئے گئے تھے اور انہی خطبوں کی وجہ سے بہت کم عرصے میں اسی شہر سے قیام توابین کا آغاز ہوا کہ جو آہستہ آہستہ امام کے بہترین اصحاب بن گئے تھے۔ امام سجاد علیہ السلام کی ایک اور بہت ہی بارز خصوصیت زمانے کے طاغوتوں کے مقابلے میں استقامت اور پائیداری تھی کہ آپ نے اسلامی معارف کی ترویج کے لئے دعا اور مناجات سے بہترین صورت میں استفادہ کیا ہے۔ عصر عاشورا سے امام سجاد علیہ السلام کی امامت کا آغاز ہوا تھا، امام زین العابدین علیہ السلام نے عاشورا کی ثقافت کو زندہ رکھنے، ظالم اور جابر حکمرانوں کے ظلم و فساد کو بے نقاب کرنے اور امامت کے مقام کی وضاحت جیسے اقدامات کئے ہیں۔

آخری زمانے پہ گہری نگاہ:
معصومین علیہم السلام کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ آخری زمانے پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ تمام آئمہ علیہم السلام نے آخری زمانے کے بارے میں ارشادات فرمائے ہیں کہ اس زمانے میں زندگی کس انداز میں گزاری جائے۔ ان کی یہ دور اندیشی انسانوں کے ساتھ ان کی محبت اور مہربانی کی علامت ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے بھی غیبت امام زمانہ (عج) کے حوالے سے فرامین ارشاد فرمائے ہیں۔ امام نے فرمایا: "جو لوگ غیبت کے زمانے میں ہماری ولایت پر قائم رہیں گے ان کے اس عمل کا ثواب شہداء بدر و احد کے ثواب جتنا ہو گا"۔ اگر دقت سے دیکھا جائے تو امام سجاد علیہ السلام کا یہ فرمان فقط ایک تشبیہ نہیں ہے بلکہ درحقیقت ہمیں اس سے یہ سمجھ آتی ہے کہ زمانہ غیبت امام زمانہ (عج) میں ولایت اہلبیت علیہم السلام پر قائم رہنا کس قدر سخت اور دشوار کام ہے۔ امام سجاد علیہ السلام کی پیشین گوئیاں بتاتی ہیں کہ غیبت کے زمانے میں شیعوں کے لئے کس قدر سخت حالات آئیں گے۔

معصوم کے دعا مانگنے کا طریقہ:
صحیفہ سجادیہ کی 26ویں دعا میں امام سجاد علیہ السلام نے ہمسائیوں اور دوستوں کے ساتھ سلوک کرنے کے بارے میں ارشادات فرمائے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خداوند کریم سے دعا، طلب اور درخواست کرنے کا طریقہ امام معصوم سے سیکھنا چاہیئے، ہم بعض اوقات دعا کرتے وقت شکایات کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں، ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ اولیائے الٰہی، عظیم شخصیات اور علمائے دین جو اتنی زیادہ عزت و مرتبے کے مالک تھے کس طرح خداوند کے حضور دعا کرتے تھے۔ ہمسایوں اور دوستوں کے حوالے سے امام علیہ السلام  فرماتے ہیں کہ "ہمسایوں اور دوستوں کا حق ہے کہ اگر وہ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت کو جایا جائے، ضرورت مند ہوں تو ان کی مدد کی جائے اور اگر مصیبت میں ہیں تو انہیں اس مصیبت سے نجات دلائی جائے"۔

عبادت کا خوبصورت ترین چہرہ: 
امام سجاد علیہ السلام خدا کا ایک برگزیدہ بندہ ہونے کی حیثیت سے تاریخ میں عبادت کا خوبصورت ترین چہرہ ہیں۔ سید الساجدین زین العابدین علیہ السلام عبادت گزاروں کی زینت اور سجدہ گزاروں کے سردار ہیں۔ نماز اور عبادت میں امامؑ کی حالت تبدیل ہو جایا کرتی تھی۔ امام سے پوچھا گیا کہ عبادت کے وقت آپ کی حالت کیوں تبدیل ہو جاتی ہے؟ تو فرمایا کہ (عبادت کے وقت) مجھے یہ آیت یاد آ جاتی ہے جس میں خداوند کریم فرماتا ہے، "مضبوط رہو، استقامت اختیار کرو اور صبر کرو جس طرح کہ خدا نے تجھے حکم دیا ہے"۔ امام باقر علیہ السلام امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں، "آپؑ نماز کے اس قدر عاشق تھے کہ آپؑ کی حالت تبدیل ہو جایا کرتی تھی یہاں تک کہ ان کا بدن اور لباس پسینے میں تر جاتے تھے"۔ ان کی تمام تر توجہ اس نماز کی طرف ہوتی تھی، جسے وہ ادا کر رہے ہوتے تھے۔

طاغوتی نظام کے خاتمے کیلئے خطبات کا آغاز:
 
امام سجاد علیہ السلام عاشورائیوں کے علمبردار ہیں کہ جنہوں نے ۳۵سال امامت کے فرائض انجام دیئے ہیں۔ امام علیہ السلام نے اس دوران معرفت افزاء خطبات ادا کئے ہیں، تبلیغی ذرائع اور وسائل نہ ہونے کے باوجود امام علیہ السلام نے انتہائی سختی اور مشقت کے ساتھ لوگوں کو اہلبیت علیہم السلام کے معارف سے آگاہ کیا، امام سجاد علیہ السلام نے واقعہ عاشورا کے بعد اور قید کے ایام میں ہی امامت اور مہدویت کے معارف کی ترویج اور طاغوتی نظام کے خاتمے اور بنی امیہ کے ظلم و ستم کو برملا کرنے کے لئے فصیح و بلیغ خطبوں سے استفادہ کیا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ "امام سجاد علیہ السلام واقعہ کربلا کے بعد تقریبا 34 سال زندہ رہے اورآپ کی یہ پوری زندگی ہر لحاظ سے درس شمار ہوتی ہے، اور اے کاش، اس میدان کے ماہر افراد لوگوں کے سامنے امام کے حالات زندگی کو بیان کریں تاکہ معلوم ہو جائے کہ امام سجاد علیہ السلام نے واقعہ کربلا کے بعد کس طرح تن تنہا دین کی بنیاد کو تباہ ہونے سے بچایا۔ اگر امام سجاد علیہ السلام کی کوششیں نہ ہوتیں تو امام حسین علیہ السلام کی شہادت ضائع ہو جاتی اور اس کا کوئی اثر باقی نہ رہتا، امام سجاد علیہ السلام نے  اپنے اس دور میں اسلامی معاشرے کی تعلیم و تربیت اور تہذیب نفس پربہت زیادہ توجہ دی تھی۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے اسلامی معاشرے کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا تھا کیونکہ امام علیہ السلام سمجھ گئے تھے کہ اگر لوگ اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوتے تو یزید، ابن زیاد اور عمرسعد جیسے ملاعین امام حسین علیہ السلام کے خلاف جنگ نہیں کرسکتے تھے۔ اگر لوگ اتنے پست اور گھٹیا نہ ہو جاتے اور اسلامی اقدارسے دور نہ ہوتے اور برائیوں میں گھرے نہ ہوتے تو حکومتیں، فرزند رسول اور فرزند فاطمہ سلام اللہ علیہا کو قتل کرنے کی جرات نہیں کرسکتی تھیں۔ ایک ملت اس وقت تمام برائیوں کا سرچشمہ بنتی ہے کہ جب اس کا اخلاق تباہ ہوجائے۔ امام سجاد علیہ السلام اس مطلب کو بھانپ چکے تھے اور آپ نے معاشرے کو اخلاقی برائیوں سے پاکیزہ کرنے اور انہیں اسلامی اخلاق سے آراستہ کرنے کے لئے کمرہمت باندھ لی۔ لہذٰا آپ کی دعائے مکارم الاخلاق اگرچہ ایک دعا ہے لیکن حقیقت میں ایک درس ہے۔ صحیفہ سجادیہ دعاوں کا مجموعہ ہے لیکن ایک درس ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ میں جوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ صحیفہ سجادیہ کا مطالعہ کریں اورغوروفکر و توجہ کے ساتھ ان دعاوں کو پڑھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ کتاب زندگی کا ایک درس ہے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ جب ایک ملک میں انقلاب آتا ہے تو اس کا مقصد ملک کے سماجی نظام اورلوگوں کے حالات کو تبدیل کرنا ہوتا ہے، اس کے معاشی اور سماجی روابط کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ یہ انقلاب کا ایک ہدف ہے لیکن سماجی حالات کے تبدیل ہونے کا ہدف یہ ہے کہ لوگوں کے اخلاق میں تبدیلی آئے، کیونکہ ایک فاسد، ظالم اور طاغوتی نظام میں لوگوں کی صحیح تربیت نہیں ہوتی ہے۔ لہذٰا انقلاب اس معاشرے کو تبدیل کردیتا ہے اورمعاشرے کوتبدیل کرنے کا مطلب انسانوں کے اخلاق کوتبدیل کرنا ہے اورپھرانسانوں کی اچھی تربیت ہوتی ہے۔ معاشرے کی نظریاتی اور ثقافتی اصلاح میں حضرت امام سجاد علیہ السلام کی اہم ترین روش جہادی خطبات تھےکہ جو قیام عاشورا کے بعد کوفہ میں دیئے گئے تھے اوریہ خطبے بہت کم عرصے میں اسی شہرمیں قیام توابین کا باعث بنے تھے اور یہ افراد آہستہ آہستہ امام کے بہترین اصحاب بن گئے"۔

گریہ کے ذریعے پیغام:
امام سجاد علیہ السلام کا ایک اور اقدام گریہ تھا۔ کربلا کے واقعہ کے بعد مدینہ کے لوگوں نے قیام کیا تو یزید نے ایک لشکر بھیجا اور پھر واقعہ حرہ رونما ہوا تھا اور امام علیہ السلام کے گھروالوں کے علاوہ یزید نے مدینہ کے لوگوں کے جان و مال کو مباح قرار دیدیا اور اس کے نتیجے میں کئی ناجائز بچے پیدا ہوئے۔ انہوں ںے مزید کہا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام نے اپنے بہت زیادہ گریہ کے ذریعے لوگوں کی عبودیت اور توحید کا تحفظ کیا اور ایک طرح سے اہلبیت علیہم السلام کی مظلومیت کو بھی بیان کیا ہے۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں امام سجاد علیہ السلام کی دعاوں میں امام نے غیبت کے دور، امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی آرزو کی ہے اور آخری زمانے کے فتنوں پر شکوہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ فرماتے ہیں کہ "پروردگارا انبیاء کے نہ ہونے، ساتھیوں کی کمی، دشمنوں کی فراوانی، زمانے کی سختیوں، فتنوں اور لوگوں کی ہمارے ساتھ مخالفت پرشکوہ کرتا ہوں، اللہ تعالٰی کا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوران کی اہلبیت علیہم السلام پر درود و سلام ہو اور پھرعرض کرتے ہیں کہ پروردگارا اپنی جانب سے ہمارے لئے فرج ظاہر فرما"۔ آج یہی دعا وقت کی اہم ضرورت ہے، آج پھر انہی یزیدی طاقتوں نے مسلمانوں کے گرد گھرا تنگ کر لیا ہے، آج اللہ اکبر کے نام پر پھر ان کے سر تن سے جدا کئے جا رہے ہیں، کہیں سپاہ یزید کی صورت میں، تو کہیں داعش کے نام سے، کہیں طالبان اور کہیں القاعدہ، الغرض نام جو بھی ہو کام اسی یزیدی نسل کا ہے، جس نے آج بھی اہلیبیت علیہم السلام کے چاہنے والوں پر عرضہ حیات تنگ کیا ہوا ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دشمن کے فتنے کو سمجھتے ہوئے ہم آئمہ معصومین علیہم السلام کی تعلیمات سے استفادہ کرتے ہوئے ان کی چالوں کو ناکام بنائیں، اور انقلاب اسلامی ایران کو انقلاب مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف سے پیوست کرنے میں سید بزرگوار کی یاری و نصرت کریں۔
خبر کا کوڈ : 719946
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش