0
Sunday 29 Apr 2018 14:51

علی اکبر مدافع حریم ولایت و دین

علی اکبر مدافع حریم ولایت و دین
تحریر: سیدہ ایمن نقوی

حضرت علی اکبر (ع) بن ابی عبداللہ الحسین (ع) 11 شعبان سن 43 ھ (1) کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ امام حسین بن علی بن ابی طالب (ع) کے بڑے فرزند تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام لیلٰی بنت مرّہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہےـ لیلٰی کی والدہ میمونہ بنت ابی سفیان جوکہ طایفہ بنی امیہ سے تھیں(2)۔ اس طرح علی اکبر (ع) عرب کے تین مہم طایفوں کے رشتے سے جڑے ہوئے تھےـ والد کیطرف سے طایفہ بنی ھاشم سے کہ جس میں پیامبر اسلام (ص) حضرت فاطمہ (س)، امیرالمومنین علی بن ابیطالب (ع) اور امام حسن (ع) کے ساتھ سلسلہ نسب ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے دو طایفوں سے بنی امیہ اور بنی ثقیف یعنی عروہ بن مسعود ثقفی، ابی سفیان، معاویہ بن ابی سفیان اور ام حبیبہ ھمسر رسول خدا (ص) کے ساتھ رشتہ داری ملتی تھی اور اسی وجہ سے مدینہ کے طایفوں میں سب کی نظر میں آپ کا خاص احترام تھا۔ ابو الفرج اصفہانی نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ ایک دن معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ تم لوگوں کی نظر میں خلافت کیلۓ کون لائق اور مناسب ترین ہے؟ اسکے ساتھیوں نے جواب دیا، ہم تو آپ کے بغیر کسی کو خلافت کے لائق نہیں سمجھتے، معاویہ نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ خلافت کیلۓ سب سے لائق اور شایستہ علی بن الحسین (ع) ہے، کہ اسکا نانا رسول خدا (ص) ہے اور اس میں بنی ھاشم کی دلیری اور شجاعت اور بنی امیہ کی سخاوت اور ثقیف کی فخر و فخامت جمع ہے۔ (3)۔ 

حضرت علی اکبر﴿ع﴾ کی اپنے نانا رسول خدا ﴿ص﴾ سے مشابہت:
 
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان انتہائی زیبا اور فصیح تھا اور آپ انتہائی واضح اور روشن گفتگو فرماتے تھے، آپ خوش بیان، خوش الحان اور اچھی آواز کے مالک تھے اورحضرت علی اکبر علیہ السلام بھی انہی خصوصیات میں اپنے نانا کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے۔ حضرت علی اکبر (ع) کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافی خوبصورت، شیرین زبان اور پرکشش تھے، خلق و خو، اٹھنے بیٹھنے کا انداز، چال ڈھال سب میں شبیہہ پیغمبر اکرم (ص) تھے۔ جس کسی نے پیامبر اسلام (ص) کو دیکھا تھا وہ اگر دور سے حضرت علی اکبر کو دیکھ لیتا گمان کرتا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) ہیں۔ اسی طرح شجاعت و بہادری کو اپنے دادا امیرالمومنین علی (ص) سے وراثت میں حاصل کیا، آپ جامع کمالات، اور خصوصیات کے مالک تھےـ (4) بعض مورخین اور محققین کی نقل کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کی شہادت کے بعد بنی ہاشم میں سے جو شخص سب سے پہلے میدان جنگ میں گیا ہے اور شہید ہوا ہے وہ حضرت علی اکبر علیہ السلام تھے۔ جب امام حسین علیہ السلام انہیں میدان جنگ میں جانے کے لئے گھوڑے پرسوار کررہے تھے تو آپ نے فرمایا کہ "پروردگارا تو گواہ رہنا کہ اب میں ایک ایسے جوان کو جنگ کے لئے بھیج رہا ہوں کہ جو اخلاق، شکل و صورت اور گفتگو میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھتا ہے اور ہمیں جب بھی تیرے پیغمبر کی زیارت کا اشتیاق ہوتا تو ہم ان کی زیارت کرلیا کرتے تھے"۔ تاریخ کے محقق نے کہا ہےکہ اس روایت سےاستفادہ ہوتا ہےکہ حضرت علی اکبر علیہ السلام بہت اعلٰی اور اچھے اخلاق کے مالک تھے اور وہ اس اچھے اخلاق کے لحاظ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے کہ جن کے اخلاق کی گواہی خود قرآن کریم نے دی ہے۔ ﴿انک لعلی خلق عظیم ۔ ۔ ۔﴾

امام حسین علیہ السلام نے اس زمانے کے لوگوں کے سامنے اپنے بہادر اور شجاع بیٹے کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا تھا کہ "اے دنیا کے لوگو جان لو کہ بنی امیہ اور ان کے پیروکاروں نے حکومت اور طاقت تک پہنچنے کے لئے میدان کربلا میں کس ہستی کو قتل کیا ہے۔ یعنی اگر طاقت رکھتے ہوتے تو وہ مکہ میں پیغمبر اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم کو بھی قتل کر دیتے"؛ جیسا کہ ابوسفیان نے کئی مرتبہ پروگرام بنایا لیکن کامیاب نہ ہو سکا ۔ ابوالفرج اصفھانی نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی اکبر (ص) عثمان بن عفان کے دور خلافت میں پیدا ہوئے ہیں۔ (5) اس قول کے مطابق شھادت کے وقت آنحضرت 25 سال کے تھےـ حضرت علی اکبر (ع) نے اپنے دادا امام علی ابن ابی طالب (ع) کے مکتب اور اپنے والد امام حسین (ع) کے دامن شفقت میں مدینہ اور کوفہ میں تربیت حاصل کرکے رشد و کمال حاصل کرلیا۔ امام حسین (ع) نے انکی قرآنی اصولوں کیمطابق تربیت کی، اور معارف اسلامی کی تعلیم دینے اور سیاسی و اجتماعی اطلاعات سے مجہز کیا، کچھ اس طرح سے کہ ہر کوئی حتٰی دشمن بھی ان کی ثناء خوانی کرنے سے خود کو روک نہ پاتے تھےـ حضرت علی اکبر (ع) نے کربلا میں نہایت مؤثر کردار نبھایا اور تمام حالات میں امام حسین (ع) کے ساتھ تھے اور دشمن کے ساتھ شدید جنگ کیـ (6)۔ شایان ذکر یہ ہے کہ حضرت علی اکبر (ع) عرب کے تین معروف قبیلوں کے ساتھ قربت رکھنے کے باوجود عاشور کے دن یزید کے سپاہیوں کے ساتھ جنگ کے دوران اپنی نسب کو بنی امیہ اور ثقیف کی طرف اشارہ نہ کیا، بلکہ صرف بنی ھاشمی ہونے اور  اھل بیت (ع) کے ساتھ نسبت رکھنے پر افتخار کرتے ہوئے یوں رجز خوانی کی:
أنا عَلی بن الحسین بن عَلی نحن و بیت الله اَولی بِالنبیّ
أضرِبكُم بِالسّیف حتّی یَنثنی ضَربَ غُلامٍ هاشمیّ عَلَویّ
وَلا یَزالُ الْیَومَ اَحْمی عَن أبی تَاللهِ لا یَحكُمُ فینا ابنُ الدّعی

 
ایک روایت کیمطابق عاشور کے دن بنی ھاشم کے پہلے شھید حضرت علی اکبر (‏ع) تھے اور زیارت معروفہ شہداء میں بھی آیا ہے : السَّلامُ علیكَ یا اوّل قتیلٍ مِن نَسل خَیْر سلیل۔ (7)۔ حضرت علی اکبر (ع) نے عاشور کے دن دو مرحلوں میں عمر سعد کے دو سو سپاہیوں کو فی النار کیا اور آخر کار مرّہ بن منقذ عبدی نے سرمبارک پر ضرب لگا کر آنحضرت کو شدید زخمی کیا اور اسکے بعد دشمن کی فوج میں حوصلہ آیا اور حضرت پر ہر طرف سے حملہ شروع کرکے شہید کر دیا گیا۔  امام حسین (ع) انکی شہادت پر بہت متاثر ہوئے اور انکے سرہانے پہنچ کر بہت روئے اور جب خون سے لت پت سر کو گود میں لیا، فرمایا: عَلَی الدّنیا بعدك العفا۔(8)۔ شھادت کے وقت حضرت علی اکبر (ع) کی عمر کے بارے میں اختلاف ہےـ بعض نے 18 سال، بعض نے 19 سال اور بعض نے 25 سال کہا ہے (9)، مگر یہ کہ آپ امام زین العابدین (ع) سے بڑے تھے یا چھوٹے اس پر بھی مورخین اور سیرہ نویسوں کا اتفاق نہیں ہےـ البتہ امام زین العابدین (ع) سے روایت نقل کی گئی ہے کہ جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ سن کے اعتبار سے علی اکبر (ع) سے چھوٹے تھےـ امام زین العابدین (ع) نے فریایا ہے: کان لی اخ یقال لہ علی، اکبر منّی قتلہ الناس ـ ـ ـ (10)۔

خصوصیات حضرت علی اکبر:
حضرت علی اکبر (ع) شکل و شمائل گفتار اور اخلاق میں پیغمبر اکرم (ص) کے بہت زیادہ مشابہ تھے۔ شہادت سے نہ گھبرانا، حضرت علی اکبر (ع) کی ایک ایسی خصوصیت تھی، کہ آج ہمارے جوانوں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنا چاہیئے۔ حضرت علی اکبر (ع) انسان کامل اور صفات الٰہی کا مظہر تھے۔ آپ بہت زیادہ شیرین بیان، دلربا، اہل برہان، باکرامت اور وجیہہ تھے اور ظاہری اور اخلاقی اعتبار سے آپ پیغمبر اکرم (ص) کے بہت زیادہ مشابہ تھے۔ بعض افراد حضرت علی اکبر (ع) کو صرف امام کے بیٹے کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ آپ کی شخصیت انبیاء کی طرح ہے، امام خمینی (رہ) نے حضرت علی اکبر (ع) کے متعلق فرمایا تھا کہ "اگر حضرت علی اکبر (ع) شہید نہ ہوتے تو امام حسین (ع) کے بعد امام ہوتے"۔ دشمن شناسی، شجاعت، عمدہ اخلاق، تقوا اور دیانت داری حضرت علی اکبر(ع) کی اہم خصوصیات تھیں اور آج وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ان کے اسوہ پر عمل پیرا ہوا جائے، یہی وہ خصوصیات ہیں جو ہمارے جوانوں کے مدنظر ہونی چاہئیں۔،نہ کہ ہم مغرب کی تقلید میں اندھے ہو جائیں۔
 
علی اکبر جوانوں کیلئے آئیڈیل: 
جوان کسی بھی معاشرے کا عظیم سرمایہ ہوتے ہیں، حضرت علی اکبر  (ع) جوانوں کیلئے بہترین آئیڈیل ہیں، ہمارے جوانوں کو حضرت علی اکبر (ع) کو نمونہ بناکر زندگی گزارنی چاہیئے اور انہیں جوانی کے ہر لمحے کی قدردانی کرنی چاہیئے، کیونکہ جوانی خدا کی طرف سے ایک ہدیہ اور عظیم سرمایہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جس طرح جوان ایک ملک کیلئے سرمایہ ہیں اسی طرح جوانوں کا پسندیدہ اخلاق سے مزین ہونا بھی بہت قیمتی سرمایہ ہے۔  کسی بھی معاشرے کو تباہ کرنا مقصود ہو تو اس کے جوانوں پر کام کیا جاتا ہے، آج استعماری قوتیں اس ایجنڈے پر زور و شور سے عمل پیرا ہیں، جوان نسل کو چاہیئے کہ وہ مغرب کی ظاہری چمک دمک سے متاثر ہونے کی بجائے ان ہستیوں کو اپنا آئیڈیل قرار دیں۔

علی اکبر مدافع حریم ولایت:
حضرت علی اکبر (ع) میدان کربلا کے دلیر مرد اور حریم ولایت کا دفاع کرنے والے تھے، آپ شجاعت، فداکاری اور جوانمردی کا نمونہ ہیں۔ مسلمان جوانوں کو ان کے کربلا میں موجود کردار سے سبق لینا چاہیئے۔ حضرت علی اکبر (ع) امام حسین علیہ السلام کے وہ بیٹے تھے جنہوں نے اپنے والد کے انسان ساز مکتب سے حریم ولایت و دین کا دفاع کرنا سیکھا۔ حضرت علی اکبر علیہ السلام نے امامت کی اطاعت اور دفاع کے فریضہ کو بخوبی انجام دیا۔ سید الشہداء علیہ السلام کی شایستہ تربیت اس چیز کا باعث بنی کہ وہ بہترین صفات سے آراستہ ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی اکبر (ع) ان جوانوں کیلئے مکمل نمونہ ہیں جو ولایت و امامت کے راستے پر چل رہے ہیں۔ حضرت علی اکبر (ع) اپنے باپ اور اہل بیت (ع) کی طرح سیاسی، سماجی اور ثقافتی مسائل پر خاص نظر رکھتے تھے اور کتب اسلامی میں حضرت علی اکبر (ع) کو احادیث کے راوی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت علی اکبر (ع) نے ولایت و امامت اور دین اسلام کے دفاع میں اپنی جان قربان کی اس لئے وہ ہمارے جوانوں کیلئے بہترین نمونہ ہیں۔

حضرت علی اکبر (ع) کے اپنے والد گرامی کے پائنتی میں دفن ہونے کا راز: 
حضرت علی اکبر علیہ السلام، شجاع اور دلیر ہونے کے علاوہ الٰہی اخلاق سے آراستہ اور اہل بیت علیہم السلام کے علوم کے مالک تھے، کربلا کے سفر پر جانے سے قبل حضرت علی اکبر علیہ السلام مدینہ کے جوانوں کے لئے احکام، اعتقادات اور تفسیر کی کلاسز منعقد کیا کرتے تھے۔ حضرت علی اکبر علیہ السلام اپنی عمر کے جوانوں کے درمیان ایک بافضیلت اور صاحب کمال جوان کے نام سے پہچانے جاتے تھے اور عاشورا کے بعد جب قیدیوں کا قافلہ مدینے واپس آیا تو حضرت علی اکبر علیہ السلام کے شاگردوں کو بہت زیادہ نقصان ہوا اور وہ اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ نہ چلنے پربہت زیادہ پشیمان ہوئے۔ حضرت علی اکبر علیہ السلام اپنے والد گرامی، والدہ گرامی، پھوپھی اماں اور چچاوں کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے، اسی وجہ سے امام سجاد علیہ السلام نے شہدائے کربلا کو دفن کرتے وقت حضرت علی اکبر علیہ السلام کو اپنے والد گرامی کے پائنتی میں دفن کیا تاکہ شہادت کے بعد آنے والی صدیوں میں بھی آپ کے ادب اور احترام کو یاد رکھا جا سکے۔
 
حوالہ جات:
1- مستدرك سفینه البحار (علی نمازی)، ج 5، ص 388 
2- أعلام النّساء المؤمنات (محمد حسون و امّ علی مشكور)، ص 126؛ مقاتل الطالبیین (ابوالفرج اصفہانی)، ص 52 
3- مقاتل الطالبیین، ص 52؛ منتہی الآمال (شیخ عباس قمی)، ج1، ص 373 و ص 464 
4- منتہی الآمال، ج1، ص 373 
5- مقاتل الطالبیین، ص 53 
6- منتہی الآمال، ج1، ص 373؛ الارشاد (شیخ مفید)، ص 459 
7- منتہی الآمال، ج1، ص 375 
8- ایضاً 
9- ایضاً اور الارشاد شیخ مفید (رح) ص 458.
10- نسب قریش (مصعب بن عبدالله زبیری)، ص 85، الطبقات الكبری (محمد بن سعد زہری)، ج5، ص 211۔
خبر کا کوڈ : 721243
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش