0
Sunday 6 May 2018 19:03

متحدہ مجلس عمل، خدمات، الزامات، خدشات اور توقعات

متحدہ مجلس عمل، خدمات، الزامات، خدشات اور توقعات
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com

اتحاد، اخوت، وحدت، محبت، میل جول اور باہمی روابط و تعلق انسانی فطرت کے ساتھ متعلق ہیں اور تخلیقِ کائنات سے انسانی معاشروں کی اولین ضروریات میں سے رہے ہیں۔ انسان نے مذہب کا راستہ اپنایا ہو یا نہیں۔ انسان نے ایک خدا یا ایک سے زائد خداؤں کو پوجا ہو یا پھر کسی خدا کے ہونے پر یقین نہ رکھا ہو، مگر تنزلی کے ہر ابتر دور سے لے کر ترقی کے برتر دور تک انسان نے انسانوں کے درمیان وحدت و اتحاد اور محبت و ربط کی ضرورت کو محسوس کیا ہے اور ہمیشہ سے اس نے خدا کا حکم یا مذہب کی تعلیمات سمجھتے یا نہ سمجھتے ہوئے بھی اس پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعینہہ ایسے جیسے امن و امان انسانی معاشرے اور انسان کی انفرادی اور اولین ضرورت رہا ہے۔ اسلامی فلسفے کے مطابق اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور نیت سے آگاہی فرد اور اللہ تعالٰی کے درمیان ہوتی ہے۔ اگر آپ اللہ، روحانیت، نیت اور اندرونی کیفیات کو تسلیم نہیں بھی کرتے، تب بھی آپ کو کسی بھی انسان کے عمل کو ظاہر کی آنکھ سے دیکھنا پڑے گا۔ مذہب کو تسلیم نہ کرنے والے افراد کسی انسان کی اندرونی کیفیات کو نہیں ٹٹولتے، نہ ہی اس کی نیت کی ٹوہ میں رہتے ہیں بلکہ وہ انسان کے ظاہری اعمال کو انسان کے اچھے اور برے ہونے کا معیار قرار دیتے ہیں۔ اگر کوئی انسان کسی دوسرے انسان یا معاشرے کی تعمیر کے لئے بظاہر مثبت انداز اختیار کرکے خدمت میں مصروف ہے تو اس کے اندر نہیں جھانکا جاتا بلکہ اس کے ظاہری حُسنِ عمل کو سراہا جائے گا۔ برے اعمال کی مذمت کا بھی یہی اصول اور معیار ہے۔ ویسے بھی اگر آپ کسی کے بظاہر اچھے عمل میں اپنی تانک جھانک کی عادی آنکھ سے دیکھتے ہوئے بُرے پہلو تلاش کرنے کے اصول کو معیار قرار دیں تو یہی اصول کسی کے بظاہر بُرے عمل کے اندر بھی اچھے پہلو شامل ہونے کی دلالت کرتا ہے، پھر آپ کو ہر بُرا عمل بھی قبول کرنا پڑے گا۔

تمہیدی جملوں کا مقصد پاکستان کی پانچ جید دینی و سیاسی جماعتوں پر مبنی اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کی تشکیل پر مختلف اطراف سے ہونے والے ملے جلے تبصروں پر بات کرنا ہے۔ اگر تو نیتوں کے حالات اللہ جانتا ہے تو ہمیں سب کو ان کی نیتوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اگر نیتوں کے حالات اللہ نہیں بلکہ ہم خود جانتے ہیں تو یہ صلاحیت صرف ہم میں نہیں بلکہ ہم جیسے سارے انسانوں کے اندر پائی جائے گی، بلکہ بہت سارے لوگ یقیناً نیتوں کے حالات کی پرکھ اور واقف کاری میں ہم سے زیادہ صلاحیت کے حامل پائے جائیں گے، لہذا انہی کی رائے کو ترجیح حاصل ہوگی۔ اگر اعمال سے نیتوں کا اندازہ ہم نے خود کرنا ہے تو اعمال کی نوعیت اور ظاہری کیفیت اس کا معیار ہیں، ہمیں اسی معیار کے تحت فیصلہ کرنا چاہیے، نہ کہ پسند و ناپسند کا جذبہ استعمال کیا جائے۔ متحدہ مجلس عمل کے تمام قائدین نے روزِ اول سے واضح کیا ہے کہ ان کا پہلا ہدف مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا نہ صرف فروغ ہے بلکہ اتحاد کا عوامی سطح پر اظہار کرنا مطلوب ہے۔ جب اس اتحاد کو زینہ اور ذریعہ بناتے ہوئے پیش رفت ہوگی تو ان جماعتوں کے قائدین، عہدیداران، کارکنان اور پیروکاران کے درمیان رابطے اور ہم آہنگی میں استحکام آئے گا۔ جب یہ استحکام مزید مستحکم ہوگا تو ان کے درمیان دوستی اور نظریاتی و فکری تعلقات استوار ہوں گے، یہ تعلقات انہیں مشترکہ دوست اور مشترکہ دشمن کے فلسفے پر متفق کریں گے اور یہی اتفاق انہیں سیاست کی دنیا میں ایک موقف اور ایک آواز کے ساتھ اپنے متفقہ نمائندے منتخب کرنے میں مدد و معاون ثابت ہوگا، جس کے بعد وہ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے ذریعے پاکستان اور اسلام کی خدمت کرسکیں گے۔

بالفرض اگر انہیں اقتدار کا ہدف حاصل نہیں ہوتا، تب بھی کیا ان کا باہم مل بیٹھنا، ایک دوسرے کا احترام (چاہے ظاہری ہی سہی ) کرنا، ایک دوسرے کے مسلک و اکابر کی توہین نہ کرنا، ایک دوسرے کو برداشت کرنا، مشترکہ محافل منعقد کرنا، لوگوں کو متحد ہونے کی دعوت زبان نہیں بلکہ عمل کے ذریعے دینا، پاکستانی معاشرے اور پاکستانی عوام کے مشترکہ دشمنوں کے خلاف یک زبان ہونا اور پاکستان کی سرزمین سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے وحدت کا عملی نمونہ یا مثال قائم کرنا کافی، وافی، شافی، مثبت، نیک اور اچھا نہیں ہے؟؟ مثبت فکر کا حامل ہر انسان ایسے اتحادوں کو غنیمت نہیں بلکہ نعمت تصور کرتا ہے، کیونکہ اس سے اختلاف، نفرت، بغض، عداوت، تکفیریت، فرقہ واریت، مسلکی دوریاں حتی کہ دہشت گردی میں کاملاً نہ سہی نسبتاً اور جزوی طور پر کمی واقع ہو رہی ہے۔ یہ فلسفہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر یہی جماعتیں ’’ملی یکجہتی کونسل‘‘ کے فورم پر جمع ہو جائیں اور پاکستان سمیت عالم اسلام کے مسائل پر مشترکہ لائحہ عمل اور موقف اختیار کریں تو ان کی نیتوں کو نہیں جانچا جاتا، ان کے ارادوں کو نہیں بھانپا جاتا، ان کے اعمال کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ داد و تحسین سے نوازا جاتا ہے اور اگر یہی جماعتیں سیاسی میدان میں وحدت کا پیغام لے کر آتی ہیں تو انہیں ہدفِ تنقید نہیں بلکہ ہدفِ نفرت بنایا جاتا ہے اور نفرت کو فتووں میں تبدیل کرکے سیاسی اغراض حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بقول شخصے ’’پیڑاں ہور تے پھکیاں ہور۔۔۔

بہرحال گذشتہ دور میں بھی متحدہ مجلس عمل نے اپنی توان کے مطابق اسلام اور پاکستان کے لئے لائق تحسین خدمات انجام دیں اور مستقبل میں اسی نیک نیتی کے ساتھ لائق تحسین اقدامات کے لئے کمر بستہ نظر آرہی ہے۔ یہ آمادگی اور کمربستگی ہم نے دو مئی کے دن کنونشن سنٹر اسلام آباد میں براہ راست دیکھی، جب تمام مسالک کے لوگ اس پلیٹ فارم تلے جمع تھے، قائدین پر اپنی محبتیں برابر نچھاور کی جا رہی تھیں۔ تمام قائدین کے ساتھ برابر محبت و عقیدت کا اظہار کیا جا رہا تھا اور قائدین سے عام کارکن تک کی موجودگی میں اجنبیت کا احساس ہرگز نہیں تھا۔ دور دراز علاقوں سے ایم ایم اے کے عہدیدار ایک ساتھ سفر کرکے آئے، ایک ساتھ قیام و طعام کیا۔ ایک ساتھ نماز کی ادائیگیاں، ایک دوسرے کے ساتھ تعارف اور باہمی روابط کا تبادلہ ہوتا دکھائی دیا۔ یہ منظر اب متوقع طور پر تیرہ مئی کو مینار پاکستان لاہور میں مزید وسعت کے ساتھ سامنے آنے والا ہے، جب ہر علاقے سے تمام مسالک کے لوگ اپنے اپنے علاقائی قائدین کی قیادت میں ایک ساتھ سفر کرکے لاہور پہنچیں گے۔ اس قربت کو بھی نعمت سمجھنا چاہیے۔

ذاتی طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ متحدہ مجلسِ عمل میں شامل پانچ جماعتوں کا ایک چھتری تلے بیٹھنا بعض مقامات پر اجتماعی مقاصد کے تحت ہے اور بعض مقامات پر انفرادی مقاصد کے تحت۔ تمام جماعتیں ایک ہدف یا نظریئے کے ساتھ اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔ ہم اس اتحاد کو فرشتوں کا اتحاد ہرگز نہیں سمجھتے، نہ ہی اسے مافوق الفطرت مخلوق کا مجموعہ سمجھتے ہیں، نہ ہی اسے معصومین کا اجتماع سمجھتے ہیں۔ ہر کسی کے مفادات بھی پیشِ نظر ہوتے ہیں اور اہداف بھی ہر کسی نے اپنے اپنے متعین کئے ہوتے ہیں۔ اجتماعی انسانی امور اور سیاسی معاملات سے آگاہی رکھنے والا عام انسان بھی ان حقائق سے آگاہ ہے، لیکن انہی دو صفات کے حامل لوگ جب ترجیحات کا تعین کرتے ہیں تو انہیں مفادات کو پسِ پشت ڈالنا پڑتا ہے، حتٰی کہ دوسرے کے مفادات کا بھی احترام کرنا پڑتا ہے۔ پانچ جماعتوں میں یہی انسانی رویہ موجود ہے، لیکن اس کے باوجود تمام قائدین بالخصوص شیعہ مکتبِ فکر کی قیادت دیگر جماعتوں سے ہٹ کر ہدف رکھتی ہے۔ جداگانہ مفادات کی حامل ہے۔ منفرد اصولوں کے تحت موجود ہے۔ الگ تھلگ اہداف اس کے مدنظر ہیں۔ لہذا اسے ایک ہی نمبر کے عدسے اور عینک سے دیکھنا ہرگز قرین انصاف نہیں۔ خدمت اور قربانی کے اپنے اپنے انداز، اپنے اپنے راستے اور اپنے اپنے طرق ہوتے ہیں۔ جب ہم ایک عام انسانی محفل حتٰی کہ ہم فکر دوستوں کی محفل میں موجود لوگوں کو برابر قرار نہیں دے سکتے تو خواص کے اجتماع کو کس طرح ایک زاویہ نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں۔

لمحہ موجود تک شیعہ قیادت جو اہداف حاصل کر رہی ہے، اس میں سو فیصد کامیاب ہے، اقتدار کا حصول یا نشستوں کی سطحی تقسیم شیعہ قیادت کے اہداف سے ہزار سیڑھیاں نیچے ہے۔ اسے سطحی لوگ اپنی کم فہمی سے سمجھ نہیں پاتے، لیکن سیاسی اقتدار کے حصول کے مقابل موجود اہداف کا حصول لاکھ درجہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ان اہداف کے حصول میں مجلسِ عمل کی قیادت شیعہ قیادت کے شانہ بشانہ موجود بلکہ معاونت کر رہی ہے تو ہر پاکستانی بلکہ ہر مسلمان کو اس کا شکر گذار ہونا چاہیے۔ مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں اور صحافتی و سماجی حلقوں کی طرف سے یہ الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کہ متحدہ مجلس عمل کا یہ اتحاد محض سیاسی مقاصد کے لئے ہے۔ انہیں اب اسلام یاد آگیا ہے۔ انہیں الیکشن سے پہلے اتحاد یاد آتا ہے۔ انہیں امت مسلمہ کا درد الیکشن سے پہلے ہی کیوں اٹھتا ہے۔ یہ مفادات کے حصول کے لئے جمع ہیں۔ ان کے پسِ پردہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے۔ یہ ملا ملٹری الائنس ہے۔ اس مرتبہ یہ اتحاد مسلم لیگ نون کی پشت پناہی سے وجود میں لایا گیا ہے۔ یہ اتحاد مستقبل میں بریلویوں اور شیعوں کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگا۔ مجلس عمل دراصل دیوبندیت کے فروغ کا اتحاد ہے۔ مولانا فضل الرحمن ہر بار دینی جماعتوں کو اپنے اقتدار کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ عوام الناس دینی قوتوں کو پسند نہیں کرتے، لہذا انہیں سیاسی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ جے یو آئی اور جماعت اسلامی دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ڈیل میں مجلس عمل میں شامل دیگر جماعتوں کو استعمال کرتی ہیں۔ مجلسِ عمل تمام مسالک کی دیگر جماعتوں کو اپنے اتحاد میں کیوں شامل نہیں کرتی؟ وغیرہ وغیرہ۔ ان الزامات میں سے کتنے سنجیدہ ہیں اور کتنے غیر سنجیدہ؟ اس کا تعین ایم ایم اے کی قیادت نے کرنا ہے، لیکن عوام الناس کے اندر موجود اس الزاماتی پروپیگنڈہ کے خاتمے کے حوالے سے ایم ایم اے کو بہرحال اپنے پروگراموں میں وضاحت کرتے رہنا چاہیے۔

خدشہ ہے کہ ایم ایم اے کی تشکیل کے دوران طے کئے گئے اعلٰی اہداف پر جماعتی مفادات غالب آجائیں گے۔۔ خدشہ ہے کہ اتحاد کی ضرورت فقط اقتدار کے حصول تک رہے گی۔۔ خدشہ ہے کہ سادہ لوح پاکستانی مسلمانوں اور اسلام سے والہانہ محبت رکھنے والے لوگوں سے ووٹ تو لے لئے جائیں گے، لیکن انہیں اس کے بدلے مستقل اتحاد نہیں دیا جائے گا۔۔ خدشہ ہے کہ اتحاد میں موجود دو بڑی جماعتیں اس بار بھی چھوٹی جماعتوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھیں گی۔ خدشہ ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر مستقبل میں عہدوں کی تقسیم تک اتحاد کے باوجود مسلکی تفریق یا تعصب برتا جائے گا۔ خدشہ ہے کہ دو بڑی جماعتیں ایک بار پھر اقتدار یا مراعات کے حصول کے کسی مرحلے پر ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہوں گی، تب انہیں ملتِ اسلامیہ کا اتحاد یاد نہیں رہے گا۔۔ خدشہ ہے دو بڑی جماعتیں انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے لے کر الیکشن کے بعد اتحادی حکومتوں کی تشکیل تک اپنی اپنی ہمدرد سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے کے لئے رسہ کشی جاری رکھیں گی۔۔ خدشہ ہے کہ روایتی طریقہ اختیار کرتے ہوئے الیکشن سے قبل دیگر سیاسی جماعتوں کو ہدفِ تنقید بنانے کے باوجود انتخابات کے بعد انہی کے ساتھ شراکتِ اقتدار کی جائے گی۔ خدشہ ہے کہ شیعہ مکتبِ فکر کے ساتھ اس کی حیثیت اور مقام کے مطابق رویہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔۔ خدشہ ہے مجلس عمل میں شامل بعض جماعتوں کی طرف سے وقت آنے پر تکفیری گروہوں کے ساتھ ڈیل کرنے میں دیر نہیں کی جائے گی، جیسا کہ ماضی قریب میں جھنگ سے صوبائی نشست کے حصول کے لئے اقدام کیا گیا۔ خدشہ ہے کہ جہاں مجلس عمل کو وحدت امت کا داعی کہا جائے گا، وہاں اسی اتحاد کو پاکستان میں موجود مسالک بالخصوص بریلوی مسلک میں انتشار کے لئے استعمال کیا جائے گا۔

خدشہ ہے کہ امیدواروں کے انتخاب میں میرٹ کا لحاظ نہیں رکھا جائے بلکہ جماعتی عہدیداروں کی فرمائشات پوری کی جائیں گی۔ خدشہ ہے کہ امیدواروں کے انتخاب سے لے کر وزراء، مشیران اور دیگر عہدیداران کے انتخاب تک تعلیم و تجربہ اور صلاحیت و مہارت کو بنیاد نہیں بنایا جائے گا بلکہ تعلق و مال یا محض جماعتی وابستگی استعمال کی جائے گی۔ خدشہ ہے کہ دینی تشخص کے حامل اس اتحاد میں روایتی سیاسی طریقہ اختیار کرتے ہوئے دیگر سیاسی جماعتوں کے غیر دینی لوگوں کو شامل کرکے انہیں ٹکٹیں اور اقتدار دیا جائے گا۔ ان سمیت دیگر کئی ایک خدشات کے ازالے کے لئے مجلسِ عمل کی قیادت کو خبردار رہنا پڑے گا۔
متحدہ مجلس عمل کا پلیٹ فارم عالم اسلام میں منفرد پلیٹ فارم ہے۔ عالم اسلام میں تو ’’ملی یکجہتی کونسل‘‘ کی مثال نہیں ملتی، کُجا یہ کہ متحدہ مجلسِ عمل کی نظیر تلاش کی جاسکے۔ سیاسی میدان میں تو ایک گھر کے افراد باہم جمع نہیں ہوتے، چہ جائیکہ ایک نہیں، دو نہیں بلکہ پانچ ایسے مسالک کو ایک مرکز پر جمع کر لیا جائے، جو مختلف عقائد، مزاج، عادات، ثقافت اور طرزِ عمل کے حامل ہیں۔ متحدہ مجلسِ عمل کی اس بے مثل حقیقت اور تسلیم شدہ حیثیت کے پیش نظر پاکستان کے عوام بالخصوص دینی طبقات اور دینی جماعتوں کے کارکنان کی توقع ہے کہ مجلسِ عمل عارضی طور پر نہیں بلکہ دائمی طور پر متحد رہے۔ ان کی توقع ہے کہ ایم ایم اے کا دائرہ وسیع سے وسیع ترین ہو جائے اور ساری کی ساری دینی قیادت ایم ایم اے کی ہم فکر و ہم زبان بن جائے۔ ان کی توقع ہے کہ اس اتحاد کی برکت سے ملک میں فرقہ وارانہ تعصبات ختم ہو جائیں۔ ان کی توقع ہے کہ پاکستان سے مسلکی نفرتوں کا مکمل خاتمہ ہو جائے۔ ان کی توقع ہے کہ اس اتحاد کے ذریعے پاکستان سے تکفیری سوچ رکھنے والے تمام گروہوں کی بیخ کنی ہو جائے۔

ان کی توقع ہے کہ اس اتحاد کی وجہ سے پاکستانی مسلمان صحیح معنوں میں شیر و شکر ہو جائیں۔ ان کی توقع ہے کہ اس اتحاد کے ذریعے اسلام اور اسلامی نظام پاکستان پر حکمرانی کرے، جہاں انصاف و عدل کا بول بالا ہو۔ ان کی توقع ہے یہ اتحاد ثابت کرے کہ دینی قیادت کے اندر ملک چلانے کی صلاحیت دیگر سیاسی جماعتوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ان کی توقع ہے کہ یہ اتحاد فقط اقتدار کے حصول تک نہیں بلکہ عوام کی خوشحالی تک فعال اور قائم رہے۔ ان کی توقع ہے کہ اس اتحاد کے ذریعے صرف پاکستان نہیں بلکہ عالم اسلام کو امید کا پیغام جائے اور اس اتحاد کی برکت سے عالم اسلام کے مسائل حل ہونے میں کردار ادا کیا جاسکے۔ ان کی توقع ہے کہ اس اتحاد کے ذریعے پاکستان میں ایسی حکومت قائم ہو، جو امت مسلمہ کی رہنمائی اور قیادت کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ان کی توقع ہے کہ اس اتحاد میں شامل جماعتیں اور مسالک ایک دوسرے کو قبول کرنے، حقوق دینے اور عمل کی دنیا میں ایک مثال بن کر سامنے آئیں۔ ان کی توقع ہے اس اتحاد کے ذریعے مذہبی قوتوں پر بدامنی اور دہشت گردی کا موجود لیبل ختم ہو اور امن و امان اور اخوت و قربت کے لیبل قائم ہوں۔ ان کی توقع ہے کہ اس اتحاد کے ذریعے اعلٰی تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی پر مبنی معاشرہ قائم ہو، جس پر یورپی اور دیگر اقوام دنگ رہ جائیں۔ توقعات تو جانے کیا سے کیا ہیں اور ہیں بھی تمام کی تمام بجا و برحق۔ لیکن ان توقعات کو مجلسِ عمل کی قیادت کے پیش نظر رہنا چاہیے۔ ہم چاہیں گے کہ 13 مئی کو مینارِ پاکستان سے عوامی اجتماع کے ذریعے عوامی رابطہ مہم شروع کرتے وقت ایم ایم اے کی قیادت کو ان الزامات، خدشات اور توقعات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے سفر کا از سرِ نو آغاز کرنا چاہیے، تاکہ پہلے مرحلے یعنی انتخابی مہم میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔ دوسرے مرحلے یعنی انتخابات میں نشستوں کا زیادہ حصول ممکن بنایا جاسکے اور آخری مرحلے یعنی ایک بہترین اور مثالی حکومت کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔ نصر من اللہ و فتح قریب۔
*****
خبر کا کوڈ : 722761
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش