1
Wednesday 9 May 2018 07:47
صبح نو

عصر ظہور امام مہدی (ع) کی معرفت

عصر ظہور امام مہدی (ع) کی معرفت
تحریر: بشیر مقدسی

کتنی مسرت بخش رات تھی،‎ پندرہ شعبان کی رات،‎ پوری قوم میلاد امام زمانہ کی خوشی سے جھوم رہی تھی، آسماں چراغوں سے جگمگا رہا تھا، زمین امامت کے چودھویں چاند کے نور سے ڈگمگا رہی تھی، فضا میں  مدح سرائی کی صدائیں گونج رہی تھیں ، بلبل،‎ امامت کے نغمے گنگنا رہی تھی۔ ہزاروں میٹرز پر مشتمل مسجد جمکران، ‎عاشقان امام زمانہ (عج) سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، راز و نیاز،‎ دعائے امام زمانہ(عج) اوردعائے فرج کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ معنویت سے لبریز اور پرلطف ماحول تھا۔ زمین کی یہ حالت دیکھ کر فرشتے بھی لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ایسے میں لب پہ بے ساختہ آیا: اے اللہ تیرا شکر کہ تونے مجھے  امام زمانہ،‎ کے چاہنے والوں میں سے قرار دیا، تونے شیعوں کو کھلے عام اپنی خوشی،کے اظہار کرنے کا موقع بخشاـ تاہم اچانک دل میں ایک بات،‎ کھٹکنے لگی ‎کہ کاش! منتظرین امام زمانہ (عج) ظہور کے لئے بھی اتنی ہی تیاریاں کرتے،‎ جتنی میلاد کے موقع پر کرتے ہیں، کاش ہم  ظہور کے لئے بھی اتنی ہی سعی و کوشش کرتے،‎ جتنی جشن میلاد منانے کے لئے کرتے ہیں،‎ تو اب تک وہ صبح نو طلوع کر چکی ہوتی،‎ جسکا ہمیں انتظار ہے۔ غیبت کا یہ مایوس کن پردہ ہٹ چکا ہوتا۔

مگر افسوس! منتظرین امام زمانہ (عج) میں انتظار کی بے تابی دکھائی نہیں دیتی ہے،‎ ظہور کے لئے  سعی و کوشش،‎ ان کے کردار میں نظر نہیں آتی۔ امام زمانہ (عج) کے متعلق سارا عشق و محبت،‎ سب پندرہ شعبان ہی کی رات میں خلاصہ ہوکر رہ جاتا ہےـ اسکے بعد امام (عج) کا تذکرہ بعض جہگوں تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔کیا ظہور کے لئے جشن منعقد کرنا کافی ہے؟ کیا قربانی کرنا کافی ہے؟! کیا سجانا اور چراغاں کرنا ظہور کے لئے کافی ہے؟! ہاں یہ سب ضروری ہے مگر کافی نہیں ہیں۔ اگر انتظار،‎ ظہور کے لئے سعی و کوشش کرنے، ظہور کے لئے زمینہ اور مقدمات فراہم کرنے ‎سےعبارت ہے،‎ تو کیوں  یہ صفت اکثر و بیشتر،‎منتظرین میں پائی نہیں جاتی ہے؟! کیوں منتظرین صرف نمائشی کاموں میں مصروف عمل ہیں؟ اس مضمون میں مفہوم انتظار پر بحث کرنا مقصود نہیں ہے،‎ بلکہ  یہ بیان کرنا ہے،‎ کہ ظہور کے لئے جدوجہد نہ کرنے کے اسباب و علل کیا ہیں؟ روایات میں ظہور کے لئے زمینہ فراہم کرنے کے متعلق بہت تاکید کی گئی ہے۔ زعمائے قوم اورخطباء گلے پھاڑ پھاڑ کر ظہور کے لئے زمینہ فراہم کرنے کی دعوت دے رہے رہیں،‎ مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی !ـ اس کی وجہ کیا ہے؟ میں نے غور کیا،‎ استفسار کیا،‎ تو معلوم ہوا کہ اسکے کئی اسباب ہیں مگر تفصیلی بحث اس مضمون میں ممکن نہیں ہے،‎ صرف ایک اہم وجہ اور سبب کی طرف اشارہ کرنا ہے،‎ جو ظہور کے درخشاں دور سے ناآشنائی ہے۔

ظہور کے لئے سعی و کوشش،‎ نہ کرنے کی اہم وجہ ظہور کے درخشاں زمانے کی خصوصیتوں،‎ برکتوں اور عظمتوں سے ناآشنائی ہے۔ اکثر و بیشتر اس زمانے کی خصوصیات اور برکتوں سے غافل ہیں،‎ تو بعض دیگر کچھ بےبنیاد باتوں کی بنا پر،‎ ظہور امام سے خائف رہتے ہیں۔ ایسے لوگ بھلا کیونکر ظہور کے لئے سعی و کوشش کرینگے!؟ جس طرح سونے اور چاندی کی اہمیت اور ویلیو سے انجان انسان،‎ اسے پانے کے لئے تگ و دو نہیں کرتا ہے،‎ بالکل اسی طرح ظہور کی برکتوں سے انجان شخص، ‎ظہور کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھاتاہے۔ پس ظہور کے درخشاں دور کی مکمل معرفت کے بغیر منتظر واقعی بننا مشکل ہے۔ ظہور کے زمانے کی معرفت سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس دور کے حصول کی پیاس شدت سے بڑھ جاتی ہے۔ نتیجتا وہ نہایت انکساری اور عاجزی سے ظہور کے لئے دعا کرے گا،‎ سعی کوشش کرے گا۔ ظہور کا زمانہ ایسا بےمثال اور بےنظیر ہے،‎ کہ جسکی تعبیر الفاظ میں نہیں کی جا سکتی ہے۔ قلم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ اس زمانے کی لطافت، ‎حلاوت اور برکتوں کو نگارش میں لائے۔ یقینا جب تک اس بابرکت زمانے کو درک نہ کرلیں،‎ تب تک اس کی عظمت سے آگاہ نہیں ہوا جا سکتا، تب تک اس کی جذابیت کو مکمل طور پر نہیں جان سکتے۔ چنانچہ امام باقر (علیہ السلام ) فرماتے ہیں:..."لایمکنکم معرفته کما هی تروه" (بحار الانوار) اس دور کی معرفت کماحقہ ممکن نہیں مگر یہ کہ اس دن کو خود دیکھ لو۔
روایات کی رو سے معلوم ہوتاہے کہ ظہور کے زمانے میں،‎ کسی مظلوم کا حق ضائع نہیں ہوگا، فقر و تنگدستی،‎ قتل و غارت گری کا قلع قمع ہوگا، کوئی ماں یتیم بچے کی پرورش سے پریشان نہیں ہوگی، ‎عدل و انصاف، ‎مساوات و بھائی چارگی کا دور دورہ ہو گا، محبت اور الفت کا عروج ہو گا، ہمدردی اور انسانیت کا بول بالا هو گاـ روایات اور قرآن میں، عصر ظہور کی مدحت سرائی میں ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتا ہے، ‎اس میں غوطه ور ہونا، ہمارے بس کی بات نہیں صرف بطور مثال کچھ نمونے  روئے قرطاس لانے کی کوشش کرینگے۔

چنانچہ قرآن کریم نے "بقیۃ اللہ خیر لکم" (سورہ ہود)کا نعرہ لگا کر آگاہ کردیا کہ حضرت ولی عصر (عج) کا مبارک وجود ہی انسانوں کے لئے فائدہ مند اور خیر کا زریعہ ہے، اور اسی طرح  اس  زمانے میں نافذ ہونے والی عدالت کے متعلق امام جعفر صادق فرماتے ہیں: "اما والله لیدخلن علیهم عدله جوف بیوتهم کما یدخل الحر والقر"(نعمانی،‎الغیبہ) حضرت امام مهدی(ع) کی عدالت حتمی اور قطعی طور پر گھروں میں بھی داخل ہو جائے گی، جس طرح گرمی اور سردی داخل ہوتی ہیں۔ یعنی انکی عدالت ایک عظیم طاقت کی طرح پھیل جائے گی۔ اسی طرح امام باقر (ع) اس صبح نو کے بارے میں فرماتے ہیں:"یظهر کالشهاب، ‎یتوقد فی اللیله الظلما،‎ فان ادرکت زمانه قرت عینک"۔ (الغیبہ نعمانی) (عصر ظهور اسطرح درخشان هوگا) جس طرح رات کی تاریکی میں شہاب شعلہ ور ہوتا ہے،‎ اگر ان کے زمانہ کو دیکھو گے تو تمہاری آنکھیں روشن ہو جائیں گی۔ رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں: "ابشروا ابشروا ابشروا بالمهدی۔۔۔یملا الارض قسطا وعدلا کما ملئت ظلما و جورا،‎یملا قلوب عبادہ عبادہ و یسمعهم عدله"۔(الغیبہ نعمانی) تمہیں مہدی(ع) کے بارے میں بشارت دیتاہوں ... امام زمانہ ظہور کریں گے اور زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کریں گے جس طرح سے وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی۔وہ خدا کے بندو ں کے قلوب کو حالت عبادت وبندگی سے سرشار کریں گے سب پر ان کی عدالت کا سایہ ہوگا۔

انسان تو دور، حیوانوں سے بھی درندگی کی صفت ختم ہو جائے گی،‎ چنانچہ امام علی (ع) فرماتے ہیں: "اصطلحت السباع والبهائم" (بحار الانوار) درندے اور چارپائے (پالتو جانور) ایک دوسرے کے ساتھ آرام اور صلح سے رہیں گے اور فراوانی نعمت اور کثرت رزق و روزی کے متعلق (مرحوم) نعمانی اپنی کتاب الغیبہ میں یوں رقمطراز ہیں کہ امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:ـ"۔۔۔لیاتین علیکم وقت لایجد احدکم لدینارہ ودرهمه موضعا،‎ یعنی لایجد عند ظهور القائم موضعا یصرفه فیه لاستغنا الناس جمیعا بفضل الله وفضل ولیه" (الغیبہ،‎نعمانی)۔ یقینا تم پر ایسا وقت آئے گا تمہیں پیسہ خرچ کرنے کے لئے،‎ جگہ نہیں ملے گی کیونکہ ظہور کے درخشاں دور میں اللہ اور اسکے ولی (امام عصر) کے فضل سے سب بے نیاز ہو جائیں گے۔ رہبرمعظم انقلاب حضرت آیه الله خامنه ای، اس درخشاں دور کے بارے میں یوں فرتےہیں: "عدل،‎ پاکیزگی،‎ سچائی،‎ علم و معرفت اور محبت سے سرشار دنیا،‎ امام زمانہ (ع) کی حکومت کے زمانے کی دنیا ہے، ‎صحیح معنوں میں انسان کی زندگی بھی اسی زمانے سے شروع ہوگی۔ اس دنیا میں انسان کی حقیقی زندگی امام زمانہ (عج) کے  ظہور کے بعد کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے،‎ خدا جانتا ہے کہ انسان اس زمانے میں کن عظمتوں تک پہنچ جائے گا!!!"(معارف الفرقان-695)۔

جن برکتوں کا ہم نے تذکرہ کیا ہے،‎ وہ سمندر کے مقابل میں قطرے کے ‎برابر ہیں۔ (قارئین،‎ تفصیل جاننے کے لئے متعلقہ کتب (مجتهدی سیستانی کی کتاب اور الامام الاثناء عشر وغیره) کا ملاحظہ کرسکتے ہیں)۔ غرض جب انسان کو ظہور کے درخشان زمانے کی معرفت ہوگی،‎ تو وہ اپنے آپ اسکے حصول کے لئے سعی و کوشش کرے گا۔ شب برات،‎ اپنی چھوٹی چھوٹی حاجتوں کو لیکر نہیں بیٹھے گا،‎ بلکہ تمام حاجات بھول بھال کر ظہور کے لئے دعا کرے گا اور یک صدا ہو کر بول اٹھے گا۔
کھبی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں      
کہ ہزاروں سجدے تڑپ  رہے ہیں مری جبین نیاز میں

(علامہ اقبال)
دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت        
هو جسکی نگه زلزله عالم افکار

 سب کے سب بعض دیگر ہستیوں کی طرح دن دگنی رات چوگنی، ظہور کے لئے سعی و کوشش کرینگے، چونکہ موجودہ دور میں ظلم و ستم،‎ قتل و غارت،‎ بی عدالتی کے نتیجے میں،‎ لوگ غموں کے پہاڑوں،‎ اشکوں کے کارواں اور حسرت  کے صحراؤں میں مبتلا ہو رہے ہیں،‎ اسلحوں کی تجارت غریبوں کا آشیانہ جلا رہی  ہے۔ الغرض انسانیت رنج و آلام کے دلدل سے نکلنے کے لئے بیتاب ہے۔ انسانیت صبح نو کی تلاش میں ہے،‎ اور وہ  ظہور کا زمانہ ہے۔ لہذٰا ظہور کے درخشاں زمانے کی معرفت حاصل کرنا  سب پر فرض ہے۔ ساتھ ہی  اسکی پہچان کروانا بھی تمام اہل علم و فضل کی ذمہ داری ہے۔ خدا ہمیں ظہور کے اس حسین دور (صبح نو) کو درک کرنے کی توفیق عطا فرمائےـ۔
خبر کا کوڈ : 722885
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش