0
Wednesday 9 May 2018 19:45

حسن و قبح عقلی

حسن و قبح عقلی
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

علم کلام کی اہم مباحث میں سے ایک حسن و قبح عقلی کی بحث ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ افعال ذاتی طور پر حسن {اچھے} اور کچھ افعال ذاتی طور پر قبیح {برے} ہیں۔ معتزلہ اور امامیہ حسن و قبح عقلی کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ اس کی نفی کرتے ہیں۔ بہت سے کلامی  مسائل اس بحث پر موقوف ہیں، مثلا انسان کا اپنے اعمال میں خودمختار ہونا، خداوند متعال کی بعض صفات کمالیہ کا ثبوت جیسے خدا کا عادل ہونا، اسی طرح بعض صفات سلبیہ بھی اسی بحث پر موقوف ہیں، جیسے خدا سے قبیح کا سرزد نہ ہونا، خدا کا ظلم نہ کرنا وغیرہ۔ جو لوگ حسن اور قبح کے قائل ہیں وہ انسانی افعال میں انسان کو مختار، خدا کو عادل مانتے ہیں جبکہ حسن و قبح کے مخالفین انسان کو مجبور اور خدا کی عدالت سے انکار  کرتے ہیں۔ حسن و قبح کا مسئلہ یونانی فلسفۂ اخلاق میں موجود تھا کیونکہ وہ اخلاقی اقدار کی بنیاد حسن و قبح کو قرار دیتے تھے ۱۔اسی طرح اسلام سے پہلے ثنویہ، تناسخیہ و براہمہ  بھی حسن و قبح ذاتی کے معتقد تھے۲۔ دوسری صدی میں کلام اسلامی میں حسن و قبح کی بحث کو ایک خاص مقام حاصل ہوا، جس کی بنا پر متکلمین عدلیہ اور اشاعرہ وجود میں آئے۔

حسن و قبح کے تین معانی ذکر ہوئے ہیں:
الف۔ کمال و نقص:
حسن و قبح سے کمال اور نقص مراد لئے جاتے ہیں، نیز حسن و قبح افعال اختیاری کیلئے صفت بنتے ہیں۔ مثلا علم حاصل کرنا حسن جبکہ جہل قبیح ہے۔ یعنی علم حاصل کرنا نفس کیلئے کمال ہے اور جہل نفس کی نسبت نقص ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے اکثر اخلاقی صفات حسن اور قبیح ہیں یعنی ان کا ہونا نفس کیلئے کمال اور نہ ہونا نقص ہوتا ہے۔

ب۔ ملائمت نفس یا منافرت نفس:
مثلایہ منظر خوبصورت ہے یا یہ منظر خوبصورت نہیں ہے۔ ان افعال میں حسن اور قبح کی بازگشت حقیقت میں نفس کی طرف لوٹتی ہے، یعنی انسانی نفس کو اس سے لذت محسوس ہونے کی وجہ سے انسانی نفس اس کی طرف میلان رکھتا ہے یا انسانی نفس اس سے قبح کا احساس کرتا ہے اور اس سے دوری اختیاری کرتا ہے۔ اس قسم میں کبھی حسن و قبح کو مصلحت اور مفسدہ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔۳ یہ قسم پہلی قسم سے زیادہ وسیع تر ہے۔ یہ قسم اشاعرہ اور عدلیہ کے درمیان محل نزاع نہیں ہے۔

ج۔ استحقاق مدح و ذم:
عقلا کے نزدیک فعل حسن کو انجام دینے والا قابل مدح اور ستائش ہے، نیز ثواب کا مستحق ہے جبکہ فعل قبیح کو انجام دینے والا قابل مذمت ہے اور عقاب کا مستحق ہے۔ بعبارت دیگر حسن وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک بجا لانا چاہیئے اور قبیح وہ ہے جسے عقلا کے نزدیک بجا نہیں  لانا چاہیئے۔ عقل اس بات کو درک کرتی ہے کہ حسن فعل کو انجام دینا چاہیئے اور قبیح کو ترک کرنا چاہیئے۔4 پہلے اور دوسرے معنی کے اعتبار سے عدلیہ اور اشاعرہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ تیسرے معنی کی نسبت عدلیہ کی طرف دیتے ہیں یعنی بعض افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ کلی طور پر اس بات سے انکار کرتے ہیں ۵۔

شیعہ مذہب میں عدل الٰہی کی تفسیر حسن و قبح عقلی  کے ذریعے کی جاتی ہے۔ حسن و قبح عقلی سے مراد یہ ہے کہ فاعل مختار سے جو بھی کام سرزد ہوتا ہے وہ حقیقت میں یا مستحسن ہے یا قبیح، یعنی یا اچھا ہے یا برا۔ انسان کی عقل بعض  کاموں کے اچھے اور برے ہونے میں تمیز کر سکتی ہے اگرچہ عقل تمام کاموں کے اچھےاور برے ہونے کی شناخت نہیں کر سکتی، جس کی بنا پر وہ وحی الٰہی کی محتاج ہے۔ بعبارت دیگر حسن و قبح عقلی مقام ثبوت اور نفس الامر میں عمومیت رکھتے ہیں لیکن مقام اثبات میں افعال کے حسن و قبح کی شناخت کا دائرہ عام نہیں ہے۔ یہاں انسان کی عقل محدود پیمانے پر افعال کے حسن و قبح کو درک کرتی ہے۔ قرآن کریم کی آیات سے مذکورہ مطالب واضح طور پر سامنے آتے ہیں جیساکہ قرآن کریم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ماموریت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:{ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنہاهُمْ عَنِ الْمُنكَر}۶وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے۔

اس آیت  کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ افعال، حقیقت میں دو قسم کے ہیں جن میں سے بعض معروف {حسن} اور بعض منکر {قبیح} ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معروف کا حکم دیتے اور منکرات سے نہی کرتے تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام  اپنی وصیت میں امام حسن مجتبٰی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:{انه لم یامرک الا بحسن ولم ینهک الا عن قبیح}۷۔ اس نے تجھے حکم نہیں دیا مگر اچھی چیز کا اور تجھے منع نہیں کیا مگر بری چیز سے۔ قرآن کریم میں بہت سارے مقامات پر خداوند متعال انسانی عقل و ضمیر کو فیصلے کی دعوت دیتا ہے، یعنی انسانی عقل بعض افعال کے {خواہ وہ نظری ہوں یا عملی} کے حسن و قبح کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{ هَلْ جَزَاءُ الْاحْسَانِ إِلَّا الْاحْسَان}۸۔ کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے؟۔ {قُلْ هَلْ يَسْتَوِى الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُون}۹۔ کہہ دے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہیں جو نہیں جانتے؟۔  (أَ فَمَن يهَدِى إِلىَ الْحَقّ‏ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يهَدِّى إِلَّا أَن يهُدَى‏  فَمَا لَكمُ‏ كَيْفَ تحَكُمُون}۱۰اور جو حق کی ہدایت کرتا ہے وہ قابل اتباع ہے یا  وہ جو ہدایت کرنے کے قابل نہیں ہے مگر یہ کہ اس کی ہدایت کی جائے؟ تو آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے اور تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟۔ {أَمْ نجَعَلُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ كاَلْمُفْسِدِينَ فىِ الْأَرْضِ أَمْ نجَعَلُ الْمُتَّقِينَ كاَلْفُجَّار}۔۱۱کیا ہم ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو زمین میں فساد برپا کرنے والوں جیسا قرار دیدیں یا صاحبان تقوی کو فاسق و فاجر افراد جیسا قرار دیدیں؟۔

اگر ہم حسن و قبح عقلی کو قبول نہ کریں تو ہم حسن و قبح شرعی کو بھی ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ حسن و قبح شرعی کو ہم اس وقت ثابت کر سکتے ہیں، جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور عصمت ثابت ہو جبکہ شرعی دلیل سے ان دونوں کو ثابت کرنے سے دور لازم آتا ہے جو کہ محال ہے۔ اگر ہم  عقل کے اس حکم کو قبول کریں، {جو یہ ہے کہ کسی جھوٹے شخص کو معجزہ دینا نیز کسی ایسے شخص کو لوگوں کی ہدایت کے لئے منتخب کرنا جو خود خطا کار اور گناہگار ہو، قبیح ہے جبکہ خداوند متعال ہر قسم کے قبیح کاموں سے منزہ ہے} تو  پھر ہم نبوت اور شریعت کو ثابت کر سکتے ہیں، نیز اسی طریقے سے حسن و قبح شرعی کو بھی ثابت کر سکتے ہیں۔ تجرید الاعتقاد میں محقق طوسی لکھتے ہیں، اگر حسن و قبح کو ثابت کرنے کا راستہ شرع تک محدود رہے تو افعال کا حسن و قبح کلی طور پر منتفی ہوگا اور شرع و عقل دونوں سے ثابت نہیں ہوگا ۔۱۲۔ حسن و قبح عقلی کی اثبات کے بارے میں متعدد دلائل میں سے نمونے کے طور پرتین دلیلوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف: یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر مسلک سے تعلق رکھنے والا شخص عدل و انصاف کی خوبی ،ظلم و ستم کی بدی، عہد و پیمان پر پابند رہنے کی اچھائی، عہد شکنی کی برائی اور نیکی کا جواب نیکی سے دینے کو درک کرتا ہے۔ تاریخ بشریت کا مطالعہ اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے اور آج تک اس امر کا مشاہدہ نہیں ہوا کہ کسی عاقل انسان نے اس حقیقت کا انکار کیا ہو۔
 ب: اگر فرض کریں کہ عقل تمام افعال کے حسن و قبح کو درک کرنے میں کلی طور پر ناتواں ہے اور انسانوں کو تمام افعال کے حسن و قبح جاننے کے لئے شریعت کی طرف رجوع کرنا چاہیئے تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ حسن و قبح شرعی بھی قابل اثبات نہیں کیونکہ خود شریعت کے ذریعہ شریعت کو ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے دور لازم آتا ہے جوکہ  محال ہے۔ اس کے علاہ قرآنی آیتوں  سے معلوم ہوتاہے کہ انسانی عقل بعض افعال کے حسن و قبح کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس بنا پر خداوند کریم، انسانی عقل و ضمیر کو فیصلہ کی دعوت دیتا ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے، {افنجعل المسلمین کالمجرمین مالکم کیف تحکمون}۱۳کیاہم اطاعت گذاروں کو مجرموں جیسا بنا دیں؟تمہیں کیا ہوگیا ؟ کیسا فیصلہ کر رہے ہو  ۔۱۴
ج: اگر حسن اور قبح عقلی نہ ہو بلکہ شرعی ہو تو  اس صورت میں شارع حسن کو قبیح اور قبیح کو حسن قرار دے سکتا ہے۔ اس صورت میں لازم آتا ہے کہ احسان کرنا حسن ہونے کی بجائے قبیح اور برے اعمال قبیح ہونے کی بجائے حسن میں تبدیل ہو جائیں جبکہ یہ بدیہی طور پر باطل ہے کیونکہ انسان کا وجدان اور ضمیر اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ محسن کی مذمت کرنا صحیح نہیں، اسی طرح برے انسان  کی مدح کرنا  بھی درست نہیں ہے۔۱۵

حسن و قبح کے منکرین اپنی دلیل اس طرح سے پیش کرتے ہیں:
الف: انسان اپنے افعال میں مجبور ہے۔ جہاں انسان اپنے افعال میں مجبور ہو وہاں عقل حسن اور قبح کا حکم نہیں لگا سکتی ہے۔ ۱۶
ب: اگر جھوٹ بولنے میں ذاتی قباحت موجود ہو تو بعض اوقات بعض مصالح کی خاطر جھوٹ بولنے کو قبیح تصور نہیں کیا جاتا ہے جبکہ جو چیز کسی چیز کی ذات یا لازم صفت ذات ہو اس کا جدا ہونا ممکن نہیں ہے۔ مثلا جھوٹ بول کر نبی کی جان کو ظالموں سے  بچائے۔ اگر جھوٹ بولنے میں ذاتی قباحت ہوتی تو اس مقام پر جھوٹ  بولنےکو  قبیح ہونا چاہیئے تھا۔ بنابرین حسن و قبح ذات کا حصہ نہیں ہیں یا ذات کے صفات لازم میں سے نہیں ہیں۔۱۷ حسن و قبح کے منکریں کے لئے جواب یہی ہے  کہ انسان اپنے افعال و اعمال میں خودمختار و آزاد ہے۔ اسی طرح اگر کسی اہم مصلحت کی خاطر جیسے نبی کی جان بچانا اگر جھوٹ بولنے پر موقوف ہو تو اس سے جھوٹ کی ذاتی قباحت ختم نہیں ہوتی، بلکہ صرف اس اہم مصلحت کی خاطر اس شخص کے لئے جھوٹ بولنا جائز قرار دیا گیا ہے۔۱۸

حوالہ جات:
1. محمد کاظم عماد زادہ،مقالہ بررسی تطبیقی حسن و قبح وثمرات آن در اندیشہ شیعہ ،معتزلہ ، اشاعرہ و ماتریدیہ۔
2. شہرستانی، محمد، نہایہ الاقدام، ص۳۷۱
3. شیخ مظفر ،اصول الفقہ ، ج 2 ص 274 با حوالۂ قوشجی ،شرح التجرید،ص338 ۔ایجی، المواقف ج 3 ص 262۔
4. شیخ محمد رضا مظفر ،اصول الفقہ،ج 1 ؛ میثم بحرانی ،قواعد المرام،ص 104؛ایجی ،المواقف ج3 ص262؛قاضی جرجانی ، شرح المواقف،ض8 ص 181۔
5. جعفر سبحانی،الٰہیات،ض 231۔
6. اعراف،157۔
7. نہج البلاغۃ، نامہ،31۔
8. الرحمن،60۔
9. زمر،9
10.یونس،35۔
11. ص،28۔
12. تجرید الاعتقاد،محقق طوسی۔
13. قلم،35- 36۔
14. جعفر سبحانی ،عقائد امامیہ، ص 140۔
15. جعفرسبحانی،الہیات ص 246
16. قاضی جرجانی ،شرح المواقف،ج8 ص185۔ایجی،المواقف ج3 ص 262
17. قاضی جرجانی ،شرح المواقف،ج8 ص189۔ایجی،المواقف ج3 ص 262
۱۸۔ علامه بہبہانی الفوائد الحائریه، ص 372۔

 
خبر کا کوڈ : 722913
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش