3
Thursday 17 May 2018 02:57

عراق میں انتخابات کے بعد کی صورتحال

عراق میں انتخابات کے بعد کی صورتحال
تحریر: عرفان علی

عراق کے پارلیمانی انتخابات 12 مئی 2018ء کو ہوچکے، لیکن بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب تک حتمی و سرکاری مکمل نتائج کا رسمی اعلان نہیں ہوسکا ہے۔ البتہ عراق کے ایک خبر رساں ادارے نے 320 عام نشستوں پر کامیاب جماعتوں اور اتحاد کی عددی حیثیت جاری کر دی ہے۔ ان انتخابات پر قارئین کو بروز پیر اپ ڈیٹ کیا تھا اور بہت ہی مفید اور مثبت فیڈ بیک بھی ملا، جس کی وجہ سے اس اہم ایشو پر ایک اور تحریر پچھلے مقالے کے تسلسل میں لکھنے کی ضرورت محسوس کی۔ صوبہ کرکوک میں پولنگ اسٹیشنوں پر حملے ہوئے ہیں اور وہاں ووٹوں کی گنتی کا عمل شدید متاثر ہوا ہے، جس کی وجہ سے عراق کا الیکشن کمیشن حتمی اور مکمل نتائج کے رسمی اعلان سے گریزاں ہے۔ لیکن اب تک جو گنتی ہوچکی، اس کی بنیاد پر مقتدیٰ الصدر کے انتخابی اتحاد السائرون کو 329 کے ایوان میں 54 نشستیں حاصل ہوچکی ہیں۔ موجودہ وزیراعظم حیدر العبادی کے انتخابی اتحاد النصر کو 52، بدر بریگیڈ(رکن حشد الشعبی) کے ھادی العامری کے انتخابی اتحاد الفتح 49 نشستیں، سابق وزیراعظم و موجودہ نائب صدر نوری ال مالکی کے انتخابی اتحاد دولت القانون کو 25 اور عمار الحکیم کی حکمت ملی یا الحکمہ کو 22 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ ان سب کی مجموعی تعداد 202 ہے۔ ایاد علاوی کے انتخابی اتحاد الوطنیہ کو 21، اسامہ نجیفی کے القرار اتحاد کو 15، بارزانی کی کرد ڈیموکریٹک پارٹی کو 24، جلال طالبانی مرحوم کی جماعت پیٹریاٹک یونین آف کردستان کو 15، المجاھر الوطنیہ کو 7، گورران یا تحریک تبدیلی کو 5، جیل الجدید (نسل جدید) کو 4، الانبارھویتنا کو 5، نینوا ھویتنا، کرکوک کے ترکمن محاذ اور کردستان کے مذہبی اتحاد کومل کو تین، 3، بیارق الخیر، ارادہ، جماعت اسلامی اور کوالیشن برائے جمہوریت کو 2، دو نشستوں پر جبکہ صلاح الدین ھویتنا، حزب المدنی اور جمہوری اتحاد کو ایک، 1نشست پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کرکوک کی عام نشستیں 12 ہیں۔ اور ان نتائج میں وہاں کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج شامل ہیں، جبکہ اقلیت کے لئے مخصوص 9 نشستیں شامل نہیں ہیں۔

بظاہر پوری دنیا میں اس نکتے پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے کہ اس مرتبہ بہت بڑی تبدیلی واقع ہوگئی کہ مقتدیٰ الصدر کا انتخابی اتحاد پہلے نمبر پر آگیا۔ دنیا بھر میں تجزیہ و تحلیل کا زاویہ یہ رہا کہ مقتدیٰ کی اس کامیابی کے بعد گویا عراق کی حکومت و ریاست کسی نئی سمت میں سفر شروع کر دے گی، جبکہ 2005ء کے پہلے پارلیمانی انتخابات سے 2018ء کے پارلیمانی انتخابات تک اور درمیان کے 2009ء اور 2014ء کے عام انتخابات کو بھی شامل کرلیں تو عراق کی سیاست میں کوئی جوہری تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کی سیاست کی طرح وہی مشہور و معروف چہرے اس سال بھی میدان میں اترے۔ انہوں نے نئے ناموں سے اتحاد بنائے اور انہی میں نشستیں تقسیم ہوئیں، فرق صرف عددی حیثیت کا ہے کہ کسی کی نشستیں کم ہوئیں، کسی کی زیادہ۔ جیسا کہ پوری دنیا میں ہی انتخابی سیاست کی یہی حرکیات اور یہی رجحان ہے۔ مقتدیٰ الصدر کے اتحاد نے مالی بدعنوانی کے خلاف مہم چلائی۔ اس ایشو پر ایک طویل عرصے سے وہ سیکولر اور کمیونسٹ اور آزاد افراد کے ساتھ مل کر مظاہرے کرتے رہے تھے اور اس مرتبہ انہی کے ساتھ مل کر انتخابی اتحاد قائم کیا۔ مقتدیٰ کے حمایت یافتہ افراد 2005ء سے عراق کی یک ایوانی مقننہ میں کم یا زیادہ تعداد میں موجود رہے ہیں اور انکے والد صاحب آیت اللہ صادق الصدر شہید کے شاگرد نے ال فضیلہ جماعت کے پلیٹ فارم سے ماضی میں الیکشن لڑا تھا۔ پچھلی پارلیمنٹ میں انکے 39 نمائندے ال احرار گروپ کی صورت میں موجود تھے اور بعض ذرایع ابلاغ ان کے حمایت یافتہ اراکین اسمبلی کی تعداد 43 تک بھی ظاہر کرتے رہے ہیں اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ انکے حمایت یافتہ اراکین اسمبلی پر بھی مالی بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے۔

اگر مقتدیٰ کے انتخابی اتحاد کا موازنہ سیکولر ایاد علاوی سے کیا جائے تو 2009ء کے پارلیمانی انتخابات میں انہیں سب سے زیاہ ووٹ اور نشستیں ملیں، لیکن وہ حکومت سازی کے لئے ناکافی تھیں، اسی لئے نوری المالکی کا اتحاد جن کی ایاد علاوی کے انتخابی اتحاد سے صرف دو نشستیں کم تھیں، انہوں نے دیگر کامیاب انتخابی اتحادوں کے ساتھ مل کر حکومت بنالی اور تب بھی امریکہ اور سعودی عرب کا دباؤ تھا اور مالکی حکومت کو ایاد علاوی کو ایڈجسٹ کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس مرتبہ علاوی کے انتخابی اتحاد الوطنیہ کے پاس محض 21 نشستیں ہیں۔ نمبر گیم میں مقتدیٰ الصدر اس حیثیت میں نہیں ہیں کہ تنہا یا اکا دکا اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرلیں۔ وزیراعظم عبادی اور کرد ہیوی ویٹ مسعود بارزانی نے ان سے فون پر رابطہ کیا ہے۔ مقتدیٰ اتحاد چاہتا ہے کہ عراق میں غیر جماعتی بنیادوں پر ٹیکنو کریٹس پر مشتمل حکومت بنے، جو سیاسی ہم جماعتوں کی مالی بدعنوانی کی بجائے عوام کی روزی روٹی کے لئے کام کرے۔ بہت سادہ اور آسان فارمولا ہے کہ عراق میں حکومت بنانے کے لئے سادہ اکثریت 165 اراکین پر مشتمل ہے، یعنی جو جماعت یا اتحاد بھی 165 اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل کرلے تو وزیراعظم انکی حمایت سے بن جائے گا۔ لیکن دو تہائی اکثریت کے لئے 220 اراکین اسمبلی کی حمایت درکار ہے۔ ہم نے سبھی کی عددی حیثیت تحریر کی ہے اور اس کی روشنی میں واضح ہے کہ عبادی اور بارزانی بھی مقتدیٰ سے اتحاد کرلیں تو تینوں اتحادوں کے اتحاد کے باوجود تعداد 130 بنے گی، یعنی سادہ اکثریت نہیں ہے۔ مقتدیٰ الصدر کے قریبی حلقوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ وہ عمار الحکیم اور ایاد علاوی کے اتحادوں کے ساتھ اتحاد کرسکتے ہیں اور اس طرح بھی تعداد 97 بنتی ہے۔ یعنی مقتدیٰ الصدر کے السائرون کے لئے ہنوز دلی دور است!

اور یہ صرف انکے لئے نہیں جتنے بھی گروہ ہیں، سبھی کے لئے یہی فارمولا ہے کہ حکومت سازی کا مرحلہ بہت زیادہ مشکل ہوچکا ہے، کیونکہ پہلے سنگل لارجیسٹ پارٹی اور دوسرے تیسرے نمبر کی جماعتوں کی عددی حیثیت نسبتاً زیادہ مستحکم ہوا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ یہ نکتہ بھی دلچسپ ہے کہ پہلے نمبر پر جو انتخابی اتحاد ہے، اس کے اور دوسرے اور تیسرے نمبر پر جو گروہ موجود ہیں، ان کے درمیان فرق کوئی بہت زیادہ نہیں ہے، جیسا کہ حیدر العبادی کے النصر اتحاد کے کامیاب اراکین سے السائرون کے پاس صرف دو اراکین زیادہ ہیں اور ھادی العامری کے الفتح اتحاد سے محض پانچ اراکین زیادہ ہیں۔ دلچسپ نکتہ یہ بھی ہے کہ شیعہ مذہبی افراد کے پانچ گروہوں کے اتحادوں کی پارلیمنٹ میں مجموعی قوت سادہ اکثریت سے زیادہ ہے اور دو تہائی اکثریت کے لئے محض 18 ووٹ درکار ہیں، جو بارزانی سے بھی مل سکتے ہیں، جن کی جماعت پچیس اراکین کی جماعت بن چکی ہے یا پھر جلال طالبانی مرحوم اور انکے جانشین موجودہ صدر فواد معصوم کی پیٹریاٹک یونین آف کردستان جو 15 اراکین کی جماعت ہے اور مزید تین آزاد اراکین یا دیگر ہم خیال ملاکر بھی دوتہائی اکثریت بنائی جاسکتی ہے۔ مزید دلچسپ نکات یہ ہیں کہ عراق کی سیاست میں آیت اللہ باقر الصدر اور آیت اللہ باقر الحکیم کے سیاسی وارث آج بھی طاقتور حیثیت میں ہیں اور ان مذکورہ پانچ اتحادوں جن کی پارلیمانی طاقت 202 ہوچکی ہے، کی قیادت کا تعلق انہی دو آیات عظام سے جا ملتا ہے! حیدر العبادی اور نوری المالکی بنیادی طور پر حزب الدعوۃ الاسلامیہ سے ہیں اور دونوں میں اختلافات کی وجہ سے دو الگ انتخابی پلیٹ فارم بنے۔ ماضی میں اسی جماعت کے ابراھیم جعفری اور مالکی الگ الگ انتخابی اتحاد بناکر انتخابات کے میدان میں اترچکے ہیں اور اس سے پہلے سید عمار الحکیم نے سیاسی اتحاد بنایا تھا، جو ائتلاف العراقی الموحد سے بعد میں ائتلاف الوطنی العراق میں تبدیل ہوا۔ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی سنی عرب، بعض کرد اور دیگر اسٹیک ہولڈرز ان شیعہ قائدین کے انتخابی اتحاد کا حصہ بنے۔ شیعہ قائدین کی قیادت کی وجہ سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ شیعہ انتخابی اتحاد تھے، امر واقعہ یہ ہے کہ اس میں عراق کے دیگر مسالک و اکائیوں کی بھی نمائندگی تھی اور شروع سے اسی طرح رہا ہے۔

ھادی العامری بنیادی طور پر البدر بریگیڈ سے تعلق رکھتے ہیں، جو داعش کے خلاف مرجعیت کے حکم پر بننے والے عوامی رضاکار لشکر یعنی حشد الشعبی کا رکن گروہ ہے۔ البدر کو آیت اللہ باقر الحکیم کی سپریم کاؤنسل برائے انقلاب اسلامی عراق کا ذیلی ونگ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن عمار الحکیم نے نیا سیاسی پلیٹ فارم بنا لیا اور ھادی العامری نے الفتح کے نام سے نیا انتخابی اتحاد قائم کیا اور عمار الحکیم کے سیاسی پلیٹ فارم سے دوگنا سے بھی زیادہ یعنی 49 نشستیں حاصل کر لیں، حالانکہ عمار الحکیم خود ایک عالم دین ہیں اور فوجی لباس میں عراق کے دفاع کے لئے مسلح مقاومت کر رہے تھے۔ حیدرالعبادی بھی اسی بات کا کریڈٹ لے رہے تھے کہ داعش کے قبضے سے عراق کو آزاد کروانے والی انکی حکومت ہے، اس لئے انہیں عراق کے بھرپوراور کامیاب دفاع کرنے پر ووٹ دیئے جائیں۔ لیکن اس زاویے سے دیکھا جائے تو ھادی العامری زیادہ کامیاب رہے کیونکہ العبادی کو امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے مخالفت پر مبنی پروپیگنڈا کا سامنا نہیں تھا بلکہ امریکی و برطانوی ذرایع ابلاغ نے تو انہیں امریکہ کا امیدوار قرار دیا تھا، جبکہ ھادی العامری کو ایران کا امیدوار بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔ اب کوئی ان ذرایع ابلاغ سے پوچھے کہ کیا ھادی العامری کی صورت میں عراق کی حزب اللہ جیت گئی، کیونکہ انکے بارے میں یہی تاثر دیا گیا کہ جس طرح لبنان میں حزب اللہ کا کامیاب ہونے کا مطلب ایران کے اثر و رسوخ کی کامیابی قرار دیا گیا، ھادی العامری کو عراق میں حزب اللہ کی جڑواں بہن قرار دینے کی کوشش کی گئی اور حیرت انگیز لیکن دلچسپ حقیقت یہی ہے کہ ھادی العامری نے انتخابی مہم میں ایران کی تعریف کی۔

سوال یہ ہے کہ عراق کی پارلیمنٹ میں ھادی العامری کیا لفتح کے ان 49 ووٹوں کو کوئی بھی حکومت کس طرح نظر انداز کرسکے گی اور ان ووٹوں کو اپنے خلاف استعمال کیوں ہونے دے گی۔ یہی سوال مقتدیٰ کے اتحاد کے 54 ووٹوں کے بارے میں بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن مقتدیٰ کے حامی کم پارلیمانی طاقت کے باوجود بغداد میں اقتدار کے ایوانوں کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھے رہتے تھے اور جب کچھ بھی نہیں تھا، تب بھی امریکی افواج کے خلاف مقاومت پر ڈٹے ہوئے تھے۔ اگر اس کا موازنہ ھادی العامری کے گروہ سے کیا جائے تو پوری دنیا کو معلوم ہے کہ انکے پاس مسلح مقاومت کے لئے بھی مقتدیٰ کی جیش المھدی سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار افرادی قوت تھی اور ہے اور انتخابی سیاست میں بھی انکی عددی قوت ماضی کے مقتدیٰ بلاک سے اس وقت کہیں زیادہ ہے۔ یعنی اپوزیشن میں بھی اگر رہے تو الفتح نسبتاً زیادہ مضبوط پارلیمانی پریشر گروپ کا کردار اداکرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مستقبل کا امکانی سیاسی و پارلیمانی منظر نامہ کم و بیش وہی رہے گا، جو ماضی میں تھا، یعنی قومی مفاہمت پر مبنی شراکت اقتدار جس میں زیادہ سے زیادہ گروہوں کو اقتدار میں نمائندگی دی جائے گی۔ مالکی اور عبادی میں اختلافات کی وجہ سے انکا ساتھ مل بیٹھنا بظاہر مشکل لگتا ہے، لیکن موجودہ سیٹ اپ میں بھی مالکی نائب صدر کی سیٹ پر براجمان ہے تو عبادی وزیراعظم کے عہدے پر۔ جن سیاسی ہیوی ویٹ شخصیات کے نام تحریر کئے ہیں، وہی حکومتی و ریاستی اداروں کے نمایاں منصب پر فائز کی جاتی رہی ہیں، باوجود اس کے کہ انکے مابین اختلافات اپنی جگہ ایک ناقابل تردید حقیقت کے طور پر موجود رہتے ہیں۔

اسی طرح عمار الحکیم اور ھادی العامری کی مثال بھی دی جاسکتی ہے کہ انکے الگ الگ پلیٹ فارم سہی، لیکن حکومت سازی کے عمل میں انکا مل بیٹھنا اور شراکت اقتدار کے فارمولا پر متفق ہو جانا، کوئی حیرت انگیز اور غیر متوقع سرگرمی نہیں ہوگی۔ اس وقت ان تین بڑے انتخابی اتحاد یعنی السائرون، النصر اور الفتح کے علاوہ نہ صرف نوری مالکی (25) اور عمار حکیم (22) کے انتخابی اتحاد اہمیت کے حامل ہیں بلکہ کردوں کی علاقائی (طالبانی و بارزانی کی) دو بڑی جماعتیں (24جمع 15)، الوطنیہ (21) اور القرار (15) سمیت دیگر چھوٹے انتخابی اتحاد جن کی پارلیمنٹ میں عددی قوت ایک نشست سے لے کر 15 نشستوں تک ہے، یہ سبھی اہم ہیں، کیونکہ ایک تا سات نشستوں والے گروہوں کی مجموعی قوت 41 نشستیں ہیں۔ اس لئے اقتداری سیاست میں یہ ساری نشستیں اہمیت کی حامل ہیں۔ عراق کے پارلیمانی انتخابات میں اکثریت ان جماعتوں کو حاصل ہوئی ہے، جنہوں نے عراق کی سلامتی اور امن کے قیام کے لئے عملی کردار ادا کیا، یا جنہوں نے قانون کی حکمرانی کا قیام اور مالی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے تحت انتخابی مہم چلائی۔ نئے چہروں کا آنا اور پرانے چہروں کا فیصلہ ساز اداروں میں عمل دخل کسی بھی ملک کے سیاسی عمل میں معمول کی بات ہے۔ عراق کی انتخابی و پارلیمانی سیاست میں کوئی جوہری تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ نعروں کو عمل کا روپ دینا اتنا آسان کام نہیں ہے اور عراق جیسے ملک میں جہاں پاکستان کی طرح یا اس سے بھی زیادہ منقسم انتخابی مینڈیٹ آتا ہے، وہاں انقلابی اقدامات کے نعرے اور دعوے کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی، لیکن کمزور مخلوط حکومت جو اتحادیوں کی حمایت کے سہارے کھڑی ہو، اس کے لئے ناممکن کی حد تک مشکل ہوتا ہے۔ عراق میں مالی بدعنوانی انتہائی عروج پر رہی ہے اور مقتدیٰ الصدر کا اس اہم عراقی قومی ایشو پر سخت موقف اختیار کرنا قابل تحسین ہے اور اسی طرح عراق میں امن و سلامتی کو یقینی بنانا اس سے زیادہ تعریف کے لائق عمل ہے۔ تکفیریوں کے حملوں اور دھماکوں، انتخابی طریقہ کار میں تبدیلی اور بائیو میٹرک کارڈ کے کم اجراء کے باوجود عراقی ووٹرز کا چالیس فیصد سے زیادہ تعداد میں انتخابی عمل میں شرکت کرنا بھی کم اہم نہیں ہے۔

عراق کی سیاست میں خارجہ پالیسی کے موضوع پر سیاسی اسٹیک ہولڈرز امریکہ، سعودی عرب اور ایران کے مابین تقسیم ہیں۔ مقتدیٰ الصدر اور حیدر العبادی اور بعض دیگر کے سعودی عرب کے دورے یا سعودی حکام کی ان سے اور عراق کے سکیورٹی حکام سے ملاقاتیں، بعض حلقے اس کو سعودی اثر و رسوخ میں اضافے کی علامت سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عراق جیسے ملک کی ہیئت مقتدرہ ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی ہے کہ وہ خطے اور عالمی سیاست کے اہم کھلاڑیوں اور طاقتوں کو یکسر مسترد کر دے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ عراق اس پالیسی کے ذریعے ایران اور امریکہ اور ایران اور سعودی عرب کے مابین پل کا کردار بھی ادا کرسکتا ہے، ان کے مابین کشیدگی ختم کروانے کے لئے کردار ادا کرسکتا ہے۔ امریکہ عراق میں داعش کے خلاف لڑائی اور عراقی فوجی تربیت و معاونت کے بہانے نہ صرف چار تا چھ ہزار نفر پر مشتمل اپنی فوجی موجودگی رکھتا ہے بلکہ اس نے نجی سکیورٹی کمپنیوں کے ساڑھے پانچ ہزار سے زائد اہلکار بھی میدان میں اتارے ہیں۔ عراق پر جنگ کے وقت امریکہ نے یہاں 505 فوجی اڈے قائم کئے تھے اور پینٹاگون کی خواہش تھی کہ ان میں سے 58 کو 2011ء میں امریکی فوجی انخلاء کے بعد بھی برقرار رکھا جائے، لیکن یہ عراق کی پارلیمنٹ تھی جس نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا تھا اور داعش گروہ سے لڑائی کے بہانے 2015ء تک 5 فوجی اڈوں کو بحال کر دیا تھا۔ عراقی پارلیمنٹ جیسی بھی ہے، اس نے ماضی میں امریکہ کے سامراجی اہداف کے خلاف مقاومت کی ہے اور اب بھی ملت عراق کا بنیادی مسئلہ یہی مداخلت ہے۔

اس تحریر کی طوالت کی معذرت کے ساتھ آخری نکتہ یہ عرض کر دوں کہ بعض افراد عرب عجم کے تنازعے کے تناظر میں عراق کے حالات کو دیکھ رہے ہیں تو اس حوالے سے بھی زمینی حقیقت یہ ہے کہ عراق و ایران دو ایسے پڑوسی برادر اسلامی ملک ہیں کہ جہاں نہ صرف عرب عجم بلکہ سنی شیعہ مسلمان شہری اور مسلمان و غیر مسلم شہری مل جل کر امن و محبت سے زندگی گذارتے آئے ہیں۔ حالانکہ عرب یہاں بعد میں آئے ہیں اور کرد اور ایرانی پہلے سے یہاں آباد تھے اور انکے مثالی دوستانہ و برادرانہ تعلقات تھے اور شیعہ عرب اور کردوں کے برادرانہ تعلقات سے بھی اہل علم و دانش آگاہ ہیں۔ عراق میں نہ صرف عرب عجم بلکہ سنی و شیعہ عرب مسلمان بھی شریک اقتدار ہیں۔ ایران میں بھی اسی طرح ہے کہ خوزستان و آذربائیجان شرقی و غربی تا کردستان اور سیستان و بلوچستان سے قم تہران و مشہد سمیت ہر فارسی زبان علاقے تک، عرب، کرد، بلوچ و آذری ایرانی بھی باہم شیر و شکر ہیں۔ حشد الشعبی میں عراق کے مختلف عرب عجم اور سنی شیعہ گروہ سبھی شریک تھے اور ریاستی اداروں اور حکومتی ایوانوں میں بھی سبھی ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، اس لئے یہ لائن کہ عرب عجم کی بنیاد پر عراق کے اندر یا ایران عراق کے مابین تفرقہ موجود ہے یا ڈالا جاسکتا ہے، پچھلے 15 سال کی تاریخ خود اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ ایران و عراق کے تعلقات روز بروز پہلے سے زیادہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہو رہے ہیں، دوطرفہ سالانہ تجارت کا حجم 6 ارب ڈالر سے زیادہ ہوچکا ہے اور دفاعی شعبے میں تعاون کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ عراق کے اندرونی معاملات میں امریکی و سعودی کردار کے ہوتے ہوئے عراق کا ایران کے ساتھ تعلقات کو دوستی و اخوت کے جذبے کے تحت بڑھانا اور بہت سے معاملات پر کافی حد تک امریکی و سعودی دباؤ کو مسترد کرتے رہنا، یہ روش عراق کو ایران کے ان دیگر پڑوسی ممالک سے ممتاز کرتی ہے کہ جو امریکی و سعودی اتحادی ہونے کے ناطے ایران سے فاصلے بڑھاتے رہے ہیں۔ عراق میں ایران کے کردار کے بارے میں امریکی و سعودی خود ہی مبالغہ آرائی کرتے آئے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ وہاں ایران مداخلت کرتا ہے اور ایران کا اثر و نفوذ بغداد، بیروت، غزہ، صنعا، دمشق تک پہنچ چکا ہے اور کبھی یہ مفروضے پھیلاتے ہیں کہ نجف قم میں اختلافات ہیں، عرب عجم مسائل ہیں، انکی کس تھیوری کو درست مانا جائے؟!
خبر کا کوڈ : 725322
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش