0
Saturday 19 May 2018 07:58

مشکلات ترقی کا زینہ ہیں!

مشکلات ترقی کا زینہ ہیں!
تحریر: عظمت علی
Rascov205@gmail.com

دور حاضر میں بڑھتے ہوئے وسائل کے ساتھ ساتھ روز نت نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ آج کے دور میں مسائل ہی نہیں بلکہ مشکلات بھی نئے نئے بدنما چہرے لئے ابھر رہی ہے۔ گذشتہ دنوں کی بنسبت آج لوگ زیادہ رنج و الم کا شکار ہیں، اسی وجہ سے زندگی سے مایوس ہو کر اپنی جان گنوانے میں  کوئی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کرتے۔ خصوصا مغربی ممالک (Western countries) میں حادثاتی موت بہت زیادہ دیکھنے کو املتی ہے جو کہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک شمار کئے جاتے ہیں، اب اسے ترقی کہیں یا تنزلی؟ دنیا میں  اکثر افراد ایسے پائے جاتے ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی طرح کی مشکلات اور ناامیدی کا سامنا ضرور کیا ہے اور بہت سے ایسے افراد بھی تھے جنہوں نے زندگی کے نشیب و فراز میں الجھ کر اپنے آپ کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔ فقر و فاقہ کی شش و پنج میں الجھ کر اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اور کبھی تو ایسا بھی ہوا ہے محبت کے دیپ جلانے کی خاطر خود کی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے اسباب ہیں جن کے چلتے بنی نوع انسان اپنی حیات کو لمحوں میں گنوا دیتا ہے۔

مشکلات اور ناامیدی بظاہر نقصانات میں شمار کی جاتی ہیں لیکن جس طرح سکے کے دو رخ ہوتے ہیں اسی طرح اس کے بھی دو پہلو ہوتے ہیں، ایک مثبت اور دوسرا منفی۔ عام طور سے لوگ اس کے نقصانات کی طرف توجہ کرتے ہیں حالانکہ اس کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ مثلاً ایران پر تمام تر پابندیوں  کو عائد کرنا بظاہر مایوس کن بات ہے لیکن یہی منفی فکر اس کے لئے مثبت ثابت ہوئی۔ موجودہ کائنات اس ڈھنگ سے خلق کی گئی ہے کہ اس میں مشکلات و ناامیدی اور بہترین مواقع دونوں  مثبت اور منفی اشیاء موجود ہیں۔ اکثر ایسا مشاہدہ میں آیا ہے کہ انسان مشکلات سے لڑ کر انہیں  راستہ سے ہٹانا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی راہ کو مزید ہموار کر سکے لیکن نکتہ سنج افراد وہی ہوتے ہیں جو مشکلات کی بجائے صحیح وقت کا استعمال کرتے ہیں۔ اور انگلش زبان کا مقولہ بھی ہے کہ Ignore the problems,avail the opportunities.
مشکلات کو نظرانداز کرو اور مواقع کو استعمال کرو۔

مایوسی ہمیشہ وقتی نقصان کی بناء پر ہوتی ہے لیکن اس کے اثرات دائمی ہوتے ہیں۔ زیادہ تر حضرات چند ساعتوں اور کچھ ایام کے ہم و غم کی تاب نہ لا کر ابدی رنج و الم کا سودا کرلیتے ہیں۔ ایسی بدترین تجارت وہی لوگ کرتے ہیں جن کے جذبات و احساسات ان کے علم و عقل پر غالب ہوتے ہیں، اور پھر وہ اپنی سنہری سی حیات کو ضائع کرنے میں  کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ پس اگر ہمیں  اگر ہمیں مایوسی کے دائمی اثرات سے محفوظ رہنا ہے تو کائی کی طرح چھٹ جانے والے وقتی نقصان پر صبر و تحمل سے کام لینا ہو گا۔ عصر رواں میں زیادہ تر لوگ حسرت و یاس میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں جبکہ اگر وہ ماضی کو بھلا کر فکر فردا کریں تو غیر معمولی کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔ اس لئے کہ زندگی کی شیرینی کا ذائقہ چکھنے کے لئے ماضی کی روداد غم پر گہرے پردے ڈالنے ہوں گے۔ بہرکیف، مشکلات سے کامیابی ایسے چسپاں ہوتی ہے جیسے گلاب سے خار! اب انسان کی عقل پر موقوف ہے کہ وہ کانٹوں سے نباہ کر گلاب حاصل کرلے یا اپنے ہاتھوں کو زخمی کرلے۔
تاریخ میں بعض ایسی نامور شخصیتیں گزری ہیں جنہوں نے تنگی میں  وسعت، ناکامی کے سمندر سے نایاب گہر اور مایوسی کی گھٹا ٹوپ وادیوں سے امیدوں کے چراغ جلائے ہیں گویا کہ:
کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے
سانپ کو مار کر گنجینہ زر لیتا  ہے
خبر کا کوڈ : 725470
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش