0
Friday 18 May 2018 11:20

پاک افغان بارڈر منیجمنٹ

پاک افغان بارڈر منیجمنٹ
رپورٹ: ایس علی حیدر

پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا عمل خوش اسلوبی سے جاری ہے اور یہ اس لحاظ سے اطمینان بخش ہے کہ اس سے امن و امان کی صورتحال اس ابتدائی مرحلہ پر کافی بہتر ہوئی ہے۔ کم و بیش اڑھائی ہزار کلومیٹر طویل پاک افغان بارڈر جس کو عرف عام میں ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہے، عشروں سے منیجمنٹ سے محروم رہی ہے اور یہی وجہ تھی کہ اکثر اوقات اسے ایک لکیر سے زیادہ حیثیت نہیں دی گئی، جس کیوجہ سے پھر قباحتیں بھی بڑھتی گئیں، جب افغانستان پر روسی یلغار ہوئی تو اس کے بعد سے اس سرحد کی اہمیت زیادہ بڑھ گئی۔ چار عشروں کے دوران اس سرحد کی اہمیت بھی بڑھتی گئی اور ساتھ ہی منیجمنٹ کی ضرورت بھی اہمیت حاصل کرتی گئی، مگر بدقسمتی سے کبھی بھی اس پر توجہ نہ دی جا سکی، ہر حکومت نے اس جانب غفلت اختیار کی، جس کا خمیازہ پھر قوم کو ہی بھگتنا پڑا۔ ایک اندازہ کے مطابق پاک افغان سرحد سے روزانہ 15 سے 20 ہزار افراد بلا روک ٹوک گزرتے تھے، ایک بھیڑ لگی ہوتی تھی، یہ احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس مقام سے بین الاقوامی سرحد عبور کر رہی ہے۔ حالانکہ افغانستان کے ساتھ ماضی میں جس طرح حالات رہے ہیں، اس کے تناظر میں اس طرف توجہ بہت ضروری تھی، کیونکہ افغانستان کی طرف سے پاکستان کیلئے دل سے خیر اندیشی کا پھول نہیں کھلا، بلکہ مفادات سے لتھڑی عالمی سیاست نے خطے کی صورتحال کو ہمیشہ دوطرفہ کشیدگی اور محبت و نفرت کے کھیل میں الجھائے رکھا ہے۔

افغان حکومت ایک ایسے کام پر کیوں معترض ہو رہی ہے، جو پاکستان کیلئے ہی نہیں خود اس کیلئے بھی مفید ہے۔ پاکستان کی پالیسی یہ ہے کہ (جو افغانستان کا دشمن ہے، وہ پاکستان کا دشمن ہے) پاکستان اس پالیسی پر خلوص دل سے عمل پیرا ہے اور بارہا اس کا ثبوت بھی دے چکا ہے، جبکہ افغانستان اس کے برعکس پر اس قوت کا دوست ہے، جس کا رویہ پاکستان سے معاندانہ ہے اور جس کی پالیسی کا خلاصہ یہ کہ جہاں تک بن پڑے پاکستان کو زچ کیا جائے اور اسے نرغے میں لیا جائے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہیئے کہ اپنے نفع نقصان کا مطلق خیال نہ رہے، افغانستان کو ایک آزاد خود مختار ملک ہونے کا مظاہرہ کرنا چاہیئے، پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی مرضی کا احترام کیا ہے، اسے آزادی ہے کہ وہ جس کے ساتھ جیسا تعلق رکھنا چاہے رکھے، لیکن پاکستان کو جس نے افغانستان کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں اور آج تک دے رہا ہے، اتنا حق تو حاصل ہے کہ وہ اس برادر ہمسایہ ملک سے یہ توقع رکھے کہ وہ کسی ایسی طاقت کا آلہ کار نہیں بنے گا، جو پاکستان کی آزادی و خود مختاری کے درپے ہو۔ واضح رہے کہ پاکستان نے افغانستان سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کا اعلان 2015ء میں کیا تھا، جب 2400 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے سرحد پر بارودی سرنگیں بچھانے کی تجویز بھی دی تھی، لیکن افغان مخالفت کے باعث 2009ء تک اس سلسلے میں پیشرفت نہیں ہوسکی تھی۔ کچھ عرصہ قبل جب پاکستان نے پاک افغان بارڈر کو محفوظ کرنے اور دراندازی روکنے کیلئے بارڈر منیجمنٹ کی طرف قدم بڑھایا تو افغانستان کی طرف سے بھرپور مخالفت کی گئی، مگر پاکستان نے مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کام جاری رکھا اور اب تک 209 کلومیٹر پر باڑ لگائی جا چکی ہے، جبکہ دسمبر 2018ء تک کُل 470 اور پھر دسمبر 2019ء تک 830 کلومیٹر باڑ لگا دی جائے گی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سال رواں کے دوران پاکستان کی جانب سے افغانستان کے ساتھ سرحد پر نگرانی کیلئے باڑ کی تنصیب کا کام تیزی سے جاری ہے۔ چترال سے شمالی وزیرستان تک کی پاک افغان سرحد پر باڑ منیجمنٹ پر 10 ارب روپے کی لاگت کا تخمیہ لگایا گیا ہے، اس مقصد کیلئے کم و بیش 400 گاڑیاں ٹرانسپورٹیشن کیلئے استعمال ہو رہی ہیں، جبکہ اس کیلئے اکوڑہ خٹک میں مرکز بنایا گیا ہے۔ بارڈر منیجمنٹ کی بات کی جائے تو فی کلو میٹر 12 ملین کا خرچہ آ رہا ہے، پورے منصوبہ پر 7 ہزار گھنٹے کام ہوگا، تب کہیں پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ چترال سے شمالی وزیرستان تک منصوبے کو 14 یونٹوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس پر روزانہ کی بنیاد پر 14 گھنٹے کام کیا جا رہا ہے۔

منصوبے کا بڑا حصہ اگلے سال مکمل ہوگا، تاہم اس دوران اب تک 3500 چیک پوسٹیں جبکہ 444 نئے قلعے بنائے جا چکے ہیں۔ صرف وزیرستان میں پاکستان کی طرف باڑ کے ساتھ 84 قلعے بھی بنائے گئے ہیں۔ یہ باڑ اور قلعے 5 ہزار فٹ بلندی سے لیکر 7 ہزار فٹ کی بلندی تک پہاڑوں پر بنائے جا رہے ہیں۔ کچھ ایسے علاقے بھی ہیں، جہاں 3 ماہ تک برف پڑی ہوتی ہے۔ ایک انچ بھی ایسا علاقہ نہیں چھوڑا جائے گا، جہاں سے غیر قانونی طریقے سے آمدورفت ہوسکے۔ 7 کراسنگ پوائنٹ مکمل طور پر بند کر دیئے گئے ہیں، باڑ کی تعمیر میں مقامی لوگوں کی خدمات لی گئیں ہیں اور باڑ لگانے میں پاکستان فوج کو مقامی قبائل کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ باڑ لگانے کے ساتھ ساتھ 3 منزلہ ٹاور بنایا جائے گا، جس میں تمام جدید آلات نصب ہونگے، سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگائے جائیں گے، جس کے ذریعے رات کے وقت سرحد کی نگرانی کی جائے گی۔ سرحد کی نگرانی کیلئے کنٹرول روم بھی بنایا گیا ہے، جہاں سے پورے نظام کو کنٹرول کیا جائے گا۔ اس وقت پاکستان افغانستان کے درمیان آمدورفت کے 16 باضابطہ رستے موجود ہیں، اس کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں ایسے پوائنٹ بھی موجود ہیں، جس کے ذریعے لوگ بغیر کاغذوں کے آتے جاتے ہیں، پاک افغان سرحد کو کسی قائدے اور ضابطے کے تحت لاکر اسے باقاعدہ انٹری پوائنٹ کی صورت دینا پاکستان ہی نہیں افغانستان کے مفاد میں ہے۔

بارڈر منیجمنٹ کے بعد جب روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں لوگوں کی آمد کا سلسلہ رکے گا اور سمگلنگ کے رجحان کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی تو اس کے خوشگوار اثرات مقامی منڈیوں پر بھی مرتب ہونگے اور ضرورت کی اشیاء یقیناََ سستی ہونگی، جن کا فائدہ عام آدمی کو ہی پہنچے گا۔ دوسری اطرف یہ دنیا کی سب سے سستی ترین باڑ بھی ہوگی، کیونکہ بھارت نے کئی عشرے قبل جب یہ باڑ لگائی تھی تو وہ اس سے 3 گنا مہنگی تھی۔ ویسے یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ بارڈر منیجمنٹ کے معاملہ پر آج پوری قوم اور سیاسی و عسکری قیادت ایک ہی صف میں کھڑی نظر آتی ہے، جس کیوجہ سے امید رکھنی چاہیئے کہ اب یہ عمل ہر صورت میں مکمل ہوکر رہے گا، جس سے سرحد پار آمدورفت کنٹرول ہونے کی صورت میں دونوں ملکوں کیلئے مسائل کم ہوتے چلے جائیں گے۔ باڑ لگانے کے معاملے میں افغانستان بیرونی قوتوں کے مخصوص ایجنڈے کے تحت مشکلات پیدا کر رہا ہے اور اب تک سرحد پار سے 52 کارروائیاں کی جا چکی ہیں۔ عسکری ذرائع کے مطابق صرف ان حصوں پر باڑ نہیں لگائی جا رہی جہاں انسانی پہنچ ممکن نہیں، باقی تمام سرحد کو باڑ کے ذریعے محفوظ بنایا جائے گا۔ تجارتی مقاصد کیلئے طورخم کے علاوہ، خرلاچی، انگور اڈا اور غلام خان کی راہداریاں کھلی رہیں گی۔

ایک اندازے کے مطابق غلام خان سے روزانہ 120 ٹرک، خرلاچی سے 200 سے 250، انگور اڈا سے 100 تک جبکہ طورخم سے 2 ہزار ٹرک روزانہ تک کی آمدورفت کا پروگرام ہے۔ اسوقت بھی طورخم سے ایک دن میں 850 تک ٹرکوں کی آمدورفت ہوتی ہے۔ جہاں تک سرحد کو محفوظ بنانے کا تعلق ہے تو افغانستان اور وہاں پر موجود اتحادی قوتوں نے کبھی بھی اس میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، کیونکہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ پاکستان کی طرف سے پوری سرحد پر 1200 چیک پوسٹیں تھیں، جبکہ افغانستان اور تمام اتحادیوں نے محض ایک 193 پوسٹیں قائم کر رکھی ہیں، جن میں سے اکثر بے فائدہ ہیں، کیونکہ وہ اپنی حفاظت تک نہیں کرسکتے تو کراس بارڈر مووومنٹ خاک روک پائیں گے۔ ایک عرصے سے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی کی جانب دھکیلنے کی جو کوششیں ہو رہی تھیں، ماضی میں حکومت نے اس پر کماحقہ توجہ مرکوز نہیں کی، جس کیوجہ سے حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ حکومتی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 4 سال تک ملک کا کوئی کل وقتی اور مکمل وزیر خارجہ ہی نہیں تھا، اسی لئے خارجہ اور سفارتی محاذ پر ہمارا مقدمہ لڑنے والا کوئی موثر کردار ہی نظر نہیں آ رہا تھا، تاہم خوش قسمتی سے پاکستان کے خلاف یہ عالمی سازش کامیاب نہ ہوسکی، کیونکہ متبادل کے طور پر چین اور روس کے ساتھ تعلقات مزید بڑھانے کی حکمت عمل نے اس سازش کے غبارے سے اچھی خاصی ہوا نکال دی۔

عالمی جائزوں کے مطابق طالبان افغانستان کے 70 فیصد حصوں میں کھلے عام پھر رہے ہیں، جبکہ امریکی صدر خود 44 فیصد افغانستان پر طالبان کے اثر و رسوخ کو تسلیم کرچکے ہیں، تاہم اس کے باوجود امریکہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے دروازے بند کئے ہوئے ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فی الوقت افغانستان سے نکلنے کیلئے تیار نہیں، کیونکہ اس کے مقاصد کچھ اور ہیں، جن میں سرفہرست پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے، تاکہ چین کو سی پیک کے ذریعے گرم پانیوں تک رسائی سے روکا جاسکے، روس کو یوکرائن کے ساتھ الجھا کر مشرقی یورپ کے ذریعے پہلے ہی اپنے علاقے میں محدود کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوچکا ہے، جبکہ سی پیک کو ناکام بنانے کیلئے بھارت کو تیار کر رہا ہے، اسی لئے تو بھارت ان دنوں کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کی مالا پھر سے جپنے لگا ہے، دونوں ممالک کے درمیان اربوں روپے کے ایٹمی معاہدے ہو رہے ہیں۔ بھارت یہ بھول رہا ہے کہ امریکہ کو خطے میں لاکر عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔ بھارت کو امریکہ اور افغانستان کی تائید بھی حاصل ہے، ان تینوں ممالک کی کوشش یہ ہے کہ پاکستان کے ذریعے علاقے کی ترقی و خوشحالی کا راستہ ہمشہ کیلئے بند کیا جاسکے۔ یہاں یہ بات واضح ہے کہ جب تک ہم معذرت خواہانہ انداز اور رویئے اختیار کئے رکھیں گے، قومی سلامتی پر خود دارانہ پالیسی کبھی بھی نہیں بنا سکتے۔

تاہم اس کے باجود ہماری کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ امریکہ اور افغانستان دونوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں جاری رکھیں، کیونکہ ہمشہ سے یوں ہوتا چلا آرہا ہے کہ جب پاکستان میں کچھ ہوتا ہے تو افغانستان سیاسی قیادت ہمیں ہی مورد الزام ٹھرانے کی کوشش کرتی ہے، ہماری سیاسی قیادت نے آج تک افغان حکومت پر زور نہیں دیا کہ پاکستان میں کارروائیاں کرنے والوں پر افغان سرزمین تنگ کر دی جائے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ان لوگوں کو افغانستان میں محفوظ ٹھکانے دیئے گئے ہیں مگر ہمارے سیاستدان کبھی اس پر بات نہیں کریں گے۔ اب جبکہ قومی سلامتی پالیسی بننے جا رہی ہے، اس میں اہم نکات افغان مہاجرین کی واپسی کا بھی رکھنا ہوگا، جو ابھی تک مختلف علتوں کیوجہ سے تعطل کا شکار ہے، یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جب افغانستان کی موجودہ آبادی اپنے ملک میں رہ سکتی ہے تو یہ 40 لاکھ افراد اپنے وطن میں زندگی کیوں نہیں گزار سکتے؟ انکو وہاں مناسب حالات مہیا کرنا افغان حکومت کی ذمہ داری ہے۔
خبر کا کوڈ : 725509
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش