0
Saturday 19 May 2018 12:36

تنگ نظری ہمارے لاینحل مسائل کا ایک اہم سبب

تنگ نظری ہمارے لاینحل مسائل کا ایک اہم سبب
تحریر: محمد حسن جمالی
 
انسان اپنی زندگی میں مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں، مسائل ہوتے تو زیادہ ہیں مگر ان کی نوعیت یکساں نہیں ہوتی۔ بنیادی طور پر مسائل انفرادی ہوتے ہیں یا اجتماعی، انسان کو انفرادی مسائل سے کہیں زیادہ اجتماعی مسائل کا سامنا کرنا پڑھتا ہے، نیز ہر انسان چاہتا ہے کہ اسے درپیش مسائل کی گھتیاں سلجھ جائیں اور مسائل حل ہو جائیں، چنانچہ اس ہدف تک رسائی حاصل کرنے کے لئے افراد بشر شب و روز مسائل حل کرنے کے درپے ہوتے ہیں، وہ اس بات پر باور رکھتے ہیں کہ سکون و راحت اور کامیابی مجہول مسائل کی گھتیاں سلجھانے میں ہی مضمر ہے۔ اس حقیقت سے بھی کوئی سلیم الذھن باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا کہ بیشتر مسائل اولاد آدم کی تنگ نظری اور محدویت ذہنی کی پیداوار ہوتے ہیں۔ تنگ نظر انسان اپنی دنیا میں ہی قید رہتا ہے، وہ اپنی فکر کا غلام مطلق ہوتا ہے، در نتیجہ وہ معاشرے کے اندر اجتماع میں رہتے ہوئے بھی ایک جامد و راکد انسان ہوتا ہے، جس سے انسانیت اور معاشرے کی خدمت کی امید کم اور مشکلات بڑھانے کی توقع زیادہ رہتی ہے۔
 
آج وطن عزیز پاکستان کے اندر موجودہ مسائل خواہ وہ سیاسی ہوں یا مذہبی، کے اسباب و علل کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو ایک واضح سبب تنگ نظری دکھائی دیتی ہے، ہر فرقے کے لوگ بس یہی سمجھتے ہیں کہ حق ہمارے ساتھ ہے، ہمارا فرقہ حق ہے دوسرے سارے فرقے باطل ہیں، ہم ناجی ہیں اور دوسرے ناری ہمارے فرقے کے ماننے والے اہل حق ہیں اور دوسرے اہل باطل۔ چنانچہ ایسی تنگ نظری کے حامل افراد کے نزدیک مذہب حقہ اور باطلہ کی شناخت کا واحد معیار اپنا فرقہ ہوتا ہے، یعنی ان کی نظر میں جو لوگ اس کے فرقے کو مانتے ہوں وہ اہل حق اور اسے تسلیم نہ کرنے والے اہل باطل ہوتے ہیں، جبکہ اس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں، قرآن مجید اور پیغمبر اکرم (ص) کی مستند روایات میں حق اور باطل کا معیار واضح طور پر بیان ہوا ہے، وہی معیار ہی حقیقی معیار ہے، لیکن انسان جب تنگ نظری کا اسیر ہوتا ہے تو اسے کوئی لاکھ سمجھائے، حق اور باطل کا اصلی اور حقیقی میزان و معیار فرقہ نہیں بلکہ قرآن و احادیث نبوی میں بیان ہونے والے معیارات ہیں وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا، تعجب کی انتہا یہ ہے کہ اسلامی فرقوں میں سے بعض فرقے کے ماننے والے اس قدر تنگ نظری کا شکار ہیں کہ وہ دوسرے فرقوں کی کتب کا مطالعہ کرنے کو بھی جائز نہیں سمجھتے ہیں، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ اپنے علاوہ دوسروں کی کتابیں خواہ وہ احادیث کا مجموعہ ہی کیوں نہ ہو کتب ضلال ہیں جنہیں پڑھنے سے انسان کا گمراہ ہونا یقینی ہے، جبکہ یہ سراسر غیر منطقی ہے۔ عقل اور انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان پوری تحقیق کرکے مذہب حقہ کا انتخاب کرے۔ عقل کا حکم یہ ہے کہ انسان جب تک دوسروں کے عقائد اور نظریات کو نہ سمجھے ان کے بارے میں اظہار نظر نہیں کرسکتا اور دوسروں کے افکار و خیالات سے آگاہ ہونے کی راہوں میں سے ایک دوسرے کی کتابوں کا عمیق مطالعہ کرنا ہے۔
 
 قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے کہ جس میں ہر چیز کا بیان موجود ہے، (لا رطب ولا يابس الا فی کتاب مبين) کوئی بھی خشک وتر شی ایسی نہیں جس کا ذکر قرآن میں نہ ہو، اسلام کا سرچشمہ اور منبع اصلی قرآن ہے، یہ منشور زندگی ہے جس میں حیات انسانی کے لئے جامع اصول اور قوانین موجود ہیں، یہ کتاب ہدایت ہے اور اس میں بشریت کی سعادت کے تمام اسرار و رموز صراحتاً و اشارتا بیان ہو چکے ہیں، البتہ قرآن کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لئے عام انسان ایسے معلم کی جانب محتاج ہے جسے خود اللہ تعالی نے قرآن کی تعلیم دینے پر مامور کررکھا ہوتا ہے ، وہ معلم قرآن جب تک زندہ رہے پیغمبر اسلام تھے اور آپ کے بعد وہی معصوم ہستیاں ہیں جنہیں آنحضرت (ص) نے مشخص فرمایا ہے، جب پیغمبر مکرم اسلام کی رحلت کا وقت آیا تو آپ نے اس حساس موقع پر ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جن میں سے اللہ کی کتاب ہے اور دوسری چیز میرے اہلبیت، جب تک تم ان سے متمسک رہو گے ہرگز گمراہ نہیں ہوں گے۔ یہ حدیث ثقلین کے نام سے معروف ہے جو شیعہ سنی دونوں کے نزدیک متواتر احادیث میں شمار ہوتی ہے، اس حدیث نبوی میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ پیغمبر (ص) نے اپنی زندگی کے آخری حساس موقع پر اس حدیث کو بیان فرمایا ہے، جس میں آپ نے مسلمانوں کی ہدایت اور سعادت کی رمز واضح فرمائی ہے اور کتاب خدا و عترت کو ایک زمرے میں قرار دے کر یہ بتلا دیا ہے کہ ہدایت یافتہ ہونے کے لئے ان دونوں کے دامن سے متمسک رہنا ضروری ہے، اگر مسلمان ان میں سے ایک کا دامن  تھام کر دوسرے کے دامن سے جدا ہو تو فلاح و ہدایت نہیں پا سکتا۔ انسانوں کی ہدایت میں ان دونوں کا کردار مساوی ہے اور دونوں سے تمسک کے ساتھ ہی انسان سعادت سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ بنابریں پیغمبر اسلام (ص) وہ پہلے مفسر قرآن ہیں جنہوں نے کلام الٰہی میں پوشیدہ اسرار و رموز سے پردہ اٹھایا اور اس کی اہمیت کو اپنی عملی سیرت کے پیرائے میں پیش کیا۔

آنحضرت کے بعد اہلبیت پیغمبر علیھم السلام قرآن کے حقیقی اور سچے مفسر ہیں۔ بہت سی روایات کی بنیاد پر جو تاریخی منابع میں موجود ہیں سورۂ آل عمران کی آیت 7 میں راسخون فی العلم سے مراد اہل بیت پیغمبر ہیں جو قرآن کی تاویل و تفسیر کے عالم ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جنہیں خدا نے ہر قسم کے رجس اور نجاست سے پاک، اور باطل سے دور رکھا ہے۔ اس حقیقت کو سورۂ احزاب کی آیت 33 ميں بیان کیا گيا ہے۔ ماہ مبارک رمضان بہار قرآن ہے، اس بابرکت مہینے میں مسلمانوں کو چاہیئے کہ کلام الٰہی کو سمجھنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے اور  تفسیر قرآن کا باقاعدگی سے مطالعہ کریں وسعت فکری ذہنی اور قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام مذاہب اسلامی کی تفاسیر پڑھ کر قرآن میں بیان ہونے والے معیارات کے مطابق حق اور باطل کے درمیان تشخیص پیدا کرنیکی قوت اپنے اندر پیدا کریں، چونکہ رمضان بہار قرآن ہے تو تبرکا قرآن کی فضیلت پر مشتمل بعض روایات toggle navigation hajij ویب سائٹ سے نقل کرتا ہوں، پیغمبر (ص) ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں، "قرآن واضح نور اور مضبوط رسی اور تمام درد و رنج کی دوا اور عظیم ترین منبع فضیلت و سعادت ہے"۔ پیغمبر اسلام (ص) ایک اور جگہ فرماتے ہیں، "قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے، اس کا ظاہر حکم اور دستور ہے اور اس کا باطن علم و دانش ہے، اس کا ظاہر خوبصورت اور اس کا باطن گہرا اور عمیق ہے"۔ حضرت علی (ع) بھی قرآن کی خصوصیات کے بارے میں فرماتے ہيں، قرآن ایک مضبوط اور مستحکم بندھن ہے، قرآن دلوں کی بہار اور علم کا سرچشمہ ہے، دلوں اور فکروں کو جلا قرآن کے سوا کہیں اور سے نہں مل سکتی، خاص طور پر ایسے ماحول میں جہاں بیدار دل اور متمدن افراد موجود نہ ہوں اور غافل و سرکش انسان باقی رہ گئے ہوں۔ حضرت امام علی (ع) کی تلقین کے مطابق "یہ کتاب الٰہی، تربیت میں ایسی ہے جو دلوں کو جلا اور روشنی عطا کرتی ہے۔"
 
حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں، حضرت امام صادق (ع) سے یہ سوال کیا گيا کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن کا جتنا مطالعہ کیا جائے، ہمیشہ ایک نئی چیز معارف قرآن سے حاصل ہوتی ہے؟ تو امام (‏ع) نے فرمایا کہ کیوںکہ خداوند عالم نے قرآن کو کسی خاص زمانے اور خاص افراد کے لئے نازل نہیں کیا ہے اس لئے قرآن قیامت تک اور ہر زمانے ميں اور ہر قوم کے لئے زندہ اور تازہ رہے گا یعنی اس پر ہر گز پرانا پن ظاہر نہیں ہو گا۔
اسی طرح سیاسی میدان میں بھی درپیش مسائل کے بارے میں اگر ہم سنجیدگی سے غور کریں تو وہاں بھی ہمیں یہی عنصر دکھائی دیتا ہے کہ ہر پارٹی تنگ نظری کا شکار ہے۔ ہر گروہ فقط یہی خیال کرتا ہے کہ پاکستان کے اقتدار کی زمام ہمارے ہی ہاتھ میں ہونی چاہیئے، حکومت کے حقدار صرف ہم ہی ہیں۔ وہ یہ سوچنے کے لئے تیار ہی نہیں کہ دوسری پارٹیوں میں بھی حکومت چلانے کی اہلیت اور صلاحیت پائی جاتی ہے۔ عرصہ دراز سے پاکستان میں چند اشرافیہ کی حکومت چلتی آ رہی ہے۔ سابقہ وزیراعظم نواز شریف تین بار اقتدار پر آئے لیکن ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر کنگال کر دیا اور قومی سرمایہ چوری کرنے کے جرم میں جب نااہل قرار پائے تو بھی اپنی تنگ نظری کے بل بوتے پر یہ کہتے ہوئے پاکستان کے گلی کوچوں میں شور کرتے نہیں تھکتے کہ مجھے کیوں نکالا گیا؟ اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے منصب اور مقام سے سوئے استفادہ کرتے ہوئے ملک کے بڑے چور نواز شریف کو ‘‘اپنا وزیر اعظم’’ قرار دے کر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں کیا اس کا اہم سبب تنگ نظری کے سوا کچھ اور ہے؟
 
حکومت پاکستان کی تنگ نظری سمجھنے کے لئے خطہ بے آئین گلگت بلتستان کی مثال لینا کافی ہے، پورے ستر سالوں سے اس خطے کے باسی حکومت پاکستان سے مسلسل اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ليت و لعل سے کام لیتے ہوئے پاکستانی حکمرانوں نے گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل نہیں کیا، اب بھی وقت ہے کہ پاکستانی حکمران تنگ نظری کے زندان سے نکل جائیں اور گلگت بلتستان کے عوام کے اس جائز مطالبہ پر سرجوڑ کر سنجیدگی سے غور کریں۔ اس وقت اسلامی ممالک میں دیکھا جائے تو سب سے زیادہ تنگ نظر ملک سعودی عرب ہے جس نے اپنی انتہا پسندی اور تنگ نظری کے سبب قرآنی تعلیمات سے منہ موڑ کر مسلمانوں کے ازلی دشمن امریکہ و اسرائیل سے دائمی عقد اخوت باندھا ہے اور یمن کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ گراتے ہوئے اپنی عداوت اور دشمنی کا کھلا اظہار کررہا ہے۔ ان کا جرم فقط یہ ہے کہ وہ پکے عقیدے کے مالک ہیں، اسلامی تعلیمات پر دل و جان سے ایمان رکھتے ہیں، وہ اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کو ناقابل معاف جرم گردانتے ہیں، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک یمنی جوان نے ایک ماہ قبل ایک پانچ سالہ بچی کے ساتھ ریپ کیا جب متعلقہ اداروں تک اطلاع پہنچ گئی تو مجرم کو گرفتار کرکے برسرعام گولی مار کر اس کی لاش کو مجمع عام میں لٹکا دیا گیا تاکہ لوگ درس عبرت حاصل کریں، اس کی باقاعدہ ویڈیو بھی میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جسے پوری دنیا نے دیکھ کر انہیں داد دیئے بغیر نہ رہ سکی، لیکن ہمارے پاکستان میں ایسے ہزاروں واقعات ہوتے رہتے ہیں مگر نہ کسی کو پھانسی ہوئی اور نہ ہی مجرموں کو عبرتناک سزا دلوا سکے۔

کاش سعودی عرب فقط یمنیوں پر ظلم کرنے پر ہی اکتفا کرتا بلکہ پوری دنیا میں تنگ نظری اور شدت پسندی کو پروان چڑھانے میں سب سے زیادہ کردار سعودی عرب ادا کر رہا ہے اور اسے اس ہدف میں سب سے پڑی کامیابی پاکستان اور افغانستان میں ملی، آج ان دونوں ملکوں میں شدت پسند لوگ فروان نظر آتے ہیں اور پاکستان و افغانستان کے عوام ان شرپسند عناصر کے ہاتھوں یا خاک و خون میں ابدی نیند سونے پر مجبور ہیں یا اسیر ہوکر زندانوں کی کوٹھریوں میں سلاخوں کے پیچھے غل و زنجیر میں بند ہونے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کے اندر جو قوم سب سے زیادہ ان شدت پسندوں کی دہشتگردی کا شکار ہوئی ہے وہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری ہے، حالیہ اطلاعات کے مطابق جمعرات کے روز دہشت گردوں کی جانب سے خیبر پختوںخواہ کے شہر چارسدہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ جس میں 2 سکیورٹی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ 12 کے قریب افراد دھماکے کا نشانہ بن کر شدید زخمی ہوئے، اور جمعرات کی شب ان شدت پسندوں نے بلوچستان کے دارالحکومت ایف سی کوارٹر کوئٹہ کو اپنے ہدف کا نشانہ بنایا۔ جس حملے میں 2 سکیورٹی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ 12 کے قریب افراد دھماکے کا نشانہ بن کر شدید زخمی ہوئے۔ کوئٹہ کے اندر وحشت و بربریت کا سلسلہ ختم نہیں ہو رہا ہے، مختصر یہ ہے کہ ہمارے مسائل تنگ نظری کی پیداوار ہیں جب تک مسلمان اور پاکستانی باشندے وسعت قلبی کا مظاہرہ نہیں کریں گے ہمارے مسائل حل ہونے والے نہیں۔ وسعت نظری سے نصف مسائل کا خود بخود خاتمہ ہوگا۔ بےشک تنگ نظری ہمارے لاینحل مسائل کا ایک اہم سبب ہے۔
خبر کا کوڈ : 725528
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش