0
Sunday 20 May 2018 11:18

پاک امریکہ تعلقات، واشنگٹن کو پالیسی بدلنا پڑیگی

پاک امریکہ تعلقات، واشنگٹن کو پالیسی بدلنا پڑیگی
تحریر: تصور حسین شہزاد

امریکہ نے بھی سابق وزیراعظم نواز شریف کے تازہ ترین بیان کا نوٹس لیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ یہ بیان پاکستان کیلئے ایک نیا موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔ وزارت دفاع کی ترجمان ڈانا وہائٹ نے یہ جواب اخباری نمائندوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے دیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو دہشتگردی کا نشانہ تو قرار دیا لیکن یہ بھی کہا کہ پاکستان اور افغانستان دہشتگردی کی سرپرستی بھی کرتے رہے ہیں۔ پاکستان میں اس موضوع پر بحث ابھی تک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس بیان پر ٹکی ہوئی ہے کہ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ اب امریکہ سمیت پوری دنیا کو اس کا اقرار کرتے ہوئے دہشتگرد عناصر کیخلاف پاک فوج کی کامیابیوں کی توصیف کرنی چاہئے۔ پاکستان کا یہ مؤقف بھی رہا ہے کہ وہ دنیا کا واحد ملک ہے، جس نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے۔ امریکہ اس بیان کو جزوی طور پر تسلیم کرتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے دیگر حساسیات کو پیش نظر نہ رکھے جبکہ پاکستان اگرچہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے تحت سب دہشتگرد گروہوں کیخلاف کارروائی کی گئی ہے اور اسے اس میں گراں قدر کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے، لیکن یہ اعلان کرتے ہوئے بھی پاکستان اس بات کو فراموش نہیں کرتا کہ امریکہ بالآخر افغانستان سے چلا جائے گا لیکن پاکستان کو کابل میں حکومت کیساتھ نمٹنا ہوگا۔ اس الجھن کی وجہ سے حقانی نیٹ ورک کیساتھ تعاون یا عداوت کے سوال پر امریکہ اور پاکستان کے درمیان ٹھنی رہتی ہے۔

پاکستان کے مؤقف کے برعکس امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ مستقبل میں افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کیلئے پاکستان حقانی نیٹ ورک کی حمایت کرتا ہے اور طالبان قیادت کیساتھ بھی اس کے تعلقات استوار ہیں۔ امریکہ کا خیال ہے کہ اگر وہ پاکستان کو دباؤ میں لا کر طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو تنہا کرنے میں کامیاب ہوسکے تو وہ افغانستان میں اپنے اہداف زیادہ آسانی سے پورے کرسکتا ہے۔ اگرچہ یہ کہنا دشوار ہے کہ ان اہداف میں افغانستان میں امن کا قیام بھی ایک اہم مقصد کے طور پر شامل ہے۔ تاہم امریکہ کی خواہش ہے کہ افغانستان میں طالبان کی طاقت کو ختم یا حملے کرنے کی صلاحیت کو کم کرکے کابل کی حکومت کا مستقبل محفوظ کیا جا سکے تو وہ آسانی سے اس خطے سے کامیابی و کامرانی کے شادیانے بجاتے ہوئے نکل سکتا ہے۔ افغانستان سے کامیاب واپسی کے جوش میں امریکہ سے دو غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں۔ ایک تو وہ مسلسل یہ سمجھ رہا ہے کہ پاکستان اگر طالبان کی اعانت سے گریز کرے تو طالبان پر فتح حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔ اس کا یہ اندازہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ طالبان ایک بڑی عسکری قوت کے طور پر افغانستان میں موجود ہیں۔ انہوں نے بلاشبہ پاکستان کی حمایت سے بھی بہت استفادہ کیا ہے، لیکن عالمی سطح پر بدلتے ہوئے حالات اور وسطی ایشیا کی اہمیت کی وجہ سے چین اور روس بھی اس خطے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں امریکہ نے اسرائیل اور سعودی عرب کو قوت بخشتے ہوئے ایران کیخلاف جو محاذ کھولا ہے، اس میں روس اور چین کیلئے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ان مواقع کی تلاش میں صرف مشرق وسطیٰ میں ہی نئی گروہ بندی دیکھنے میں نہیں آرہی بلکہ اس کا اثر وسطی ایشیا تک بھی پہنچا ہے۔

اس خطے کے ممالک قدرتی وسائل سے مالامال ہیں اور ان ملکوں تک رسائی کے لئے افغانستان اور پاکستان اہمیت رکھتے ہیں۔ چین خاص طور پر ون روڈ ون بیلٹ کے جس عظیم عالمی مواصلاتی منصوبے کو مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس میں پاکستان کے علاوہ افغانستان بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ان حالات میں افغان طالبان ایک دہشتگرد عسکری گروہ کی بجائے ایک ایسے فریق کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں جن کیساتھ مراسم استوار کئے بغیر افغان معاملات میں شراکت ممکن نہیں ہے۔ ایران کے علاوہ روس اور چین بھی افغان طالبان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن امریکہ طالبان کی طاقت کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال کر کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے، جو عملی طور سے ناممکن ہوچکا ہے۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی طالبان کے بارے میں امریکہ کے مقابلے میں زیادہ حقیقت پسندانہ طرز عمل رکھتے ہیں۔ اسی لئے وہ ان کیساتھ سیاسی مذاکرات بھی کرنا چاہتے ہیں اور انہیں مراعات بھی دینے کیلئے آمادہ ہیں، لیکن اشرف غنی کے سر پر چونکہ امریکہ کا ہاتھ ہے، اس لئے طالبان کو ان پر بھی اعتماد نہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہونا چاہئے کہ امریکہ افغانستان میں مسئلہ کے حل کا سبب بننے کی بجائے خود مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ لیکن اس غلطی کا ادراک کرنے کی بجائے امریکی قیادت یہ اصرار کرتی رہی ہے کہ پاکستان طالبان کے لئے راستے دشوار کرے اور ان کی اعانت کا سلسلہ بند کرے، تاکہ وہ مفاہمت پر مجبور ہو جائیں۔

زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ایک تو پاکستان کا طالبان پر آج سے دس پندرہ سال پہلے والا اثر و رسوخ باقی نہیں رہا ہے۔ دوسرے پاکستان افغانستان اور بھارت کے بیچ پھنسے ہونے کی وجہ سے اس بات سے مکمل طور سے غافل ہونے کیلئے تیار نہیں کہ کابل میں کس قسم کی حکومت قائم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان کو بھی پاکستان کی اب اتنی ضرورت نہیں ہے، جتنی 2001ء میں امریکی حملہ کے بعد شروع کے سالوں میں تھی۔ اب انہوں نے اپنی صلاحیت اور طاقت کو تسلیم کروا لیا ہے اور افغانستان میں وسیع علاقوں پر قبضہ کرکے اپنے ہونے کا اعلان بھی کر رہے ہیں۔ اسی لئے دیگر ممالک بھی ان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے طالبان کیساتھ تعلقات استوار کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان افغانستان میں امریکی فوج کیخلاف سرگرم عمل ہیں اور انہیں حملہ آور قرار دیتے ہیں۔ اس جنگ کو مسترد کرتے ہوئے بھی اسے القاعدہ اور داعش جیسی دہشتگردی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم یہ بھی اسی گنجلک تصویر کا ایک رخ ہے کہ القاعدہ کی طرح اب شام سے فرار ہونیوالے داعش کے عناصر نے بھی افغانستان میں اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے۔

اس صورتحال کو پیدا کرنے میں کسی حد تک امریکی حکمت عملی کا بھی عمل داخل ہے۔ خواہ وہ شام میں داعش کیخلاف جنگ کے حوالے سے ہو یا افغانستان میں طالبان کو کمزور کرنے کیلئے دیگر عسکری گروہوں کو قوت فراہم کرنے کا رویہ ہو۔ ان حالات میں امریکہ یہ کہتے ہوئے صرف وہ سچ بیان کرنا چاہتا ہے، جو اس کے مفاد کا تحفظ کرے اور ان سچائیوں کو سامنے لانے کیلئے آمادہ نہیں، جن سے اس کی اپنی پالیسیوں کا پول کھلتا ہو۔ افغانستان اور اس خطہ میں امن کیلئے پاکستان کے کردار کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ڈانا وہائٹ نے پاکستان کے علاوہ افغانستان پر بھی دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی کا الزام لگایا ہے، لیکن وہ اس علاقے میں بعض دہشت گرد گروہوں کو اپنے اسٹریجک مفادات کے حصول کیلئے استعمال کرنے کا اعتراف کرنے سے بدستور معذور ہے۔ اسی طرح امریکہ افغانستان کے راستے پاکستان کیخلاف دہشتگرد عناصر کو تیار کرنے میں بھارت کے کردار پر بھی انگلی اٹھانے کیلئے تیار نہیں۔ امریکہ چین کیخلاف اپنے وسیع تر تجارتی اور عسکری مفادات کی جنگ میں بھارت کو ایک اہم فریق کے طور پر تیار کر رہا ہے۔ اس لئے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت پاکستان کیخلاف جن جرائم کا ارتکاب کرتا ہے، امریکہ ان پر توجہ دینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ یہ معاملات اب صرف مقبوضہ کشمیر کو فوجی طاقت کے زور پر ساتھ ملائے رکھنے کی خواہش تک محدود نہیں ہیں۔ بھارت نے امریکہ کی سرپرستی میں افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کیخلاف جنگ کے لئے جو گروہ تیار کئے ہیں، بلوچستان میں ریاست کے باغی عناصر کی مدد کی ہے، دہشتگرد پاکستان کی طرف روانہ کئے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے حصے کے دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان میں پانی کی قلت میں اضافہ کرنے کا اہتمام کیا ہے۔

امریکہ اگر ان بھیانک جرائم پر بھارت کی سرزنش کرنے کو بھی اپنی پالیسی کا حصہ بناتا تو آج پاکستان کیخلاف اس کی شکایات کا دفتر اس قدر بھاری نہ ہوتا۔ ماضی میں پاکستان نے بھی غلطیاں کی ہوں گی۔ نواز شریف کے جس بیان کو بنیاد بنا کر بھارتی میڈیا آپے سے باہر ہو رہا ہے اور امریکہ اسے پاکستان کیلئے نیا موڑ قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے، یہ معاملہ اتنا آسان نہیں۔ پاکستان اپنے حصے کی غلطیاں مان بھی لے تو بھی بھارت کے جرائم کا اعتراف سامنے آنے اور ان کا تدارک کئے بغیر جنوبی ایشیا میں علاقائی اعتماد بحال ہونا آسان نہیں ہوگا۔ امریکہ کو اس حوالے سے اپنے کردار پر نظرثانی کرنی پڑے گی۔ پاکستان پر حرف زنی اور اس کے سفارتکاروں کی نقل حرکت کے ذریعے غصے کے اظہار سے نہ پاک بھارت تعلقات بہتر ہوں گے اور نہ افغانستان میں امریکہ کو سہولت مل سکے گی۔ تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔ امریکہ اگر اسلام آباد کو تعاون پر آمادہ کرنا چاہتا ہے تو اس کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈالنے اور اسے نئے موڑ کا راستہ دکھانے کی بجائے اسے نئی دہلی پر دباؤ بڑھانے اور بات چیت پر آمادہ کرنے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا پڑے گا، بصورت دیگر پاکستان کا رویہ تبدیل کروانے کی کوششیں پہلے کی طرح رائیگاں جائیں گی۔
خبر کا کوڈ : 725967
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش