0
Sunday 20 May 2018 22:34

لائن آف کنٹرول پر صورتحال تشویشناک

لائن آف کنٹرول پر صورتحال تشویشناک
رپورٹ: جے اے رضوی

بھارت و پاکستان افواج کے درمیان سرحدی کشیدگی اور مقبوضہ کشمیر کے اندرونی حالات اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ اگر جزیرہ نما کوریا کے دو بدترین دشمنوں میں پائی جارہی کئی دہائیوں کی جنگی صورتحال دوستی میں تبدیل ہوسکتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بھارت اور پاکستان مسائل کے حل کی خاطر سنجیدگی سے افہام و تفہیم کی راہ اختیار نہیں کرسکتے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ حال ہی میں کس طرح سے شمالی اور جنوبی کوریائی رہنما تمام تر تلخیوں کو مٹاتے ہوئے گرم جوشی سے ملے اور ایک دوسرے کو دوستی کا پیغام دیا۔ اس ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری پروپیگنڈہ جنگ کا خاتمہ ہوگیا اور اب وہ ایک ایک کرکے ان مسائل کے حل کی طرف قدم آگے بڑھا رہے ہیں جو ان کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان حالات میں تبدیلی سے جزیرہ نما کوریا میں امکانی طور پر شروع ہونے والی ایک تباہ کن جنگ یقینی طور پر ٹل گئی ہے جس کی لپیٹ میں نہ صرف یہ دونوں ممالک بلکہ چین، جاپان اور امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک آسکتے تھے اور یہ ایک عالمی جنگ بھی بن سکتی تھی کیونکہ ماضی میں کوریائی کشیدگی کی وجہ سے وہ سارا خطہ برسوں تک تباہ کن جنگ میں مبتلاء رہا ہے۔

کوریائی ممالک کے درمیان یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب دنیا کی کچھ بڑی طاقتوں کی طرف سے ان حالات کو جنگی سمت میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی تھیں اور ایک دوسرے کو نیوکلئر طاقت کے ذریعہ تباہ کر دینے کی دھمکیاں دینا روزانہ کا معمول بن چکا تھا۔ بھارت و پاکستان کے درمیان ویسے تو روز اول سے ہی حالات سرد مہری کا شکار رہے ہیں تاہم پچھلے کچھ عرصہ سے دونوں ممالک کی افواج لائن آف کنٹرول پر حالت جنگ میں ہیں اور روزانہ شہری و فوجی ہلاکتوں کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اس سرحدی کشیدگی نے وہاں مکینوں کا جینا حرام کر دیا ہے اور ان کا دن و رات کا سکون غارت ہوچکا ہے۔ نہ انہیں خوشی نصیب ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں آپسی غم بانٹنے کا موقعہ ملتا ہے۔ تین روز قبل پونچھ لائن آف کنٹرول پر ایک جواں سال عام شہری اس وقت اس کشیدگی کی بھینٹ چڑھ گیا، جب وہ شادی کی ایک تقریب میں شرکت کر رہا تھا۔ اس طرح سے پل بھر میں شادی کی یہ تقریب ماتم میں تبدیل ہوگئی۔ اسی طرح سے سرحدی طلاب کا مستقبل مخدوش بنا ہوا ہے جنہیں کشیدگی کی وجہ سے سکول جانے کا موقعہ ہی نہیں ملتا اور تعلیمی ادارے اکثر بند رہتے ہیں۔

غرض سرحدی علاقوں میں زندگی بری طرح سے متاثر ہے اور ہر کسی کام میں رکاوٹیں درپیش ہیں۔ روز روز کی کشیدگی سے مقامی آبادی بھی بہت زیادہ تنگ آچکی ہے اور اب عوامی حلقوں کی طرف سے یہ سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں کہ جب شمالی اور جنوبی کوریا جیسے دو کٹر حریف اور ایک دوسرے کے دہائیوں کے دشمن سرحدیں پھلانگتے ہوئے آپس میں دوستی کرسکتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ بھارت و پاکستان اس خونی لکیر کو اکھاڑ نہیں سکتے جس نے آر پار آبادی کو ایسے زخم دیئے ہیں جس کی دنیا میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی اور جس کی وجہ سے صرف ریاست جموں و کشمیر ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر کا امن خطرات سے دوچار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے بھارت و پاکستان دنیا کے موجودہ تنازعات کے حل سے سبق لیتے ہوئے خطے میں امن کی راہیں تلاش کریں اور تمام حل طلب مسائل کو سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات سے حل کیا جائے۔

ب
ھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ مقبوضہ کشمیر سے ایک روز قبل لائن آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستان کی فوج کے درمیان زبردست جھڑپیں ہوئیں۔ فریقین نے ایک دوسرے پر جدید ہتھیاروں سے حملے کئے۔ گولہ باری اور شلنگ سے ایک بھارتی فوجی اور چار عام شہری لقمہ اجل بن گئے جبکہ دوسری طرف سیالکوٹ سیکٹر میں ایک خاتون اور اس کے تین بچوں کے جاں بحق ہونے کی اطلاع ملی ہے۔ مقبوضہ جموں کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے آج تک اتنی شلنگ اور گولہ باری نہیں دیکھی۔ واقعہ کے بعد ایک بار پھر دونوں ملکوں یعنی بھارت اور پاکستان نے ایک دوسرے پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کے الزامات اور جوابی الزامات عائد کئے۔

درایں اثنا جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے سربراہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے لائن آف کنٹرول پر جاری قیمتی جانوں کی زیاں پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے آر پار سرحدوں کے نزدیک رہائش پذیر لوگوں کو گزشتہ دہائیوں سے نہایت مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اپنے مکانات، املاق، جائیداد کی تلافی ہوتی جاتی ہے۔ انہوں نے بھارت و پاکستان کے سربراہوں اور دونوں ممالک کے صدور، وزراء اعظم، امن پسند رہنماؤں اور فوجی قیادت سے اپیل کی کہ وہ آپس میں مل بیٹھ کر تمام حل طلب مسائل اولین فہرست میں خصوصاً مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی پہلی کریں کیونکہ جس قدر اس سیاسی مسائلے کو حل کرنے میں طول دیا جائے اس قدر کشمیر کے لوگوں کو مصیبت اور مشکلات کا عتاب میں رہنا پڑھے گا اور لائن آف کنٹرول کے لوگوں کی قیمتی جانیں تلف ہوتی جائے گے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ سرحدوں پر جنگ کا سماں ہونا کسی بھی صورت میں ہندوستان اور پاکستان کے لئے ٹھیک نہیں ہے بلکہ یہ صورت جاری رہنے سے دونوں ممالک کے لئے بربادی اور تباہی عیاں ہے۔
خبر کا کوڈ : 726099
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش