0
Monday 21 May 2018 02:20

ڈیرہ اسماعیل خان میں اہل تشیع پہ کیا بیت رہی ہے(2)

ڈیرہ اسماعیل خان میں اہل تشیع پہ کیا بیت رہی ہے(2)
تحریر: آئی اے خان

ریاستی اداروں کی اس غفلت اور جانبداری کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ کمینہ اور گھٹیا دشمن جو مزدورں، خواتین اور بچوں تک کو قتل کرتا رہا اور یہ ادارے خاموش رہے، اتنا طاقتور ہو گیا کہ پولیس افسران  ایس پیز، ڈی ایس پیز اور سکیورٹی ایجینسیز کے جوانوں کو قتل کرنا، پولیس وین اور پولیس چوکیوں کو نشانہ بنانے لگا۔ دہشتگرد تنظیموں کی دیدہ دلیری اور انتظامیہ کی نا اہلی اس حد تک بڑھ گئی کہ ان دہشت گردوں نے ڈی پی او آفس پر بھی حملہ کیا۔ یہی نہیں بلکہ سینڑل جیل ڈیرہ پہ لشکر کشی کی، جلوس کی صورت میں اعلانیہ آئے اور نہ صرف ساتھی دہشتگردوں کو آزاد کرا کے دندناتے ہوئے واپس گئے بلکہ جیل میں بند اہل تشیع قیدیوں کو بھی بیدردی کیساتھ قتل کردیا۔ (جیل حملے میں مجرمانہ غفلت کے مرتکب افراد کیخلاف آج تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی بلکہ تحقیقاتی رپورٹس میں جن اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دیا گیا، ان میں سے بیشتر کو بعد میں ترقی دی گئی)۔ سکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد کے علاوہ اہلسنت برادران اور سول سوسائٹی کہ جو خاموش تماشائی بن کر بےگناہ شیعہ عوام کا قتل عام دیکھتے رہے وہ بھی ان سفاک قاتلوں کے ہاتھوں محفوظ نہ رہے اور دسیوں اہلسنت ان کے ہاتھوں ابدی نیند سلا دئیے گئے۔ آج ڈیرہ کا شاید ہی  کوئی گھر ایسا ہو جس میں ان کرائے کے قاتلوں کے ہاتھوں قتل ہونے والا کوئی فرد موجود نہ ہو۔

ریاستی ادارے جب براہ راست ان وطن دشمنوں، اسلام دشمنوں کا نشانہ بنے تو ڈیرہ میں پاک آرمی کو بلایا گیا تا کہ ان دہشت گردوں سے نمٹا جائے لیکن افسوس کہ پاک فوج کے اطلاعاتی اداروں میں چھپے طالبانی و جھنگوی سوچ کے لوگوں نے یہاں بھی اپنا کام کر دیکھایا اور غلط گائیڈ کرکے ان کے آپریشن کا رخ بھی مظلوم شیعہ کی طرف موڑ دیا۔ جس کے نتیجے میں اس معزز ادارے نے بھی دہشت گردوں کے مقابلے میں شریف النفس شیعہ بزرگوں او بے گناہ شیعہ نوجوانوں کو اٹھانا شروع کر دیا۔ مولانا ناصر حسین توکلی، حاجی خادم حسین ریٹائرڈ ڈی ای او پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن، مولانا حاجی ناصر حسین پرنسپل جامعہ مرتضوی، ریٹائرڈ پروفیسر و وائس پرنسپل وینسم کالج حاجی واحد بخش صاحب جیسے عظیم انسان جو شرافت و کرامت کا نمونہ اور وحدت کا پیکر تھے کو ماورائے قانون اٹھایا گیااور کئی مہینوں تک اپنے عقوبت خانوں میں رکھا۔ ایک پروفیسر جس کے ہاتھوں ہزاروں طلباء ڈاکٹر و انجنئیر بنے۔ حتی کہ کئی شاگرد پاک فوج میں آفیسر رینک تک پہنچے۔ ان کو جب دوسری بار اٹھایا گیا اور  بے تحاشہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو اس بے ادبی اور  ٖایف اے پاس سپاہیوں کےہتک آمیز روئیے کا درد اپنے دل میں لئے عقوبت خانوں سے باہر آنے کے بعد سخت علیل ہوئے اور چند مہینوں کے اندر اس دار فانی سے کوچ کر گئیے۔ اسی طرح کئی نوجوان جن کے گھر کے کئی کئی افراد شہید ہوئے، ان کو ان سکیورٹی اداروں نے اٹھایا، جنمیں سے محمد یونس کاظمی ایک تھے (اس جوان کو پہلےصلح کے نتیجے میں خود اس کے خاندان نے آرمی کے حوالے کیا تھا کئی ماہ کی قید گزارنے کے بعد عدالت سے بری ہوئے) ۔ان کے والد چچا اور 6 کزنز  دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اس کے باوجود بھی پاک آرمی کے جوان اسکی ماں اور بہن بھائیوں کے سامنے گھر سے اس کو گرفتار کر کے  لے گئےاور 2 سال عقوبت خانوں میں رکھنے کے بعد اسکی لاش دریا کنارے ملی۔

2 اور نوجوان نوید حسین جس کے بھائی سمیت خاندان کے کئی افراد شہید تھے اور ظفر حسین کی لاشیں ویرانوں سے ملیں۔ ناصر حسین کا ظمی (جو کہ یونس کاظمی کے کزن اور جس کے والد، چچا، 2 بڑے بھائی اور  ۵ کزنز شہید شہید ہیں) کو سکیورٹی اداروں نے اٹھایا، آج سات سال گزرنے کے باوجود اسکی کوئی خبر نہیں۔ امتیاز حسین کاظمی  کو 2 بار سکiورٹی اداروں  نے اٹھایا، 4 سال ہونے کو ہیں اس کا کوئی پتہ نہیں۔ محمد حسنین کے جبری اغواء کو 6 سال مکمل ہو چکے ہیں اس کی والدہ، بھائی بہنیں اور بیوی بچے اس کے انتظار کا غم دل میں لئے پریشان حال و سرگرداں ہیں۔ ان کے علاوہ 15 کے قریب بےگناہ شیعہ نوجوان ان قانون کے رکھوالوں کی حراست میں ہیں۔ ان لاپتہ تشیع نوجوانوں نے نہ تو سکیورٹی اداروں پر حملہ کیا نہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر  بم بلاسٹ کئے، نہ خود کش اور نہ ہی کسی بے گناہ کو قتل کیا لیکن بیلنس پالیسی اور محبت اہلبیت (ع) کے جرم میں کئی سالوں سے زیر عتاب ہیں۔ اس کے برعکس سپاہ صحابہ، لشکر جھگنوی کے اعظم معاویہ، طالبان ،القاعدہ اور نفاذ شریعت کے صوفی محمد جیسے ہزاروں دہشت گرد آزاد ہیں۔ احسان اللہ احسان اور کلبھوشن جیسے دہشتگردوں کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کے خاندان کے افراد ان سے ملاقاتیں بھی کریں اور آئے روز ان کی ممکنہ رہائی کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنیں مگر ڈیرہ کے تشیع نوجوان اس حق سے بھی محروم ہیں کہ ان کے گھر والوں تک ان کی حیات و موت کے بارے میں کوئی خبر ہی آ پہنچے۔

اس ریاستی جبر اور دہشت گردوں کی سفاکیت کے خلاف شیعہ مذہبی تنظیموں خصوصاً مجلس وحدت مسلمین، آئی ایس او اور تحریک جعفریہ (شیعہ علما کونسل )نے  1987ء سے لیکر آخری شہداء افتخار حسین گشگوری شہید اور شہید مطیع اللہ تک ہر جنازے پر بھر پور احتجاج کیا۔ سخت غم و غصہ کا اظہار کیا گیا۔ لاشے شاہراؤں پر رکھ کر دھرنے دیئے گئے۔ صدر، وزیراعظم، چیف آف آرمی سٹاف، آئی جی، ڈی آئی جی، ڈیرہ میں فوج کے ایک ڈویژن کے سربراہ سٹیشن کمانڈر، وزیراعلٰی کے پی کے، سیاسی رہنماء فضل الرحمن، فیصل کنڈی، عمران خان، علی امین گنڈہ پور   یعنی کوئی ایسا سیاسی و فوجی لیڈر نہیں بچا کہ جس کو اس قتل و غارت اور نا انصافی و قانون شکنی اور اپنی مظلومیت کی داستان نہ سنائی گئی ہو۔ ان سیاسی جماعتوں و لوگوں سے سیاسی اتحاد بھی شیعہ تنظیموں اور علاقائی بزرگوں نے کئے کہ شاید ان کے دکھوں کا مداوا ہو سکے لیکن ہر سیاسی و مذہبی  پارٹی و شخصیت نے نہ صرف دھوکا دیا بلکہ  سپاہ صحابہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط بڑھا کر شیعان علی کی قتل و غارت میں ان کے ممد و معاون بنے۔ ان سیاسی و مذہبی تنظیموں نے بھی حتی المقدور اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے شیعہ قتل و غارت اور اغواء برائے تاوان میں حصہ لیا۔

سپاہ صحابہ کے تربیت یافتہ دہشت گرد ان کی پناہ گاہوں میں چھپے رہتے ہیں اور قتل و غارت گری کے بعد ان مذہبی و سیاسی شخصیات کے مدرسوں و ڈیروں  پر سیاسی پناہ لے لیتے ہیں۔ جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ان دہشت گردوں کا محاصرہ شروع ہوتا ہے تو سپاہ صحابہ کو ظاہری طور پر چھوڑ کر ان مذہبی و سیاسی جماعتوں میں شمولیت کا اعلان کر کےپاک صاف ہو جاتے ہیں اور پھر ان جماعتوں کے ذریعہ اپنے ناپاک منصوبوں کی تکمیل میں کوشاں رہتے ہیں۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے جن افراد پہ قتل کی کئی کئی ایف آئی آرز درج ہیں، انہیں نہ صرف آزادی سے جینے بلکہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی آزادی ہے جبکہ بے گناہ تشیع نوجوانوں پر نہ صرف جھوٹے مقدمات قائم کرکے انہیں پابند سلاسل کیا جاتا ہے بلکہ مہینوں کی اسیری کے بعد جب عدالت سے ضمانت پہ رہائی نصیب ہوتو جیل کے باہر ہی اہلکار انہیں لاپتہ کرنے کیلئے پہلے سے ہی منتظر ہوتے ہیں۔ حالیہ چند مہینوں میں انتظامیہ نے ایک مرتبہ پھر بے گناہ تشیع نوجوانوں کے خلاف ناروا کارروائیاں شروع کردی ہیں اور اپنے طور ہوائی تنظیم (حسینی ٹائیگرز) تخلیق کرکے ان نوجوانوں کا تعلق اس سے ثابت کرنے پہ کمربستہ ہے۔ اس ہوائی تنظیم کا نام کس نے متعارف کرایا ہے، انتظامیہ اس سلسلے کو کہاں لیکر جانے پہ کمر بستہ ہے اور حالیہ چند مہینوں میں کن نوجوانوں کو کس جرم کی پاداش میں غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 726196
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش