1
0
Tuesday 22 May 2018 04:01

پاراچنار، الیکشن کے افق پر ابھرنے والے چہرے(3)

پاراچنار، الیکشن کے افق پر ابھرنے والے چہرے(3)
تحریر: سجاد علی ساجد بنگش

گذشتہ سے پیوستہ
ابرار جان طوری:
ابرار حسین جان طوری کا تعلق پاراچنار کے مغرب میں واقع گاؤں کچکینہ کے دوپرزئی قبیلے سے ہے۔ تعلیم یافتہ جوان ہیں۔ پچھلے کئی سال سے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ایم این اے بننے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ مرکز سے اپنے نام کی منظوری کے لئے دو ماہ قبل منعقدہ برسی آغا نواز عرفانی کے موقع پر مزار کے لئے 10 لاکھ روپے کا عطیہ پیش کیا۔ مگر مرکز سے وابستہ لوگوں کی اکثریت کی حمایت سے محروم ہیں۔ 11 مئی کو اپنے گاؤں کچکینہ میں دوپرزئی قوم کا جرگہ بلایا۔ جس میں کافی افراد نے تو شرکت کی، تاہم دوپرزئی کی اتنی بڑی آبادی کے باوجود کچکینہ کی امام بارگاہ کو بھر نہ سکے۔ اس پروگرام میں خود وہ اور جلسے میں شریک ہر مقرر کی تقریر میں ساجد طوری ہی ہدف تنقید رہے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایک مقرر نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے استفسار کیا، کہ نواز آغا کو ایجنسی سے کس نے نکالا، کس نے بالاحصار میں آغائے شہید پر دستخط کئے۔ خود ابرار جان نے بھی بعض مشران خصوصاً دوپرزئی کے بعض مشران کی جانب سے ساجد طوری کی حمایت کو ہدف تنقید بنایا۔ مجموعی طور پر ابرار جان کو 1000 ووٹ ملنا بھی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم انتخابات تک بہت وقت ہے۔ نتائج ایک دن میں بھی بدل سکتے ہیں۔ جسطرح کہ پچھلی مرتبہ سید قیصر کو 80 فیصد عوام کی حمایت حاصل تھی، لیکن بعد میں ایک سیاسی ریلا آگیا اور ان کی حمایت کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔

ممتاز بھائی:
ممتاز بھائی کا تعلق لوئر کرم کے علاقے ٹوپکی سے ہے۔ کرم ایجنسی میں ایم کیو ایم کی بنیاد ڈالنے والوں میں سے ہیں۔ خیال رہے کہ ایم کیو ایم کی بنیاد یہاں خان ہسپتال کے مالک کراچی کے ایک مہاجر نے رکھی تھی، جو کہ خفیہ ایجنسیوں کے لئے کام کرتا ہے۔ ممتاز بھائی نے ایک عرصہ تک ایم کیو ایم کے لئے کام کیا، چاہتا تھا کہ ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر منتخب ہو، پچھلی مرتبہ ساجد طوری کی حمایت کرنے پر آقای نواز عرفانی کے فیصلے پر کھلی تنقید کرنے والے مرکزی افراد، اصغر حسین اصغرو، سردار حسین ٹوپکی وغیرہ کے ساتھ صف اول میں یہ بھی شامل تھے، لیکن جب انہیں اس میں کوئی کامیابی دکھائی نہ دی تو آغائے نواز عرفانی کے قتل کے بعد اپنا پینترا بدل کر مرکز میں بیٹھ کر اس قتل پر واویلا مچانے میں مصروف ہوگئے۔ اس دوران سیاسی قد بحال کرنے کی کوشش میں انہوں نے پیش امام اور مرکز کی پالیسسیوں پر تنقید کرنے والے افراد کو خوب نشانہ بنایا۔ مگر ان کے سیاسی قد میں تاحال کوئی اضافہ نہیں ہوسکا ہے۔ قومی اسمبلی کی امید میں امیدوار تو ہیں، لیکن اپنے گھر والے شاید اپنا ووٹ انکو دیں۔ باقی سے کوئی امید نہیں ہے۔

ڈاکٹر مشتاق حسین:
مرحوم حاجی مختار حسین کے فرزند ڈاکٹر مشتاق حسین کا بنیادی تعلق نستی کوٹ کے غنڈی خیل قبیلے سے ہے۔ اپنے والد کے زمانے سے پاراچنار میں آباد ہیں۔ انکے والد حاجی مختار حسین کا شمار مرکزی جامع مسجد پاراچنار میں پہلی صف میں نماز پڑھنے والوں میں ہوتا ہے۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہونے کے ناطے محکمہ صحت میں کچھ عرصہ تک میڈیکل آفیسر رہے۔ بعد میں استعفٰی دیکر پرائیویٹ کلینک شروع کیا۔ انکا دعویٰ ہے کہ مرحوم پیش امام شیخ نواز عرفانی کے کہنے پر انہوں نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دیا۔ اس مرتبہ مرکزی قوتوں کی امید لیکر قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں، تاہم انکی پوزیشن مستحکم نہیں۔
نوٹ: اگر کوئی قومی اتفاق رائے پیدا نہ ہوا، تو پہلے پانچ افراد کے علاوہ موخر الذکر افراد کی کوئی اہمیت نہیں، جبکہ اصل مقابلہ پہلے تین امیدواروں (سید اقبال میاں، ساجد طوری، علی بیگم صاحبہ) کے درمیان ہوگا۔

مرکز کا موقف:
اس مرتبہ مرکز بھی ایک خاص مشکل سے دوچار ہے۔ مرکز میں ایک عرصہ تک خدمات انجام دینے والے نصف درجن افراد میں سے ہر ایک یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ مرکز بلا شرکت غیرے اس کا اعلان کرے۔ تاہم پیش امام شیخ فدا مظاہری اور سیکرٹری انجمن حسینیہ نے مسجد نیز سوشل میڈیا پر واضح اعلان کیا ہے کہ مرکز کی طرف سے کسی بھی امیدوار کی حمایت یا مخالفت نہیں کی جائے گی، نیز یہ کہ مرکز سے وابستہ کوئی بھی رکن کسی امیدوار کے ساتھ کام  نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ وہ مرکز سے استعفیٰ نہ دے۔

تحریک کا موقف:
تحریک حسینی نے اپنی سیاسی ساکھ کو محفوظ رکھنے کی خاطر پچھلی مرتبہ بھی واضح طور پر کسی امیدوار کی حمایت کا اعلان نہیں کیا تھا۔ تاہم تحریک سے وابستہ لوگوں کا رجحان سید قیصر کی طرف رہا۔ جو تقریباً 500 ووٹوں سے ساجد طوری سے ہار گئے۔ صدر تحریک حسینی کے مطابق تحریک، خصوصاً علامہ عابد حسینی کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر بیشتر امیدواروں نے انکے ساتھ رابطہ کیا ہے، تاہم انہوں نے ہر ایک کو عزت و احترام دینے کے بعد صاف لفظوں میں بتا دیا ہے کہ وہ کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کریں گے۔ البتہ انہوں نے بلا تفریق ہر امیدوار کی حمایت کے لئے ایک شرط رکھی ہے کہ طوری بنگش اقوام کے مسائل کے حل کیلئے جو امیدوار کمر کس لینے کی یقین دھانی کرائے، انکی حمایت کی جائے گی۔
نوٹ: کرم ایجنسی کے زمینی حقائق (گراؤنڈ ریئلٹیز) کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سطور میں کرم کی سیاست پر اظہار خیال کرنے پر تمام امیدواروں سے معذرت خواہ ہیں۔ تاہم یہ کالم نگار کی اپنی رائے اور نظر ہے۔ اسلام ٹائمز کا کسی کی ذاتی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ فاٹا خصوصاً کرم ایجنسی کی سیاسی صورتحال پر اپنا نکتہ نظر بیان کرنے والے ہمارے ساتھ مندرجہ ذیل ایمیل ایڈریس پر رابطہ کرسکتے ہیں۔
Fatanews313@yahoo.com
خبر کا کوڈ : 726333
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

sardar ali sultani
Pakistan
zabardast hy.kuram k halat sy apdat kerny pr mzmon nigar awr islamtime ka shokrya.
ہماری پیشکش