0
Monday 21 May 2018 23:45

امریکہ کے 12 مطالبات اور انکا جواب

امریکہ کے 12 مطالبات اور انکا جواب
تحریر: سید اسد عباس

امریکہ نے نیوکلیائی معاہدے کو جاری رکھنے کے لئے بارہ نکات کو 5+1 کے عالمی معاہدے میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ 2015ء میں طویل سفارتی مشاورت اور بحث و تمحیص کے بعد چین، فرانس، روس، جرمنی، برطانیہ، امریکہ اور ایران کے مابین JCPOA کے عنوان سے ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کی رو سے ایران نے اپنی نیوکلیائی پیداوار اور پیش رفت کو گھٹانے کی حامی بھری، جس کے نتیجے میں ایک طویل اور پیچیدہ طریقہ کار کے مطابق ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کا فریم ورک دیا گیا۔ یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے بھی اس معاہدے کی توثیق کی۔ نیوکلیائی ہتھیاروں کی نگرانی کے لئے قائم عالمی ادارے کی جانب سے ایران میں معاہدے کے مطابق کئے گئے اقدامات کی توثیق کے بعد ایران پر سے پابندیاں ہٹائے جانے کا عمل شروع ہوا۔ یورپ کی بہت سی کمپنیاں جو اقتصادی پابندیوں کے باعث ایران سے کاروبار سمیٹ کر واپس چلی گئی تھیں، انہوں نے ایک مرتبہ پھر ایران کے ساتھ کاروباری معاہدے کرنے شروع کئے۔ چین اور روس نے بھی ان اقتصادی پابندیوں کے خاتمے پر ایران کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارتی معاہدے کئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل اور سعودیہ کی مانند ابتداء سے ہی اس معاہدے کے خلاف تھے۔ 8 مئی کو ٹرمپ نے امریکہ کے اس معاہدے سے انخلاء کا اعلان کیا، جسے یورپی ممالک کی جانب سے تشویش کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ یورپ کی وہ کمپنیاں جو ایران سے معاہدے کر رہی تھیں، انکو ٹرمپ کے اس اعلان کے سبب نئی مشکلات کا سامنا ہے، یورپ کی حکومتیں اور یورپی یونین ٹرمپ کے اس اعلان پر پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکی ہیں۔ ٹرمپ کے نیوکلیائی معاہدے سے انخلاء کے اعلان کے باوجود یورپی یونین، فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے اس معاہدے کو جاری رکھنے اور اس پر عمل کی یقین دہائی کروائی ہے۔ چین اور روس نے بھی اعادہ کیا ہے کہ امریکہ کے انخلاء کے باوجود وہ اس معاہدے کو زندہ رکھیں گے۔ باراک اوباما نے اپنے ایک تحریری بیان میں کہا کہ نیوکلیائی معاہدہ اپنا مقصد پورا کر رہا ہے۔ یہ امریکہ کے مفاد میں ہے۔ اس کے سبب ایران کا نیوکلیئر پروگرام بڑی حد تک پیچھے چلا گیا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سفارت کاری کے ذریعے کیا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے بیان میں باقی تمام ممبران پر زور دیا کہ وہ اس معاہدے کے مطابق عمل کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے نفاذ کے حوالے سے تمام تحفظات کو معاہدے میں بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق دور کیا جانا چاہیے۔ آسٹریلیا اور جاپان نے بھی امریکہ کے اس معاہدے سے انخلاء پر افسوس کا اظہار کیا، ترکی نے ٹرمپ کے اس اقدام کو ایک قابل افسوس قدم قرار دیا۔

سابق امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری نے کہا کہ آج امریکہ اپنے وعدے سے پھر گیا ہے۔ آج ہم یورپی اتحادیوں سے الگ ہوگئے ہیں۔ شاید انہی تحفظات، بیانات اور اعلانات کا نتیجہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس نیوکلیائی معاہدے پر نئے سرے سے دستخط کے لئے بارہ مطالبات پر مشتمل ایک فہرست پیش کی ہے۔ ان نکات کا اعلان امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ پومپیو نے واشنگٹن ڈی سی میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پومپیو کا کہنا تھا کہ ایران نے اگر ان مطالبات کو قبول نہ کیا اور ان کے حوالے سے فوری اقدام نہ کیا تو اس پر ایسی شدید اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں گی، جسے ایران یاد رکھے گا۔ ان مطالبات میں یورینیم کی افزودگی کے عمل کو روکنا، پلاٹونیم کو پہلے سے افزودہ نہ کرنا، ایران میں موجود تمام تر نیوکلیائی مراکز تک رسائی، اسرائیل کو تباہ کرنے کی دھمکیوں سے اجتناب، تمام امریکی شہریوں کی رہائی، حزب اللہ، انصار اللہ کی مدد اور علاقائی معاملات میں مداخلت کا فی الفور خاتمہ نیز شام سے اپنی افواج کا فوری طور پر انخلاء شامل ہیں۔

امریکہ کے یہ مطالبات، مطالبات سے زیادہ احکامات نظر آتے ہیں۔ یورپ میں ان نئے مطالبات کے حوالے سے بھی شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ ایک مبصر کے مطابق یہ مطالبات یورپ کے لئے بھی احکامات کا درجہ رکھتے ہیں، جس میں یورپی ممالک کو بتایا جا رہا ہے کہ انہیں کب کیا کرنا ہے۔ جو یورپی ممالک کے لئے کسی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ یورپی قائدین کی نظر میں اس معاملے کے حوالے سے پہلے ہی ایک معاہدہ موجود ہے اور ایران اس پر عمل درآمد بھی کر رہا ہے، لہذا مزید نئے مطالبات کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے عہدیدار رابرٹ جے، جو کہ اوباما دور میں نیوکلیائی معاہدے کی مشاورت میں شریک تھے، انہوں نے ان نئے بارہ نکات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دیوانے کا خواب ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ گفتگو کے لئے ان غیر حقیقی خواہشات کی فہرست سے کچھ حاصل کر پائے گی۔ رابرٹ این ہورن نے مزید کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کسی صورت ایسی اقتصادی پابندیاں نہیں لگا سکتی، جو کہ اوباما اپنے اتحادیوں اور دوسری اقوام کے ساتھ مل کر لگا سکتے تھے۔

پومپیو نے اپنی تقریر میں یورپی کاروباری افراد کو بھی دھمکایا جو ایران کے ساتھ لین دین کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ یورپی تاجر امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کا خمیازہ بھگتیں گے۔ روس اور چین پہلے ہی امریکہ کی جانب سے نیوکلیائی معاہدے میں ردو بدل کی کسی کوشش کی مذمت کرچکے ہیں۔ 5 اپریل کو ایک مشترکہ کانفرنس میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ امریکہ ایک ایسا اقدام تنہا اٹھانا چاہتا ہے، جس کے بارے میں کئی اقوام کا اتفاق رائے ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سفارتکاری نہیں بلکہ اپنے مفادات کو دوسروں پر مسلط کرنے کا عمل ہے۔ لاوروف نے کہا کہ انفرادی اقدام ہمیشہ برا ہوتا ہے، بالخصوص جب وہ خارجہ پالیسی کا مرکزی آلہ قرار پائے۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ پومپیو کے پیش کردہ نئے مطالبات منجملہ ’’اسرائیل کو تباہ کرنے کی دھمکیوں سے اجتناب، تمام امریکی شہریوں کی رہائی، حزب اللہ، انصار اللہ کی مدد اور علاقائی معاملات میں مداخلت کا فی الفور خاتمہ نیز شام سے اپنی افواج کا فوری طور پر انخلاء ‘‘امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بے چینی اور پریشانی کا بین ثبوت ہیں۔ یورپ، چین اور روس کا ان مطالبات سے کچھ لینا دینا نہیں، وہ تو سابقہ معاہدے سے جڑے رہنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ ان نئے مطالبات کی حیثیت فقط ایک بیانیہ کی ہے، جس کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ مہذب دنیا سے بات کرنے کے لئے’’امریکہ عرب دنیا اور مسلمان ممالک سے اپنی افواج کو فی الفور واپس بلائے، داعش اور دیگر عسکریت پسند گروہوں نیز سیکولر قوتوں کی پشت پناہی کا خاتمہ کرے، یروشلم سے اپنے سفارتخانے کو تل ابیب منتقل کرے اور فلسطینیوں کی قاتل ریاست کی پشت پناہی سے باز آئے۔"
خبر کا کوڈ : 726436
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش