1
1
Wednesday 23 May 2018 17:30

رواداری اور ہمارا معاشرہ

رواداری اور ہمارا معاشرہ
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com


رواداری کا مادہ لغوی اعتبار سے ’’روا‘‘ کے ساتھ مربوط ہے، جس سے مراد کوئی بھی رویہ، اقدام، بات، کام اور انداز کا قابلِ قبول ہونا، قابل تحمل ہونا اور قابلِ برداشت ہونا ہے۔ ’’روا‘‘ سے مراد چلنا بھی ہے اور اس چلنے کی عملی تشریح و تفسیر ایسے ہے کہ ایک پاؤں جب قدم بڑھاتا ہے تو دوسرا پاؤں اس کے ساتھ چلتا ہے، اس کا ساتھ دیتا ہے۔ ایک پاؤں زمین کو دباتا ہے تو دوسرا آگے بڑھتا ہے، اسی طرح دونوں یہ افعال انجام دیتے ہوئے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھتے رہتے ہیں اور پیچھے بھی ہٹتے رہتے ہیں۔ ان کی درمیان ایک دوسرے کو برداشت کرکے اور ہم آہنگی کے ساتھ چلنے کے عمل کو ’’رواداری‘‘ کہا جاتا ہے۔ رواداری ایک انسانی رویہ، انسانی مزاج کا لازمہ، انسانی ضرورت اور انسانی معاشرے میں پائے جانے والے شعور اور اظہار کی علامت ہے۔ تسامح (Tolerance)، حلم (Forbearance)، عفو (Forgiveness) بھی رواداری کے ساتھ متصل اور متعلق ہیں۔

دوسروں کے لئے اپنے دلوں میں نرم گوشہ رکھنا اور اس گوشے کا اظہار کرنا بھی رواداری ہے۔ ناقابلِ قبول حالات میں قابلِ قبول رویہ اختیار کرنا بھی رواداری ہے۔ اہل اسلام کے لئے رواداری کی اہمیت و حیثیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں رواداری کا براہِ راست حکم آتا ہے۔ قرآن کریم کی سورہ الشوری آیت 48، سورہ النحل آیت 125، سورہ الحجرات آیت 13 اور دیگر آیات میں اس حوالے سے واضح رہنمائی موجود ہے۔ جہاں خود رسول اکرم ﷺ کو دوسروں کے ساتھ حکمت، نرمی اور رواداری کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ اس طرح اہل اسلام کے لئے رواداری دین کا باقاعدہ حصہ ہے۔ ہمیں اسے بطور حکمِ شرعی، بطور ذمہ داری اور بطور دینی ضرورت کے دیکھنا چاہیے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اسلام تمام مذاہب کو رواداری کے اصول کے تحت آزادی دیتا ہے اور دیگر مذاہب میں مداخلت یا ان کے ساتھ جبر و اکراہ پر مبنی رویے کا حکم نہیں دیتا۔ اسی رواداری کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالٰی نے حکمت اور موعظہ کے بہترین اصول بیان فرمائے ہیں۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ رواداری کو فقط مذہب کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے اور تاثر دیا جاتا ہے کہ رواداری خراب کرنے کی ذمہ داری اہل مذہب پر عائد ہوتی ہے، لہذا رواداری کی ضرورت بھی اہل مذہب کو ہے اور رواداری کا رواج بھی اہل مذہب کی ذمہ داری ہے۔ حالانکہ ایسا ہوگز نہیں ہے بلکہ رواداری ایک اجتماعی انسانی عمل ہے، جس کا کسی خاص مذہب یا مسلک سے تعلق نہیں بلکہ مذاہب کی حسین تعلیمات رواداری کے قیام کو ممکن بنانے اور اسے نافذ کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ رواداری کو اگر ہم وسیع ترین معانی اور مفاہیم میں دیکھیں تو رواداری ایک گھر میں میاں اور بیوی کے درمیان بھی لازم ہے، کیونکہ اس طرح دو لوگوں کا باہم رہنا ممکن ہوتا ہے، اگر ان دونوں میں ایک دوسرے کو سمجھنے اور برداشت کرنے کا جذبہ موجود نہیں ہوگا، یہ دو لوگ زیادہ وقت ساتھ نہیں چل سکیں گے، اگر ساتھ نہیں چلیں گے تو پھر خاندان کی تشکیل کے ذریعے معاشرے کی تشکیل ناممکن ہو جائے گی۔

رواداری کا مرحلہ میاں بیوی کے بعد والدین اور اولاد کے درمیان، اہل خاندان و اقرباء کے درمیان، اہل محلہ و اہل علاقہ کے درمیان، مختلف گروہوں اور طبقات کے درمیان، اکثریت اور اقلیت کے درمیان اور پھر آخر میں ممالک اور مذاہب کے درمیان تدریجاً آتا ہے، ان معاشرتی اکائیوں اور معاشرتی حقیقتوں کے درمیان اپنی اپنی سطح پر رواداری ضروری ہے۔ رواداری چونکہ انسانی معاشرے میں امن اور اخوت کی بنیاد فراہم کرتی ہے، اس لئے اس کے لئے مذہب کا ہونا لازم نہیں، البتہ مذاہب کی تعلیمات رواداری کے فروغ میں کلیدی کردار ضرور ادا کرتی ہیں۔ اس لحاظ سے جہاں جہاں اہل مذہب کا اثر و رسوخ ہے وہاں رواداری کو مذہب کے ذریعے رائج کرنا ان کی ذمہ داری ہے، ورنہ رواداری کے نفاذ اور رواج کا ذمہ ہر انسان بالخصوص ہر تعلیم یافتہ اور باشعور فرد کی اولین ذمہ داری ہے۔

قوانین کا معاشرے کے ساتھ اگرچہ گہرا رشتہ ہے، لیکن قوانین تب ناکام ہو جاتے ہیں، جب معاشروں میں عدم برداشت، عدم رواداری اور عدم تحمل موجود رہتا ہے۔ رواداری ہی امن و امان کی بنیاد ہے، اگر رواداری قائم ہے تو امن و امان قائم اور اگر رواداری خراب تو امن و امان خراب۔ معاشرے صرف قوانین کی ساخت سے نہیں بنتے بلکہ رواداری کے فروغ سے بنتے ہیں۔ ہزار قوانین کی موجودگی انسانی معاشرے کو پرامن اور خوشحال نہیں بنا سکتی، جبکہ ایک رواداری کی موجودگی یہ خواب شرمندہ تعبیر کرسکتی ہے۔ اصل خدمت یہی ہے کہ ہمیں رواداری کی تعلیم اپنے بچوں کی تربیت کا حصہ بنانا ہوگی۔ یہ تب ممکن ہے کہ اگر ہم رواداری کو اپنے رویے اور عادات کا حصہ بنالیں۔ کیونکہ اپنی ذات پر رواداری نافذ کئے بغیر ہم اپنے گھر تک یہ پیغام منتقل نہیں کرسکتے، چہ جائیکہ پورے معاشرے پر؟ رواداری کو انفرادی طور پر اپنی ذات اور گھر کا حصہ بنانے کے بعد اپنی اجتماعی اور معاشرتی محافل و مجالس کا حصہ بنانا ہوگا، تاکہ معاشرے میں اجتماعی فکر بلند ہو۔ اجتماعی شعور بیدار ہو اور ہمارے معاشرے کے ایک ایک فرد کو رواداری کا احساس پیدا ہو جائے۔ رواداری ماضی کی طرح آج کے وقت یعنی دور حاضرمیں بھی اتنی ہی ضروری ہے اور مستقبل میں بھی اس کی افادیت موجود رہے گی، کیونکہ جب تک انسانی معاشرہ، مزاج، فطرت، رویہ اور حالات اسی نہج پر رہیں گے رواداری کا ضرورت باقی رہے گی۔

آخر میں رواداری کے موضوع پر ایک سیمینار میں فی البدیہہ کہے گئے اشعار
حکم قرآن ہے رواداری
صدق و ایقان ہے رواداری
جسمِ انسان مختلف ہے مگر
روحِ انسان ہے رواداری
اپنی نسلوں سے اب جو کرنا ہے
عہد و پیمان ہے رواداری
میزباں حلم و عفو ہیں لیکن
ان کی مہمان ہے رواداری
ضامنِ جان، امن ہے لیکن
امن کی جان ہے رواداری
دین دیتا ہے درسِ امن و سکوں
دیں کا عنوان ہے رواداری
بے خوفِ تردید کر دیا اظہار
میرا ایمان ہے رواداری

*****
خبر کا کوڈ : 726933
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ایمان
Pakistan
RAWADARI
ہماری پیشکش