2
Friday 25 May 2018 03:55

گلگت بلتستان اور ففتھ جنریشن وار

گلگت بلتستان اور ففتھ جنریشن وار
تحریر: لیاقت تمنائی

گذشتہ روز فورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جنرل ثاقب محمود نے صحافیوں کے اعزاز میں دیئے گئے افطار ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے ففتھ جنریشن وار کے خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے صحافیوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔ ان کا کہنا تھا ''ہم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں، جہاں مخالفت زیادہ اور حمایت کم ہے، ففتھ جنریشن وار سے متعلق عوام کو آگاہ رکھنا اور شعور دینا صحافیوں کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے۔" مجھے یاد ہے آج سے 12 سال پہلے لاہور کے جامعة المنتظر میں آئی ایس او کے سالانہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ نعیمیہ کے سربراہ شہید علامہ سرفراز نعیمی نے چند اہم نکات بیان کئے تھے۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کا کہنا تھا ''زمانہ بدل رہا ہے، استعماری قوتوں کے حملوں کی نوعیت بھی تبدیل ہو رہی ہے، یہ فزیکل وار یا براہ راست جنگوں کا دورنہیں رہا، روایتی طریقہ جنگ سب سے آخری ترجیح رہی ہے، اس وقت جب کوئی اور راستہ نہ بچا ہو یا راستہ بالکل صاف ہو۔ ایک دور آیا جب نظریات کی بنیاد پر جنگیں ہوتی رہیں، سرد جنگ ہمارے سامنے ہے، یہ دو نظریات کے مابین جنگ تھی، سویت یونین کے پاس کمیونزم کا نظریہ تھا جبکہ امریکہ کے پاس سوشلزم یا سرمایہ دارانہ نظام کا نظریہ تھا۔ ایک دوسرے کے نظریئے کو مسلط کرنے کیلئے نصف صدی تک پوری دنیا کو سرد جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا گیا، اس کے بعد ایک اور دور آیا ہے، یہ نظریات سے ایک قدم آگے جاکر مغرب نے کٹھ پتلیوں کا کھیل شروع کر دیا۔ جمہوریت کے نام پر مختلف ممالک میں اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کو مسلط کرکے ان کے ذریعے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ عوام میں دشمن شناسی کی اہلیت ہو یا پیدا کرے۔"

یہ 2006ء کی بات ہے، تب دنیا اب کے مقابلے میں قدرے محدود تھی، اب صورتحال بدل چکی ہے، ٹیکنالوجی کی جدت اور سوشل میڈیا کے انقلاب نے نیا منظرنامہ تشکیل دیا ہے، اب استعماری قوتوں کو کٹھ پتلیوں کی بھی ضروت نہیں رہی، یہ ففتھ جنریشن وار کا دور کہلاتا ہے، یعنی مخالف کو اپنے آپ سے الجھا کر زیر کر دینا۔ ففتھ جنریشن وار میں ہمیں اپنے اداروں اور اہم ترین شخصیات سے نفرت پیدا کرکے ایک ہیجانی کیفیت پیدا کی جاتی ہے، اس کے نتیجے میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ عوام خود اپنے اداروں مثلاً فوج یا عدلیہ سے الجھ پڑتے ہیں، ایسی صورت میں ہم اپنے آپ کے دشمن ہونگے، پھر ایک ریاست میں ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوششیں اور سازشیں ہونگی اور اس کے بعد ریاست بکھر جائے گی۔ ففتھ جنریشن وار کی سب سے بہترین تعریف یہ ہے:''وہ تب تک حاوی نہیں ہوسکتے، جب تک آپ کی فوج ہے، فوج کو وہ شکست نہیں دے سکتے، اب وہ یہ کام آپ سے لینا چاہتے ہیں، یہی ففتھ جنریشن وار ہے۔" پاکستان میں اس وقت اسی صورتحال کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، یہاں سکیولر اور انتہا پسندی کے نام پر کشمکش کی فضا ہے، دونوں کا ٹارگٹ ایک ہے، اس میدان میں اب نواز شریف کی صورت میں ایک اور کھلاڑی اتر چکا ہے، ان کا بھی نشانہ وہی ہے۔

نواز شریف شاید عدالت سے اپنے آپ کو سزا سے بچانے کیلئے اداروں پر حملے کر رہے ہوں، بعید نہیں کہ وہ استعمال ہو رہے ہوں، کیونکہ اداروں کیخلاف کوئی بھی سازشی نظریہ (conspiracy theory) نواز شریف کے نزدیک اپنے دفاع کا واحد ذریعہ بن جاتا ہے اور یہی کچھ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے انقلاب اور انٹرنیٹ سروس کی فراوانی نے آج کی نوجوان نسل کو کنٹرول کرنا زیادہ آسان ہے اور سب سے زیادہ مشکل بھی۔ ایک فرد کا حادثہ ''قومی سانحہ'' میں تبدیل ہوسکتا ہے، ایک عام شخص کو انقلابی لیڈر میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، یا مزاحمت کی علامت کے طور پر متعارف کیا جاسکتا ہے۔ یہ سوشل میڈیا ہی تھا جس نے عرب سپرنگ کو ہوا دی اور کئی تخت اجاڑ دیئے، اس منظرنامے میں گلگت بلتستان کی اہمیت اور اور بھی بڑھ چکی ہے، کیونکہ یہاں کے لوگ فطری طور پر سادہ لوح ثابت ہوئے ہیں، دوسری طرف متنازعہ اور غیر متنازعہ کی بحث نے خطے کی حساسیت کو اور بھی بڑھا دیا ہے، یہ حساسیت ففتھ جنریشن وار کیلئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے، جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ صورتحال میں گلگت بلتستان کی اہمیت کی کئی وجوہات ہیں۔

جغرافیائی حیثیت
گلگت بلتستان کا جغرافیہ دیکھا جائے تو یہ دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے، مثلاً دنیا کے دو سب سے بڑے پہاڑی سلسلے ہمالیہ اور قراقرم کا سنگم ہے، دنیا کے دس میں سے سات بلند ترین پہاڑ یہاں موجود ہیں، آئس لینڈ کے بعد دنیا کا سب سے بڑا گلیشیئر یعنی سیاچن یہاں واقع ہے، صاف پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ گلگت بلتستان میں موجود ہے اور یہ تین ایٹمی ریاستوں کے درمیان واقع ہے۔ ابھی تک کوئی انجینئر اور ٹیکنیکل سروے نہیں ہوا، پھر بھی کہا جا رہا ہے کہ قدرتی معدنیات کے اعتبار سے امیر ترین خطہ ہے، سیاحت کے حوالے سے یہ خطہ بذات خود ایک جنت ہے۔

اسٹریٹجک اہمیت
پرویز مشرف دور میں گلگت بلتستان میں موجود دنیا کا بلند ترین سطح مرتفع میدان دیوسائی کو امریکہ کے حوالے کرنے کی ایک افواہ چلی تھی، جماعت اسلامی کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد نے باقاعدہ بیان دے کر حکومت کو خبردار کیا تھا کہ وہ کسی ایسی کوشش سے باز رہے، یہ افواہ ہی ثابت ہوئی، لیکن دیوسائی کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، غذر سے آگے خنجراب کے ساتھ ہی واخان نامی تنگ پٹی کے پار سابقہ سویت یونین کی ریاستیں موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر سی پیک کا گیٹ وے ہے۔

سیاسی حیثیت
1948ء میں گلگت بلتستان کے عوام نے ڈوگروں کو بھگا کر اپنے آپ کو پلیٹ میں رکھ کر ریاست پاکستان کے حوالے کیا، لیکن بدقسمتی سے بدلے میں لمبی محرومی آگئی، ایک آزاد شدہ خطے کو ریاست پاکستان نے متنازعہ بنا دیا، یہ اس وقت کی صورتحال کے مطابق حالات کے تناظر میں اہم فیصلہ ہو، لیکن اسے بعد کے فیصلوں نے بگاڑ دیا، خطے کو نظرانداز کرکے ایف سی آر کے شکنجے میں بے آئین رکھا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ آج اس خطے کو نہ آئینی صوبہ بنایا جاتا ہے، نہ ہی آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دینے پر کوئی تیار نظر آتا ہے۔ سٹیٹ سبجیکٹ رول کو بھی مفلوج بنا کر مقامی زمینوں کی بندربانٹ شروع کر دی گئی، اقوام متحدہ کی قراردادیں ایک بہانہ ہیں تو انہی قراردادوں کے مطابق بھی گلگت بلتستان کو ایک باوقار سیٹ اپ دیا جاسکتا ہے، پھر آخر کونسی ایسی خفیہ طاقت ہے، جس نے پاکستان کو فیصلہ کرنے سے روک رکھا ہے۔ ریاست یہ بہانہ نہیں بنا سکتی کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بنا سکتی، پھر متنازعہ حیثیت کے مطابق آزاد کشمیر یا مقبوضہ کشمیر طرز کا سیٹ اپ دینے میں کیا چیز رکاوٹ ہے؟ یہ ایک سنگین صورتحال ہے، جو نااہلی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، نتیجے کے طور پر نوجوان نسل گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہے۔

اس وقت کشمکش کی ایک فضا ہے، حکومت پاکستان کو یقیناً اس بات کا ادراک ہوگا کہ زمانہ تبدیل ہوچکا ہے، نوجوان نسلوں کے جذبات پہلے کے مقابلے میں قدرے مختلف ہیں۔ آئینی حقوق کی تحریک روایتی سیاست دانوں کے ہاتھ سے نوجوانوں کے ہاتھ میں منتقل ہوچکی ہے، یہ ایک خوش آئند لیکن الارمنگ صورتحال ہے، کیونکہ یہی منظرنامہ ففتھ جنریشن وار کے آلہ کاروں کیلئے سازگار ماحول فراہم کر رہا ہے۔ اس بات کا ادراک یقیناً ہمارے پاک افواج کو بھی ہے، فورس کمانڈر نے اسی خطرے کی نشاندہی کی کوشش کی ہے، یہاں بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو کم از کم ''جنریشن سیریز'' حملوں کا ادراک کم یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا، اگر گلگت بلتستان سے ایک اور تحفظ موومنٹ شروع ہوتی ہے۔ (اس طرح کے خدشے کا اظہار پیپلزپارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر بھی کرچکے ہیں) تو ایک نیا منظرنامہ وجود میں آئے گا۔ تاک میں بیٹھے لوگ فوراً اس تحریک پر حاوی ہونے کی کوشش کرینگے، یہ ان کیلئے بہت ہی آسان ہوگا، کیونکہ ستر سالہ محرومی کے ازالے کی جنگ میں جو کوئی بھی اظہار یکجہتی کرتا ہے تو اس کو خوش آمدید کہنا فطری امر ہے۔ کیونکہ گلگت بلتستان ستر سالوں سے احساس محرومی کا شکار ہے اور عوام خصوصاً نوجوان نسل میں اس محرومی کا شدت سے احساس پایا جاتا ہے۔ کسی بھی غیر یقینی صورت میں عالمی پروپیگنڈا مشینیں حرکت میں آئیں گی، بھارت تو پہلے ہی موقع کی تلاش میں ہے، باقی بی بی سی اور سی این این بھی تو کس چیز کا نام ہے۔۔!! اور پھر معلوم نامعلوم سائبر فورسز پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آئیں گی۔

موجودہ حالات کے تناظر میں حکومت پاکستان کو اہم فیصلے کرنے ہونگے، مجوزہ آرڈ ایک گورکھ دھندے سے زیادہ کچھ نہیں، عوام اور نوجوانوں نے اس کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ یہ آرڈر شاید عجلت میں بنایا گیا ہو یا پھر بعد میں غیر روایتی مشنری کے ذریعے کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی ہو، دونوں صورتوں میں اچھے تنائج کسی صورت نہیں نکلیں گے،کیونکہ پہلے کے مقابلے میں لوگوں کے پاس اظہار رائے کے ذرائع بہت زیادہ ہیں اور ان تمام ذرائع کو ریاست کنٹرول میں نہیں لاسکتی، جس چیز کو آپ چھپانے کی کوشش کروگے تو لوگوں میں ایک تجسس پیدا ہوگا اور اس چیز تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی، نتیجے کے طور پر ایک عام معاملہ پیچیدہ صورت اختیار کرسکتا ہے۔ خطے کو مزید کسی بہانے سے آئینی طور پر مفلوج نہیں رکھا جا سکتا، کیونکہ وفاق کے مقابلے میں گلگت بلتستان کے عوام کا بیانیہ مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر موجود ہے، گلگت بلتستان کو یہاں کے لوگوں نے ہی آزاد کرایا تھا اور پاکستان کی حکومت نے متنازعہ بنا کر ستر سال تک تین میں نہ تیرہ میں رکھا تو کم از کم گلگت بلتستان کے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر کس سے پوچھ کر خطے کو ایک بند گلی میں دھکیل دیا گیا۔؟ سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان کی نوجوان نسل کے مجموعی بیانیے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، نوجوانی جذبات کا نام ہے، ففتھ جنریشن وار میں جذبات ایک اہم فیکٹر ہے، خدشہ ہے کہ وفاق نے اپنی روش نہ بدلی اور عوام کو ایک اور لالی پوپ قسم کے پیکج سے ٹرخانے کی کوشش کی گئی تو نوجوان نسل کے جذبات کو اور ہوا ملے گی، قوم پرستی کی سوچ کو تقویت ملے گی، محرومی کا احساس باغیانہ سوچ کو جنم دیگا، کیونکہ لمبے عرصے تک نظر انداز کرنے کی پالیسی جاری رہتی ہے تو عوام کے موقف اور جذبات میں تبدیلی لازمی امر ہے اور پھر آگے ففتھ جنریشن وار کا میدان سجا ہوگا اور ہم تاریخ میں اپنی ناکامیاں گنو ررہے ہونگے۔
خبر کا کوڈ : 727183
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش