0
Friday 25 May 2018 07:50

ڈیرہ اسماعیل خان میں اہل تشیع پہ کیا بیت رہی ہے(3)

ڈیرہ اسماعیل خان میں اہل تشیع پہ کیا بیت رہی ہے(3)
تحریر: آئی اے خان

ڈی آئی خان میں ماہ فروری کے اوائل میں یکے بعد دیگرے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے نوٹس لیا اور آئی جی خیبر پختونخوا اور سیکرٹری داخلہ سے ڈی آئی خان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ پہ بریفنگ مانگی۔ آئی جی خیبر پختونخوا نے اس بریفنگ میں پولیس کی مجرمانہ غفلت کو چھپانے کیلئے شیعہ کلنگ کو نہ صرف ذاتی دشمنیوں کا شاخسانہ قرار دیا بلکہ ’’حسینی ٹائیگرز‘‘ نامی ایک ہوائی تنظیم کا حوالہ دیکر اس ٹارگٹ کلنگ کو دو فرقہ پرست گروہوں کی آپسی لڑائی بھی قرار دیا۔ بریفنگ لینے والے سینیٹرز بھی اتنے ’’معصوم‘‘ تھے کہ انہوں نے یہ سوال پوچھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی اگر مان بھی لیا جائے کہ ہونے والے قتل ذاتی دشمنیوں کا شاخسانہ تھے تو ان قاتلوں کو پکڑنے میں پولیس آج تک ناکام کیوں رہی۔؟ ایسے قاتل تو آسانی سے گرفتار ہونے چاہیں بہ نسبت پیشہ ور ٹارگٹ کلرز کے۔ کیوں کہ پیشہ ور ٹارگٹ کلرز کو تو دہشتگرد تنظیم کی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے اور کالی بھیڑوں کی مدد بھی۔ یہ کالی بھیڑوں کی مدد کا ہی تو شاخسانہ ہے کہ دو فروری کو محض ایک گھنٹے کے اندر دو مختلف مقامات پہ دو ایسے افراد قتل ہوئے کہ جو واضح طور پر مسلکی شناخت رکھتے تھے۔ ایک امام بارگاہ کا متولی اور دوسرا کالعدم سپاہ صحابہ کا سابق ضلعی عہدیدار۔ درجنوں سی سی ٹی وی کیمروں میں ان پیشہ ور قاتلوں کی فوٹیج دیکھی گئیں۔ اس کے باوجود بھی یہ قاتل گرفتار نہیں ہوئے۔

ہر چالیس گز کے فاصلے پہ ناکہ یا چیک پوسٹ یا پولیس موبائل یا ڈیوٹی پہ موجود سپاہی ہونے کے باوجود قاتلوں کا یہ فرار کیا اس امر کا غماز نہیں کہ کوئی ایسا سرپرست ان قاتلوں کی پشت پہ موجود ہے، جو انہیں تحفظ کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے اور شہر میں دندنانے کی اجازت بھی۔ اس ٹارگٹ کلنگ کے اگلے روز آئی جی نے ڈیرہ کا دورہ کیا تو اس دورے کے دوران شہر کی مرکزی شاہراہوں پہ بینرز آویزاں تھے ،جن پہ ممکنہ ٹارگٹ کلرز کی تصاویر ، نام اور درج تھے۔ پولیس نے ان بینرز سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔ یقینی طور پہ یہ کارنامہ مثالی پولیس ہی سرانجام دے سکتی ہے کہ شہر میں قاتل آزاد پھریں، کیمروں کے سامنے قتل کریں، کمال اطمینان کیساتھ چیک پوسٹوں اور ناکوں سے گزریں، اور نظروں کے سامنے سے ’’غائب‘‘ ہوجائیں۔ صوبے میں قیام امن کا ذمہ دار آئی جی دورے پہ آئے تو شاہراوں پہ قاتلوں کے بینر لگے ہوں اور اس کی اپنی ہی پولیس ان بینرز سے لاعلمی کا اظہار بھی کرے اور وہ سربراہ کمال شفقت سے کسی اہلکار کی سرزنش بھی نہ کرے۔ (اس بات کی گہرائی میں جانا منع ہے)


قائمہ کمیٹی کو دی گئی بریفنگ میں صلاح الدین محسود نے ایک نئی ہوائی تنظیم کا نام بھی متعارف کرایا، جس کا ڈی آئی خان میں کم از کم کوئی وجود ثابت نہیں۔ ایک ذمہ دار ادارے کے سربراہ کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی ، اس کے جواب میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ البتہ اس بریفنگ سے قبل گرفتار نوجوانوں کو شدید تشدد کے بعد جن جھوٹے مقدمات میں ڈالا گیا اور بے گناہ افراد پہ جس طرح مقدمات قائم کئے گئے ، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ڈیرہ کے اہل تشیع کے دروازوں پہ ایک اور کڑا امتحان دستک دے رہا ہے۔(اس امتحان کے سیاسی مقاصد اور انتخابات سے تعلق ایک الگ بحث ہے)۔ اس کڑے امتحان کا ابتدائی شکار پانچ نوجوان بنے ہیں۔ سبطین علی، وقار حسن، سبط الحسن، بہار حسین اور عقیل عباس۔ سبطین علی ولد گلشیر، اسی حسنین کا بھائی ہے کہ جسے آٹھ سال قبل گھر کے اندر سے بوڑھی والدہ کے سامنے سکیورٹی ادارے اٹھا کر لے گئے تھے اور طویل عرصہ گزرنے کے باوجود آج تک اس کا کوئی پتہ نہیں۔ تمام تر درخواستوں، اپیلوں ، فریادوں کے باوجود لاپتہ حسنین کا تاحال کوئی پتہ نہ مل سکا ۔ بوڑھی والدہ یہی درد لئے ،انتقال کرگئی۔ جنوری کے آغاز میں سبطین کو پولیس نے گھر سے گرفتار کیا اور نامعلوم مقام پہ منتقل کردیا۔ عرصہ تین ماہ تک نامعلوم عقوبت خانے میں یہ نوجوان خوفناک تشدد کا نشانہ بنتا رہا۔ ان تین مہینوں اس نوجوان نے نہ ہی کپڑے تبدیل بدلے اور نہ ہی اسے غسل کی اجازت یا سہولت ملی۔ تین ماہ میں جسم پہ تہہ در تہہ میل کا ایک ایسا خول بن گیا کہ جس میں مختلف حشرات نے بسیرا کرلیا تھا۔

وقار عرف وکاولد نیاز حسین، جنوری کے شروع میں ہی پولیس نے رات گئے گھر پہ چھاپہ مارا ۔ یہ نوجوان قریب ہی واقع خالہ کے گھر میں کزنز کے ساتھ کمپیوٹر پہ وڈیو گیم کھیل رہا تھا۔ اس کے تین بھائیوں کو پولیس اپنے ساتھ لے گئی۔ اس رات میں پولیس نے ڈی آئی خان سٹی میں سے تقریباً 15اہل تشیع نوجوانوں کو گرفتار کیا۔ رات گئے ایک نوجوان جوکہ گھر کے اوپر والے کمرے میں سو رہا تھا ، اسے چھت سے باہر گلی میں پھینک دیا،جس سے اس کے پاوں کی ہڈی ٹوٹ گئی اور اسے ٹوٹے ہوئے پاوں کے ساتھ اپنے ساتھ لے گئے۔ گرفتار ہونے والوں میں تیرہ سالہ لڑکا عون اور سترہ سالہ ذیشان بھی شامل تھے۔ ان نوجوانوں کو دو دن کے بعد رات گئے سڑک پہ پھینک کے چلے گے۔ وقار کے بھائیوں کی رہائی کیلئے پولیس نے شرط رکھی کہ وقار کو حاضر کرو۔ جنوری میں ہی گھروالوں نے اسے اپنے ہاتھوں سے پولیس کے سپرد کیا۔ وقار کو بھی پولیس نے نامعلوم مقام پہ منتقل کردیا۔ تین ماہ تک اسے بھی خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ چوبیس گھنٹوں میں صرف تین مرتبہ ہاتھ چند منٹ کیلئے ہاتھ کھولے جاتے، وہ بھی انتہائی ضرورت کے وقت، تیسرے مہینے اس نوجوان کے ناک اور منہ سے خون آنا شروع ہوگیا اور شدید بخار نے آلیا۔شدید تشدد کے باعث اس نوجوان کی قوت گویائی اور قوت سماعت دونوں ہی بری طرح متاثر ہوئے۔

29 مارچ 2018ء کو پولیس نے محنت شاقہ سے دو ’’ٹارگٹ کلرز‘‘ کی گرفتاری کا دعویٰ کیا۔ سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں میڈیا کو بتایا گیا کہ سی ٹی ڈی نے دو ٹارگٹ کلرز کو بنوں اڈہ اور قریشی موڑ ڈیرہ اسماعیل خان سے گرفتار کیا ہے ، یہ ٹارگٹ کلرز حامد رضااور ساجد رضا کے قتل میں ملوث ہیں، دونوں کو جدید سائنسی خطورپر پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ یہ دونوں اور کوئی نہیں بلکہ سبطین اور وقار تھے کہ جو گزشتہ تین ماہ سے خوفناک تشدد کے نتیجے میں قریب المرگ تھے۔ انتہائی خوفناک تشدد کے باوجود پولیس کو دونوں کیخلاف کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا کہ جس کو عدالت میں پیش کرکے ان کی درخواست ضمانت مسترد کرائی جاتی ۔ اپریل کے آغا ز میں دونوں نوجوان ضمانت پہ رہائی پا کر باہر آئے۔
27 اپریل کو تھانہ سٹی کی حدود میں کامرس کالج کے سامنے سر کلر روڈ پر پولیس کے ناکہ پہ نامعلوم افراد نے دیسی ساختہ دستی بم پھینکا۔ جس میں 1 پولیس اہلکار سمیت 2 راہگیرزخمی ہوئے۔اس واقعہ کے 30منٹ بعد ہی پولیس ایک مرتبہ پھر چادر و چاردیواری کو پامال کرتی ہوئی وقار کے گھر میں گھس آئی اور وقارکا مطالبہ کیا۔ وقار اپنے وکیل کے ہمراہ تھانے میں پیش ہوا۔ پولیس نے انہیں تو واپس بھیج دیا مگر کچھ ہی دیر بعد دستی بم حملے کا مقدمہ میں تین افراد کو نامزد کردیا۔ سید سبط الحسن، بہار حسین اور عقیل عباس۔

سید سبط الحسن جو کہ پیشہ کے اعتبار سے پروفیسر اور کوٹلہ سیداں سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کے خاندان کے تقریباً تمام افراد ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہوچکے ہیں ، عرصہ کئی سال سے بیرون ملک ملازمت کررہا ہے۔ بہار حسین کی فیملی خود متاثرہ اور مظلوم نکلی۔ بہار حسین کے بھائی نے حسب توفیق میڈیا کے نمائندوں سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ بہار حسین کو گزشتہ برس ایک جھوٹے مقدمے میں پولیس نے جیل بھیجا تھا۔ کافی مدت بعد مشکل سے اس کی ضمانت ہوئی ۔ اس کی رہائی والے دن بہار حسین کی فیملی اسے لینے کیلئے جیل کے دروازے پہ موجود تھی کہ سفید کپڑوں میں ملبوس افراد گاڑی سے اترے اور نہیں بتایا کہ ان کا تعلق سی ٹی ڈی سے ہے۔ جیسے ہی بہار حسین رہا ہوکر باہر آیا تو وہ لوگ اسے لیکر چلے گئے ۔ ایک ماہ سے زائد گزر گیا مگر تاحال بہار حسین کی کوئی خبر نہیں ۔ چنانچہ حالیہ جس مقدمے میں بہار حسین کو نامزد کیا گیا ہے ، وہ قطعاً جھوٹ پہ مبنی ہے۔ پولیس ان افراد پہ کیسز کیسے بناسکتی ہے کہ جو پہلے سے ہی ان کی قید میں ہوں۔ پولیس کی ہی حراست میں شدید تشدد کا نشانہ بننے والے ایک اہل تشیع نوجوان نے انکشاف کیا کہ شدید تشدد کے بعد مجھے مجبور کیا جاتاتھا کہ میں اپنا تعلق ایک ایسی تنظیم کے ساتھ مان لوں کہ جس کا کوئی وجود تک نہیں اور نہ ہی میں نے یہ نام ’’حسینی ٹائیگرز‘‘ پہلے سنا تھا۔


سوال یہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس کیوں اہل تشیع کی ایک ایسی تنظیم کا وجود ثابت کرنے پہ کمر بستہ ہے کہ جو سرے سے ہے ہی نہیں اور اس وجود کو ثابت کرنے کیلئے بے گناہ اہل تشیع نوجوانوں پہ ایسے مقدمات کیوں قائم کررہی ہے کہ جو پولیس اور اہل تشیع کمیونٹی کے درمیان نفرت کی دیوار ثابت ہوں۔ کوئی بھی اہل تشیع نوجوان اس پولیس ناکے پہ دستی بم سے حملہ کرے گا ہی کیوں جوکہ امام بارگاہ کے عین سامنے واقع ہو اور اس سے امام بارگاہ کی سکیورٹی میں مدد ملے۔ واضح رہے کہ یہ پولیس ناکہ امام بارگاہ کے اتنے قریب واقع ہے کہ کئی مقامی اخبارات نے اسے امام بارگاہ یلہ شاہ پہ دستی بم حملہ لکھا۔ یعنی پولیس دہشتگردی کا ایک ایسا واقعہ اہل تشیع کے سر تھوپنے کی کوشش میں ہے، کہ جو پولیس کے ساتھ ساتھ اہل تشیع کے بھی خلاف تھا۔ اس واقعہ کے فوری بعد اہل تشیع کے گھروں پہ چھاپے اور تشیع نوجوانوں کے خلاف پولیس کی کارروائی نے اس واقعہ کی صحت پہ بھی کئی سوالات ثبت کردیئے ہیں۔ ایک جانب تو یہی پولیس اتنی فعال کہ گھنٹوں میں اس نے یہ بھی کھوج لگا لیا کہ یہ کارروائی اہل تشیع نوجوانوں نے کی ہے۔ دوسری جانب یہی پولیس اتنی ناکارہ کہ حملے میں ایسے افراد کو نامزد کر رہی ہے کہ جن میں سے ایک بیرون ملک مقیم ہے اور دوسرا ان کی اپنی حراست میں۔ (کیا پولیس کی حراست میں قید شخص دستی بم حملے کرسکتا ہے۔؟)

اگر اس دستی بم حملے اور اس حملے میں بہار حسین کی نامزدگی کو ٹسٹ کیس مان کر یہی فارمولا اہل تشیع کی ہونے والی ٹارگٹ کلنگ پہ اپلائی کیا جائے تو ایسے چونکا دینے والے سوالات اٹھتے ہیں کہ جو جوڈیشل انکوائری کو ٹھوس جواز فراہم کرتے ہیں۔ پولیس نے اہل تشیع نوجوانوں کو ان کیسز میں ڈالا ہے کہ جن کی فریق خود پولیس تھی اور ایک بھی تشیع نوجوان کو پولیس کے علاوہ کسی اور فریق نے نامزد نہیں کیا۔ ’’حسینی ٹائیگرز‘‘ تنظیم کا وجود ہی نہیں رکھتی، پولیس اہل تشیع نوجوانوں پہ تشدد کے ذریعے اس تنظیم سے تعلق تسلیم کرانے پہ مصر ہے۔ قائمہ کمیٹی کو بریفنگ کے دوران جب اس ہوائی تنظیم کا نام آئی جی نے لیا تو سینیٹرز نے کیوں اس تنظیم کی قیادت، نیٹ ورک، مالی وسائل کے بارے میں کیوں سوال نہیں اٹھائے۔ یا پولیس نے آج تک اس تنظیم سے متعلق کتنا لٹریچر پکڑا۔ اس نام سے کتنے بینر، کتبے، پینافلیکسز یا شہر کی دیواروں پہ چاکنگ ہوئی۔ تو ان تمام سوالوں کے جواب صفر ہیں۔ ڈی آئی خان سے ہی تعلق رکھنے والے ایک معروف وکیل نے اس پہ کچھ یوں تبصرہ فرمایا ہے ’’تشیع کے خلاف پولیس کی حالیہ پھرتیاں آئندہ انتخابات سے متعلق محسوس ہوتی ہیں۔ ہوائی تنظیم حسینی ٹائیگرز ڈیرہ کے اہل تشیع کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہتھیار نہیں بلکہ وہ خام مال ہے کہ جس سے جب اور جو چاہیں وہ تیار کریں۔ مستقبل میں یہ اہل تشیع کے لئے انتہائی خطرناک ہوگا۔‘‘ ان کی باتوں سے مجھے یہ تو اندازہ ہوگیا کہ اس معاملے میں کوئی بڑی سیاسی شخصیت بھی دلچسپی رکھتی ہے، جو کم از کم موجودہ حکومت سے تشیع کمیونٹی کو متنفر کرکے ان کا ووٹ کہیں اور پول کرانا چاہتی ہے۔ شائد اسی کی ایماء پہ انتظامیہ کے ارادے بھی نیک نہیں۔ برسوں کی دہشتگردی اہل تشیع کے اندر خوف یا ڈر پیدا نہیں کر پائی تو اس کی وجہ ’’مظلوم ہیں پر بہادر ہیں‘‘ کا جذبہ تھا۔ اب دشمن نے چال بدلی ہے، اب اس نے مظلوم کو ظالم ثابت کرنے کی جانب پیشقدمی شروع کی ہے، جو کہ بدرجہ خطرناک ہے۔ اب دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کے ستائے قبیلے کو ہی ٹارگٹ کلر اور دہشت گرد ثابت کرنے پہ کمربستہ ہے۔ جس کا نتیجہ۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 727186
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش