0
Saturday 26 May 2018 17:48

میر عبدالقدوس بزنجو کا ماضی کے وزرائے اعلٰی سے موازنہ!

میر عبدالقدوس بزنجو کا ماضی کے وزرائے اعلٰی سے موازنہ!
رپورٹ: نوید حیدر

جب سابق وزیراعلٰی بلوچستان نواب ثناءاللہ خان زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد چلائی گئی اور میر عبدالقدوس بزنجو نئے وزیراعلٰی بلوچستان منتخب ہوئے تو گذشتہ انتخابات میں 544 ووٹ حاصل کرنا ان کے خلاف طعنہ بن گیا۔ شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت ہر مخالف شخص نے آستین چڑھا کر بولنا شروع کر دیا۔ میر عبدالقدوس بزنجو کن حالات کے تحت وزیراعلٰی بلوچستان بنے، ہم اس بحث میں نہیں پڑتے، بلکہ ہم کارکردگی کی بنیاد پر اس کا جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی کم عمری میں سابق وزرائے اعلٰی کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ انہوں نے چند مہینوں میں بلوچستان کے دیرینہ مسائل، وفاق کے منفی رویئے اور بلوچستان کے عوام کے حقیقی مسائل پر جس طرح بھرپور توجہ دی، وہ لائق تحسین ہے۔ انہوں نے لوگوں میں نہ صرف اپنی مقبولیت میں بےپناہ اضافہ کیا، بلکہ یہ کہا جائے کہ ان کی قدر و منزلت میں جس طرح اضافہ دیکھنے میں آیا، وہ ان کے پیشرؤں کو نصیب نہ ہو سکا۔ میر عبدالقدوس بزنجو نے عہدہ سنبھالتے ہی وزیراعلٰی سیکرٹریٹ میں کھلی کچہری لگانے کا جو سلسلہ شروع کیا، اس کے بڑے مثبت اثرات بلوچستان اور بالخصوص کوئٹہ کے معاشرے میں دیکھنے کو ملے۔ انہوں نے اب تک سینکڑوں لوگوں کی داد رسی کرکے نہ صرف ان کی مالی مشکلات کا خاتمہ کیا، بلکہ نوجوانوں کی بڑی تعداد کو مختلف آسامیوں پر ان کے ہونے والے ٹیسٹ اور انٹرویوز کی روشنی میں ملازمتیں دے کر غریب لوگوں کی دعائیں لیں۔

یہ سلسلہ سالوں بعد دیکھنے کو ملا، لوگوں نے محسوس کیا کہ نواب بگٹی اور سردار اختر مینگل کے بعد آج تک کسی وزیراعلٰی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ ان عوامی مسائل کے حل کے لئے کھلی کچہری لگاتے اور وزیراعلٰی سیکرٹریٹ کے گیٹ عام آدمی کے لئے کھلے رکھتے۔ اس کا کریڈیٹ یقیناً میر عبدالقدوس بزنجو اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے جنہوں نے چند مہینوں پر محیط وزارت اعلٰی میں نہ صرف غریب عوام کی دعائیں لیں، بلکہ اپنی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے شہر کے مختلف علاقوں کے مسلسل دورے کئے اور مسائل کا جائزہ بھی لیا۔ سول ہسپتال اور تھانوں کا اچانک دورہ کرکے عوام سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے احکامات دیکر ان پر عمل درآمد کروا کر اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کے مختلف بازاروں کے دورے کے دوران لوگوں نے انہیں اپنے بیچ پا کر ان کے حق میں "زندہ باد" کے نعرے بلند کرکے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ میر عبدالقدوس بزنجو نے ثابت کر دیا کہ وہ خود کوئی نواب اور سردار نہیں، بلکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور عوام کے مسائل سے آگاہ بھی ہیں۔ بلوچستان کے قبائلی سرداری نظام سے تعلق رکھنے والے سابق وزرائے اعلٰی کی کارکردگی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چاہے نواب ثناءاللہ زہری ہو، نواب اسلم رئیسانی یا جام محمد یوسف ہو، عام شہری ان سے ملاقات کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا، لیکن میر عبدالقدوس بزنجو نے صوبے کی سطح پر ان مسائل کے حل کے لئے انتہائی ایمانداری کا مظاہرہ کیا۔ جہاں تک ان کے 544 ووٹوں کا تعلق ہے، تو ان کے یہ ووٹ ان کے بطور ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی طعنے کا سبب نہیں بنے۔ اسی طرح نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومتیں بھی بلوچستان میں بیٹھ کر نہیں بنائی گئیں، بلکہ ان کے فیصلے جاتی امراء لاہور رائے ونڈ و مری میں ہوئے اور ڈھائی سال کے لئے وزارت اعلٰی کا منصب تقسیم کیا گیا۔

بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کی وفات کے بعد صوبہ بھر میں جس طرح آگ بھڑک اٹھی تھی، اس سے بلوچستان بھر کے عوام بخوبی آگاہ ہیں۔ نامساعد حالات کے تحت انتخابات کرا دیئے گئے۔ میر عبدالقدوس بزنجو کو ان انتخابات میں حصہ لینے کے لئے جو بھاری قیمت چکانا پڑی، وہ عوام کے علم میں ہے۔ ان کے حلقہ میں کوئی شخص ووٹ دینے کے لئے گھروں سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں تھا، کیونکہ ووٹ دینے کا مطلب ان کی موت تھی۔ فائرنگ اور دھماکوں سے ان کا حلقہ انتخاب محفوظ نہ تھا، اس کے باوجود انہوں نے اپنے ووٹر سے تعلق نہیں توڑا۔ دیگر وزرائے اعلٰی کی کارکردگی سے تقابلی جائزہ لیں، تو کم تجربہ رکھنے کے باوجود انہوں نے "جی حضوری" کی پالیسی کی بجائے وفاق کے سامنے بلوچستان کے ہر اہم ایشو کو نہ صرف بھرپور انداز میں اٹھایا، بلکہ انہوں نے کھلم کھلا وفاق کی زیادتیوں کو گنوایا۔ انہوں نے اپنے پیشرؤں کی طرح وفاق کی خوشامد اور ان کو ہر صورت خوش رکھ کر اپنی وزارت بچانے کی بجائے ڈنکے کی چوٹ پر اپنی بات کہہ ڈالی۔ انہوں نے نہ صرف بلوچستان بلکہ اسلام آباد میں بھی ہر فورم پر اس بات کا کھلم کھلا اظہار کیا کہ بلوچستان کے مسائل زیادہ ہیں۔ وفاق اعلانات کے باوجود فنڈز نہیں دے رہا، جس سے صوبے کے مسائل کے حل میں مشکلات درپیش ہیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی برملا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت سی پیک منصوبے میں بلوچستان کو یکسر نظر انداز کر رہی ہے۔ پانچ سو ارب روپے سے ایک ارب روپے بھی سی پیک منصوبے میں بلوچستان کے لئے خرچ نہیں کئے گئے۔

نواز شریف کے دائیں اور بائیں کھڑے ہونے والے بلوچستان کے سیاستدان سی پیک سے بلوچستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے کی نوید سناتے رہے، لیکن اصل حقیقت بیان کی نہیں۔ موجودہ وزیراعلٰی کے بقول وہ خوش قسمت ہیں کہ لوگوں نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر کم تعداد میں ووٹ کاسٹ کرکے انہیں کامیابی دلوائی۔ اچھی بات تو یہ تھی کہ جتنے ووٹ ملے، اتنے ہی گنے گئے۔ لوگوں نے خوف کی فضاء میں ووٹ دیئے۔ آواران میں خود میاں نواز شریف کی پارٹی کے امیدوار کو صرف ایک ووٹ کاسٹ ہوا۔ محمود خان اچکزئی خود کو جمہوریت کا علمبردار کہتے ہیں، سابقہ حکومتوں نے بلوچستان کی ترقی کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ اگر صوبے میں کوئی ترقی ہوئی تو یہ صرف اور صرف قلعہ عبداللہ اور تربت تک محدود رہی۔ گوادر کو سی پیک کا مرکز قرار دیا گیا ہے لیکن آج بھی وہاں کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ سی پیک اور موٹر وے کو سوراب تک محدود کر دیا گیا ہے۔ سی پیک کے فنڈز سے پنجاب کو ہزاروں ملازمتیں دے کر صنعتیں قائم کی گئیں۔ کوئٹہ کا دیگر صوبائی دارالحکومتوں کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات ہرگز غلط نہ ہوگی کہ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سابق حکومتوں نے کوئٹہ کے مسائل کے حل کیلئے صرف اور صرف بلند و بانگ دعوؤں کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اگر صوبائی دارالحکومت کی یہ حالت ہے تو دیگر ڈویژنل ہیڈ کوارٹروں کی کیا حالت ہو گی۔؟ سرکاری محکموں میں بدترین اقرباء پروری کی گئی، غریبوں کو ملازمتوں سے دور رکھا گیا، سرکاری اور قیمتی پلاٹوں کو لیز کے نام پر اہم شخصیات نے قبضہ کرکے راتوں رات تعمیرات کر دیں۔ تین مہینے کی صوبائی حکومت نے تو اپنی محدود مدت اور توانائی میں بلوچستان میں اچھی حکومت قائم کرنے کے نئے باب کا آغاز تو کردیا، لیکن آنے والی حکومتوں کو اسی روایت کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 727415
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش