0
Sunday 27 May 2018 15:12

نگراں وزیراعظم کی تقرری اور حکومتی ترجیحات

نگراں وزیراعظم کی تقرری اور حکومتی ترجیحات
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

نگراں وزیراعظم کی تقرری پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے، معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق نگراں وزیر اعظم کے معاملے پر پیدا شدہ ڈیڈ لاک کی وجہ سے اب پارلیمانی کمیٹی نگراں وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے سے فیصلہ کرے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمانی کمیٹی بھی تقرری میں ناکام ہوئی اور اکثریتی رائے سامنے نہ آئی تو معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق امکان ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے بھی شاہ محمود قریشی کا نام جب کہ ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے فاروق ستار کا نام بھجوایا جائے۔ دوسری طرف اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی میں اپوزیشن کے چار نام بھجوانے کا اختیار ان کے پاس ہے، ان کا کہنا تھا کہ میں بہ طور سیاست دان دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلا۔ خورشید نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی پر بھی دیگر اپوزیشن جماعتوں کوساتھ لے کر چلوں گا، پارلیمانی کمیٹی میں تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کا ایک ایک نمائندہ ہو گا۔ پیرکو اسلام آباد آ کر پارلیمانی کمیٹی کے لیے نام بھجوائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی سے نوید قمر اور شیری رحمان کے نام بھجوائے جائیں گے، اپوزیشن لیڈر کو اختیار ہے کہ صرف اپنے نام بھیجے یا دوسروں کو شامل کرے۔ میں سب کو ساتھ لے کر چلا، اس موقع پر بھی ساتھ لے کر چلوں گا۔ خیال رہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا کہنا تھا کہ نگراں وزیر اعظم کے لیے درخواست کے بعد ہی کمیٹی تشکیل دی جائے گی تاہم اب تک وزیر اعظم یا اپوزیشن لیڈر نے کمیٹی کے لیے درخواست نہیں دی۔

نگران وزیراعظم پر ڈیڈ لاک کا برقرار ہونا اس امر کا آئینہ دار ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں بے نتیجہ اور بے سود ثابت ہوئیں جس کی وجہ سے نگران وزیراعظم کے نام کا انتخاب نہ کیا جاسکا۔ حالانکہ نگران وزیراعظم کا نام ایک ماہ قبل آجانا چاہیے تھا، یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کو راضی کرنے کیلئے مزید وقت مانگا ہے۔ نواز شریف کسی سابق جج یا بیوروکریٹ کے نام پر اتفاق نہیں چاہتے اور وزیراعظم نے تیسری بار نواز شریف کو راضی کرنے کیلئے وقت مانگا ہے۔ حکومت کی 5سالہ مدت 31مئی کو ختم ہو جائے گی اس سے قبل نگران وزیر اعظم کا اعلان ہونا ہے۔ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ابھی بچہ پیدا نہیں ہوا زیادہ پریشان نہ ہوں۔ وزیراعظم سے ملاقات میں نگراں وزیراعظم کے لیے ناموں پر بحث ہوئی، ہماری کوشش ہے کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کے ذریعے ہی حل ہو۔ نگران وزیر اعظم کا نام اگر مجوزہ آئنی مدت کے اندر فائنل نہ ہو سکا تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جائے گا۔ پارلیمانی کمیٹی میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر 2، 2نام بھیجیں گے۔ پارلیمانی کمیٹی دیئے گئے 4ناموں میں سے نگران وزیراعظم طے کرے گی۔ پارلیمانی کمیٹی بھی طے نہ کر سکی تو فیصلے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے نگران وزیر اعظم کیلئے تجویز کیے گئے نام سامنے آئے، پیپلزپارٹی نے نگران وزیر اعظم کیلئے سابق چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف اور سابق سیکرٹری خارجہ و امریکہ میں سابق سفیر جلیل عباس جیلانی کے نام تجویز کیے، پیپلز پارٹی نے تیسرا نام سلیم عباس جیلانی کا تجویز کیا ہے۔ادھرمسلم لیگ نے بھی تین نام تجویز کیے جن میں سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی، سابق چیف جسٹس ناصرالملک اور سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کے نام شامل ہیں، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی طرف سے جو نام پیش کئے گئے ہیں اس میں جسٹس (ر)تصدق جیلانی اور عشرت حسین کے نام مشترکہ ہیں۔ تحریک انصاف نے ڈاکٹر عشرت حسین، تصدق جیلانی اور عبدالرزاق داد کے نام دیئے تھے۔ جماعت اسلامی نے ڈاکٹر عبدالقدیر کا نام تجویز کیا تھا۔ نگران وزیراعظم پر ڈیڈ لاک ختم ہونا چاہیے، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر باہمی گفت و شنید سے کسی ایک نام پر اتفاق کرلیں ورنہ یہ معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی محاذ آرائی ہر پاکستانی کیلئے تشویش و اضطراب کا باعث بنی ہوئی ہے ،خدشہ ہے کہ اس طرح اپنے قدموں پر کھڑی ہوتی جمہوریت کوناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ حکومت کی آئینی مدت بڑی تیزی کے ساتھ ختم ہوتی جا رہی ہے اور محض آٹھ دن باقی ہیں مگر تاحال حکومت اور اپوزیشن متفقہ نگران وزیراعظم سامنے نہیں لا سکی ہے۔ اپوزیشن لیڈر پر امید ہیں کہ آج یا کل نام سامنے آ جائے گا مگر دوسری طرف سپیکر قومی اسمبلی خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ معاملہ الیکشن کمیشن تک جا سکتا ہے۔ اگرچہ نگران وزیراعظم کے انتخاب کا معاملہ الیکشن کمیشن تک جانا غیر آئینی نہیں ہے، تاہم اپوزیشن اور حکومت کے مابین گزشتہ ایک ماہ کی کئی ملاقاتوں کا بے نتیجہ رہنا مناسب نہیں ہو گا۔ اس معاملے پر تاخیر کو اکثر ماہرین کی جانب سے غیر مناسب قرار دیا جارہا ہے۔ ادھر عدالتی معاملات پر میاں نوازشریف کی الزام تراشی کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے اور وہ اپنے خلاف بننے والے کیس کا ذمہ دار جے آئی ٹی کو قرار دیتے ہیں خصوصاً جے آئی ٹی کے عسکری ممبران کو زیادہ مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔پیر کے روز جب وہ نیب عدالت کے بھیجے گئے سوال نامے کا جواب جمع کرانے عدالت کے روبروز حاضر ہوئے تو اس موقع پر اپنے حق میں ٹھوس دستیاویزی ثبوت پیش کرنے کی بجائے وہی پرانے الزامات دوہراتے رہے۔حالانکہ یہ ان کیلئے آخری اور بہترین موقع ہے۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے شریف خاندان کیخلاف خود ساختہ ثبوت بنانے کے لیے اپنے قریبی رشتے دار کا تقرر کیا۔

جبکہ انہوں یہ بھی کہا کہ جے آئی ٹی کے ایک اور رکن بلال رسول بھی لاہور کے سابق میئر کے قریبی رشتے دار تھے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز بھی حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کی تحقیقات کا حصہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی میں انٹر سروس انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس کو شامل کرنا نامناسب تھا اور اسکا جے آئی ٹی کی کارروائی پر اثر پڑا جبکہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ سول ملٹری تعلقات میں تنا سے دوچار رہی ہے۔دوسری طرف وہ عدالت سے باہر اسی روا روی میں عدالتی فیصلوں تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔جواباً تحریک انصاف اور پی پی پی کے رہنما بھی نوازشریف اور ان کی جماعت کو بے نقط سنا رہے ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے ہمارے معاشرے سے برداشت، صبر اور تحمل جسے اوصاف عنقا ہی نہیں ہو رہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ تمام سماجی اقدار کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔سیاسی لیڈروں میں پیدا ہونے والی سماجی بیماریاں بتدریج عوام میں منتقل ہوتی جا رہی ہیں جس سے پورے سماج کا رویہ زوال کا شکار ہے ۔ملکی تاریخ کے 70سالہ تمام سیاسی معاملات پر سرسری نظر دوڑائیں تو سب طشت ازبام ہوجاتا ہے۔شائستگی، متانت دلیل اور تدبر کی جگہ دشنام طرازی نے لے چکی ہے۔

حزب اقتدار ہو کہ حزب اختلاف ہر دو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اتنی اخلاقی تنزلی پر اتر آئیں ہیں کہ صنف نازک کو بھی نہیں بخشا جا رہا۔ شاید ہی کوئی دن جاتا ہو کہ جس میں ایک دوسرے پر سطحی حملے نہ ہوتے ہوں،در ایں حالات خدشہ ہے کہ یہ سلسلہ نہ رکا تو خدانخواستہ اس میں تشدد در آئے گا جبکہ ایک دو ماہ قبل اکا دکا ایسے واقعات دیکھنے کو بھی ملے جب سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی تو سابق وزیراعظم نواز شریف کو تاک کر جوتا مارا گیا جبکہ حال ہی میں وزیر داخلہ احسن اقبال پر اپنے ہی حلقے میں ایک نوجوان کے ہاتھوں قاتلانہ حملہ ہوا۔اس کی بنیادی وجہ سیاستدانوں کی ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیز تقاریر ہیں۔جب یہ چلن عام ہو جائے تو پھر حالات کو قابو میں رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔آج جب ایک طرف خوش کن امر یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں ایک اور اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرنے جا رہی تو دوسری طرف جمہوری رویوں کے حالات پہلے سے زیادہ ابتر ہیں۔سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ایک دوسرے کی عزتیں اچھالنے اور ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے کو کسی صورت خوش آئند نہیں کہا جا سکتا ہے۔انتخابات کی آمد آمد ہے ایسے میں سیاسی قائدین کو لفظ سیاست کو عزت دیتے ہوئے شائستگی، تحمل، برداشت، رواداری کا دامن تھامے رکھنے کی کوشش کرنا ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 727649
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش