0
Monday 28 May 2018 17:53

پراکسی وار میں شکست کے بعد شام میں سعودی عرب کی نئی مہم جوئی

پراکسی وار میں شکست کے بعد شام میں سعودی عرب کی نئی مہم جوئی
تحریر: علی احمدی

گذشتہ سات سالوں کے دوران سعودی حکام شام میں صدر بشار اسد کی قانونی حکومت کے خاتمے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کر چکے ہیں لیکن اسلامی مزاحمتی محاذ کی جانب سے استقامت کا مظاہرہ کرنے اور روس کی فوجی حمایت کے باعث انہیں شدید ناکامی سے روبرو ہونا پڑا ہے، جس کے منفی اثرات اگلے کئی سالوں تک سعودی شہزادوں کو برداشت کرنا پڑیں گے۔ سعودی عرب نے شام میں جنم لینے والے سکیورٹی بحران کے دوران امریکہ کے حمایت یافتہ تکفیری دہشتگرد گروہوں کے بڑے مالی حامی کا کردار ادا کیا ہے۔ اس پراکسی وار میں سعودی عرب مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور چند ماہ پہلے دمشق کے نواحی علاقے مشرقی غوطہ سے تکفیری دہشتگرد گروہ جیش الاسلام کے 12 ہزار دہشتگردوں کا انخلاء اس کے حامیوں کیلئے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔
 
یاد رہے تکفیری دہشتگرد گروہ جیش الاسلام دمشق کے نواحی علاقے مشرقی غوطہ میں صدر بشار اسد کی حکومت پر دباو ڈالنے کیلئے سعودی حکام کے ہاتھ میں ایک اہم مہرہ تصور کیا جاتا تھا۔ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود سعودی حکومت اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ دارالحکومت دمشق کے نواح سے تکفیری دہشت گرد عناصر کے انخلاء کے بعد شام میں سعودی شہزادوں کے ہاتھ خالی ہو گئے اور اب وہ نئی مہم جوئی کی تلاش میں ہیں تاکہ خطے میں اپنا اثرورسوخ باقی رکھ سکیں۔ ایران کے اخبار ڈیلی مشرق نے ایک باخبر ذریعے کے بقول فاش کیا ہے کہ سعودی حکام نے شام سے متعلق امریکہ سے خفیہ مذاکرات شروع کر رکھے ہیں۔ سعودی عرب نے شام میں امریکہ کے فوجی اخراجات برداشت کرنیکا وعدہ کرنے کے علاوہ اپنی سربراہی میں تشکیل پانے والے عرب اتحاد کی جانب سے بڑے پیمانے پر فوجی بھی شام بھیجنے کا عندیہ دیا ہے۔
 
ڈیلی مشرق کی اس رپورٹ کے مطابق سعودی عرب یمن کے خلاف جنگ میں سرگرم اپنے اتحاد کے فوجیوں کا ایک حصہ شام کے شمالی حصے میں بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے بھی شام میں موجود اپنے کچھ فوجی اڈے سعودی عرب کے حوالے کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ باخبر ذریعے کے مطابق سعودی حکمران شام کے شمالی حصے میں ترکی کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو اپنے لئے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں لہٰذا انہوں نے شام میں موجود امریکی اڈے حاصل کرنے کیلئے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ اسی طرح موصولہ رپورٹس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب نے ترکی کا مقابلہ کرنے کیلئے شام کے شمال میں سرگرم کرد گروہوں کی مدد کرنیکا فیصلہ کر لیا ہے۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق سعودی عرب ابتک شام کے شمال میں سرگرم کرد گروہوں کو بڑی مقدار میں اسلحہ اور پیسہ فراہم کر چکا ہے۔ ان کرد گروہوں کے انقرہ کے مقابلے میں صف آرائی کرنے کا مشن سونپا گیا ہے۔ سعودی عرب کرد جنگجووں کا اعتماد حاصل کرنے کے درپے ہے تاکہ اس طرح شام میں اپنا اثرورسوخ بڑھا کر ماضی کی ناکامیوں کا ازالہ کر سکے۔

شام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حمص، حماہ اور دمشق کی سنی آبادی اب مزید خطے کی عرب حکومتوں پر اعتماد نہیں کرتی لہٰذا سعودی حکام بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب انہیں کرد باشندوں پر کام کرنا چاہیئے۔ اگرچہ گذشتہ چند ماہ کے دوران سعودی عرب نے شام میں اپنے فوجی بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے لیکن ایسا ہونا بہت مشکل ہے کیونکہ ترکی اس کا سب سے بڑا مخالف ہے۔ شاید سعودی عرب امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کے بعد اپنے فوجی شام بھیجنے میں کامیاب ہو بھی جائے لیکن یمن کے خلاف جنگ کا تجربہ ثابت کر چکا ہے کہ شام بھی سعودی عرب کیلئے ایک اور دلدل ثابت ہو گی۔ شام کے مختلف حصوں میں تکفیری دہشتگرد گروہوں کی مسلسل ناکامی نے مغربی اور عرب حکومتوں کو پریشان کر ڈالا ہے اور اب وہ شام میں براہ راست فوجی مداخلت کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ سیاسی ماہرین کی نظر میں اگر ان منصوبوں پر عمل درآمد شروع ہو جاتا ہے تو شام کی صورتحال انتہائی پیچیدہ ہو جائے گی۔
 
خبر کا کوڈ : 727952
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش