0
Wednesday 13 Jun 2018 05:56

عام انتخابات اور مختلف فیکٹر!

عام انتخابات اور مختلف فیکٹر!
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ بہت قریب آگئی ہے اور سیاسی اکھاڑے کے میدان اپنے جوبن دکھا رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست ایک اکھاڑہ ہے، جس میں مختلف پارٹیوں کے پہلوان مقابلے کیلئے خود کو پیش کرتے ہیں، مگر اس اکھاڑے میں پہلوان کو ذرا ہٹ کے زور لگانا پڑتا ہے۔ اب سب سے زیادہ زور پیسے کا لگتا ہے، ایک وقت تھا کہ نظریات، پارٹی منشور، امیدوار کے کردار، اہلیت اور امیدوار کا لوگوں سے میل ملاپ، اٹھنا بیٹھنا، درد بانٹنا، ان کے مسائل کا حل اور مشکل حالات میں ساتھ دینا دیکھا جاتا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے الیکشنز میں ایک ایک امیدوار کئی کئی کروڑ نہیں لگاتا تھا، اس کو پارٹی منشور اور مستقبل کے پروگرام کیساتھ کارکردگی کو دیکھ کے چنا جاتا تھا، اب تو صورتحال یہ ہے کہ اس سسٹم اور ماحول میں کسی عام سی پارٹی یا درمیانے درجے کے امیدوار کیلئے دور دور تک جیتنے کے چانس تو کجا اپنے پوائنٹ آف ویو کو حلقے کے ووٹرز تک پہنچانا ممکن نہیں رہا۔ ایک عام امیداوار کے پاس نہ تو لینڈ کروزر اور وی ایٹ گاڑیوں کی جھنکار ہوتی ہے اور نہ ہی میڈیائی ذرائع سے اپنا منشور اور پروگرام نشر کرنے کے وسائل دستیاب ہوتے ہیں، لہذا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ الیکشنز صرف اور صرف ان لوگوں کیلئے ہی ہیں، جو کروڑ پتی ہیں اور اپنی دولت کو اس کھیل میں لگانے کی حکمت سے آشنا ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حسب ضابطہ یہ شرط لگا رکھی ہے کہ ایک قومی اسمبلی کا امیدوار صرف پندرہ لاکھ روپے خرچ کرسکتا ہے، عملی طور پہ اتنی رقم سے تو گاڑیوں کا پٹرول بھی پورا نہیں ہوتا، الیکشن کمپین تو بہت دور کی بات ہے۔ ماضی میں الیکشنز کے دنوں میں امیدوار کی طرف سے ووٹر میں آٹے کے ٹرک اور سلائی مشینیں حتیٰ موٹر سائیکلز تقسیم کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہی ہیں، جبکہ بہت سے غریب ووٹرز کا گزارہ جلسوں اور کارنر میٹنگز میں تقسیم ہونے والے کھانے پہ ہی ہوتا ہے۔ اخراجات کی بہتات کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سی رجسٹرڈ پارٹیاں اپنے امیدواران کیلئے کوئی کمپین نہیں شروع کرسکیں، شائد ان کے پاس وسائل دستیاب نہیں، جبکہ خاندانی رئیس اور حکومت میں رہ کر مزے لوٹنے والے بہت پہلے سے اپنی کمپین چلا رہے ہیں، یہ لوگ علاقے کے فوت ہونے والوں کے ہاں فاتحہ خوانی کیلئے بھی ریگولر جا رہے ہیں اور دکھ سکھ کی خبریں رکھ کر اپنی موجودگی کو یقینی بنا رہے ہیں۔

ہمارے کئی دیگر مسلم ممالک میں بھی پیسے کا فیکٹر بہت زیادہ شدت کیساتھ سامنے آیا، عراق و لبنان کے حالیہ الیکشنز میں بعض غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ہمارے ہاں بھی ماضی میں آئی جے آئی کی تشکیل اور بے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کیلئے غیر ملکی پیسے کا استعمال زبان زد عام ہے، اب بھی ایسا دکھ رہا ہے کہ ہمارے پیارے سعودی عرب کی بعض مذہبی و حکومتی شخصیات پیسہ بہانے کیلئے بے چین و بے قرار ہیں، تاکہ اپنے فیورٹ گھوڑوں کو جتوا سکیں، دیکھیں یہ کتنا موثر ثابت ہوتے ہیں، الیکشن میں پیسے کے ساتھ جو دوسری چیز الیکشن کو متاثر کرتی ہے، وہ پارٹی ٹکٹ بھی ہے، الیکشن سے پہلے ہی ایک ہوا بہرحال بنا دی جاتی ہے کہ اس بار فلاں پارٹی آرہی ہے، جیسے اب کی بار پاکستان تحریک انصاف کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے اور پی ٹی آئی کا ٹکٹ جیت اور کامیابی کی ضمانت سمجھا جا رہا ہے، اس لیئے بڑی بڑی پارٹیوں کے نامی گرامی قائدین پی ٹی آئی کو اپنا قبلہ قرار دے چکے ہیں۔

جتنے منہ اتنی باتیں، عوام میں یہ بات بہت حد تک تسلیم شدہ سمجھی جا رہی ہے کہ اب کی بار عمران خان کو وزیراعظم بنانے کی راہ میں تمام رکاوٹیں دور کی جا چکی ہیں، کیا یہ حقیقت ہے، ایسا ہی ہونے جا رہا ہے، یا اب کی بار بھی اقتدار کا ہما عمران کان کے سر پہ بیٹھتے بیٹھتے کسی اور کے سر پہ جا بیٹھے گا؟ اس کا امکان سو فی صد رد نہیں کیا جا سکتا، اس لئے کہ اگرچہ مسلم لیگ نون کی قیادت بہت بحرانوں میں گھری ہے، مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا اپنا ایک ووٹ بنک ہے، جو کسی بھی صورت میں اپنی پارٹی کیساتھ وفادار ہے، اسے عمران خان سے شدید نفرت ہے اور وہ مسلم لیگ نون کے پکے ووٹرز کہے جا سکتے ہیں، ان کی تعداد کتنے فیصد ہے، اس کا پتہ تو الیکشن والے دن ہی لگے گا، مگر بعض ضمنی الیکشنز میں انہی ووٹرز نے پی ٹی آئی کو دھول چٹائی ہے۔ ہاں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت مسلم لیگ کی حکومت تھی اور حکومتی وسائل کیساتھ مسلم لیگ سے بڑھ کے الیکشن لڑنے اور جیتنے کا تجربہ شائد ہی کسی دوسری پارٹی کو حاصل ہو۔
 
ایک اور فیکٹر جو پاکستانی الیکشن میں ہمیشہ اثر انداز ہوتا آیا ہے، وہ غیر مرئی ہاتھ ہے، جو بہ ظاہر نظر نہیں آتا مگر اس کا تذکرہ الیکشن سے پہلے اور اس کے بعد ہر سیاست دان چاہے وہ جیتا ہو یا ہارا ہو ضرور کرتا ہے۔ 2013ء کے الیکشنز کو صدر زرداری نے آر اوز کے الیکشن کہا تھا، عمران خان نے بھی شروع دن سے دھاندلی کا رونا رویا، خود حکومت بنانے والی مسلم لیگ کا بھی یہی کہنا تھا کہ دھاندلی ہوئی ہے، مگر ہمیں آگے دیکھنا ہے، بائیکاٹ کی سیاست نہیں کرنی، اب کی بار تو الیکشن سے پہلے دھاندلی کا رونا رویا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ نون کی قیادت کی نااہلی اور کئی قائدین پر نااہلی کی لٹکتی تلوار سے الیکشن میں دھاندلی کا نیا پلان سمجھا جا رہا ہے، مگر اس کے باوجود مسلم لیگ نون نے میدان خالی نہیں چھوڑا۔ بعض اندرونی خبری ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ میاں نواز شروف کی فیملی سمیت بہت سے امیدوار الیکشن سے پہلے ہی نااہل ہوسکتے ہیں، جبکہ اس بار نون لیگ کو الیکشن کمپین کرنے میں بھی اسی طرح دشواری کا سامنا رہیگا، جیسا گذشتہ الیکشنز میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان عوامی پارٹی کو رہا تھا کہ ان جماعتوں کے قائدین کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اور ان پر خودکش حملے کیئے جا رہے تھے، یہ پارٹیاں اپنے امیدواروں کے ساتھ اپنے آبائی حلقوں میں بھی صحیح طرح کمپین نہیں کرسکی تھیں۔

اب کی بار ہم دیکھ چکے ہیں کہ ختم نبوت کے مسئلہ پر نون لیگ کے کئی قائدین عوامی غیض و غضب کا نشانہ بن چکے ہیں، ایسے میں بعض متشدد گروہوں کی طرف سے ان کیلئے شدید خطرات موجود ہیں، ان کا عوام میں جانا یقیناً خطرات سے خالی نہیں ہوگا، ویسے بھی ان لوگوں کیلئے نیب اور سپریم کورٹ و ہائیکورٹ میں اتنے مقدمات چل رہے ہیں کہ انہیں کسی کمیپین کا موقعہ نھی نہیں ملے گا۔ پاکستان کے الیکشنز میں مذہب کا فیکٹر بھی بے حد اہمیت کا حامل رہا ہے، مذہب اور فرقہ کی سیاست اور اس کیساتھ ساتھ برادری ازم اور علاقہ پرستی نیز زبان کا پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں دینی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ انتخابات میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے، ماضی میں ایک صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت بھی رہی ہے، جس نے ملک میں شدت پسندی کو بڑھاوا دینے میں بنیادی کردار ادا کیا، جن کے جانے کے بعد طالبانائزیشن اور خودکش دھماکوں کا چلن بہت عام ہوا، اب بھی الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کے نام سے دینی سیاسی جماعتوں کا ایک یہی اتحاد سامنے موجود ہے، جس نے ملک کے بہت سے حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔

اگرچہ اس دینی جماعتوں کے اتحاد کے اصل کھلاڑی جماعت اسلامی اور جے یو آئی ایف ہیں، مگر دیگر جماعتیں بھی خال خال اس میں اپنے بعض امیدواروں کے ساتھ موجود ہیں، جبکہ ان پانچ جماعتوں کے علاوہ بھی بہت سی دینی جماعتیں اپنا وجود رکھتی ہیں اور الیکشن میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے عوام جس مولانا کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں، اس کا وعظ سنتے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں، اس کو ووٹ کی پرچی کا حقدار نہیں سمجھتے، یہ بات باعث حیرت بھی ہے اور قابل غور بھی۔ ہمارے دینی اسکالرز کو اس کے اسباب جاننے چاہیئے اور انہیں دور کرکے میدان میں اترنا چاہیئے۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ الیکشنز میں خاندان برادریاں اور زبان و علاقہ بھی اثر انداز ہوتے ہیں، دراصل مختلف امیدوار ان ایشوز پر کام کرتے ہیں، جو جس کے حق میں جا رہا ہوتا ہے، اس ایشو کو سامنے لاتا ہے اور اپنے مدمقابل کیلئے پریشانیاں کھڑی کرکے ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

جھوٹا پروپیگنڈہ بھی ہر الیکشن میں سامنے آتا ہے، کسی کو کوئی الزام دیا جاتا ہے تو کسی کو کوئی، تاکہ ووٹرز پروپیگنڈے کی زد میں آکر اپنی رائے تبدیل کریں، بعض اوقات پروپیگنڈہ الٹا بھی پڑ جاتا ہے، رائے عامہ غلیظ پروپیگنڈہ کرنے والوں کے ہی خلاف ہو جاتے ہیں، البتہ ایسے پروپیگنڈہ کے ماہر ماضی میں نون لیگ والے رہے ہیں، جو نصرت بھٹو اور بے نظیر کے خلاف نازیبا پروپیگنڈہ سامنے لاتے تھے۔ موجودہ الیکشن میں بھی ایک طرف پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ورکرز نے انتھا کی ہوئی ہے تو دوسری طرف نون لیگ نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، عمران خان کی سابقہ اہلیہ کی کتاب کا اس موقعہ پر سامنے آنا پروپیگنڈہ کا حصہ محسوس کیا جا رہا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ ریحام خان اس کتاب کے بعد بہت سے حلقوں میں اپنی شخصیت اور کردار سے ہاتھ دھوتی نظر آئی ہیں۔
 
نتیجتاً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کا سیاسی نظام، سیاست اور الیکشن کا انعقاد سب ایک حیرت کدہ ہیں، جو ہر دن نئی صورتحال، نئے الزامات، نئے عجائبات اور نئے فتنوں کے ساتھ جنم پاتے ہیں، جب تک الیکشن ہو نہیں جاتے، یہ ہنگامہ آرائی جاری رہیگی، ہم اس سے لطف اندوز ہوں یا کف افسوس ملیں، اس کی سمجھ نہیں آرہی۔ یہ ضرور پیغام دونگا کہ کم از کم ووٹ کی پرچی دیتے ہوئے اپنے ایریاز کے شہداء کو ضرور یاد رکھیئے گا، کہ آپ کے درد کو کون بٹانے آیا تھا، کون آپ کے زخموں پہ مرحم رکھنے آیا تھا، کس نے آپ کے آنسوئوں کی جھنکار کو اپنے پلو سے پونچھنے کی کوشش کی تھی، اپنے اسیران اور جبری گمشدگان کو بھی یاد رکھئے گا کہ ان کے حق میں کون نکلا تھا، کس نے ان کیلئے پریس کانفرنس کی تھی، کون ہونٹ سیئے رہا، کس نے اسیران کے گھروں میں ان کے چولہے کو جلتے رہنے اور بے سہارا بچوں کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کرنے کی ادنٰی سی کوشش کی، کس نے مکتب کی خاطر سیاست اور مستقبل کو دائو پر لگا دیا اور مصلحت کوشی کو اوڑھنا نہیں بنایا، بلکہ اپنے موقف اور کاز کیلئے ڈٹ گیا۔۔۔ شائد ہم اس موقعہ پر اس طرح اپنی ملت اور مملکت کا کچھ حق ادا کرسکیں۔
خبر کا کوڈ : 731373
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش