0
Wednesday 13 Jun 2018 20:05

امام سجاد (ع) اور وداع ماہ مبارک رمضان

امام سجاد (ع) اور وداع ماہ مبارک رمضان
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

 ہم سب آہستہ آہستہ ماہ مبارک رمضان کے اختتام کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں اور ماہ مبارک کے اس تیسرے عشرہ میں ہم ماہ مبارک کے وداع کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ ہمارے پاس مشکل ۴۸ گھنٹے  بچے ہیں ماہ مبارک رمضان کو رخصت کرنے کے لئے، وہ ماہ مبارک ہم سے جدا ہوا چاہتا ہے جس میں اللہ نے اپنے سفرہ رحمت پر ہمیں بلایا تھا، ہم اس مہینہ کو وداع کر رہے ہیں جس نے ہمارے گناہوں کو جلا کر اس طرح ختم کر دیا ہے کہ اب بار گناہ ہمارے دوش پر نہیں اور اسی لئے ہمیں عید کی آمادگی کرنا ہے تاکہ  بندگی کا انعام حاصل کر سکیں۔ ہم اس مہینہ کو وداع کر رہے ہیں جسے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے "شہرالاسلام" یعنی اسلام کا مہینہ قرار دیا ہے اور شہر طہارت قرار دیا۔ (1) امام سجاد علیہ السلام اس مہینہ کو وداع کرتے ہوئے آگے فرماتے ہیں، اس مہینہ نے ہمارے درمیان قابل ستائش دن گزارے اور ہمارے ساتھ حق رفاقت ادا کیا، ہمیں عالمین کے بہترین فوائد سے نوازا اور جب اسکا وقت تمام ہو گیا اور اس کی مدت ختم ہوگئی اور اس کا عدد پورا ہو گیا تو ہم سے رخصت ہونے لگا تو اب ہم اسے اس طرح رخصت کررہے ہیں جس طرح اسے رخصت کیا جاتا ہے کہ ہم پر اس کا فراق سخت ہے اور اس کی جدائی غم میں مبتلا کر دینے والی وحشت آفریں ہے اور جو محفوظ حقوق، قابل لحاظ حرمت اور قابل ادا حق کو لازم قرار دیدے، تو اب ہم یہ آواز دے رہے ہیں کہ اے اللہ کے بزرگ ترین مہینے اور اے اولیائے خدا کے لئے زمانہ عید تجھ پر ہمارا سلام۔

سلام ہو تجھ پر اے اوقات میں سے بہترین ساتھی اور ایام و ساعات میں سے بہترین مہینے۔ سلام ہو تجھ پر اے وہ ماہ مبارک جس میں آرزوئیں قریب تر ہوگئیں اور اعمال کے صحیفہ منتشر ہو گئے۔ سلام ہو تجھ پر اے وہ ہمنشین جو رہا تو اس کی منزلت عظیم رہی اور چلا گیا تو اس کے فراق نے رنجیدہ بنا دیا اور اس کا وجود ایسا پر امید تھا جس کی جدائی دردناک ثابت ہوئی۔ سلام ہو تجھ پر اے وہ محبوب جو آیا تو سامان انس لے کر آیا اور خوش کرگیا اور گیا تو وحشت زدہ اور رنجیدہ بنا کر گیا۔ سلام ہو تجھ پر اے وہ ہمسایہ جس کے زیر سایہ دل نرم ہوگئے اور گناہ کم ہوگئے۔ خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور اس چاند کے تمام ہوتے ہوتے ہمارے گناہوں کو بھی محو کر دے اور اس کے ایام کے گذرتے گذرتے ہمیں تمام صعوبتوں سے باہر نکال لے تاکہ یہ مہینہ اس عالم میں تمام ہو کہ تو ہمیں خطائوں سے اور گناہوں سے آزاد کر چکا ہو۔
 
امام سجاد علیہ السلام کے وداع ماہ مبارک رمضان کے سلسلہ سے چند نکات قابل غور ہیں:
1۔ امام علیہ السلام  جس انداز سے اس مہینہ کو وداع کر رہے ہیں اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ  اس مہینہ کو اس طرح وداع کرنا چاہیئے جیسے ایک حبیب اپنے محبوب کو وداع کرتا ہے، اس طرح وداع کرنا چاہیئے جیسے کوئی ایسی چیز ہاتھ سے نکل رہی ہو جو انسیت و دل کے سکون کا سبب ہو اس لئے کہ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے اور جب اس کی رخصت کی باری آتی ہے تو ہر ایک کے وداع کرنے کا انداز  الگ الگ ہوتا ہے کوئی بہت زیادہ غمگین ہو کر گریہ کرتا ہے تو کوئی آنکھوں میں آئے آنسووں کو روکنے کی ناکام کوشش، تو کوئی سپاٹ کھڑا رہتا ہے یہ  طرز عمل کا اختلاف مہمان سے اس کے تعلق کو بیان کرتا ہے، جسکا تعلق جتنا  گہرا ہوتا ہے اس کی جدائی بھی اتنی ہی شاق گزرتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہر ایک وداع کے لئے باہر بھی نہیں نکلتا وداع کے لئے وہی آتا جس کو مہمان سے محبت و رغبت ہوتی ہے  اور شاید یہی وجہ ہے کہ علماء بیان کرتے ہیں، وداع تو اسی شخص کے لئے ہے جو ماہ مبارک رمضان سے مانوس رہا ہو اور یہ مہینہ اس کا دوست رہا ہو ورنہ جو شخص اس مہینہ کے ساتھ نہیں تھا اس کا اس مہینہ سے وداع اور حداحافظی کا کوئی معنی نہیں ہے، آدمی اپنے دوست سے یا جس سے کچھ عرصہ مانوس رہا ہو اس سے خداحافظی کرتا ہے، لیکن جسے بالکل یہ معلوم ہی نہیں کہ ماہ مبارک رمضان کب آیا اور کب گزر گیا، کیوں آیا اور کیوں گزر گیا، اس کا ماہ رمضان کو وداع کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔

2۔ اس دعا میں بارہا اس مہینہ کو سلام کرنا اس مہینہ کی معنوی حیات کی دلیل ہے، شاید یہی وجہ ہے حضرت امام سیدالساجدین ماہ رمضان کو کئی بار سلام یعنی خداحافظ اور الوداع کہتے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر ماہ رمضان میں کوئی باطن، و راز نہ ہوتا تو زین العابدین (ع) جیسی شخصیت اسے سلام نہ کرتی۔
3۔ اس مہینہ کو شھر الاسلام و ماہ  طہور اور اس کی خدا سے نسبت کے ذریعہ امام علیہ السلام نے اسکی اہمیت کو واضح کرنا چاہا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی عظمت کو اس مہینہ کی آمد سے پہلے بیان کیا تھا۔(2) "
4۔ اس مہینہ کو امام علیہ السلام نے خدا  کا سب سے بڑا مہینہ قرار دیتے ہوئے اسے اولیاء خدا کی عید قرار دیا ہے۔(3) اب یہاں پر دو باتیں قابل غور ہیں ایک تو یہ کہ ہم اس مہینہ کو الوداع کہہ رہے ہیں جو خدا کے نزدیک سب سے بڑا مہینہ ہے اور ایسا مہینہ ہے جس کے لئے کہا گیا ہے کہ اسکا نام یوں ہی مت لو بلکہ اس کی عظمت کے پیش نظر اس کے نام کے ساتھ کچھ جوڑ دو (4)۔ وہ مہینہ کہ جسکی دیگر مہینوں پر فضیلت آشکار و واضح ہے اور بعض روایتوں کے مطابق تو یہ فضیلت ایسے ہی ہے جیسے اہلبیت اطہار علیھم السلام کی دیگر لوگوں پر فضیلت ہے۔(5) ہم اس عظیم مہینہ کو وداع کر رہے ہیں جس کا اتنا احترام ہے کہ روایتوں میں اس کا نام تک لینے کے لئے منع کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کے نام کے ساتھ کچھ نہ کچھ جوڑ دو تاکہ اس کا احترام رہے۔

دوسری بات اس مہینہ کو اولیاء خدا کی عید کہا گیا ہے اور عید وہ لفظ ہے جو عود سے ماخوذ ہے اس کے معنی پلٹنے کے ہیں، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس مہینہ میں انسان اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کے ذریعہ پلٹ جاتا ہے اور الٰہی ہو جاتا ہے البتہ جیسا کہ امام علیہ السلام کے انداز گفتگو سے واضح ہے ہر ایک اس مہینہ میں اللہ کی بارگاہ میں نہیں پلٹتا اور یہ مہینہ سب کے لئے عید نہیں ہے بلکہ صرف اولیائے خدا کے لئے عید ہے، یعنی وہی لوگ اس مہینہ میں اللہ کی طرف پلٹ پاتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کی محبت ہوتی ہے اور اس دسترخوان کرم پر اپنی غلطیوں کی معافی مانگ کر اپنے رب کی رضا حاصل کرتے ہیں۔ (6)
5۔ یہ مہینہ ہمارا بہترین دوست و ساتھی تھا جو اب جا رہا ہے اسی لئے امام علیہ السلام نے اس تمام گھڑیوں میں بہتر لمحات کو حامل قرار دیا اور  اسے اپنے بہترین ساتھی کے طور پر بیان کیا ہے۔ (7) اب یہ ایک واضح سی بات ہے کہ جب انسان کسی قیمتی چیز کی قیمت اور اس کی حقیقت  کو پہچان لیتا ہے تو اس کی حفاظت اور قدر کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزار نہیں کرتا ہے، اب سوچنے کی بات ہے کہ اس کی کس قدر حفاظت کی ضرورت ہے تاکہ ان قیمتی لمحات سے قرب الٰہی کا حصول کیا جائے، ایک دوست کے رشتہ کی سلامتی کے لئے کیا کچھ نہیں کرتا ہے؟ ایسا عمل انجام نہیں دیتا کہ اس کا دوست ناراض ہو تو اب سوچنے کی بات ہے کہ یہ مہینہ نہ صرف دوست بلکہ ہمارا ایک اچھا دوست تھا جس کے گزارے لمحات سب سے اچھے لمحات تھے تو ہمیں اس کے جانے پر کس قدر ملال ہونا چاہیئے، یقینا ایک اچھے دوست کی دوستی جہاں یاد رہتی ہے وہاں اس کے ساتھ بتایا ہوا اچھا وقت بھی انسان ہمیشہ یاد رکھتا ہے اور یہ ساتھی اتنا ہی اچھا ہے کہ انسان کے تمام گناہوں کو دھو دیتا ہے اور جب جاتا ہے تو انسان کے گناہ اس سے دور ہو چکے ہوتے ہیں۔ (8)

6۔  اس مہینہ کو امام نے امیدوں کے بر آنے والے مہینہ اور تہذیب نفس و اصلاح کے ساتھ حاجتوں کے پورا ہونے والے مہینہ کے طور پر وداع کیا ہے   جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کونسا اہم مہینہ ہم سے جدا ہو رہا ہے  وہ مہینہ جو تہذیب نفس کا مہینہ تھا وہ مہینہ جو تعمیر ذات کا مہینہ تھا وہ مہینہ جو تطہیر روح کا مہینہ تھا  یقینا اگر ابھی تک ہم غفلت کا شکار  رہے تو آئیں اب اس مہینہ کے باقی ماندہ دو چار دنوں میں ہی ایسی پروگرامنگ کر یں کہ اپنی ذات کو روحانی طور پر ایک مقام دے سکیں   اپنے نفس کی تہذیب و تطہیر کر سکیں اپنی  کا انداز ذرا بدلیں اور مادیت سے نکل کر معنوی چیزوں کا خدا سے مطالبہ کریں تاکہ ہماری  حیات اخروی کا سرمایہ قرار پائے۔(9)  اس لئے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہمیں کیا اجر دیا جائے گا اس کا اندازہ بھی ہم نہیں لگا سکتے ہیں اور خدا نے یہ معاملہ اپنے اور اپنے بندہ کے درمیان رکھا ہے،(10) اور اسکی جزا بھی خود پر ہی رکھی ہے۔ (11)
 
ماہ مبارک رمضان کے دن کتنی تیزی سے گذر گئے، ایسا لگ رہا ہے جیسے کل ہی افق آسمان پر ہم نے اس کا چاند دیکھا ہو لیکن دیکھتے  ہی دیکھتے سب چلا گیا، ایسے میں جس نے جتنا اس مہینہ سے فائدہ اٹھایا وہ کامیاب اور جو اس کی برکت سے محروم رہ گیا یقینا وہ نقصان اٹھانے والا ہے، ایسا نقصان جسے پورا کرنا کبھی بھی ممکن نہیں ہے اسی لئے دعا کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر  اب تک ہم اس کی برکتوں کے حصول سے محروم ہیں تو اس کے جاتے جاتے ہی کچھ حاصل کر لیں۔ اس لئے کہ اگر کوئی چلتے چلتے دوڑتے دوڑتے ہی سہی لیکن ٹرین پکڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ٹھییک ہے، ممکن ہے اسے بیٹھنے کی آرام دہ جگہ نہ ملے لیکن وہ منزل تک کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جاتا ہے لیکن جو آخر وقت میں بھی یہ سوچ کر نہیں دوڑتا کہ ٹرین تو اب چلی ہی جائے گی اس نے حرکت کرنا شروع کر دی ہے تو وہ بیٹھا رہ جاتا ہے اور منزل پر نہیں پہنچ پاتا لہٰذا کوشش کرنی چاہیئے کہ اس کی باقی ماندہ برکتوں کو  حاصل کیا جا سکے کہ کہیں ایسا نہ ہو یہ مہینہ نکل جائے لیکن گناہوں کی بخشش کا سامان نہ ہو یہ وہ صورتحال ہے جس کے سلسلہ سے ہمارے معصومین علیھم السلام  نے خدا کی بارگاہ میں پناہ طلب کی ہے۔ (12) تو آئیں مل جل کر دعا کریں کہ پروردگار ہماری عبادت و بندگی کو اس مہینہ میں قبول فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منابع:
1۔ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ مِنْ تِلْكَ السُّبُلِ شَهْرَهُ شَهْرَ رَمَضَانَ، شَهْرَ الصِّيَامِ، وَ شَهْرَ الْإِسْلَامِ، وَ شَهْرَ الطَّهُورِ
2۔ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ‏ إِلَيْكُمْ‏ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَكَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللَّهِ أَفْضَلُ الشُّهُورِ وَ أَيَّامُهُ أَفْضَلُ الْأَيَّامِ وَ لَيَالِيهِ أَفْضَلُ اللَّيَالِي وَ سَاعَاتُهُ أَفْضَلُ السَّاعَات‏" "اے لوگو! یقیناً اللہ کے مہینہ نے برکت، رحمت اور مغفرت کے ساتھ تمہاری طرف رخ کیا ہے، ایسا مہینہ جو اللہ کے نزدیک (دیگر) مہینوں سے افضل ہے اور اس کے دن (دیگر) دنوں سے افضل ہیں اور اس کی راتیں (دیگر) راتوں سے افضل ہیں اور اس کی گھڑیاں (دیگر) گھڑیوں سے افضل ہیں
3۔ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا شَهْرَ اللَّهِ الْأَكْبَرَ، وَ يَا عِيدَ أَوْلِيَائِهِ"
اے اللہ کے سب سے بڑے مہینہ، اور اے اولیائ خدا کی عید تجھ پر سلام
4۔"لا تقولوا ھذا رمضان و لا ذھب رمضان و لا جاء رمضان فان رمضان اسم من اسماء اللہ تعالی و ھو عز و جل لا یجیئو و لا یذھب ولکن قولوا شھر رمضان"۔ یہ نہ کہا کرو کہ یہ رمضان ہے اور رمضان گیا اور رمضان آیا۔ اس لئے کہ رمضان اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور خداوند عالم کہیں آتا جاتا نہیں ہے لہذا کہا کرو ماہ رمضان۔
5۔،امام علی علیہ االسلام اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں : "أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ شَهْرٌ فَضَّلَهُ‏ اللَّهُ عَلَى سَائِرِ الشُّهُورِ كَفَضْلِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ عَلَى‏ سَائِرِ النَّاس ۔اے لوگو! بیشک یہ مہینہ ایسا مہینہ ہے جسے اللہ نے دیگر مہینوں پر ویسے ہی فضیلت دی ہے جیسے ہم اہل بیت کو دیگر لوگوں پر فضیلت دی ہے"۔  فضائل الأشهر الثلاثة، ص: 108.
5۔ و العيد في اللّغة: ما يعود إلى الإنسان في وقت معلوم و منه العيد، لأنّه يعود كلّ سنة بفرح جديد". "عید اس چیز کو کہا جاتا ہے جو ایک  معلوم و معین وقت میں انسان کی طرف عود کرے (یعنی پلٹ آئے) اور لفظ "عود" سے ہی لفظ "عید" کو لیا گیا ہے، کیونکہ ہر سال نئی خوشی کے ساتھ پلٹ آتی ہے۔
6۔ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَكْرَمَ مَصْحُوبٍ مِنَ الْأَوْقَاتِ، وَ يَا خَيْرَ شَهْرٍ فِي الْأَيَّامِ وَ السَّاعَاتِ"اے اوقات میں بہترین رفیق و ساتھی  اور دنوں اور ساعتوں میں بہترین مہینے تجھ پر سلام 
7۔ من صام نھارہ و قام وردا من لیلۃ و عف بطنہ و فرجہ و کف لسانہ خرج من ذنوبہ کخروجہ من الشھر فقال جابر یا رسول اللہ ما احسن ھذا الحدیث فقال رسول اللہ یا جابر و ما اشد ھذا الشروط" اے جابر، یہ ماہ رمضان کا مہینہ ہے، جس نے اس ماہ میں روزہ رکھا، رات دعا اور عبادت میں گزاری، اپنی شرم گاہ اور پیٹ کو با عفت رکھا  زبان کو قابو میں رکھا وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل گیا جیسے ماہ رمضان سے نکل گیا۔ جابر نے عرض کی یا رسول اللہ یہ حدیث کس قدر اچھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے جابر ان شروط پر عمل کرن اور انکی رعایت کرنا بھی کس قدر مشکل ہے۔۔ فروع کافی، جلد 4، صفحہ 87،
8۔ السَّلَامُ عَلَيْكَ مِنْ شَهْرٍ قَرُبَتْ فِيهِ الْآمَالُ، وَ نُشِرَتْ فِيهِ الْأَعْمَالُ"
9۔ اے وہ مہینے جس میں امیدیں برآتی ہیں اور اعمال سج جاتے ہیں، تجھ پر سلام ۔ 10۔ الصوم عبادۃ بین العبد و خالقہ لا یطلع علیھا غیرہ و کذلک لا یجاری عنھا غیرہ"
روزہ خدا اور انسان کے درمیان ایک ایسی عبادت ہے جس سے خدا کے سوا کوئی آگاہ نہیں ہوتا لہذا خدا کے علاوہ کوئی اور اس کا اجر ادا نہیں کر سکتا۔
 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، جلد 20، صفحہ 296،
11۔"الصوم لی و انا اجزی بہ" روضۃ المتقین، جلد 3، صفحہ 225،
روزہ میرے لئے ہے اور میں اس کا اجر و ثواب دوں گا
12۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ۔«أَعُوذُ بِجَلَالِ وَجْهِكَ الْكَرِيمِ أَنْ يَنْقَضِيَ‏ عَنِّي‏ شَهْرُ رَمَضَانَ أَوْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ مِنْ لَيْلَتِي هَذِهِ وَ لَكَ قِبَلِي ذَنْبٌ أَوْ تَبِعَةٌ تُعَذِّبُنِي عَلَيْهِ؛ میں پناہ مانگتا ہوں تیری کریم ذات کے جلال سے کہ ماہ رمضان مجھ سے ختم ہو یا  میری اس رات کی فجر طلوع ہو اور میں تیری بارگاہ میں کوئی گناہ یا ذمہ داری رکھتا ہوں جس پر تو مجھ  کو عذاب کرے»[الکافی،ج۴،ص۱۶۰]۔
خبر کا کوڈ : 731468
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش