0
Thursday 14 Jun 2018 21:58

اسلام کے بنیادی عقائد(3)

اسلام کے بنیادی عقائد(3)
ترتیب: ایس این حسینی

گذشتہ سے پیوستہ
صور اسرافیل:
صور اسرافیل سے بعض لوگ بانسری مراد لیتے ہیں، جو کہ صحیح نہیں۔ آپ قرآن کے کسی مشہور تو کیا عام ترجمے کو اٹھائیں، آپکو صور کا ترجمہ بانسری نہیں بلکہ صور ہی ملے گا۔ یعنی جب صور پھونکا جائیگا۔ صور عربی زبان میں نر سنگھے کی سینگ کو کہتے ہیں، جسے پرانے زمانے میں سربراہان مملکت ہنگامی حالات یا دیگر اہم مواقع پر اعلان کے لئے استعمال کیا کرتے تھے، گویا یہ اس زمانے کا لاؤڈ سپیکر تھا۔
1۔ صور اسرافیل کا طرز:
صور اسرافیل ترنم اور خوش الحانی کے ساتھ نہیں بجایا جاتا بلکہ اسکی آواز اتنی خوفناک اور سخت ہوگی کہ پھونکتے ہی تمام جانداروں کی جانیں قبض ہوجائیں گی۔ دنیا کی سطح پر کوئی ذی روح چیز نہیں رہے گی۔ گویا ایٹم بم یا ہائیڈروجن بم کی آواز کہ ذی روح تو کیا، اسکی آواز یا دھماکے سے عمارات اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ چنانچہ صور اسرافیل کوئی خوشگوار آواز والا کوئی آلہ نہیں۔ اسکے علاوہ قرآن مجید، رسول اللہ اور ائمہ معصومین کی احادیث میں بار بار رائج الوقت اشیاء کا تذکرہ ہوا ہے۔ مثلاً مسواک سے دانتوں کی صفائی اور ڈھیلے سے استنجاء کرنے کا تذکرہ پایا جاتا ہے، یکویٰ، تکویٰ کا ذکر ہے۔ انہی اصطلاحات کو آج کل عربی زبان میں استعمال کیا جاتا ہے، تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ قرآن میں اسکا ذکر ہے، مثلا مکوٰۃ عربی میں استری کو کہتے ہیں۔ جو کہ کویٰ، یکوی سے لیا گیا ہے۔ حالانکہ اس وقت استری نہیں تھی۔

اسی طرح مسواک یا ڈھیلے وغیرہ کے تذکرے کا یہ مطلب نہیں کہ انکے علاوہ کسی اور چیز سے صفائی جائز نہیں۔ آج کل ٹوتھ پیسٹ ہے، اگر اس زمانے میں ٹوتھ پیسٹ ہوتی تو وہ انکا بھی تذکرہ فرما دیتے۔ چنانچہ قرآن مجید میں صور اسرافیل کا تذکرہ جو ہے، وہ رائج الوقت لفظ ہے۔ اس زمانے میں آواز نکالنے کا واحد ذریعہ صور یعنی سینگ تھا، چنانچہ اسی کا ذکر کیا گیا۔ اسی طرح قرآن میں مزید کئی ایسے مقامات ہیں، جہاں رائج الوقت الفاظ کا سہارا لیا گیا ہے، جبکہ معصوم کا قول ہے،"کلم الناس علی قدر عقولھم۔" یعنی کہ لوگوں کے ساتھ انکے عقل کے مطابق گفتگو کرو۔ چنانچہ قرآن اور احادیث میں لوگوں کے ذہن اور عقل کے مطابق گفتگو کی گئی ہے۔ مثلاً قرآن میں کہا گیا ہے کہ سورج مشرق سے طلوع کرتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے۔ چونکہ اس زمانے میں لوگوں کو اس بات کا پتہ نہیں تھا کہ دنیا گھومتی ہے، بلکہ اس وقت بھی عام لوگوں کا یہی خیال ہے کہ سورج مشرق سے مغرب کی طرف سفر کرتا ہے۔ آج کل جدید سائنسی تحقیق نے یہ ثابت کر دیا کہ زمین اپنے محور کے گرد نیز سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اسی طرح قرآن میں کعبہ اور مساجد کو اللہ کا گھر کہا گیا ہے، جو کہ مجازاً ہے، کیونکہ گھر رہنے کی جگہ ہے، جبکہ اللہ کسی جگہ رہتا نہیں۔ یہاں اللہ کے گھر سے مراد اللہ سے تعلق یا نسبت ہے۔

2۔ صور سے مراد اگر بانسری لی جائے تو جیسے اوپر واضح کیا گیا کہ صور کا تذکرہ احکام کے زمرے میں نہیں آتا۔ یعنی قرآن مجید میں ایسا تو نہیں لکھا کہ تم صور یا بانسری بجاؤ بلکہ یوں مذکور ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا۔ چنانچہ اگر کسی فرشتے کا فعل شریعت کا حصہ بن سکتا ہے تو عزرائیل کا لوگوں کی روح قبض کرنا شریعت کا حصہ بن کر سنت بن جاتا اور یوں ہم پر لوگوں کے گلے گھونٹ کر سانس نکالنا واجب ہو جاتا۔ اسی طرح یوسف علیہ السلام اور ہابیل کے تذکرے کو بنیاد بنا کر ہمیں بھائیوں کو قتل کرنا پڑے گا۔ قارئین کرام شریعت محمدی کا تعین کسی عام فرد تو کیا، عالم یا مجتہد کا کام بھی نہیں، بلکہ یہ کام ہے اللہ تعالٰی کا، جبکہ انبیاء، رسولان خدا اور ائمہ اطہار کا فریضہ فقط یہ ہے کہ وہ اسے اللہ سے لیکر لوگوں تک پہنچائے۔ چنانچہ اللہ کے دین اور شریعت کو ہم انہی ہستیوں کے توسط سے جانتے ہیں۔ یوں ہمیں ہر وہ کام کرنا ہوگا، جسے حضور اکرم اور ائمہ اطہار نے انجام دیا ہو۔ مثلاً امام نماز پڑھتے تھے، روزہ رکھتے تھے، حج ادا کرتے تھے، جہاد کرتے تھے، داڑھی رکھتے تھے کہ نہیں؟

اگر کرتے تھے تو ہمیں بھی کرنا چاہئے۔ اگر وہ ان سے منع کرتے تھے تو ہمیں ان تمام  کاموں کو ترک کرنا ہوگا، جبکہ علماء اور مجتہدین کا کام فقط اتنا ہے کہ وہ ہمیں ائمہ اطہار کی سیرت بیان کرکے واقعات کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں۔ ائمہ اطہار کی پوری زندگی پر غور کریں، دیکھیں۔ انہوں نے نعوذ باللہ کبھی ڈھول یعنی غنا سے متعلق کوئی اور آلہ خود بجایا ہے، یا کسی کو بجانے کا حکم دیا ہے، یا دیکھ کر تائید کی ہے، بلکہ سینکڑوں ایسے مقامات ملتے ہیں کہ امام نے غنا سے پرہیز کا حکم دیا ہے۔ یہاں تک کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے زندان کا مشہور واقعہ تو مومنین کو یاد ہوگا کہ امام نے ساز و آواز کے قریب نسبتا آرام دہ زندگی پر جیل کی نہایت پر اذیت کوٹھڑی کو ترجیح دی۔ اسی طرح واقعہ کربلا میں غور کریں کہ نماز، قرآن کی تلاوت، تہجد، آذان کی نسبت کن کو دی جاتی ہے جبکہ ڈھول باجوں، شادیانوں، ناچ اور گانوں کی نسبت کن کی طرف ہے اور پھر ہم خود کو بھی آئینے میں دیکھیں کہ ہم کس کے پیروکار ہیں۔

3۔ بالفرض صور پھونکنے کے عمل کی تاویل کرکے نعوذ باللہ من ذالک، اسے حکم کے معنی پر لیا جائے تو بھی اس کا تعلق اس دنیا سے نہیں بلکہ قیامت کے زمرے میں آئے گا، کیونکہ جب صور پھونکا جائے گا تو اس وقت اگر ایک کھرب آبادی بیک وقت روزے سے ہوں اور سب نماز کی حالت میں ہوں تو ان سب کے روزے اور نماز ادھورے رہ کر ٹوٹ جائیں گے اور صور پھونکتے ہی شریعت تو کیا دنیا ہی ختم ہو جائے گی۔ چنانچہ اسکے بعد قیامت ہوگی، قیامت کے حوالے سے تو پہلے ہی ذکر کیا جا چکا ہے کہ وہاں شریعت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ وہاں حلال و حرام کا وہ تصور سرے سے موجود نہیں، بلکہ اسکے بعد تو اس دنیا میں درجنوں حرام امور حلال ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 731722
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش