0
Friday 15 Jun 2018 20:30

افغان خواتین کی خودکشیاں اور ہم

افغان خواتین کی خودکشیاں اور ہم
تحریر: طاہر یاسین طاہر

خودکشی حرام ہے، لاریب حرام ہے، لیکن خود کو موت کے حوالے کرنے والے زندگی کو نہ ہی نعمت تصور کرتے ہیں، نہ ہی انہیں حلال و حرام سے کوئی غرض ہوتی ہے۔ اپنے سماجی و نفسیاتی مسائل سے چھٹکارے کے لئے خواتین و مرد اور نو عمر جس تکلیف دہ راستے کا انتخاب کرتے ہیں، اسے خودکشی ہی کہا جاتا ہے۔ علماء اسے حرام قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے کئی احادیث و روایات بیان کرتے ہیں۔ خودکشیوں کی مذہبی سے زیادہ نفسیاتی و سماجی وجوہات ہیں اور میرا خیال ہے کہ ہمیں اس حوالے سے بھی خودکشیوں کے بڑھتے واقعات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص جنگ زدہ اور انتہائی قدامت پرست معاشرے افغانستان کے حوالے سے یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ معاملے کی نفسیاتی و سماجی جہات پر غور کیا جائے۔ افغانستان وہ عجیب ملک ہے، جس نے اپنے سماجی رویئے اور فہم ِاسلام سے نہ صرف اپنے ہمسائے پاکستان بلکہ دنیا بھر کو شدید مثاثر کیا ہے۔ یہ تاثر منفی ہے اور لاریب منفی ہی ہے۔ روس کے خلاف نام نہاد ڈالر زدہ جہاد اور اس کے بطن سے نت نئے مسلح گروہ، جیسے القاعدہ، اسامہ بن لادن، طالبان، جنھیں جہادی کہا جاتا ہے، اسی افغانی فہم ِاسلام کی دین ہے، جسے آج پاکستان سمیت پوری دنیا بھگت رہی ہے۔ یہی نہیں ان گروہوں نے "بچے" بھی جنے ہیں، جن کی تعداد درجنوں ہے۔

جنگیں معاشروں کو ایک نہ ختم ہونے والا درد دیتی ہیں۔ فاتح قومیں بھی جنگوں کے نفیساتی و سماجی مسائل سے دوچار ضرور ہوتی ہیں، مگر مفتوح قومیں تو جنگ کے نہ ختم ہونے والے منفی اثرات سے عشروں بلکہ صدیوں نہیں نکل سکتیں۔ تاریخ انسانی کی ہولناک جنگیں اس حوالے سے گواہ ہیں۔ برصغیر آج تک بیرونی حملہ آوروں کے دیو مالائی کرداروں کے سحر سے باہر نہ آسکا۔ حملہ آوروں میں ہیرو نہیں صرف قاتل ہوا کرتے ہیں، برصغیر کے مگر سماجی اور مذہبی رحجانات نے ہیرو بھی تراشے اور شخصی بت بھی بنائے۔ جہاد کی نئی تشریحات نے بھی پرائیویٹ مسلح جتھوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ریاستوں کی پراکسی نامی وار نے البتہ انسانوں کو اپنا رزق بنایا۔ موجود نصف صدی کی تاریخ ہی اگر کھنگالی جائے تو تکلیف دہ صورتحال کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ان جنگوں کی ابتدا مذہب کے نام پر ہوئی اور ابھی تک جاری ہے۔ افغانستان اس جنگی جنون کا مرکز ہے۔ اعداد و شمار کسی بھی طرح درست نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 30 لاکھ سے زائد افغان صرف اس وقت پاکستان کے مہمان بنے، جب روس افغانوں کی ہی دعوت پر افغانستان چلا آیا تھا۔ نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد بھی افغانوں کی قابل ذکر تعداد پاکستان آئی۔ کیا صرف 30 سے 40 لاکھ ہی افغان مہاجرین پاکستان میں مہمان بنے ہوئے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ نہیں، اس سے بہت زیادہ۔ پاکستان کے علاوہ ایران سمیت دنیا بھر میں، افغان مہاجرین کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں صورتحال قدرے مختلف ہے، افغان مہاجر کیمپوں سے باہر بھی رہائش پذیر ہیں۔ کون سا ایسا سماجی و اخلاقی جرم ہے، جس میں افغان مہاجرین ملوث نہیں پائے گئے؟ ایسا کیوں ہے۔؟

اسے سمجھنے کے لئے سماجی حیات کے اصولوں کو مدنظر رکھا جائے تو معاملہ سمجھ آجاتا ہے۔ یہ اس جنگی جنون کا اثر ہے، جسے افغانوں نے دانستہ قبول کیا۔ پورے کا پورا معاشرہ ہیجان اور عدم برداشت کا شکار ہوکر، خطے سمیت دنیا بھر کو متاثر کر رہا ہے۔ ڈکیتی، قتل، رہزنی، دہشت گردی۔ جو اور کچھ نہیں کر پاتے وہ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ اس حوالے سے حیرت انگیز بھی ہے اور رنج آور بھی۔ خوبرو مگر زندگی سے بیزار افغانوں کا نوحہ ہم کب تک لکھتے رہیں گے؟ افغانوں کو اب کسی جہاد کی نہیں بلکہ سماجی و نفیساتی علاج کی ضرورت ہے۔ بہتر معیشت اور زمینی حقائق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہو پایا تو افغان یونہی ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہیں گے، یونہی دوسرے انسانوں سے دست و گریبان رہیں گے اور جو کسی اور کو قتل نہ کر سکیں گے، وہ خودکشیاں کرتے رہیں گے۔ عالمی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے مغربی صوبے ہرات میں خواتین کی خودکشی کا رجحان باقی افغان آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔ ہرات میں طبی حکام کے مطابق صرف 2017ء میں ہی 1800 افراد نے خودکشی کی کوشش کی، جن میں 1400 خواتین تھیں۔ ان میں سے 35 اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں جبکہ باقی کو بچا لیا گیا۔ یہ تعداد 2016ء کے مقابلے میں دوگنی ہے۔ 2016ء میں خودکشی کی 1000 کوششیں کی گئیں۔ یہ تعداد ان خواتین کی تعداد سے بھی بہت زیادہ ہے، جو جنگ کا نشانہ بنیں۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق گذشتہ برس مسلح لڑائی کا شکار ہونے والی خواتین میں 359 ہلاک جبکہ 865 زخمی ہوئیں۔ افغان انڈیپینڈنٹ ہیومن رائٹس کمیشن اور افغان میڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال 3000 افغان خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔ ملک بھر میں پیش آنے والے ان واقعات میں سے نصف ہرات میں ہوتے ہیں۔ افغان انڈیپینڈنٹ ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ افغانستان میں زیادہ تر لوگ خودکشی کے معاملات کی حکام کو اطلاع نہیں کرتے۔ عالمی نشریاتی ادارے کے مطابق افغانستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے اعداد و شمار دستیاب نہیں، تاہم عالمی ادارۂ صحت کے اندازے کے مطابق 10 لاکھ افغانی ذہنی دباؤ کے مسائل کا شکار ہیں، جبکہ بارہ لاکھ افراد کو انزائٹی کے مسائل درپیش ہیں۔ افغانستان میں مسلح لڑائی کو  2018ء میں چالیسواں سال شروع ہوگیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ذہنی مسائل کا شکار افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے اندازوں کے مطابق 87 فیصد افغان عورتیں جسمانی، جنسی یا نفسیاتی تشدد میں سے کسی نہ کسی کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ 62 فیصد کو مختلف اقسام سے استحصال کا سامنا رہتا ہے۔

عالمی ادارے کی اس رپورٹ نے افغان خواتین کی خودکشیوں کے حوالے سے یورپین زاویہ فکر کو اجاگر کرنے بھی کوشش کی ہے، مثلاً جبری شادیاں، جنسی استحصال، کم عمری کی شادیاں وغیرہ، مگر میرے نزدیک افغان خواتین کی خودکشیوں کی یہ بنیادی وجہ نہیں۔ کوئی افغان گھرانہ ایسا نہیں، جس نے چار چھ افراد جنگ کو خیرات نہ کئے ہوں۔ خواتین مردوں کی نسبت زیادہ حساس ہوتی ہیں اور کم ہمت بھی۔ مسلسل قتل و غارت گری، دھماکے، جنگ کا نصف صدی پہ پھیلا ماحول، غربت، عالمی برادری سے دوری، یہ ساری چیزیں مل کر ہر افغان کو ذہنی دبائو اور ہیجان کا شکار بنا چکی ہیں۔ خواتین جب دیکھتی ہیں کہ ان کے خواب اجڑ چکے ہیں اور ان کے مرد جنگ کا رزق بنتے جا رہے ہیں تو انہیں سوائے موت کے کسی چیز میں عافیت نظر نہیں آتی۔ وہ نہیں سوچتیں کہ خودکشی حرام ہے۔ ہاں عالمی ادارے اور خطے کے بااثر ممالک صرف اعداد و شمار ہی نہ جمع کریں بلکہ افغانوں کو جنگی ماحول سے نجات دلانے اور ان کی ذہنی صحت بحال کرنے میں بھی کرداد ادا کریں۔ جب تک طالبان خودکش حملے کرتے رہیں گے، جب تک حملہ آور آتے رہیں گے اور جب تک سامراجی شیطان جنگی وبا کو پھیلاتے رہیں گے، خوبرو افغان خواتین زندگی کا گلا اپنے ہاتھوں سے دباتی رہیں گی اور ہم صرف سالانہ اعداد و شمار جمع کرتے رہیں گے کہ گذشتہ برس کے مقابلے میں اس برس کتنی افغان خواتین نے خودکشی کی۔
خبر کا کوڈ : 731856
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش