0
Sunday 17 Jun 2018 17:55

عورت چراغ خانہ ہے، شمع محفل نہیں!

عورت چراغ خانہ ہے، شمع محفل نہیں!
تحریر: عظمت علی
Rascov205@gmail.com


عصر حاضر کے مہلک و خطرناک سماجی دور میں "صنف نازک کا تحفظ" مشکل سے مشکل تر ہوا جاتا ہے۔ اس حساس مسئلہ کو لے کر ہر زندہ دل اور باحیا خاندان سماجی زبوں حالی کا شکوہ کر رہا ہے کہ نوجوان لڑکیوں کی کیسے حفاظت کی جائے کہ ان کے کردار پر کوئی آنچ نہ آنے پائے، جبکہ انٹرنیٹ نے گھر گھر میں واٹس ایپ، فیس بک اور یوٹوب وغیرہ۔۔۔ کے ذریعے برائی کی راہوں کو مزید ہموار کر دیا ہے، جس کے چلتے وہ ایک اجنبی شخص سے ملاقات کرتیں ہیں اور۔۔۔۔ زناکاری ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ ہے، جس کی پولیس شکایت کرنے سے زیادہ تر لوگ صرف اس لئے کتراتے ہیں کہ کہیں خاندانی وجاہت اور ذاتی عزت پر کوئی آنچ نہ آجائے اور بعد میں دیگر مسائل کا سبب بن جائے۔۔۔! عالمی سطح پر جو رپورٹ پیش کی گئی ہے، اسے بطور خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے: جنوبی افریقا میں سال بھر میں تقریباً 500000 عصمت دری کے واقعات سامنے آتے ہیں، درآنحالیکہ نو میں سے صرف ایک یا دو کی رپورٹ کی جاتی ہے۔ سویڈن میں ہر چھ عورتوں میں سے ایک ساتھ تجاوز کیا جاتا ہے۔

امریکہ میں تقریبا 83ً فیصد 12 سال سے لے کر 16 سال کی لڑکیوں کو پبلک اسکول میں کسی نہ کسی قسم کا شہوانی تجربہ ہوچکا ہوتا ہے۔ روزانہ 230 لڑکیوں کا جسمانی استحصال کیا جاتا ہے۔ پورے سال میں 12 اور اس سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے 29000 آبروریزی کے واقعات درج ہیں۔ ہر تین میں ایک عورت اپنی پوری زندگی میں شہوانی حملہ کا ضرور شکار ہوتی ہے۔ برطانیہ اور ویلس میں روزانہ 230 اور پورے سال میں 85000 زناکاری کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ جن میں 73000 لڑکیاں اور 12000 ہزار لڑکے ملوث ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں 18 تا 30 برس کی عمر کی لڑکیوں کے ساتھ جنسی تجاوز کیا جاتا ہے۔ تقریباً ہر بیس سے پچیس منٹ میں اس قسم کی واردات سامنے آتی ہے، جن میں دہلی کا شہر سرفہرست آتا ہے۔ جہاں گذشتہ برس 1636 واقعات رونما ہوئے تھے، جبکہ ممبئی میں 391، جے پور میں 192 اور پونے میں 171 حادثات کے شکایات درج ہیں۔ مدھ پردیس میں ہر دن 11 اور پورے ملک میں روزانہ 90 لڑکیوں کی آبرو لوٹی جاتی ہے۔

نیوزی لینڈ میں ہر دو گھنٹے میں ایک لڑکی کی آبر ولوٹی جاتی ہے۔ 16  سال سے کم عمر کی ہر تین میں سے ایک لڑکی اور چھ میں سے ایک لڑکا غالباً شہوانی حملہ کا شکار ہوتا ہے۔ 2013ء میں نوجوان لڑکوں نے حالت نشہ میں لڑکیوں کی اجتماعی آبروریزی کی تھی۔ کینڈا میں ہر سال کم و بیش 460000 جسمانی بدفعلیاں ہوتی ہیں۔ آسٹریلیا میں ہر چھ میں سے ایک لڑکی اس بدفعلی کا شکار ہوتی ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق ہر 15 سال سے زائد عمر کی لڑکی کے ساتھ جنسی تجاوز ہوچکا ہوتا ہے اور ان حیوانی افعال کو انجام دینے والے ستر فیصد گھر، اسکول دوست اور دیگر دوست و یار ہوتے ہیں۔ زمبابوے میں ہر نوے منٹ میں روزانہ 16 اور ہر ماہ میں تقریباً 500 ہم جنسی بدکاری ہوتی ہے۔ 2014ء میں ایک مطالعہ کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ فن لینڈ میں تقریباً 47 فیصد عورتوں نے جسمانی یا شہوانی بدفعلی کا تجربہ کیا ہے اور ہر بیس میں سے ایک لڑکی جنسی تجاوز کا شکار ہوتی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں 36 فیصد عورتوں کو جسمانی یا شہوانی حملہ سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ مذکورہ تمام ممالک جہاں عصمت دری کی وارداتیں اپنے عروج کو جا پہنچی ہیں، ان میں سے کوئی بھی اسلامی ملک نہیں ہے، جس کا واحد سبب اسلامی قوانین کا اتباع کرنا ہے۔ اسلام نے عورت کو اتنا عظیم مرتبہ دیا ہے کہ اہل خانہ کے لئے رحمت، شوہر کا نصف ایمان اور ماں بن جانے کے بعد اس کے پیروں تلے جنت قرار دیا ہے۔ سماج میں اس کی حرمت کا اس قدر خیال رکھا گیا ہے کہ وہ ایسے لباس زیب تن نہ کرے، جو لوگوں کی بری نگاہوں کا سبب بنے اور دوسری طرف سے نامحرم حضرات کو اس کی طرف شہوت کی نگاہوں سے دیکھنا عظیم جرم قرار دیا ہے کہ مبادا جسم کی رونمائی اور شہوتی نگاہیں کسی حرام فعل کے وجود میں آنے کا سبب نہ بن جائیں۔۔۔۔اگر کوئی شخص یہ جرم کرتے پکڑا گیا یا معتبر گواہوں نے اس کی شہادت دیدی تو اسلامی ملک میں قانون کے ماتحت اسے جرم کے لحاظ سے سزا دی جاتی ہے۔

آج اگر دشمنان اسلام بغض و عداوت کے پردے کو ہٹا کر اپنے ممالک کا اسلامی ممالک سے مقائسہ کریں تو یہ بات ظاہر ہو جائے گی کہ انسان کی شکل میں کہاں حیوان پنپتے ہیں۔؟! انہیں اسلام کی عداوت نے دائرہ انسانیت سے خارج کر دیا ہے، تبھی تو ان کی ناموس سر برہنہ و عریاں کھلے بازار گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں اور۔۔۔! اگر وہ خود کو انسان تسلیم کریں اور اپنے خاندان و ناموس کی عزت کی حفاظت کرنا مقصود ہو تو انہیں لازم طور پر جان لینا چاہئے کہ اسلامی حجاب پر پابندی عائد کرنے کے بجائے حجاب اسلامی کی پابندی کریں اور عورت جیسے قیمتی گوہر اور نعمت الٰہی کی قدر و حفاظت کریں۔ یہ بھی جان لیں کہ عورت چراغ خانہ ہے، شمع محفل نہیں! مربی قوم و ملت ہے، شو کیس میں سجانے والی عریاں گڑیاں نہیں! ہمیشہ قیمتی اور نایاب گوہر صدف میں ہوتے ہیں اور بے قیمت سنگریزے قدموں کی ٹھوکر میں! پس! حجاب ناموس کی حفاظت کا دوسرا نام ہے، نہ کہ محدودیت اور بے جا پابندیاں!
خبر کا کوڈ : 731961
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش