2
Tuesday 19 Jun 2018 01:05

گلگت بلتستان 2050ء میں

گلگت بلتستان 2050ء میں
تحریر: لیاقت تمنائی

آج سے لگ بھگ دو سال قبل ہم نے جس کہانی کی نشاندہی کی تھی، آج پھر اسے دہرانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ جون 2050ء کا ایک گرم دن ہے، سکردو کے چار سو گیارہ مین بلیو وارڈ سے مشہ بروم انٹرچینج تک ہرطرف بینرز آویزاں ہیں''انجمن تاجران کے انتخابات'' گمبہ سکردو سے کلفٹن بحریہ ٹاؤن ہاؤسنگ سکیم تک کی چھ رویہ مرکزی شاہراہ کے دائیں جانب تاجر اتحاد گروپ میانوالی اور بائیں طرف مردان امپوٹرز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے بینرز لگے ہیں، اولڈنگ میں 25 کنال اراضی کے مالک چیچہ وطنی کے چوہدری غلام سائیں لاہور سے خصوصی طور پر ووٹ کاسٹ کرنے آئے ہیں، سکردو مرکزی انجمن تاجران کے الیکشن میں ان دونوں گروپوں کے مابین سخت مقابلہ ہے، چوہدری غلام سائیں نے ہرگسہ 25 منزلہ ٹاور کے سامنے اور ہیڈ برج کراس کرتے ہوئے کسی نوجوان سے الیکشن آفس کا پتہ معلوم کیا تو معلوم ہوا کہ حسین آباد انکلیو میں موجود بحریہ ٹاور کے ستائیسویں منزل پر الیکشن ہو رہے ہیں۔ شام نو بجے الیکشن کے نتائج سامنے آنے پر معلوم ہوا ''کانٹے دار مقابلے میں مردان گروپ نے انجمن تاجران سکردو کا انتخابی معرکہ سر کرلیا '' اور گلگت؟ گلگت میں کوہستان گروپ الیکشن جیت گیا، اگلے روز مقامی اخبارات میں چار کالمی خبر فرنٹ پیج کی زینت بنی ہوئی ہے۔

یہ آج سے لگ بھگ تیس سے چالیس سال بعد کی صورتحال ہوگی، جب سی پیک تکمیل کے بعد اپنے جوبن پر ہوگا، چین اور پاکستان اپنی اپنی استعداد کے مطابق مستفید ہو رہے ہونگے، سکردو اور گلگت میں بھی انفراسٹرکچر نئی بنیادوں پر استوار ہوگا اور ساتھ ساتھ سیاسی اور جغرافیائی کیفیت میں بھی تبدیلی آئے گی۔ تبدیلی مگر کیسے؟ حالیہ دنوں مختلف صحافتی ذرائع نے انکشافات کئے ہیں، آیئے ذرا دیکھتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں مندرجہ ذیل اہم شخصیات نے گلگت بلتستان میں بڑے پیمانے پر زمینیں خرید لی ہیں۔
1۔ سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز (مقصد فائیو سٹار ہوٹل کی تعمیر)۔ سکردو میں فائیو سٹار ہوٹل کی تعمیر کیلئے سکردو
2۔ جے یو آئی (ف) کے سینیٹر طلحہ محمود(اْنہوں نے باقاعدہ گلگت بلتستان میں شادی بھی کی ہے) بنگلہ تیار ہوگیا ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے جاگیر بسین میں پراپرٹی خریدی ہے۔
3۔ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین (گلگت کے اہم سیاحتی مقام نلتر میں میں زمین خرید لی ہے)
4۔ سابق چیئرمین سی ڈی اے کامران لاشاری (ہنزہ عطا آباد جھیل کے پاس فائیو سٹار ہوٹل بنانے کی غرض سے 65 کنال زمین خرید لی ہے)۔
5۔ سابق وفاقی سیکرٹری جمشید برکی(گلگت کے اہم سیاحتی مقام نلتر میں میں زمین خرید لی ہے)۔

6۔ سابق جنرل ریٹائرڈ عباس (سکردو میں زمین خرید کر بنگلہ زیر تعمیر ہے)۔
7۔ سابق آئی جی گلگت بلتستان حسین اصغر (سکردو میں بنگلہ تیار ہوگیا ہے۔)
8۔ مرحوم جنرل حمید گْل نے بھی سکردو میں زمین خریدی۔
9۔ مسلم لیگ نون کی رہنما اور بی آئی ایس پی کی چیئرپرسن ماروی میمن نے بھی گلگت بلتستان میں زمین خرید لی ہے۔
10۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کی جانب سے بھی گلگت بلتستان میں زمین خریدنے کا انکشاف ہوا ہے۔
11۔ اس کے علاوہ گلگت میں افغان شہریوں کی جانب سے بھی زمین خریدنے اور گلگت بلتستان کا باقاعدہ ڈومسائل بنوانے کا انکشاف ہوا ہے۔
12۔ کوہستان سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے صنعت و تجارت سرزمین خان بھی گلگت اور سکردو میں زمین لینے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔
13۔ سابق ایم این اے اور نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کے بارے میں بھی بتایا جا رہا ہے کہ وہ بھی بہت جلد گلگت اور ہنزہ میں زمین لیں گے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور سرمایہ داروں کی غیر معمولی دلچسپی سکردو اور گلگت میں آخر کیوں ہے؟ عام طور پر لوگوں کا رجحان شہروں کی طرف ہوتا ہے، لیکن مستقبل میں ایسا نہیں ہوگا۔ میرا ایک دوست اکثر کہا کرتا ہے۔ یہ جو آجکل دیہاتوں سے شہروں کی جانب ہجرت کا رجحان ہے، وہ بہت جلد ختم ہوگا۔ کیسے؟ جواب دیا ''دیکھو دنیا بدل رہی ہے، آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے بھیانک اثرات سامنے آرہے ہیں، شہروں کا پورا ڈھانچہ دھواں میں ڈھکا ہوا ہے، ایک وقت آئے گا گرمی معمول سے زیادہ بڑھے گی، پانی کا بحران ہوگا، ویسے آج بھی شہروں میں کونسا صاف پانی ملتا ہے؟ یہاں کونسے چشمے پھوٹتے ہیں؟ بورنگ والا پانی، آلودہ فضا، پٹرول اور ڈیزل کے دھواں سے بھرا ہوا، اس کی وجہ سے لوگوں کا جینا مشکل ہو جائے گا، بہت جلد لوگ پہاڑی علاقوں خصوصاً ان جگہوں کا رخ کرینگے، جہاں موسم معتدل ہو، جیسے کشمیر، مری، کاغان اور گلگت بلتستان۔ ان علاقوں کو قدرت نے خاص نعمتوں سے نوازا ہے، قدم قدم پر صاف پانی کے چشمے، صاف آب و ہوا اور حسین قدرتی مناظر۔

پہاڑی علاقوں کی جانب آبادی کی منتقلی کا سلسلہ ابھی سے شروع ہوچکا ہے۔ بزنس اور پراپرٹی ٹائیکونوں کی نظریں یہاں لگ گئی ہیں۔ اب چونکہ سی پیک بھی آرہا ہے، جس کے متوقع پوٹینشل کے پیش نظر پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدان، بیوروکریٹس اور سرمایہ داروں نے گلگت بلتستان میں دھڑا دھڑ زمینیں لینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ یہ ابھی کہانی کی ابتدا ہے، اصل کہانی تب شروع ہوگی، جب زمینیں غیروں میں بٹ چکی ہونگی اور مقامی لوگ فٹ پاتھوں پر چائے بناتے ہوئے یا ٹائر کو پنکچر لگاتے ہوئے نظر آئیں گے، آبادی کا تناسب تبدیل ہوگا۔ کالونیاں بدل جائیں گی اور لوگ بھی بدلیں گے۔ کاروبار، انڈسٹری، زراعت اور زمینوں پر غیروں کا قبضہ ہوچکا ہوگا، اسمبلی کے انتخابات میں ووٹ نیازیوں، پوٹوہاریوں، گجراتیوں اور پشتونوں اور پٹھانوں کے پڑیں گے۔۔!! اور ہاں فلسطینیوں نے بھی زمینیں بیچی تھیں، سید جواد نقوی نے ایک موقع پر زور دے کر کہا تھا کہ گلگت بلتستان والوں کو فلسطین کے مسئلے سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔

72 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل یہ علاقہ دنیا کا حساس ترین خطہ شمار کیا جاتا ہے، جس کے ساتھ ملک کی سلامتی جڑی ہوئی ہے اور پاکستان کی دفاعی شہ رگ ہے، گو کہ اس علاقے کو نیم متنازعہ حیثیت میں رکھا گیا ہے، ریاست پاکستان کے نزدیک اس علاقے کی اہمیت مسلمہ ہے، جس سے کسی بھی طور پر نظرانداز یا سستی کا مظاہرہ نہیں کیا جا سکتا، اس کے باؤجود اس علاقے کو نظرانداز کرنے اور اس کے نتیجے میں احساس محرومی کی الگ تاریخ ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وفاقی حکومت فنڈز نہیں دے رہی، ترقیاتی کام کی رفتار سست ہے، یا قومی اسمبلی میں نمائندگی نہیں مل رہی۔ گلگت بلتستان کا اصل مسئلہ بھٹو دور میں شروع ہوا، جب باشندگان ریاست کا قانون ختم کیا گیا، جس کے بعد سے غیر مقامی لوگوں کی جانب سے یہاں جائیدادیں لینے اور مقامی ڈومسائل حاصل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہیں سے گلگت بلتستان کے اصل مسئلے کی ابتدا ہوئی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا جارہا ہے۔

نیم آئین، نیم متنازعہ، نیم صوبہ کے حامل اس خطے کے بیس لاکھ عوام بیک وقت بنیادی شناخت اور آبادی کا تناسب تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ غیر محفوظ مستقبل کے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ کوئی ہے جو اس حقیقت میں تبدیل ہوتے ہوئے خطرات کا بروقت ادراک کرتے ہوئے قوم کو متحد کرے؟ یکم جنوری 2050ء کی ایک ٹھٹھرتی شام کو کھرمنگ کا بزرگ غلام حسن اپنے کسی بچپن کے دوست سے ملنے چالیس سال بعد سکردو آتا ہے، علمدار چوک کے ساتھ بحریہ ٹاور کے سامنے ڈویژن کالونی کی جانب جاتے ہوئے کسی شخص سے اپنے دوست کا پرانا ایڈریس پوچھا تو کہنے لگا، یہاں کوئی مقامی نہیں رہتا، البتہ ڈویژن کے پٹھان نگر کی گلی نمبر7 کے آخر میں ایک بلتی ''اکیلا''رہتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 732176
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش