0
Saturday 23 Jun 2018 16:43

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائیگا!

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائیگا!
تحریر: عظمت علی
Rascov205@gmail.com

گذشتہ ایام کے مقابل آج لوگوں نے اس قدر ترقی کے زینے طے کر لئے ہیں کہ موبائل ٹیبلیٹ، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کی صورت میں دنیا مٹھی میں سمٹ کر آگئی ہے۔ دور حاضر کا انسان روزانہ صبح سویرے اٹھتے ہی اخبار کا مطالعہ کرتا ہے۔ جس میں ظلم، ظالم، مظلوم اور قتل، قاتل، مقتول کے نت نئے چہرے نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ ان تمام واقعات کی مشترکہ روداد غم یہ ہوتی ہے کہ ان میں معصوم مسلمان مرد و عورت اور بچوں کو ظلم کو نشانہ بنایا جانا واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ قابل تعجب بات یہ ہے کہ اس سفاکانہ کارنامے کو بروئے کار لانے والے دشمن عناصر نے مسلمانوں کا حلیہ اپنا لیا ہے اور اپنی شناخت ایک متدین اور حقیقی مسلمان کی حیثیت سے کراتے ہیں جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ سانپ بھی مر جائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے! جب ان مجرموں کو اپنے کئے کی سزا نہ ملی اور مسلمان دشمن نہیں بلکہ انسان دشمن ایجنسیوں نے ان کو جنگی اسلحہ اور دیگر تمام وسائل زندگی فراہم کئے تو ان کی جسارتیں اور جوان ہوگئیں۔ جس کے چلتے ان درندہ صفت لوگوں نے مسجد، مندر، گرجا گھر، عزاخانہ، مقدس روضوں اور مذہبی مقامات کی برملا توہین کرکے عالم انسانیت کے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہے۔

آج سے تقریبا 93 برس قبل 8 شوال المکرم 1344ھ بمطابق 1925/1926ء میں آل سعود نے بنی امیہ و بنی عباس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خاندان نبوت و عصمت کے لعل و گہر کی قبروں کو جنت البقیع (مدینہ منورہ) اور اسی سال جنت المعلی (مکہ معظمہ) میں ویران کرکے اپنے اس بغض و عداوت کا ثبوت دیا، جو صدیوں سے ان کے سینوں میں کروٹیں لے رہا تھا۔ چوری کے بعد سینہ زوری کا عالم یہ ہوا کہ ان کے زرخرید غلاموں نے یہ فتوٰی صادر کیا کہ قبر پر سائباں، چھت، گنبد، مینار اور قبور و حرم بنانا اور اس کی زیارت کرنا حرام ہے جبکہ قرآن مجید کا صریح بیان ہےکہ "و من یعظم شعائراللہ فانھا من تقوی القلوب" اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقوٰی کا نتیجہ ہو گا۔ (حج 32) ام قیس بنت محض کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں رسول خدا کے ہمراہ بقیع پہونچی تو آپ نے فرمایا اس قبرستان سے ستر ہزار افراد محشور ہوں گے جو بغیر حساب و کتاب داخل بہشت ہوں گے۔ نیز ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کے مانند دمک رہے ہوں گے۔ (صحیح بخاری جلد 4، حدیث 4، سنن نسائی، جلد 4، حدیث 91، سنن ابن ماجہ جلد 1، صفحہ 493)

اگر بفرض محال مذکورہ فتوٰی کو تسلیم کرلیں تو اس کا یہ مطلب ہوگاکہ 1115ھ سے پہلے جہاں جہاں بھی قبور کی زیارت، احترام، تعمیر و مرمت ہوئی وہ سب کفر و شرک کے زمرے میں شامل تھا یعنی اس کا کھلا ہوا مفہوم یہ ہوا کہ محمد ابن عبدالوہاب سے قبل گذشتہ تمام علماء اسلام غیر اسلامی و حرام افعال میں ملوث تھے جبکہ بات از لحاظ عقل و منطق بالکل بعید نظر آتی ہے۔ آل سعود کی یہ کارستانیاں کہ عراق اورشام سے حج و عمرہ کی انجام دہی کی خاطر تشریف لانے والوں پر پابندی عائد کرنا اور سعودی عرب میں مقیم حضرات پر یہ دباؤ کہ وہابیت قبول کرو ورنہ جلا وطن کر دیئے جاؤ گے۔ جس کے باعث ہزاروں مسلمان ان کے مظالم سے تنگ آ کر حجاز کو الوداع کہنے پر مجبور ہو گئے۔ مقامات مقدسہ کی بےحرمتی کرنا کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ سیاہ کارنامے صدیوں کا سفر کر چکے ہیں لیکن چونکہ آج میڈیا کا دور  ہے اس سبب سے اگر دنیا کے کسی بھی گوشہ و کنار میں دہشت گردانہ واردات ہوتی ہے تو اس کی خبریں لمحوں میں جنگل کی آگ کی مانند پھیل جاتی ہے۔

مثلاً 2013ء میں صحابی رسول اکرم جناب حجر ابن عدی کی قبر مطہر کو سلفی گروہ نے مسمار کرکے جب ان کے تروتازہ جسم اطہر کی تصویریں سوشل میڈیا پر شائع کیں تو لمحوں میں اس دردناک خبر نے پوری دنیا میں غم و آلام کی فضا قائم کردی۔ لوگوں نے ان کے اس وحشیانہ عمل پر صدائے احتجاج بلند کرکے رسول اعظم اور ان کے اصحاب باوفا سے اظہار محبت کا ثبوت پیش کیا۔ اسی طرح 2014ء میں جب ان سلفی وہابی گروہ نے انبیاء ما سبق جناب یونس اور جناب شیث علیہماالسلام کے مزارات پر دہشت گردانہ حملہ کیا تو اس المناک واقعہ کی خبر پورے عالم میں جا پہونچی۔ پوری دنیا کے حریت پسند افراد نے اس شیطانی عمل کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور مسلم و غیر مسلم نے ایک عظیم پیمانہ پر احتجاجی جلوس بھی نکالا۔ المختصر! یہ سلسلہ روز ازل سے جاری و ساری ہے مگر جس کروفر سے اس ظالمانہ روش کو اختیار کیا گیا اسی شدت سے مظلومیت میں نکھار پیدا ہوتا گیا اور پھر ان مظالم کا اختتام ظالم کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوئی جس کے بعد ظلم و ظالم دونوں پوری دنیا میں رسوائے زمانہ ہوئے اور یہ ہونا ہی تھا کیوں کہ 
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

 
خبر کا کوڈ : 732940
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش