0
Thursday 12 Jul 2018 18:08

محبت اہلبیت (ع) میں ٹکڑوں میں تقسیم ہونیوالے نوجوان کی کہانی

محبت اہلبیت (ع) میں ٹکڑوں میں تقسیم ہونیوالے نوجوان کی کہانی
رپورٹ: سید عدیل عباس زیدی

گذشتہ دنوں جنت نظیر وادی ضلع کرم کے صدر مقام پاراچنار کے احباب کے پاس جانے کا اتفاق ہوا، وہاں ایک دوست سید ساجد حسین کاظمی کے ہمراہ شہر کے گردونواح میں ہی موجود تھے، برادر ساجد حسین نے کہا کہ یہاں نزدیک ہی شہدائے ملت جعفریہ کا قبرستان ہے، وہاں چلتے ہیں۔ ان عظیم شہداء کیساتھ دلی قربت رکھنے اور ناموس، وطن کی مٹی اور اہلبیت (ع) سے محبت کی خاطر قربان ہونے والے قوم کے ان سپوتوں کا سن کر فوراً ان کی تربت پر جانے کی حامی بھرلی۔ جب قبرستان پہنچے تو وہاں ایک عجیب سا منظر تھا، چند خواتین اپنے پیاروں کی قبروں پر بیٹھی آہوں اور سسکیوں کیساتھ دعا اور انکی روحوں کیساتھ سرگوشیاں کر رہی تھیں، کچھ بچے نظر آئے، جو حالات سے بے خبر قبروں کے درمیاں پھتروں سے کھیل رہے تھے، کچھ بچے اپنی کمسنی کیوجہ سے اس احساس کو چھونے سے بھی قاصر تھے کہ یتیمی کیا ہے، شائد انہیں ابھی معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کا بابا اب کبھی بھی واپس نہیں آئے گا، شائد ان کی ماں یا دادی روز رات کو انہیں یہ کہہ کر سلا دیتی ہوگی کہ بابا آپ کیلئے ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں، وہ وہاں سے بہت سارے پیسے کما کر لائیں گے، بعض مرتبہ شائد یہ ننھے پھول یہ سمجھ جاتے ہوں گے، لیکن اپنی فطرت کی پیروی کرتے ہوئے بعض اوقات شائد یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہوں گے کہ ہمیں پیسے نہیں چاہئے، ہمیں بس بابا سے ملنا ہے، پرنم آنکھوں کو پونچھتے ہوئے شائد ماں اور دادی انہیں سینے سے لگا لیتی ہوگی اور زبان پر شائد یہ لفظ نہ لاتے ہوئے دل میں کہتی ہوگی کہ بیٹا اب تیرا باپ کبھی نہیں آئے گا۔

اسی قبرستان میں ایک قبر پر نظر پڑی، جہاں 70 سے 75 سالہ ایک بوڑھا شخص ٹافیوں کا ایک پیکٹ لئے خاموش بیٹھا تھا، جو کوئی اس کے قریب سے گزرتا، وہ اسے دو ٹافیاں ہاتھ میں تھما دیتا اور کہتا کہ میرے بیٹے کیلئے دعا کرنا۔ برادر سید ساجد حسین نے رہنمائی کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بوڑھا شخص اپنے 17 سالہ شہید بیٹے ساجد حسین کی قبر پر بیٹھا ہے، اس نوجوان کو 2008ء میں ظالم و وحشی درندے طالبان نے صدہ کے مقام پیر قیوم پر دیگر 5 افراد کے ہمراہ ذبح کرنے کے بعد جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے شہید کر دیا تھا، اس بوڑھے باپ کی 8 بیٹیاں ہیں اور یہ شخص ہر روز بلاناغہ اپنے بیٹے کی قبر پر اسی طرح آکر بیٹھ جاتا ہے۔ جیسے ہی برادر ساجد حسین نے ایک منٹ کے اندر یہ مختصر کہانی سنائی تو میرے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین ہی نکل گئی ہو۔ آنکھیں اسی بوڑھے باپ پر ٹک گئیں، ساجد حسین نے کہا کہ آئیں آپ کو اس سے ملواتا ہوں۔ میری اس باپ کے پاس جانے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی، سوچ رہا تھا اس باپ کا کیسے سامنا کروں گا، جس کا وہ جوان بیٹا اس بیدردی سے قتل کر دیا گیا، جیسے جانوروں کو بھی ذبح نہیں کیا جاتا، ان 8 بہنوں کی آج بھی کیا کیفیت ہوگی، جنہوں نے اپنے اس پیارے بھائی کے سر پر سہرا سجانے کے خواب دیکھے ہوں گے۔ کیسے اس باپ سے ملوں گا۔؟ اگر اس نے یہ کہہ دیا کہ میرے گلشن کو اجڑے 10 سال ہوگئے ہیں، تو آج مجھے دلاسہ دینے آیا ہے۔

بہرحال بوجھل قدموں کے ساتھ اس بوڑھے باپ کی طرف بڑھے، مصافحہ کرنے کیساتھ ہی میری وہ ہمت جو میں نے 2 منٹ کے مختصر عرصہ میں بھرپور کوشش کرکے بنائی تھی کہ کہیں اس باپ کو میری وجہ سے مشکل نہ ہو، جواب دے گئی۔ ساجد بھائی نے میرا تعارف کرایا، اس نے دعا دی۔ میرے الفاظ میرا ساتھ دینے سے قاصر تھے، اسی دوران برادر ساجد نے میری خاطر اس بوڑھے مگر پرعزم باپ جس کا نام محبوب علی تھا، سے اسکے بیٹے کی شہادت کے حوالے سے دریافت کیا تو اس باپ کی آنکھیں پرنم ہوگئیں، محبوب علی کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا ایک ٹرک کیساتھ کنڈیکٹر تھا، 2008ء میں جنگ کے دنوں میں راستہ بند ہونے کیوجہ سے کافی ایام سے پشاور میں تھا، ایک دن اسے غلط اطلاع ملی کہ راستہ کھل گیا ہے، وہ اس ٹرک کیساتھ پاراچنار کیطرف روانہ ہوا، اس نے پشاور سے روانگی سے قبل گھر رابطہ کیا اور بہنوں سے پوچھا کہ میں آپ لوگوں کیلئے کیا کیا تحفے لاوں، بہنوں نے برملا کہا کہ ہمیں کچھ نہیں چاہئے، ہماری آنکھیں صرف تمہیں دیکھنے کو ترس رہی ہیں، ساجد کی والدہ نے بھی کہا کہ تم بس خیر خیریت سے پہنچ جاو، یہی ہمارا تحفہ ہے۔ بہرحال ساجد ٹرک کیساتھ پشاور سے روانہ ہوا، جب انکا کانوائے کرم ایجنسی کے علاقہ صدہ پہنچا تو کانوائے کو وہاں روک لیا گیا اور مسافروں کو دہشتگردوں نے نیچے اتار لیا، جس کے بعد ایک ایک کرکے 6 افراد کو شہید کیا، جب کافی دیر گزر جانے کے بعد ساجد کا گھر والوں کو فون نہیں آیا تو اسکی بہن نے ساجد کے نمبر پر فون کیا، اس بدقسمت بہن کو اس وقت معلوم نہیں تھا کہ اسکی اور اسکے تمام گھر والوں کی دنیا اجڑ چکی ہے۔

اسی اثنا میں ایک شخص نے فون اٹینڈ کیا اور کہا کہ تمہارا بھائی میرے سامنے خون میں لت پت پڑا ہے اور اللہ کو پیارا ہوچکا ہے۔ یہ سن کر ساجد کی بہن بہوش ہوگئی۔ محبوب علی نے مزید بتایا کہ اس کے بعد ساجد کا نمبر بند ہوگیا اور پھر ہمیں کسی دوسرے نمبر سے کال آئی کہ ہم نے تیرے بیٹے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے ہیں، اسی طرح ایک نہیں 60 سے زائد نمبروں سے ہمیں بار بار کالیں کی گئیں اور وہ قہقہے لگاتے ہوئے کہتے کہ تیرے بیٹے کی بارات تیار ہے، وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکا ہے، آجاو اسے لے جاو۔ محبوب علی کا کہنا تھا کہ میری مشکلات اور دکھ بی بی زینب (س) کے دکھ و تکالیف سے زیادہ تو نہیں، میرا بیٹا شہزادہ علی اکبر (ع) و شہزادہ اصغر (ع) و قاسم (ع) سے بڑھ کر تو نہیں۔ میں نے وہ حالات تو نہیں دیکھے جو کربلا میں ان پاک ہستیوں نے دیکھے تھے، ہمارا تو سب کچھ قربان اہلبیت (ع) پر۔ میں یہ سب سر جھکائے سن رہا تھا، سوچ رہا تھا کہ اس راہ حق پر چلتے ہوئے میرا باپ بھی زخمی ہوا اور ایک ٹانگ سے معذور بھی۔ میں سوچتا تھا کہ میرے باپ اور میرے خاندان نے شائد محبت اہلبیت (ع) میں کافی دکھ اٹھائیں ہوں گے، میرے اور میرے خانوادے کی تکالیف تو اس بوڑھے باپ اور اسکے گھر والوں کے مقابلہ میں سمندر کے سامنے قطرے کی مانند ہیں۔ 10 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ساجد کا بوڑھا باپ روزانہ اپنے شہید بیٹے کی قبر پر بے بسی کی تصویر بن کر آبیٹھتا ہے، اپنے لعل کیساتھ سرگوشیاں کرتا ہے، کسی سے کچھ نہیں کہتا۔

میں سوچتا ہوں کہ اس باپ کا حوصلہ کتنا بلند ہے کہ وہ اپنے لخت جگر کو آج بھی ایک لمحے کیلئے بھی نہیں بھلا سکا، لیکن آج بھی زندہ ہے، وہ اہلبیت (ع) پر اپنے اس بیٹے کے قربان ہونے پر راضی ہے، جسکو وہ ہر لمحہ یاد رکھتا ہے، تو اس شخص کی اہلبیت (ع) سے کس قدر محبت اور عشق ہوگا۔ میرے جذبات اس وقت میرا مکمل طور پر ساتھ چھوڑ چکے تھے، میں مزید اس باپ کی درد بھری کہانی سننے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا، شائد اب کلیجہ پھٹنے کے قریب تھا، بات کا رخ موڑنے کی کوشش کی۔ میری کوشش تھی کہ جتنی جلدی ہوسکے، اب ہم یہاں سے اٹھ جائیں، برادر ساجد میری آنکھوں کی بات سمجھ گئے، ہم نے محبوب علی کو سینے سے لگ کر اجازت طلب کی، انہوں نے بے پناہ دعاوں کیساتھ رخصت کیا، قبرستان سے باہر آتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ تو ایک شہید اور ایک گھر کی کہانی تھی، پاراچنار میں نہ جانے کتنے ایسے گھرانے ہیں، جہاں ساجد جیسے جوانوں کے لاشے اٹھے، محبوب علی جیسے کتنے بوڑھے باپ اسی طرح اپنے بیٹوں کی قبروں پر بے بسی کی تصویر بن کر بیٹھتے ہوں گے، کتنی ہی بہنیں ساجد جیسے اپنے بھائیوں کی راہیں تکتی ہوں گی، کتنی ہی ماوں کو آج بھی ساری ساری رات اپنے لخت جگر کو یاد کرتے کرتے گزر جاتی ہوگی۔ پاراچنار وہ سرزمین ہے، جہاں کے باسیوں نے ہزاروں جنازے اٹھائے ہیں، لیکن آج تک ریاست کیخلاف نہ کوئی قدم اٹھایا اور نہ ہی وطن سے خیانت کی، دہشتگردوں کا مردانہ وار مقابلہ کرکے پاکستان کو محفوظ کیا، پاراچنار کے شہداء کو لاکھوں سلام۔
خبر کا کوڈ : 737415
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش