0
Monday 16 Jul 2018 21:20

حلقہ این اے 251 کراچی، ایم کیو ایم، ایم ایم اے اور پی ایس پی میں کانٹے کا مقابلہ

حلقہ این اے 251 کراچی، ایم کیو ایم، ایم ایم اے اور پی ایس پی میں کانٹے کا مقابلہ
رپورٹ: ایس حیدر

شہر قائد کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 251 میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ کراچی کا حلقہ این اے 251 ضلع غربی کا سب سے بڑا حلقہ ہے، جس میں سندھ اسمبلی کی 3 نشستیں شامل ہیں۔ این اے 251 میں رجسٹرڈ ووٹرز 4 لاکھ 5 ہزار 652 ہیں، جس میں مرد ووٹرز 2 لاکھ 39 ہزار 849 اور خواتین ووٹرز ایک لاکھ 65 ہزار 803 شامل ہیں۔ حلقے میں اورنگی ٹاؤن، مومن آباد سب ڈویژن، چشتی نگر، غازی آباد، بلال کالونی، اسلام چوک، مدینہ کالونی، محمد نگر، گبول کالونی، حنیف آباد، ہریانہ کالونی، آزاد نگر، مجاہد آباد، دادا نگر اور بلوچ گوٹھ شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں سے قبل یہ حلقہ این اے 241 اور 242 کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھا۔ اگر ہم گزشتہ عام انتخابات کا جائزہ لیں تو 2013ء کے الیکشن میں ایم کیو ایم کے محبوب عالم نے این اے 242 سے 1 لاکھ 66 ہزار 746 ووٹ لیکر پہلی پوزیشن حاصل کی، جبکہ تحریک انصاف کے اکرم خان 10 ہزار 800 ووٹ لیکر دوسرے، مسلم لیگ (ن) کے نجیب اللہ خان نیازی 9 ہزار 2 سو 59 ووٹ لیکر تیسرے اور جماعت اسلامی کے تاج محمد خان 5 ہزار 655 ووٹ لیکر چوتھے نمبر پر رہے۔ جماعت اسلامی نے دن ایک بجے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اسی طرح 2008ء میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر عبدالقادر خانزادہ 1 لاکھ 47 ہزار 892 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے، جبکہ پیپلز پارٹی کے آفاق خان نے 27 ہزار 294 ووٹ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کی، ان کے علاوہ کوئی بھی امیدوار قابل ذکر ووٹ نہیں لے سکا۔ 2002ء کے الیکشن میں اس حلقے سے ایم کیو ایم کے رؤف صدیقی 62 ہزار 690 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے، جبکہ ایم ایم اے کے تاج محمد خان 18 ہزار 299 ووٹ لیکر دوسرے اور پیپلز پارٹی کے محمد شاکر 6 ہزار 593 ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر رہے۔

چونکہ موجودہ این اے 252 میں سابقہ این اے 241 کے علاقے بھی شامل کئے گئے ہیں، اس لئے اس کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں۔ الیکشن 2013ء این اے 241 سے ایم کیو ایم کے سید اختر اقبال قادری نے 95 ہزار 8 سو 66 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی، جبکہ تحریک انصاف کے ڈاکٹر سعید آفریدی 27 ہزار 5 سو 37 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے، جماعت اسلامی کے محمد لئیق خان نے 14 ہزار 4 سو 37 ووٹ لئے، تاہم پولنگ جاری تھی کہ جماعت اسلامی نے دن 1 بجے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مصباح العالم نے 11 ہزار 4 سو 23 ووٹ لیکر چوتھی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سید کرم درویش 7 ہزار 1 سو 50 لیکر پانچویں نمبر پر رہے۔ عام انتخابات 2008ء میں ایم کیو ایم کے سید اقبال اختر قادری 93 ہزار 6 سو 17 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے، جبکہ اے این پی کے زربیل سید 36 ہزار 2 سو 36 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے، جبکہ پیپلز پارٹی کے محمد شاکر نے 11 ہزار 5 سو 44 ووٹ لیکر تیسری پوزیشن حاصل کی، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا۔ الیکشن 2002ء کے انتخابی نتائج حیران کن ہیں، جب متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے جماعت اسلامی کے امیدوار محمد لئیق خان 26 ہزار 8 سو 12 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے، جبکہ ایم کیو ایم کے فیروز الدین نے 26 ہزار 3 سو 33 ووٹ لیکر دوسری، پیپلز پارٹی کے آفاق خان نے 6 ہزار 2 سو 64 ووٹ لیکر تیسری اور عوامی نیشنل پارٹی کے نعیم گل نے 5 ہزار 9 سو 53 ووٹ لیکر چوتھی پوزیشن حاصل کی۔

اس مرتبہ اس حلقے سے متعدد امیدوار سامنے آئے ہیں، جن میں ایم کیو ایم پاکستان کے امین الحق، ایم ایم اے کے محمد لئیق خان، پاک سرزمین پارٹی کے نہال ملک، تحریک انصاف کے محمد اسلم بھاشانی، پیپلز پارٹی کے جمیل ڈاہری، مسلم لیگ (ن) کے فہد شفیق اور دیگر شامل ہیں، تاہم اس حلقے میں اصل مقابلہ ایم کیو ایم، ایم ایم اے اور پی ایس پی کے درمیان متوقع ہے۔ ایم کیو ایم کے امیدوار امین الحق متحدہ کے بانی رہنماؤں میں سے ہیں، ایم کیو ایم کی اندرونی دھڑے بندی، بانی ایم کیو ایم الطاف حسین سے عیلحدگی اور متحدہ لندن کی بائیکاٹ مہم کا اثر اگر اس حلقے پر پڑے گا، اورنگی میں ایم کیو ایم کے سابق رہنماء سلیم شہزاد کا مضبوط ہولڈ تھا، سلیم شہزاد حال ہی میں لندن میں انتقال کرگئے، مگر اس سے قبل وہ اپنی سیاسی جماعت کا اعلان کر چکے تھے، اسی طرح ایم کیو ایم کے مقتول بانی رہنما عمران فاروق کا بھی اورنگی کے تنظیمی نیٹ ورک پر اثر و نفوذ تھا، دونوں ہی گروپ ایم کیو ایم کے خلاف ہیں، جس کے باعث ایم کیو ایم کے امین الحق کو ماضی کی نسبت یہاں سے کامیابی ملنا آسان نہ ہوگا، جبکہ پی ایس پی کے باعث اردو اسپیکنگ ووٹ، جو اس حلقے میں واضح اکثریت رکھتا ہے، تقسیم ہوگا، جس کا نقصان ایم کیو ایم امیدوار امین الحق ہوگا۔ پی ایس پی کے نہال ملک علاقے میں سماجی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں، تاہم ان کا انخصار اردو اسپیکنگ ووٹ پر ہوگا اور اگر پی ایس پی اردو بولنے والے ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو اس کا نقصان ایم کیو ایم کو پہنچنے گا، جبکہ اردو اسپینگ ووٹرز کی تقسیم سے یہ نشست ایم کیو ایم اور پی ایس پی دونوں کے ہاتھوں سے نکل سکتی ہے۔

ایم ایم اے امیدوار محمد لئیق خان ماضی میں 2002ء کے عام انتخابات میں سے یہاں سے الیکشن جیت چکے ہیں، وہ خاصے متحرک سیاسی و سماجی رہنما ہیں، انکا اس حلقے میں شخصی ووٹ بینک بھی ہے، جبکہ جماعت اسلامی بھی اچھا خاصا ووٹ رکھتی ہے، ایم ایم اے کی صورت میں انہیں اضافی ووٹ پڑے گا، اس لئے ان کی پوزیشن دیگر کی نسبت مضبوط ہے۔ اردو اسپیکنگ طبقے کا وہ ووٹر جو ماضی میں ایم کیو ایم کو ووٹ ڈالتا تھا، اس بار ووٹ ڈالنے کے موڈ میں نظر نہیں آرہا ہے، ان میں اکثر کا تعلق متحدہ لندن سے ہے، جو اپنے قائد الطاف حسین کے حکم پر الیکشن کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلا رہے ہیں، تاہم اگر ان کے ووٹ ڈالنے کی کوئی صورت بنی، تو یہ ووٹرز ایم کیو ایم یا پی ایس پی کے بجائے ایم ایم اے کے امیدوار کو ووٹ ڈال سکتے ہیں، تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ الطاف حسین کے بغیر ایم کیو ایم کے کسی بھی دھڑے کی کوئی حیثیت نہیں۔ اب تک مختلف سروے میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اردو اسپیکنگ حلقے ایم کیو ایم کے بعد جماعت اسلامی کو کراچی کی نمائندہ جماعت سمجھتے ہیں۔ اس لئے ایم کیو ایم کے انتشار کا سب سے زیادہ فائدہ جماعت اسلامی کے رہنما اور ایم ایم اے کے امیدوار لئیق خان کو ہوگا۔ اس حلقے میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، تاہم ان کا ووٹ بینک 10 سے 20 ہزار کے درمیان ضرور موجود ہے، لہٰذا فیصلہ کن مقابلہ ایم کیو ایم کے امیدوار لئیق خان، ایم ایم اے کے امین الحق اور پاک سرزمین پارٹی کے نہال ملک کے درمیان ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 738218
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش