2
7
Thursday 19 Jul 2018 02:49

پاکستان، ایران فوجی تعلقات میں بہتری کی امید؟

پاکستان، ایران فوجی تعلقات میں بہتری کی امید؟
تحریر: عرفان علی

پاکستان ایران دوستانہ تعلقات کے حامیوں کے لئے یہ بہت اچھی خبر تھی کہ بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی دعوت پر ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد حسین باقری کی قیادت میں اعلیٰ سطحی فوجی وفد نے پاکستان کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا۔ کہا جا رہا ہے کہ انقلاب اسلامی کے بعد سے ایرانی مسلح افواج کے سربراہ کا یہ پہلا دورہ پاکستان تھا۔ نومبر 2017ء میں پاکستان کے سپہ سالار نے ایران کا دورہ کیا تھا۔ یوں سپہ سالار سطح کے یہ تعلقات دونوں پڑوسی برادر اسلامی ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پڑوس میں انقلاب اسلامی کے وقت پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ تھا۔ امریکی اتحادی ہونے کے باوجود وہ ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کے حامی تھے اور دنیا بھر میں موجود سارے ممالک میں سب سے پہلے پاکستان نے انہی کی فوجی حکومت کے دور میں انقلاب اسلامی کے بعد بننے والی حکومت کو ملت ایران کی قانونی حکومت تسلیم کیا تھا۔ حتیٰ کہ ان پر یہ الزام بھی لگا کہ امریکا نے جو اسٹنگر میزائل سوویت یونین سے جنگ کیلئے افغان مجاہدین کے لئے بھیجے تھے، ان میں سے بہت سے ایران کی انقلابی حکومت کو فراہم کئے گئے تھے اور اسی وجہ سے امریکہ جنرل ضیاء پر خفا بھی تھا۔ جنرل ضیاء الحق بھی ایران کے دورے پر جایا کرتے تھے۔ ان کے جانشین جنرل مرزا اسلم بیگ نے 1990ء میں اور انکے بعد جنرل آصف نواز نے اکتوبر 1991ء میں تہران کے دورے کئے تھے۔ 1990ء کے عشرے میں بعد ازاں بظاہر اعلیٰ سطح کے دوروں کا سلسلہ رک گیا تھا لیکن ایران کے فوجی کیڈٹس تربیت کے لئے پاکستان آیا کرتے تھے اور دہشت گردی کے ایک واقعہ میں جب ایرانی کیڈٹس کو نشانہ بنایا گیا، تب سے یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔

یوں فوجی نوعیت کے تعلقات میں جو گرمجوشی شاہ ایران کے دور میں پائی جاتی تھی، وہ بتدریج ختم ہوگئی تھی بلکہ یوں کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ غیر اعلانیہ و غیر رسمی سرد جنگ کی کیفیت محسوس کی جا رہی تھی، حالانکہ جولائی 1989ء میں پاکستان اور ایران کے مابین ایک نیا دفاعی ایگریمنٹ ہوا تھا، جس میں دونوں ممالک نے فوجی ٹینک مشترکہ طور بنانے کے امکان پر بھی اتفاق ظاہر کیا تھا۔ غالباً 1994ء میں پاکستان نے ایران کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں بھی کی تھیں۔ اس کے باوجود افغانستان کے حوالے سے دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی کے اختلاف نے شدت اختیار کرلی تھی، جو طالبان دور حکومت میں اپنی انتہاء کو پہنچ چکے تھے۔ افغانستان میں ایرانی سفارتکاروں کو شہید کیا گیا۔ اس سے قبل پاکستان میں بھی دو ایرانی سفارتکاروں کو لاہور اور ملتان میں دہشت گرد شہید کرچکے تھے۔ ایرانی سفارتکاروں، کیڈٹس اور کلفٹن کے آہنی پل کو تعمیر کرنے والے ایرانی انجینیئرز کو دہشت گردی کا ہدف تکفیری مائنڈسیٹ کے تحت بنایا گیا تھا، یعنی یہی سوچ جو آجکل داعش، القاعدہ وغیرہ کے عنوان سے پوری دنیا میں بدنام ہوچکی ہے، یہی بدنام زمانہ تکفیری سوچ اپنی موجودہ تنظیمی یا گروہی شکل میں 1980ء کے عشرے کے وسط میں پاکستان ہی میں ایجاد ہوئی اور 1990ء کے عشرے میں اس مائنڈ سیٹ کے تحت جو کارروائیاں کی گئیں، انکا بنیادی ہدف پاکستان کو ایران سے دور کرنا تھا۔ اسکی داخلی وجوہات پر متعدد بار لکھا جاچکا ہے، اس لئے فی الحال اسکو یہاں بیان کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ غیر جانبدار پاکستانی خواص و مدبرین کی نظر میں پاکستان کی افغان پالیسی کی وجہ سے پاکستان متعدد مسائل کا شکار ہوا اور اسے سوائے نقصانات کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔

امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001ء یعنی نائن الیون کے واقعات کے بعد ملبہ پاکستان کی حکومت اور افغانستان کے طالبان پر ڈالا گیا۔ افغانستان میں امریکہ نے اتحاد بناکر جنگ مسلط کر دی اور تاحال فوجی اڈے بناکر یہاں قیام پذیر ہے، لیکن حیرت انگیز و دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی آج بھی نہ صرف افغانستان کے اندر پہلے سے بڑھ چکی ہے بلکہ پاکستان تک پھیل چکی ہے اور یہ سب کچھ امریکہ کی موجودگی کے دوران ہوا ہے! حتیٰ یہ کہ امریکہ کی فوجی موجودگی کے ہوتے ہوئے داعش کی قیادت شام و عراق سے افغانستان منتقل ہوگئی ہے۔ یہ اہم خبر ایران کے انٹیلی جنس ادارے نے پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں سے شیئر کی۔ پچھلے ہفتے داعش کے خطرے سے نمٹنے کے لئے ایران، روس اور چین کے انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان نے اسلام آباد میں پاکستان کے انٹیلی جنس سربراہان کے ساتھ مشترکہ اجلاس منعقد کیا۔ روس کے حکومتی عہدیدار نے روس کے سرکاری خبررساں ادارے سے بات چیت میں اس خبر کی تصدیق کی اور بعد ازاں پاکستان کے حکام نے ذرایع ابلاغ کے نمائندگان کے پوچھنے پر تصدیق کی کہ چار ملکی انٹیلی جنس سربراہی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں ایران کے انٹیلی جنس سربراہ کی شرکت بہت ہی زیادہ اہمیت کی حامل تھی اور یہ خبر پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی۔ اس اجلاس میں ایران کی شرکت پاکستان اور ایران کے مابین عسکری شعبے میں تعلقات کی نئی سمت کی جانب ایک اہم اشارہ تھی۔ اس تناظر میں جنرل باقری کا پاکستان آنا، ایران کی طرف سے ایک اشارہ ہے کہ پاکستان کے فوجی سربراہ کا دورہ ایران اور اسلام آباد میں ایرانی انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کی میزبانی سے پاکستان نے فوجی تعلقات میں بہتری کی جو خواہش ظاہر کی ہے، یہ جذبہ خیرسگالی یکطرفہ نہیں بلکہ ایران بھی دیدہ و دل فرش راہ کئے بیٹھا ہے۔

جنرل باقری نے پاکستان میں طاقت کی علامت سمجھے جانے والے ادارے کے ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو میں جنرل باجوہ سے اور انکی قیادت میں فوجی وفد سے مذاکرات کئے۔ صدر مملکت ممنون حسین، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل زبیر محمود حیات، پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی اور نگران وزیر خارجہ عبداللہ حسین ہارون سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ایرانی فوجی وفد کو پاکستان کی افغانستان سے ملحق سرحد طورخم کا دورہ بھی کروایا گیا۔ ان اعلیٰ سطحی ملاقاتوں و مذاکرات میں دفاعی شعبے میں تعاون، سرحدی حفاظتی امور اور افغانستان سمیت پورے خطے کی امن و سلامتی کی صورتحال پر توجہ مرکوز رہی۔ فوجی تعلقات میں مزید وسعت و استحکام کے لئے ایران فوجی تعلیم و تربیت، پائلٹ کی تربیت، مشترکہ فوجی مشقوں اور فوجی ساز و سامان کی صنعت کے شعبوں میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا اور اسکا تعاون حاصل کرنا چاہتا ہے۔ 16 جولائی بروز پیر اس اعلیٰ سطحی ایرانی فوجی وفد کے دورہ پاکستان پر اس حقیر کو اظہار خیال کے لئے سحر اردو ٹی وی کے سیاسی ٹاک شو ’’ انداز جہاں‘‘ میں مدعو کیا گیا۔ تہران اسٹوڈیو میں میزبان علی عباس رضوی و تجزیہ نگار گلشن عباس نقوی صاحبان براجمان تھے۔ اس پروگرام میں بھی اس ناچیز نے کم و بیش یہی نکات عرض کئے تھے، جو اگلے دن یعنی منگل کے روز صدر مملکت ممنون حسین سے ایرانی فوجی وفد کی ملاقات میں زیر غور آئے۔ میرے خیال میں ایران اور پاکستان دونوں فوجی تعلقات پر فوکس کرنے کے لئے تھنک ٹینکس قائم کریں، جن کا کام ہی یہ ہو کہ وہ وقتاً فوقتاً فوجی شعبوں میں دونوں ممالک کے ممکنہ تعاون پر ماہرانہ رائے دیں، جو ان اداروں میں بھی اور انکی سیاسی قیادت و اداروں میں زیر بحث آئے اور متعلقہ آئینی اداروں سے بھی انکی منظوری لے کر اسے باقاعدہ پالیسی کی شکل دی جائے۔

فوجی قیادت کی سطح کے دورے پاکستان اور ایران کے فوجی تعلقات میں بہتری کا ایک اشارہ ضرور ہیں لیکن معاملہ نشستند، گفتند و برخاستن تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ ٹھوس اور عملی اقدامات کے ذریعے نئے دفاعی و فوجی معاہدے کرنے کی ضرورت ہے۔ مفاہمت کی یادداشتوں تک یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیئے۔ فوجی ٹینک ہی نہیں بلکہ فوجی ہیلی کاپٹر و جہاز و میزائل ٹیکنالوجی بنانے کے شعبوں میں بھی دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کرنے چاہئیں اور دو پڑوسی ممالک صرف ایگریمنٹ تک معاملات کو محدود نہ رکھیں بلکہ ٹریٹی (Treaty)کی سطح کا جامع دفاعی و سلامتی کا معاہدہ ہونا چاہئے۔ یہ پاکستان کی فوجی قیادت کے لئے کوئی آسان کام نہیں ہوگا کیونکہ انقلاب اسلامی کے بعد سے اور خاص طور جنرل مرزا اسلم بیگ کے دور سے امریکہ نے پاکستان کی فوجی قیادت کو ڈھکے چھپے الفاظ میں اور آف دی ریکارڈ اور پس پردہ ملاقاتوں میں ایران سے دوری اختیار کرنے کا کہہ رکھا ہے۔ امریکہ کو پاکستان اور ایران کی قربتیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔ اس لئے پاکستان اور ایران کے فوجی تعلقات میں بہتری کی امید تو ہے، لیکن یہ بہتری اسی صورت ممکن ہوسکے گی، جب پاکستان امریکی بلاک اور اسکے طفیلیوں کی پاکستان کی آزادی و خود مختاری میں مداخلت کے لئے زیرو ٹالرینس کی غیر مبہم اور دو ٹوک پالیسی وضع کرے۔ اس کے لئے پاکستان ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر اپنے حصے کا کام مکمل کرلے، تاکہ امریکی بلاک سے آزادی ثابت ہوسکے۔

اگر پاکستان کی فوجی قیادت نے واقعی امریکی بلاک سے نکلنے اور پیراڈائم شفٹ کی منزل تک پہنچنے کی ٹھان لی ہے تو پاکستان و ایران کے فوجی تعلقات میں روز بروز بہتری نظر آئے گی، ورنہ امریکی دھمکیوں یا بلیک میلنگ کے آگے ڈھیر ہونے کی صورت میں پاکستان حقیقی معنوں میں نہ تو پائیدار امن حاصل کر پائے گا، نہ ہی خوشحالی، کیونکہ امریکہ کی دوستی میں گذارے گئے پچھلے سات عشروں نے پاکستان کو تقریباً بانوے ارب ڈالر غیر ملکی قرضوں کا مقروض بنا دیا ہے اور اگلے سال یہ غیر ملکی قرضے 103 بلین ڈالر تک جا پہنچیں گے۔ ایران پاکستان کی حقیقی تزویراتی گہرائی ہے۔ 1965ء کی جنگ کے وقت تہران میں ایرانی پاکستان کی حمایت کے لئے سڑکوں پر جمع تھے اور دنیا میں کسی دوسرے ملک میں یہ کیفیت نہیں تھی، خاص طور سعودی عرب اور امریکہ میں کوئی ایک آدمی بھی پاکستان کی حمایت میں سڑک پر نہیں نکلا تھا۔ 1971ء کی جنگ میں پاکستان کے طیاروں کو لینڈنگ کی اجازت ایران نے دی تھی اور پاکستان کی اپنے فوجی اڈے بھی غیر محفوظ تھے۔

ایک دفعہ پھر نوٹ فرما لیں کہ امریکہ کا بحری بیڑہ خلیج بنگال میں گھڑا ہوا تھا، لیکن بھارت کے خلاف وہاں سے کوئی گولی تک نہیں چلائی گئی، لیکن پاکستان کو اسلحے کی سپلائی صرف اور صرف ایران سے ہوئی تھی جبکہ پاکستان کی اپنی کراچی بندرگاہ کے سامنے سمندری حدود میں بھارت نے ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ پاکستانی جانتے ہیں کہ ایرانی عوام امریکیوں سے شاہ ایران کے دور حکومت میں بھی نفرت کرتے تھے اور آج بھی نفرت کرتے ہیں، کیونکہ امریکی ایران کے استحصال میں ملوث رہے ہیں۔ ایرانیوں نے تو امریکی سامراج کو ذلیل و رسوا کر دیا اور اس کے مقابلے پر کامیاب قیام کرکے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہے، اب پاکستان کی باری ہے کہ وہ بھی پاکستان اور اس خطے میں امریکی بلاک کی سازشوں کو بے نقاب کرے اور اسے ناکام بھی بنائے۔ جب تک امریکہ اس خطے میں فوجی موجودگی اور سامراجی عزائم کے ساتھ موجود ہے، افغانستان و پاکستان سمیت کسی بھی ملک کی امن و سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
(نوٹ: پاکستان و ایران تعلقات ایک وسیع موضوع ہے۔ قارئین کی دلچسپی رہی تو اسکی ایک مختصر تاریخ لکھی جاسکتی ہے۔)
خبر کا کوڈ : 738770
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سرفراز
Pakistan
بہت معلوماتی... ماشاءاللہ عرفان بھائی جاری رکھیں
Pakistan
شکریہ.
ہماری پیشکش