0
Thursday 19 Jul 2018 16:11

حلقہ این اے 46 (پاراچنار) کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا(1)

حلقہ این اے 46 (پاراچنار) کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا(1)
تحریر: ایس این حسینی

حلقہ این اے 46 پاراچنار (اپر کرم) سے انتخابات میں دو درجن کے قریب امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ جن میں سے دو امیدوار یہاں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارٹی ٹکٹس پر الیکشن لڑ رہے ہیں، جبکہ دیگر افراد آزاد حیثت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ دو ماہ پہلے بندہ نے اسلام ٹائمز کے توسط سے تقریباً ان تمام امیدواروں کی سیاسی قد و قامت کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے اپنے قارئین گرامی کی نذر کیا تھا، تاہم اس وقت سیاسی صورتحال اتنی واضح نہیں تھی۔ ان نتائج میں اس وقت کافی حد تک تبدیلی واقع ہوچکی ہے۔ چنانچہ اس مرتبہ دو درجن میں سے صرف پانچ مضبوط ترین امیدواروں کا انتخاب کرکے قارئین کی خدمت میں انکا سیاسی گراف پیش کیا جا رہا ہے۔

1: سید اقبال میاں:
سید اقبال میاں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ جواں جبکہ پیشے کے لحاظ سے بزنس مین ہیں۔ پچھلی مرتبہ بھی تین اہم، معروف اور مضبوط امیدواروں میں سے ایک تھے۔ 2013ء کے الیکشن میں انہوں نے تقریبا 21663 ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی، تاہم اس مرتبہ انکی پوزیشن نسبتاً مضبوط دکھائی دے رہی ہے۔ جسکی کئی وجوہات ہیں۔ 
مثبت پوائنٹس:
1۔ اس مرتبہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں، جبکہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان واحد شخصیت ہیں، جنہوں نے گذشتہ سال ہونے والے دھماکوں کے بعد پاراچنار کے تاریخی دھرنے میں شرکت کی تھی۔ چنانچہ اگر عمران خان نے انتخابی مہم میں انکے حق میں جلسہ کیا، یا کم از کم ٹیلیفونک خطاب کیا تو انکی حمایت میں کئی ہزار ووٹرز کا اضافہ ممکن ہے۔
2۔ میاں خاندان کا اپنا ایک حلقہ مریداں اور ایک خاص ووٹ بینک ہے، اس میں کمی کی گنجائش نہایت کم جبکہ اس میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
3۔ شاہ فیمیلی اور اپنے حلقہ مریداں سے قطع نظر اقبال میاں دیگر حلقوں میں بھی کافی مقبولیت رکھتے ہیں۔ کرم ایجنسی کے کسی بھی شخص کو اسلام آباد میں کوئی مسئلہ درپیش ہوا ہو، اقبال میاں نے دیگر تعاون کے علاوہ اسے اپنے گھر میں بھی ٹھہرایا ہے۔ لہذا اس حوالے سے بھی انکو کافی ووٹ ملنے کی توقع ہے۔
4۔ پچھلی مرتبہ مرکزی جامع مسجد کے سابق پیش امام کی جانب سے ان کے مدمقابل امیدوار کی حمایت کیوجہ سے انکا پلڑا جو کچھ ہلکا رہا۔ اس مرتبہ انکے خلاف وہ پتہ استعمال نہیں ہو رہا۔ چنانچہ اس کا فائدہ بھی اقبال میاں کو حاصل ہوگا۔
5۔ اہلسنت کا زیادہ تر رجحان پی ٹی آئی کی جانب ہے۔ اہلسنت کا اس حلقے میں 20 ہزار سے زائد ووٹ ہے۔ اگرچہ اہلسنت سے بھی 2 امیدوار کھڑے ہیں اور انکے آپس میں کئی جرگے بھی ہوچکے ہیں، تاہم وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف رجحان، نیز اقبال میاں کی آزاد خیال طبیعت کی وجہ سے اہلسنت کی اکثریت انہی کی طرف ہی مائل ہے۔

منفی پوائنٹس:
درجہ بالا مثبت پوائنٹس کے ہوتے ہوئے اقبال میاں کو کچھ منفی پوائنٹس کا بھی سامنا کرنا پڑا رہا ہے۔
1۔ پٹھانوں کی اپنی ایک عادت اور روایت رہی ہے کہ ان میں اپنے قبیلے یا قریبی رشتہ دار کی ابھرتی شخصیت کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ تمام پٹھان بشمول شاہ فیملی کے اپنوں کی مخالفت کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو شاہ فیملی میں بھی بعض شخصیات ایسی بھی موجود ہیں، اقبال میاں کو جنکی مخالفت کا سامنا پڑ سکتا ہے۔ جیسے سید محمود میاں، منیر سید میاں اور سابق سینیٹر سجاد سید میاں وغیرہ۔ انکی حمایت سے شاید وہ محروم رہیں، جیسا کہ پچھلی مرتبہ بھی ایسا ہوا تھا۔ چنانچہ ان کی یا دیگر ایسے ہی افراد کی مخالفت کی صورت میں وہ دو ہزار سے لیکر 6 ہزار تک ووٹوں سے محروم رہ سکتے ہیں۔
2۔ پچھلی مرتبہ اپنے ذاتی تعلقات کے باعث انہیں مرکز مائل افراد کی حمایت بھی حاصل تھی۔ جبکہ اس مرتبہ ایسے افراد کی حمایت سے محروم ہیں۔ 
موجودہ پوزیشن: 
موجودہ حالات میں سید اقبال میاں کی پوزیشن پہلے اور دوسرے نمبر پر دکھائی دے رہی ہے۔

ابرار جان طوری: 
ابرار حسین جان طوری گاؤں کچکینہ کے ایک تعلیم یافتہ جوان ہیں۔ پچھلے کئی سال سے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ سیٹ جیتنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ مرکزی انجمن حسینیہ سے اپنے نام کی منظوری کی خاطر چند ماہ قبل منعقدہ شہید نواز عرفانی کی برسی کے موقع پر ان کے مزار کے لئے 10 لاکھ روپے جبکہ عید الفطر کے موقع پر مزار کے لئے ساجد طوری اور سینیٹر سجاد پر سبقت حاصل کرتے ہوئے 5 لاکھ کا عطیہ پیش کیا۔ ابرار جان طوری کی پوزیشن شروع میں کافی کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ تاہم اس وقت وہ پہلے یا دوسرے نمبر پر دکھائی دے رہے ہیں۔ خشک علاقوں جیسے کچکینہ، کراخیلہ، للمئے، بوڑکی میں تو انہیں واضح برتری حاصل ہے۔ اسکے علاوہ مالی خیل، ڈال، صدارہ، میرباخیل، نستی کوٹ، کونج علیزئی، شاخ دولت خیل، لقمان خیل اور شلوزان وغیرہ میں بھی ان کی پوزیشن کافی مستحکم ہے۔ اکثر دیہات میں ساجد طوری کے لئے کافی مشکل پیدا کر دی ہے۔ پچھلی مرتبہ کے برعکس اس مرتبہ امیدوار سید و غیر سید، میاں مرید و درے وانڈی اور مرکز و تحریک کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ ابرار جان، ساجد طوری کو اپنا اصل مدمقابل تصور کر رہے ہیں، چنانچہ انکا ہدف تنقید بیشتر وہی رہتا ہے۔ وہ ساجد طوری کو پیش نماز آغا نواز عرفانی کا دشمن قرار دیتے ہیںَ۔ انکے سیاسی جلسوں میں، ساجد طوری کو پیش نماز کو کرم سے نکالنے نیز اسے قتل کرنے کے لئے مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ ابرار جان کو سابق اہم مرکزی افراد جیسے  ملک ظاہر شاہ، سابق سیکرٹری انجمن حامد حسین، ہاشم حاجی وغیرہ کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم تحریک سے وابستہ سادات اور غیر سادات کی بھی ایک بڑی جماعت ان کے ساتھ ہے۔ شروع میں وہ تحریک سے وابستہ افراد خصوصاً سادات سے کنارہ کشی اختیار کیا کرتے تھے۔ تاہم پیش امام فدا مظاہری کی اتحاد پر مبنی پالیسی کی وجہ سے تمام امیدواروں نے آجکل اتحاد کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اس لعنت سے اجتناب کیا ہے۔ ہاں امیدواروں کا ایک دوسرے کو ہدف تنقید بنانا الگ بات ہے۔    
موجودہ پوزیشن:
علاقائی وفاداریوں کو مدنظر رکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ابرار جان کی پوزیشن پہلی یا کم از کم دوسری ہوسکتی ہے۔

سابق آئی جی سید ارشاد حسین:
علاقہ پیواڑ سے تعلق رکھنے والے سید ارشاد حسین نہ صرف کرم بلکہ فاٹا کے واحد ریٹائرڈ آئی جی پولیس ہیں۔ ارشاد صاحب نے دوران ملازمت کرم ایجنسی کے عوام کی بے لوث خدمت کی۔ کرم ایجنسی کے 400 سے زائد جوانوں کو پولیس میں ملازمت دلائی۔ لوئر اضلاع میں کسی قسم کی تکلیف کی صورت میں انہوں نے اہلیان کرم کی بھرپور خدمت کی۔ یہی وجہ تھی کہ 2013ء میں انتخابات کے موقع پر شہید نواز عرفانی کی جانب سے ساجد طوری کی بھرپور حمایت کے باوجود عوام نے انکی بے لوث خدمات کے بدلے میں ان کے بھائی ائر مارشل ریٹائرڈ سید قیصر حسین کو 30 ہزار سے کچھ زائد ووٹ دیئے تھے۔ 2018ء کے انتخابات کے لئے انکی ابتدائی تیاری نہایت سست اور ناقص تھی۔ چنانچہ رمضان میں راقم الحروف نے تجزیہ کرتے ہوئے انہیں کمزور امیدواروں کے زمرے میں شمار کیا تھا، تاہم اس وقت وہ بھی مستحکم اور مضبوط امیدواروں میں شمار کئے جا رہے ہیں، جس کی کچھ وجوہات ذیل میں ذکر کی جا رہی ہیں۔

1۔ سید قیصر حسین کے آنے کے بعد انکی پوزیشن مضبوط ہوگئی، کیونکہ سید قیصر اپنے بھائیوں میں ایک متحمل اور بردبار شخصیت ہیں۔ نیز گذشتہ سال پاراچنار میں ہونے والے تاریخی دھرنے کے موقع پر سید قیصر اپنی ذاتی کوششوں سے آرمی چیف باجوہ صاحب کو قائل کرکے پاراچنار لائے، جس کی وجہ سے انکی شخصیت کرم میں ایک بار پھر ابھر کر سامنے آگئی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ذاتی تعلقات اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ارشاد حسین کی پوزشن مضبوط کرلی ہے۔
2۔ سید قیصر کے آنے کے بعد ارشاد حسین نے انتخابی مہم تیز کر دی، چنانچہ رسائی نہ ہونے کی بنا پر جن لوگوں نے دیگر امیدواروں کے ساتھ کمپرومائز کیا تھا۔ رابطہ کرنے پر انکو دوبارہ منا گئے۔
3۔ اس دفعہ عوام کی ایک ذہنیت بنی ہوئی ہے، وہ دیکھتے ہیں کہ جو امیدوار لیڈ پر ہو، اسی کو ووٹ دیتے ہیں، جبکہ سید قیصر کو جیپ کا نشان الاٹ ہوا ہے۔ انتخابی نشان جیپ نے پورے ملک میں ایک تہلکہ سا مچایا ہوا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس نشان کے حاملین کو خفیہ قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔ چنانچہ ان کی کامیابی پر یقین یا کم از کم گمان غالب رکھتے ہوئے لوگوں کا رجحان ارشاد حسین کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔

مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر انکی پوزیشن پر منفی اثر پڑ سکتا ہے:
1۔ پولیس میں ایک اعلیٰ عہدے پر کام کرنے کی وجہ سے ارشاد صاحب، ایک ہمدرد اور قوم پرست شخص ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سخت مزاج کے مالک ہیں۔ عاجزی، ملنساری اور انکساری کی بجائے ملوکیتی ذہن کے مالک ہیں۔ کسی کا مشورہ سننے کی بجائے اکثر اپنی ہی بات پر اڑے رہتے ہیں۔ عوام الناس حتٰی کہ انکے قریبی دوست انکے ساتھ کسی قسم کی قانونی بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ چنانچہ عوام میں مقبولیت حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔
2۔ سابقہ الیکشن کے دوران انکی مخالفت کی وجہ سے مرکز مائل ووٹرز کی اکثریت کی حمایت سے اس مرتبہ بھی محروم رہیں گے۔
3۔ اس مرتبہ تحریک سے وابستہ سادات و غیر سادات کے لئے کئی متبادل امیدوار موجود ہیں۔ چنانچہ اس نظریئے کے لوگوں کا رجحان بھی مختلف امیدوارں کے مابین بٹا ہوا ہے۔
3۔ ارشاد حسین کی مقبولیت میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انکے بھائیوں نے 1996ء سے لیکر اب تک ہر مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لیا ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لوگ الیکشن کو اپنا حق سمجھ کر کسی اور کو موقع نہیں دے رہے۔
4۔ ان کے آبائی علاقے پیواڑ سے عنایت حسین طوری بھی امیدوار ہیں۔ جسے پیواڑ کے ایک طبقے کی حمایت حاصل ہے۔ چنانچہ پیواڑ میں اپنے خالص ووٹروں کی ایک حلقے کی حمایت سے محروم ہوچکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 738815
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش