2
2
Thursday 19 Jul 2018 19:04

مین سٹریمنگ کا بھیانک کھیل

مین سٹریمنگ کا بھیانک کھیل
تحریر: لیاقت تمنائی

اراکین سینیٹ نے کالعدم جماعتوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ آخر ریاست کس نہج پر جا رہی ہے، سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی آئی جے آئی اور ایم ایم اے بنائی گئی اور اس بار ایک نیا نام سامنے آیا ہے اور کالعدم تنظیموں کو مین سٹریم میں لایا جا رہا ہے، رضا ربانی کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ بتائیں کالعدم تنظیموں کو انتخاب لڑنے کی اجازت کیسے دی گئی، انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے 25 لوگ بھی اسمبلی آگئے تو اسمبلی کا کیا ماحول ہوگا؟ لیکن ریاست اسی طرز پر چل رہی ہے، ریاست جب تک اپنی سو چ میں بنیادی تبدیلی نہیں لاتی، اس وقت تک راہیں ایسی ہی رہیں گی، لیکن انجینئرڈ الیکشن وفاق کیلئے خطرے کی گھنٹی ہونگے۔

مسلم لیگ نون کے سینیٹر پرویز رشید نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فورتھ شیڈول میں شامل افراد کو انتخاب لڑنے کی اجازت دینے سے ملک میں پرامن مہم چلانے کی توقع نہ رکھی جائے بلکہ اس دن سے خوفزدہ ہوں، جس دن وہ لوگ اس ایوان میں موجود ہونگے۔ لیگی سینیٹر نے کہا کہ ہمارے دشمنوں کو خودکش جیکٹ پہنانے والا شخص کہاں سے میسر ہو رہا ہے، اس نظریئے کی پرورش کس نے کی ہے؟ ان لوگوں کو ایوان میں لانے کی پالیسی کیا نواز شریف یا بینظیر نے بنائی تھی۔؟ ایوان کو بتایا جائے پالیسی کس نے بنائی، بہت ہوگیا، بہت لہو بہہ گیا، خدا کیلئے اپنے انداز فکر بدلو، ریاست اپنی بنیادی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اسی طرح کی تشویش کا اظہار ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بھی کیا جا چکا ہے۔

کالعدم تکفیری جماعتوں کو کھلی چھوٹ ملنے کی وجہ سے اس وقت غیر یقینی کی سی کیفیت پائی جاتی ہے، آخر ریاست کی وہ کونسی مجبوری ہے کہ تکفیری ٹولوں کے ہاتھوں پہ لگا ہزاروں بیگناہ افراد کا خون معاف ہوگیا اور ان کیلئے پارلیمنٹ کے دروازے کھل گئے، مقتدر حلقوں کی یہ گیم انتہائی خطرناک ہے کیونکہ کل کو کوئی بھی مسلح تکفیری جتھہ اپنا خونی کھیل کھلنے کے بعد قومی دھارے کے نام پر نہ صرف آئینی و قانونی پناہ میں آئے گا بلکہ پارلیمنٹ میں بھی ان کو کھیل کھیلنے کا آزادانہ موقع ملے گا۔ افغان جہاد کے دوران ''اسٹریٹجک اثاثے'' والے تکفیری ٹولوں کو ابھی تک داخلی اور خارجی ضرورت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

قومی دھارے کا بیانیہ اگر زبردستی لاگو کرنا ہے تو یہ سزا و جزا اور انصاف کا نظام ختم کر دینا چاہیئے کیونکہ ریاست کی نئی پالیسی سے ظالم اور مظلوم میں کوئی فرق نہیں رہے گا، سوال یہ ہے کہ کیا تکفیری ٹولوں نے توبہ تائب ہوتے ہوئے ریاست کے سامنے رحم کی بھیک مانگی ہے؟ کیا تکفیری ٹولوں نے شیعہ کافر، سنی بریلوی مشرک، اقلیتیں واجب القتل کے فتوے اور نعرے نہ لگانے کی تحریری گارنٹی دی ہے۔؟ کیا کالعدم تکفیری جماعتوں نے خود ریاست سے پرامن ہوکر قومی دھارے میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے؟ اگر یہ نہیں ہے (حقیقت میں بھی ایسا کوئی نہیں) تو پھر پاکستان میں فرقہ وارانہ سیاست کو پارلیمنٹ تک توسیع دینے کی وجوہات آخر کیا ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ کالعدم جماعتوں اور مسلح جتھوں کی اہمیت ایک دم سے بڑھ گئی ہے۔

پھر نامعلوم خلائی مخلوق کے حکم پر کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ اور پاکستان میں فرقہ واریت کے سب سے بڑے کردار مولانا احمد لدھیانوی کا نام فورتھ شیڈول سے راتوں رات نکال دیا گیا اور پھر سول سوسائٹی کی جانب سے عدالت میں دائر کی جانے والی درخواست بھی رد ہوگئی اور فرقہ واریت کے سب سے بڑے کردار نے الیکشن کیلئے اہل ہو کر ببانگ دہل انتخابی مہم چلانا شروع کر دی اور انتخابی منشور میں شیعہ کافر کے نعرے اس وقت بھی سرفہرست ہیں، ان کے ہر جلسوں اور اجلاسوں میں کفر کے فتوے جاری ہوتے ہیں، دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ایک ہی روز میں ختم کرنے کی دھمکی بھی دی جاتی ہے۔ یہ عجوبہ ہے، سمبوسے کی دکان کو نقصان پہنچانے والا باباجی کا دس سالہ بچہ دس ماہ سے حوالات میں بند ہے جبکہ پوری نسل کو تباہ کرنیوالے سارے کرداروں کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف ہوگئے ہیں۔ ان کو کسی سزا و جزا اور انصاف کے پیمانے کے بغیر مین سٹریم میں لانا ضروری ہوگیا ہے، پارلیمنٹ کے دروازے کھل گئے ہیں۔

فکری تنزلی کی انتہا اس سے بڑھ کے اور کیا ہوسکتی ہے کہ مقتدر حلقے ابھی تک اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ کالعدم تکفیری جماعتوں کو اسمبلی میں بھیجنے سے ان کی فرقہ وارانہ سرگرمیاں رک جائیں گی۔ اسی خوش فہمی والی پالیسی نے پاکستان کی بنیادوں کو تباہ کرکے رکھ دیا، فوج کے جنرل سمیت سات ہزار جوان اور 35 ہزار عام شہری شہید ہوچکے۔ تکفیریوں کیخلاف قومی دھارے والی پالیسی کامیاب ہوتی تو پورے پاکستان میں آپریشن ردالفساد اور ضرب عضب کے نام پر اربوں روپے بہانے اور سینکڑوں جوانوں کی قربانی دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ایک ایسا شخص جو جلسوں میں سرعام مخالف مسلک کے لوگوں کو ایک ہی دن میں ختم کرنے کی دھمکی دیتا ہے، جو پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا سب سے بڑا کردار ہے، ایسے شخص کو راتوں رات شیڈول فورتھ سے نکال کر الیکشن کیلئے اہل قرار دیا گیا اور اس کیلئے پارلیمنٹ کے دروازے کھول دیئے گئے، گویا پاکستان میں شدت پسندی کو قانونی جواز مل گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 738923
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید محمد علی
United Kingdom
سلام
برادر محترم نے انتهائی احتیاط سے شیعہ مقدسات کو چهیڑے بغیر پاکستانی اسٹبلشمنٹ سے کچه سوال کیے هیں۔
جی هاں سوالات بہت ضروری هیں۔
مگر ان سے زیادہ ضروری سوالات اپنی شیعہ قیادتوں سے پوچهنے کی ضرورت هے. انہیں کس مجبوری نے سپاہ صحابہ کے ساته بیٹهنے پر مجبور کیا؟
انہیں کس ضرورت نے خاموش اور آواز نہ اٹهانے پر مجبور کیا؟
پہلے ان خاموش اور خائن قیادتوں سے سوال پوچهنا ضروری هے۔
شمیم
Pakistan
یہاں شیعہ قیادت صرف الیکشن کے دوران نمودار ہوتی ہے اور ملت کو تقسیم کرکے پانچ سال کیلئے غائب ہو جاتی ہے,
بس رہنے دو بھائی.. ملت میں انفرادی شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے, ورنہ تنقید اور سوالات سے فتوے لگیں گے۔
ہماری پیشکش