1
0
Saturday 21 Jul 2018 06:09

تعلیمات دین کی روشنی میں الیکشن 2018ء پاکستان

تعلیمات دین کی روشنی میں الیکشن 2018ء پاکستان
تحریر: سید حسین موسوی

الیکشن کا موسم ہے اور دینی رہنما بھی اس الیکشن میں موجود ہیں۔ اس وقت مکتب اہلبیت (ع) کے ماننے والوں کے درمیان ایک بحث جاری ہے کہ کیا الیکشن میں حصہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن و تعلیمات محمد و آل محمد علیہم السلام کی روشنی میں اس کائنات کا رب فقط اللہ تبارک و تعالٰی ہے۔ یعنی صرف اللہ تبارک و تعالٰی ہی قانون ساز اور حاکم ہے، جبکہ مغربی جمہوریت میں قانون ساز اسمبلی ہوتی ہے اور حاکم عوام کے نمائندے ہوتے ہیں۔ اس لئے مغربی جمہوریت سے اسلام کا تعلق نہیں ہے۔ مسلمانوں کے ابتدائی دور میں بادشاہتیں رہی ہیں، جن سے بھی دین اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے، اگر ملک پاکستان میں رائج نظام کو مغربی جمہوریت مانا جائے تو پھر سیرت محمد و آل محمد علیہم السلام کی روشنی میں ہماری ذمہ داری کیا ہوگی؟ اس کا واضح جواب یہ ہے کہ:

1۔ ہمیں دینی نظام کے قیام کے لئے کوشش کرنی ہوگی، ہماری زیادہ تر توجہ اسی پر رہنی چاہیئے اور غیر اسلامی نظام کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعاون نہیں کرنا چاہیئے۔ جیسے عباسی بادشاہتوں کے دوران آئمہ اہلبیت (ع) نے مسجد بنانے میں بھی عباسیوں سے تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے۔

2۔ لیکن جب تک اسلامی نظام کا قیام عمل میں آئے، مسلط نظام سے کسی طرح کا کوئی ریلیف لینے کے لئے نظام میں شامل ہوا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب بھی واضح ہے کہ جائز ہے۔ اسکی مشہور مثال ہارون عباسی کے دربار میں امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی طرف سے علی بن یقطین کو بھیجا جانا ہے۔ معلوم ہے کہ علی بن یقطین ہارون کا وزیر بنا، لیکن وہ ہارونی بادشاہت کو دین نہیں سمجھتا، نہ دلی طور پر اس نظام اور بادشاہ کو اپنا رہبر سمجھتا ہے، وہ امام حضرت موسٰی کاظم کو مانتا ہے اور نظام ولایت اہلبیت پر ایمان رکھتا ہے، لیکن ریلیف لینے کے لئے تقیہ میں بادشاہ کے ساتھ بیٹھا ہے، بلکہ امام نے خود بھیجا ہے۔ اس نے کئی دفعہ عرض بھی کیا تھا کہ مجھے اجازت دیں میں استعفٰی دے دوں، لیکن امام نے اجازت نہیں دی۔ یہ بھی واضح ہونا چاہیئے کہ ریلیف لینے کے لئے کوئی ایسا طریقہ انتخاب نہ کیا جائے جو دینی نظام کے قیام کی اصل جدوجہد پر برے اثرات مرتب کرے۔ اسی لئے اس دور میں علی بن یقطین اپنی شیعی شناخت کے ساتھ نہیں گیا بلکہ اپنا ایمان چھپا کر گیا تھا۔

اس وقت ایک طرف ہماری وہ دینی پارٹیاں ہیں، جو اپنی حقیقی جدوجہد پر سے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں اور صرف الیکشن کی سیاست کر رہی ہیں، دوسری طرف وہ تحریکیں ہیں جو پہلے نکتے پر ہی کام کر رہی ہیں اور دوسرے نکتے سے روک رہی ہیں بلکہ اسے ربوبیت خدا کے انکار سے تعبیر کر رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ربوبیت خدا کا انکار تب ہوگا جب کوئی دل سے مغربی جمہوریت کو اپنا نظام سمجھے اور اس پر ایمان رکھے۔ لیکن اگر دل سے نہیں مانتا بلکہ مجبوری کی حالت میں ریلیف لینے کے لئے نظام کا حصہ بنے تو حقیقت میں وہ نظام کا حصہ نہیں ہے، جیسے علی بن یقطین۔ اس طرف بھی توجہ ہونی چاہیئے کہ جب آئین پاکستان میں یہ اصول موجود ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں بن سکتا، کیا اب بھی اس آئین اور اسکے تحت چلنے والے نظام کو باطل نظام کہا جائیگا؟ اس کا جواب ہاں میں دینا اتنا آسان نہیں ہے بلکہ صاحب الجواہر کی زبان میں "دونه خرط القتاد" ہے۔
خبر کا کوڈ : 739120
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

غلام شبیر
Iran, Islamic Republic of
السلام علیکم
ماشاءاللہ اچھی تحریر ھے لیکن چند نکتے واضح نہیں ہیں:
1۔ ایک طرف راقم یہ تحریر کر رہے ہیں کہ آئمہ (ع) عباسیوں کے ساتھ حتی مسجد بنانے میں تعاون کرنے سے بھی منع کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف امام ہفتم (ع) کی طرف سے علی بن یقطین کو ہارون کے دربار میں بھیجا جا رہا ھے، آپ ان دونوں باتوں کو جمع کیسے کریں گے؟
2۔ آیا آج کے زمانہ کو امام موسی کاظم (ع) کے زمانہ اور آج کی شیعہ جمعیت کو اس زمانے میں شیعہ کی تعداد اور گھٹن والے ماحول سے مقایسہ کیا جا سکتا ھے؟
3۔ جب ہم عملی طور پر اور کھلم کھلا پورے ارادے و اختیار کے ساتھ انتخابات میں بھرپور طریقہ سے حصہ بھی لیں اور سرعام جمہوریت و جمہوری حقوق کا پرچار بھی کریں تو یہ اس پر ایمان رکھنا نہیں تو اور کیا ھے؟
4۔ قانون پاکستان میں بہت کچھ لکھا ھے لیکن آیا عملی طور پر بھی ویسے ہی ھے جیسے لکھا ھے۔۔۔ عملی طور پر کتنے قوانین قرآن و سنت سے متصادم ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ کسی بھی آئین میں اگر ایک آدھ نکتہ ایسا لکھا ھو جیسا کہ آپ نے فرمایا ھے کہ کوئی بھی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں ھوگا تو آیا اس سے وہ پورا نظام ٹھیک کہلائے گا؟
ہماری پیشکش